(آخری قسط )
49۔ اسٹیٹ بینک میوزیم کراچی ؛
پاکستان کے واحد کرنسی میوزیم کا قیام پاکستانی کرنسی اور سکوں کو محفوظ رکھنے کے لیے 2004 میں اسٹیٹ بینک کی بلڈنگ میں عمل میں لایا گیا جو پہلے ”ایمپیریل بینک آف انڈیا” کی عمارت تھی۔ یونانی و رومن طرزِتعمیر کی حامل یہ عمارت 1920 میں برطانوی سامراج نے تعمیر کروائی تھی جسے اسٹیٹ بینک میوزیم کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ یہاں کی دو گیلریوں میں کرنسی نوٹوں اور سِکوں کی گیلری شامل ہے۔
کرنسی نوٹ گیلری؛ یہ گیلری کاغذی کرنسی کی ابتدا اور ارتقاء سے متعلق معلومات مر مشتمل ہے جس میں کاغذی کرنسی کا آغاز، پاکستانی کاغذی کرنسی اور دنیا کے بیشتر ممالک کی کرنسی شامل ہے۔ 1947 سے اب تک جاری ہونے والے تمام پاکستانی نوٹ یہاں محفوظ ہیں۔
سِکہ جات کی گیلری؛ یہ گیلری سکوں سے محبت رکھنے والوں کے لیے ہے جہاں سِکہ ڈھالنے کا عمل دکھانے سے لے کر پرانی مشینیں، اوزار اور سکوں کا میٹیریل شامل ہے۔ یہاں سکے بنانے کے پورے عمل کا احاطہ کرتی ڈاکیومینٹری بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں وادیٔ سندھ کے قدیم سکوں سے لے کر عرب، مغل، برٹش اور برصغیر کے ادوار کے سکے بھی نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ 1947 سے لی کر اب تک کے تمام پاکستانی سِکوں کی کلیکشن بھی موجود ہے۔
50۔ پنجاب یونیورسٹی میوزیم؛
یہ میوزیم لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں ایگریکلچرل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے سامنے واقع ہے جس کا افتتاح جنوری 2016 میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے کیا۔یہ میوزیم خاص طور پر علمِ حیوانات و حیاتیات کے طالب علموں کی تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ علمی و تحقیقی عجائب گھر بیشتر حیوانات بشمول آبی جانور، کیڑے و حشرات الارض، پرندوں اور رینگنے والے جانوروں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جانوروں سے محبت کرنے والوں اور ماہر حیاتیات کے لیے یہ دیکھنے لائق ہے۔
51۔ پاکستان میری ٹائم میوزیم؛
پاک بحریہ کے زیرانتظام یہ عجائب گھر و تفریح گاہ کراچی کی مشہور شاہراہ شاہراہ فیصل کے قریب واقع ہے۔ یہاں بحری امور سے وابستہ نادر اشیاء کا اہم ذخیرہ موجود ہے۔
یہ میوزیم چھے گیلریز اور ایک آڈیٹوریم پر مشتمل ہے۔ اس میوزیم میں جدید طریقوں سے پاک بحریہ کی تاریخ کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ بحریہ کا قدیم ورثہ اور میری ٹائم کے مختلف لوازمات، خوب صورت تصاویر جن میں محمد بن قاسمؒ کی دیبل پر حملے کی تصویر بھی شامل ہے، قدیم اسلامی جہازرانی کے اوزار، نقشے اور تھری-ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے دکھائے گئے ہیں۔
ان سب کے علاوہ پاک بحریہ کی آبدوز پی این ایس ہنگور اور مجاہد بھی یہاں رکھی گئی ہیں۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کی تاریخ کو تصویروں کے ذریعے دکھایا گیا ہے۔ پارک کے اندر منوڑا لائٹ ہاؤس جیسا ایک لائٹ ہاؤس بھی بنایا گیا ہے۔ دیکھنے والے اس لائٹ ہاؤس سے پورے میوزیم کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں۔یہاں کی میرین لائف گیلری میں سمندر کے اندر موجود بے شمار مخلوق اور کورل ریف کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ایک جگہ ایک عظیم الجثہ وھیل کا ڈھانچا چھت سے لٹکایا گیا ہے جو دیکھنے والے کو مبہوت کر دیتا ہے۔بحریہ سے محبت رکھنے والوں کو پاکستان میں بحری امور سے متعلق واحد میوزیم لازمی دیکھنا چاہیے۔
