تبت میں واقع کیلاش کی پہاڑی چوٹی چار بڑے دریاؤں کا منبع ہے۔ ان دریاؤں میں دریائے سندھ، برہم پترا، ستلج اور گھاگھرا ( کرنالی) شامل ہیں۔ اس چوٹی کے قریب سے سے نکلنے والے یہ دریا ہمالیہ کے آرپار مشرق و مغرب اور پھر اترائی میں سمندر تک یوں پھیلے ہوئے ہیں جیسے پانی کی کسی مقدس دیوی نے اپنے ہاتھ پھیلا رکھے ہوں۔ پاکستان، تبت، شمالی ہندوستان، نیپال اور بنگلادیش سے گزرنے والے یہ دریا ان ممالک میں بسنے والی اقوام اور تہذیب و تمدن کی بقا کے ضامن ہیں، تاہم خود ان دریاؤں کا وجود مون سون کی بارش اور گلیشیئروں سے پگھلتی برف کا رہین منت ہے۔ سیکڑوں، ہزاروں سال کے بعد اب حضرت انسان بھی ان دونوں مظاہر میں دخیل ہوچکا ہے۔
کوہ ہمالیہ کے شمالی جانب سے نکلنے والے دریا، مثلاً برہم پترا کو بیشتر پانی موسم گرما میں برسنے والی مون سون کی بارش مہیا کرتی ہے۔ اس کے برعکس کیلاش کی چوٹی سے مغرب میں بہنے والے دریائے سندھ کی روانی کوہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش میں پڑنے والی قدرتی برف اور گلیشیئروں کے پگھلنے سے برقرار رہتی ہے۔ گلیشیئروں کو ’ آبی مینار ‘ ( واٹر ٹاور) کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیوں کہ یہ قدرتی برف کو ذخیرہ کرلیتے ہیں اور پھر موسم بہار اور گرما میں یہ برف پگھل کر پانی کی صورت دریاؤں میں بہنے لگتی ہے۔ یوں گلیشیئر دریاؤں کو پانی مہیا کرکے انسانی آبادی اور ماحولیاتی نظام کی بقا اور نمو کے ضامن بنتے ہیں۔
پاکستان اور شمالی ہندوستان کے میدانی علاقوں میں نہری پانی سے کاشتکاری کا دنیا کا وسیع ترین نظام دریائے سندھ پر انحصار کرتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق پاک و ہند میں 27کروڑ نفوس کی بقا دریائے سندھ، بہ الفاظ دیگر اسے پانی مہیا کرنے والے گلیشیئروں سے منسلک ہے۔ ان میں سے بیشتر گلیشیئر اب سکڑ رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ابتدائی طور پر دریائے سندھ کے بہاؤ میں اضافہ ہوگا۔ اور اگر پیش گوئیوں کے مطابق عالمی درجۂ حرارت بڑھتا ہے اور گلیشیئر کے پگھلاؤ کا عمل جاری رہتا ہے تو پھر 2050ء میں دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ اپنے عروج پر پہنچ جائے گا۔ بعدازاں بہاؤ میں بتدریج کمی آتی چلی جائے گی۔
پاک و ہند میں دریائے سندھ کا 95 فیصد پانی کام میں لایا جاتا ہے۔ دوسری جانب سندھ طاس کے علاقوں میں آبادی کا گراف تیزی سے بلندی کی جانب گامزن ہے۔ اس لحاظ سے دریا کے پانی کا استعمال بھی بڑھتا چلا جائے گا۔ گذشتہ دنوں معروف سائنسی جریدے ’ نیچر‘ میں سائنس دانوں کے ایک عالمی گروپ نے دنیا بھر کے ان گلیشیئروں کا جائزہ لیا تھا جو دریاؤں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق دریائے سندھ سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔ سائنس دانوں نے لکھا کہ طاس کے علاقے میں پانی کی ہر لمحہ بڑھتی ضرورت کے پیش نظر اس بات کے امکانات محدود ہیں کہ دریا اس بڑھتے ہوئے دباؤ کو برداشت کرپائے۔ اس صورت میں پاکستان سب سے زیادہ متأثر ہوگا۔
