سکھر: لاک ڈاؤن میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری جرائم کی شرح میں اضافے کا سبب بن رہی ہے، دنیا بھر کے نظام کو تہس نہس کرنے والی عالمگیر وبا کرونا وائرس کے انتہائی مہلک اثرات امن و امان کی فضاء خراب ہونے کی صورت میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔
بڑے بڑے کارخانے، فیکٹریاں، ملز بند ہونے اور دکانوں میں وقت محدود ہونے سمیت کاروباری سرگرمیاں کم ہونے کا جواز بناکر فارغ کئے جانیوالے ہزاروں لوگ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے سے بھی محروم ہوگئے ہیں، ایسے میں کسی بھی معاشرے میں جرائم اور فحاشی کے ناسور پروان چڑھتے ہیں۔
ملک بھر کی طرح سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں بھی کرونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، جس کے منفی اثرات کاروباری سرگرمیوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں اور ضلع بھر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں، ایسے لوگ جو کہ کارخانوں، فیکٹریوں، ملز، نجی اداروں، دکانوں میں چوکیداری، نائب قاصد، آفس بوائے، خاکروب، کمپیوٹر آپریٹر، سیلز مین سمیت دیگر ذمہ داریاں انجام دیا کرتے تھے وہ لوگ اپنی ملازمت سے محروم ہوکر بیروزگاری کی دلدل میں دھنس گئے ہیں، جن میں سے بعض لوگوں نے جرائم کی راہ پر چلنا شروع کردیا ہے، جس کا واضح ثبوت ضلع سکھر میں چند ماہ کے دوران جرائم کی شرح میں 30 سے 40 فیصد اضافہ ہونا ہے۔
اس بات سے مفر ممکن نہیں دنیا کی تلخ ترین اور سفاک حقیقت بھوک ہے، کسی بھی نظریے، فرقے حتی کہ مذہب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا، ورنہ یہ بات باور نہ کرائی جاتی کہ بعید نہیں بھوک حد کفر کو چھولے، اینٹھی آنتوں میں جب بھوک کا الاؤ بھڑکتا ہے تو تہذیب و تمدن کی سبھی دلیلوں کو خاکستر کرکے رکھ دیتا ہے، فلسفہ خودی اور شرافت ڈھکوسلہ دکھائی دینے لگتی ہے، بھوک شدید ترین انسانی جذبوں میں سے ایک ہے جس کی تکمیل تہزیب یافتہ انداز میں ہونی چاہئے۔ جرائم کی راہ اپنانے والے بیروزگاروں نے خوشی سے اس راہ کا مسافر بننا قبول نہیں کیا بلکہ حالات کے جبر نے انہیں ان راہوں پر دھکیلا ہے۔
لاک ڈاؤن سے صنعتی و کاروباری سرگرمیوں پر منفی اثرات اور لوگوں کے بیروزگار ہونے کے بعد ضلع سکھر میں چوری، ڈکیتی، رہزنی، لوٹ مار، دکانوں کے تالے توڑنے، گھروں میں گھس کر ڈکیتی، پانی کی موٹروں کی چوری سمیت دیگر چھوٹے وموٹے جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے۔
پہلے پہل ضلع کے نواحی علاقوں علی واہن، ٹھیکراٹو، سنگرار، اچھی قبیوں، روہڑی، تماچانی، باگڑجی، آباد لاکھا، آرائیں، لال مشائخ، سائیٹ ایریا جیسے علاقوں میں جرائم کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور اب شہر کے علاقے بھی جرائم پیشہ عناصر کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔ تھانہ اے سیکشن، بی، سی، سائیٹ، آباد، ائیرپورٹ، روہڑی، پنوعاقل، تماچانی، نیوپنڈ سمیت ضلع بھر کے تمام تھانوں کی حدود میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب گھر میںچوری یا موٹر سائیکل چھیننے سمیت دیگر جرائم کی واردات رپورٹ نہ کراتا ہو، سب سے زیادہ پروان چڑھنے والے جرائم موٹر سائیکلوں کی چوری یا چھیننا ہے جبکہ اس مں لوگوں کے گھروں میں چوری اور تالے توڑ کر دکانوں کا صفایا بھی شامل ہے۔ بعض علاقوں میں تو چوروں کے گروہوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، گھروں کے باہر نصب پانی کی موٹریں چوری کرکے بلیک مارکیٹ میں فروخت کی جارہی ہے۔
گنجان آبادی والے علاقے نیوپنڈ میں چوروں کی جانب سے بڑھتی ہوئی وارداتوں سے پریشان ہوکر لوگوں نے چوکیداری سسٹم بھی شروع کررکھا ہے، رات کے وقت مختلف علاقوں میں لوگ چوکیداری کرتے ہیں اور اس حوالے سے علاقہ مکینوں نے شیڈول بنارکھا ہے جس کے تحت 4سے 5افراد یومیہ رات جاگ کر گزارتے ہیں تاکہ چوروں کو گھروں کے باہر نصب موٹریں چوری کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ ایسا نہیں ہے کہ پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے پولیس تو اپنے فرائض بہتر انداز سے انجام دے رہی ہے اور عادی مجرم جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جارہی ہیں۔