52۔ قومی عجائب گھر برائے سائنس و ٹیکنالوجی؛
آج کے دور میں سائنس و ٹیکناوجی کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ یہ وہ شعبہ ہے جس میں ہم بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ اسی تناظر میں جی ٹی روڈ پر لاہور کی انجنیئرنگ یونیورسٹی کے مقابل 1965 میں ایک میوزیم بنایا گیا جہاں سائنس سے متعلق بہت سا کام نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ اس میوزیم کا آئیڈیا 1965 میں محمد اکمل صاحب نامی ایک سابقہ مکینیکل انجینیئر نے پیش کیا تھا جنہوں نے سب سے پہلے اسے انجنیئرنگ یونیورسٹی کے طالب علموں کے لیے کھولنے کا خیال پیش کیا تھا۔ اس میوزیم کو 1976میں عوام کے لیے کھولا گیا۔ اپنی مقبولیت کی بدولت گذشتہ پگپن سالوں میں اس عجائب گھر کی کئی بار توسیع کی گئی اور اسے عالمی معیار کے مطابق بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اس عجائب گھر کی مختلف گیلریوں سے گزرتے ہوئے آپ نت نئی مشینیں، مقناطیس، ڈیزل جنریٹر، برقی آلات، راکٹ ٹیکنالوجی، پینڈولم اور دیگر اہم سائنسی سامان دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں دوسری منزل پر ایک لائبریری بھی بنائی گئی ہے جہاں طالب علم مختلف سائنسی جریدوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
پاکستان کا واحد سائنسی میوزیم ہونے کی بدولت یہاں عوام الناس کا رش دیکھنے کو ملتا ہے۔
53۔ لائل پور میوزیم؛
فیصل آباد کے پرانے نام کو ”لائل پور” میوزیم سے زندہ رکھا گیا ہے اور بلاشبہہ یہ ایک احسن اقدام ہے کہ پرانے نام بھی ہمارے کلچر کا ایک حصہ ہیں۔ یونیورسٹی روڈ پر واقع یہ میوزیم ساندل بار کی ثقافت کا مظہر ہے جہاں 10 گیلریوں میں قدیم و جدید تاریخ کو زندہ رکھا گیا ہے۔ اس میوزیم کو 2011 میں اس وقت کے وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے بنوایا تھا جو بورڈ آف گورنرز کے زیرنگرانی تھا۔ اب یہ میوزیم کمشنر فیصل آباد ڈویژن کے ماتحت ہے۔ اس کی وجہ شہرت پارچہ بافی اور ساندل بار گیلریاں ہیں۔ آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔سب سے پہلے گنگاپور کی گھوڑا گاڑی یا گھوڑا ٹرین کا ماڈل آپ دیکھ سکیں گے جو سر گنگا رام کی اہم خدمات میں سے ایک تھی۔
تعین سمت و سوچ گیلری؛میوزیم کے دروازے سے داخل ہوتے ہی یہ پہلی گیلری ہے جس میں پتھر کے دور سے شروع کر کے قیام پاکستان تک آتے آتے مختلف ادوار کو ایک دیوار پر دکھایا گیا ہے۔ اس کے بعد مختلف نقشہ جات آویزاں ہیں جن میں پاکستان ، پنجاب اور فیصل آباد ڈویژن کے ساتھ ضلع، شہر اور ٹاؤن لیول تک کے نقشے شامل ہیں۔ یہاں فیصل آباد کے فضائی منظر کا بھی ایک نقشہ دکھایا گیا ہے۔