پاکستان، ہندوستان اور چین تینوں کثیر آبادی کے حامل ممالک ہیں اور اپنے وسائل کے تحفظ کے لیے یقیناً ان کے پاس متعدد جواز ہوں گے۔ تینوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں۔ اس تناظر میں مستقبل میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث کوئی ایسا تنازع بھی جنم لے سکتا ہے جو راتوں رات دنیا کو بدل دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیلاش کی چوٹی کے شمال میں دریائے سندھ آبی بلبلوں کی صورت میں زمین سے برآمد ہوتا ہے، جیسے چار ہاتھ رکھنے والی پانی کی دیوی سانس لے رہی ہو۔ یہاں سے یہ دریا مغربی پہاڑیوں میں سے بھارت کے بالائی حصے کے ساتھ ساتھ متنازع سرحدی علاقہ عبور کرتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں سے کوہ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش سے بغل گیر ہوتا ہے۔ اس مقام سے یکدم یہ دریا بائیں جانب رخ بدلتا ہے اور جنوب میں پنجاب کی جانب گھوم جاتا ہے۔ اس موڑ سے 40 میل شمال کی جانب، دریائے سندھ کے معاون دریائے ہنزہ کی وادی میں گلکن نامی گلیشیئر ہے جس کے دونوں اطراف سرسبز باغات اور دیہات ہیں مگر ریت اور مٹی کے باعث خود یہ گلیشیئر سیاہ ہوچکا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سے یہ نظارہ مسحورکن دکھائی دیتا ہے۔ دریائے ہنزہ اس وادی کے وسط میں سے گزرتا ہے۔ وادی کے سرسبز باغات اور کھیت اسی دریا سے سیراب ہوتے ہیں۔
سندھ طاس کے بالائی علاقے میں ہوپر اور برپوگلیشیئر پگھل چکے ہیں۔ ان سے وابستہ بڑی محنت سے بنایا گیا نظام آب پاشی سوکھ چکا ہے اور اس پر انحصار کرتی آبادیاں ویران ہوچکی ہیں۔ ان آبادیوں میں مکانات ہنوز نظر آتے ہیں مگر ان میں کوئی ذی روح دکھائی نہیں دیتا۔ پگھلتے ہوئے گلیشیئر ایک فوری خطرے کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ بعض اوقات برف کی مضبوط چادر کے پیچھے پانی کے تالاب ہوتے ہیں۔ یہ پانی دھماکے سے پھٹ کر باہر آسکتا ہے جس سے سیلاب کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ 2018 میں وادی اشکومن میں اسی نوع کے سیلاب کی وجہ سے تباہی پھیل گئی تھی۔ بدسوات اور بلہانز کے دیہات تباہ ہوگئے تھے۔
موسمی تغیرات نے پاکستان کے شمالی علاقوں میں بسنے والے 70 لاکھ افراد کو ان سیلابوں کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ پاسونامی گاؤں کے رہائشی کہتے ہیں کہ گاؤں کے قریب واقع تین گلیشیئر درحقیقت تین ڈریگن ہیں جن کے دہانوں میں ہم جی رہے ہیں۔ 2008ء میں ایک ڈریگن نے سردیوں میں سیلاب ’اُگلا‘ تھا۔ اسی طرح پچھلے اگست میں ایسا ہی ایک سیلاب ایک ہوٹل، پاک آرمی کا دفتر اور باغات بہا لے گیا تھا۔