پولیس ترجمان کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر پریس بھی جاری کی جاتی ہے جس میں روپوش، اشتہاری ملزمان سمیت دیگر کی گرفتاری کی خبریں شامل ہوتی ہیں مگر بیروزگاری کی دلدل میں اترنے والا نوجوان طبقہ جو کہ جرائم کی تاریک راہوں میں دھنس رہا ہے اسے گرفتار کرنے یا اس کا ذہن بدلنے کے لئے کسی بھی قسم کے اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔ مخیر حضرات ضرورتمندوں و مستحقین کی مدد بھی کررہے ہیں مگر اس کے باوجود ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جو کہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے سے محروم ہیں، بچوں کو بھوک سے بلکتا اور تڑپتا دیکھ کر لوگ جرائم کی راہ نہیں اپنائیں گے تو پھر کیا کرینگے؟ یہ سوال شہری و عوامی حلقوں میں بھی سنائی دے رہا ہے مگر اسکے سدباب کے لئے نہ تو انتظامیہ کوئی خاطر خواہ اقدامات کرتی دکھائی دے رہی ہے نہ ہی تو سوسائٹی میں سے کوئی ایسی آواز بلند ہورہی ہے جس پر عمل کرکے ان نوجوانوں کا مستقبل تباہ و تاریک ہونے سے بچایا جاسکے۔
بعض پولیس افسران نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ جب لوگوں کو کھانے کو کچھ نہیں ملے گا تو پھر وہ جرم ہی کرینگے، پولیس فورس اپنے فرائض ذمہ داری سے ادا کررہی ہے مگر جو شخص اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانے سے جرم کی واردات کرتا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت جرم کرنے سے روک نہیں سکتا، وہ ہزار حربے استعمال کرکے بالآخر کامیاب ہو ہی جاتا ہے، اصل خطرہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں اگر عادی مجرم بن گئے اور اپنی ضروریات پوری ہونے کے بعد ان لوگوں نے جرائم کی راہ کو نہ چھوڑا تو پھر معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے باعث لوگ عدم تحفظ کا شکار بھی ہوگئے ہیں اور لوگوں میں اس بات کا بھی خوف بڑھ گیا ہے کہ رات کے وقت شہر سے باہر کے علاقوں میں جانے سے گریز کررہے ہیں۔
ایک جانب جرائم کی مختلف وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب جعل ساز گروہ بھی متحرک ہوگئے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کی مدد کے لئے 12ہزار روپے کے وظیفہ کے احساس کفالت پروگرام کی آڑ لیکر جعل ساز گروہ اپنی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔
ضلع سکھر کے مختلف علاقوں میں متعدد ایسے گروہ ہیں جوکہ لوگوں کے گھروں میں جاکر ان سے معلومات حاصل کرتے ہیں، وزیر اعظم پروگرام میں نام شامل کرانے کیلئے فارم بھر کر فیس کی مد میں 500 روپے وصول کرتے ہیں، ان لوگوں کا زیادہ تر نشانہ دیہی علاقوں کے سادہ لوح عوام ہوتے ہیں، اس قسم کے درجنوں واقعات سامنے آچکے ہیں اور پولیس نے متعدد گروہوں کے کارندوں کو گرفتار بھی کیا ہے مگر مکمل طور پر ان گروہوں کی سرکوبی نہیں ہوسکی ہے اور اب بھی مختلف مقامات پر جعل سازی کرنیوالے یہ گروہ تسلسل سے کام کررہے ہیں۔
شہری و عوامی حلقوں نے لاک ڈاؤن کے باعث بڑھتی بیروزگاری اور جرائم کی وارداتوں میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’ 5 ماہ سے کرونا وائرس کی وبا نے پورے ملک کے سسٹم کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، ایسے میں بیروزگار ہونیوالے افراد جن کے بیوی و بچے اور بوڑھے ماں باپ بھوک سے بے حال ہیں، وہ جرائم کی راہ اختیار کررہے ہیں۔
یہ بات پورے معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہے، کوئی بھی ایک شخص، ادارہ یا حکومت اس مسئلے کو اکیلے حل نہیں کرسکتی، اس کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر ایک موثر پالیسی یا حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی جس کے تحت بیروزگار ہونیوالے افراد اور ان کے اہل خانہ کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے، تب ہی ہم معاشرے میں پنپتے ہوئے جرائم کو روک سکتے ہیں ورنہ بھوک و افلاس کی کوکھ سے جنم لینے والے جرائم پیشہ عناصر اپنے دکھوں و محرومیوں کا مداوا کرنے کے لئے جرم پر جرم کرتے جائیں گے اور معاشرے کے تار و پود بکھرتے جائیں گے‘‘۔
The post احساس پروگرام کی آڑ میں جعل ساز گروہ سرگرم appeared first on ایکسپریس اردو.