شمالی علاقوں میں بسنے والے دوسرے لوگوں کی طرح پاسو کے باسی بھی موسمی تبدیلیوں کو محسوس کررہے ہیں۔ پچھلی گرمیوں میں درجۂ حرارت اتنا بڑھ گیا کہ زندگی میں پہلی بار گاؤں کے لوگ برقی پنکھے منگوانے پر مجبور ہوگئے۔ سردیوں میں اب وہ شدت اور کاٹ نہیں رہی جو گاؤں کے باسیوں کے لیے قابل اطمینان بات ہے۔ دریائے ہنزہ میں سونے کے ذرات کی تلاش کے لیے ایک نمایاں تعداد وادی کا رخ کرتی ہے۔ یہ لوگ دریا کے کنارے کنارے خیمہ زن ہوجاتے ہیں اور دریائی ریت کو چھان کر اس میں طلائی ذرات تلاش کرتے ہیں۔ سیلاب جہاں مقامی آبادی کے لیے تباہی لاتے ہیں وہیں یہ لوگ سیلاب آنے پر اظہار مسرت کرتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں سیلانی پانی کے ساتھ چٹانوں میں سے دھاتیں باہر آجاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاک و ہند کی درمیانی سرحد کے دونوں جانب قلت آب بحرانی صورت حال کو پہنچ چکی ہے۔ بھارتی پنجاب میں ہر سال قرضوں تلے دبے ایک ہزار کسان خودکشی کرلیتے ہیں کیوں کہ زیرزمین پانی کا حصول مہنگا ہے۔ پانی کی سطح نیچے چلے جانے کی وجہ سے ہر سال انھیں گہرے کنویں کھودنے پڑتے ہیں۔ بعض مقامات پر ان کی گہرائی 400 فٹ تک ہوتی ہے۔ زیرزمین پانی کی سطح نیچے جانے کی وجہ چاول کی کاشت ہے جسے کاشت سے لے کر پکنے کے مرحلے تک پانی کی اضافی مقدار درکار ہوتی ہے۔
راجستھان کی سرحد کے پار صوبہ سندھ کا صحرائے تھر ہے۔ اس صحرا کے کچھ حصے میں نہری آبپاشی کا نظام بھی موجود ہے جہاں 200 میل دور دریائے سندھ پر بنے ہوئے سکھربیراج سے پانی لایا جاتا ہے۔ یہاں نہری نظام کے اختتام پر مرچ کی پیداوار کا علاقہ ہے۔ کنری میں پاکستان کی سب سے بڑی مرچ منڈی لگتی ہے۔ تاہم تاجروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال پیداوار دو تہائی کم رہی۔ اس کی وجہ انتہائی شدت کی گرمی تھی۔ سرخ مرچ کے کاشت کاروں کی تنظیم کے صدر میاں سلیم کے مطابق مئی 2019 میں درجۂ حرارت 117 ڈگری فارن ہائٹ تک پہنچ گیا تھا۔ بقول سلیم انھوں نے 40 سال میں کبھی اتنی زیادہ گرمی نہیں دیکھی۔ پھر انھوں نے زندگی میں پہلی بار اکتوبر کے مہینے میں بارش کا مشاہدہ کیا۔ غیرمتوقع بارش کے سبب مرچوں کی چنائی میں تاخیر ہوئی اور فصل کھیتوں ہی میں سڑگئی۔
تھر کے صحرائی علاقوں میں واقع دیہات میں سب سے بڑا مسئلہ قلت آب ہے۔ کاشت کاری کے لیے نہری پانی ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں ہوپاتا۔ مقامی لوگوں کے لیے مون سون کی غیرمتوقع بارش بھی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ پھر ایک اور سنگین مسئلہ زیرزمین پانی کا زہرآلود ہونا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق کھیتوں میں ڈالے جانے والے کیمیائی کھادوں کا اثر زیرزمین پانی تک پہنچ گیا ہے جس کے نتیجے میں کنووں کا پانی زہریلا ہوگیا ہے۔ اس آلودہ پانی کی وجہ سے علاقے میں گردوں کے امراض عام ہیں۔
پاکستان کے وسیع علاقے میں زہریلے مادوں سے آلودہ پانی پایا جاتا ہے۔ 2017ء میں سوئس فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ایکویٹک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی تحقیقی رپورٹ شایع ہوئی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ دریائے سندھ کے طاس میں 6 کروڑ افراد آرسینک سے آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ آرسینک قدرتی طور پر مٹی میں پایا جاتا ہے اور کھادوں سے بھی مٹی میں شامل ہوسکتا ہے۔ بہت زیادہ آبپاشی کے نتیجے میں یہ عنصر زیرزمین پانی کے سوتوں میں بھی شامل ہوجاتا ہے۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں بھی ہوتا ہے جہاں بچوں کی بڑی تعداد خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ پاکستان میں کم از کم بچوں کی ایک تہائی تعداد کو پیٹ بھر غذا میسر نہیں آتی۔ غذائی قلت کا شکار بچوں کی شرح ان زرعی علاقوں میں زیادہ ہے جہاں غذائی فصلوں پر برآمدی فصلوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مندرجہ بالا تمام مسائل سندھ طاس کے علاقوں میں پانی کے استعمال کے انداز سے جُڑے ہیں۔ ڈیم، بیراج اور نہروں کی وجہ سے پانی کی افراط اور ارزانی ہوئی اور دریا کی لائی ہوئی زرخیز مٹی آبی ذخائر میں جمع ہونے لگی۔ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں سبز انقلاب کے ہمراہ مزید ’ پیاسی‘ فصلیں ، کیمیاوی کھادیں اور حشرات کش زہر بھی آگئے۔ آبپاشی کے نہری نظام میں کیمیاوی کھادوں اور حشرات کش زہر ، دونوں ہی درکار ہوتے ہیں کیوں کہ کھیتوں میں کھڑے ہوئے پانی سے حشرات کی نمو کو فروغ ملتا ہے۔ علاوہ ازیں اس پانی میں ملے ہوئے کیمیاوی کھاد کے کیمیکل زیرزمین پانی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب دریا سے ضرورت سے 10 گنا زائد پانی لیا جارہا ہے۔ چنانچہ اب پانی کی قلت ہوگئی ہے اور یہ آلودہ اور زہریلا بھی ہوگیا ہے۔
ماہرین کی رائے میں نظام آب میں بڑے پیمانے پر تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں ممالک میں پانی سے مستفید ہونے کے قدیم روایتی طریقے موجود ہیں مگر انھیں انگریز دور ہی سے نظرانداز کردیا گیا۔ ان کے بجائے دونوں ممالک کی تو جہ بڑے بڑے انجنیئرنگ پروجیکٹس؛ ڈیموں اور نہروں کی تعمیر پر رہی ہے۔ اور اب بھی دونوں ممالک سندھ طاس کے علاقے میں نئے ڈیم بنانے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ موسمی تغیر اس لحاظ سے پاکستان کے لیے نعمت ثابت ہوسکتا ہے کہ اس کی بدولت پورے نظام آب پر نظرثانی اور غوروفکر کا موقع میسر آسکتا ہے اور ارباب اختیار کی توجہ مہنگے ہائیڈروالیکٹرک ڈیموں سے سستے سولر پاور منصوبوں کی جانب مبذول ہوسکتی ہے۔ اس کی بدولت نہری آبپاشی کے بجائے ڈرپ اریگیشن کو فروغ مل سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سندھ اور معاون دریاؤں کے کنارے کنارے جنگلات کی بحالی عمل میں آسکتی ہے۔ یہ جنگلات سیلابی پانی کو جذب کرکے سیلاب سے پھیلنے والی تباہی کا راستہ روکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ زیرزمین پانی کے سوتوں کو بھی زندہ رکھیں گے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ڈیم اور ذخائر آب قحط سالی کے دوران پاکستان کو صرف 30 دن تک پانی فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس سندھ طاس کے زیرزمین پانی کے سوتے یا ذخائر آب مسلسل تین سال تک پانی کی ضروریات کی تکمیل کرسکتے ہیں۔
(بہ شکریہ: نیشنل جیوگرافک میگزین)
The post گلیشیئر سُکڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.