ساندل بار گیلری؛دو دریاؤں کے درمیانی علاقے کو بار کہا جاتا ہے۔ ساندل بار پنجاب کا وہ علاقہ ہے جو راوی اور چناب کے بیچ واقع ہے اور لائل پور اس کا مرکزی شہر ہے۔اس جگہ ساندل بار کا ایک بڑا نقشہ، یہاں کی ثقافت، رسم و رواج، کھیل اور اس علاقے میں پیدا ہونے والی زرعی اجناس کے نمونے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ساندل بار کے علاقے میں پرندوں کی تین سو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں لیکن ان میں سے تیس کے قریب انواع کو اس گیلری میں دکھایا گیا ہے۔ ساندل بار کے علاقے میں پائے جانے درختوں اور پودوں کے حوالے سے بھی مواد موجود ہے۔ دوآبے اور بار اس گیلری کا اہم موضوع ہیں۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں بولی جانے والی زبانوں کے حوالے سے نقشہ جات بھی ہیں۔
گیلری کی اہم بات یہ کہ اس کے ایک جانب دریائے راوی اور دوسری طرف چناب کی منظرکشی کی گئی ہے جو اپنے عنوان ساندل بار سے بھرپور انصاف کرتے ہوئے اس کا تصوراتی منظر پیش کرتا ہے۔
مقامی قدیم ورثہ گیلری؛میوزیم کی تیسری گیلری میں آثار قدیمہ کی اہمیت کے پیشِ نظر ساندل بار کے مختلف اضلاع میں واقع قدیم ٹبوں اور عمارتوں کو ٹائلز کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ چنیوٹ کی پہاڑیوں کی سنگ تراشی کے نمونے، مٹی کے مجسمے، قیمتی موتی اور سکوں کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔اس گیلری میں شورکوٹ ، گندھارا اور انڈس ویلی جیسی قدیم ادوار کی کوزی گری بھی رکھی گئی ہے۔ سجاوٹی کام سے مزین لکڑی کا بنا کجاوہ، جو اونٹ پر رکھا جاتا ہے، بھی یہاں رکھا گیا ہے۔
مسلم تا انگریز ورثہ گیلری؛عجائب گھر کی چوتھی گیلری میں حضرت سلطان باہوؒ کے مقبرے کا دل کش ماڈل، اسلامی طرز کے خوب صورت ڈیزائن والے قدیم عمارتوں کے حصے، قرآن پاک کے نادر نسخے، ظروف سازی، دھاتی و روغنی کام اور سکھ و انگریز دور کے مختلف جنگی ہتھیار رکھے گئے ہیں۔
چناب کالونی گیلری؛اس میں برطانوی دور کے اندر بننے والی لوئر چناب کالونی، ریلوے اور نہری نظام کو ایک بڑے نقشے کی مدد سے دکھایا گیا ہے ساتھ ہی جھنگ اور چنیوٹ میں واقع پُل کو تصویری شکل میں دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ برطانوی، سکھ اور مغل ادوار میں استعمال ہونے والے اسلحے کے ساتھ ساتھ ملتانی ٹائل ورک اور کیلی گرافی کے نمونوں کے شوکیس بھی ہیں۔ لوئر چناب کالونی کا ایک خوب صورت ماڈل بھی اس کی زینت ہے۔
لائل پور گیلری؛اس گیلری میں برطانوی دور میں بننے والے لائل پور کے نقشہ جات اور اس دور میں کیے جانے والے مختلف معاہدوں کی قانونی دستاویزات موجود ہیں۔ برطانوی دور میں مختلف ذاتوں اور ان کے لباس کے حوالے سے تاریخی تصاویر کے ساتھ ساتھ برٹش دور سے لیکر اب تک فیصل آباد میں شہر سازی کس طرح بڑھی ہے، اس پر جی آئی ایس کی مدد سے تیار نقشے بھی رکھے گئے ہیں۔
سوچ و عمل گیلری؛ یہاں قیام پاکستان سے قبل انگریزوں کے دفاتر میں استعمال ہونے والی اشیاء سمیت مواصلات کے اوزار، قدیم ہتھیار، عدالتی سامان سمیت اس دور میں تعمیر ہونے والی اہم عمارتوں کی بہترین تصاویر لگائی گئی ہیں۔
ساندل بار سے تعلق رکھنی والی مختلف شخصیات کی تصاویر بھی اس گیلری کا حصہ ہیں جن میں دلا بھٹی، احمد خان کھرل شہید، بھگت سنگھ، سر گنگا رام، نصرت فتح علی خان، ارفع کریم، ڈاکٹر عبدالسلام، حضرت سلطان باہوؒ، بابا گرونانک اور صوفی برکت علی نمایاں ہیں۔
معاشرتی حسن گیلری؛یہ گیلری مختلف قدیم پیشوں کی تاریخ بیان کرتی ہے۔ چاندی کے زیورات بنانے کے مختلف اوزار، کمہار اور لوہار کے اوزار، پتلی تماشہ، قدیم لباس، کپڑوں پر ٹھپا سازی کی صنعت کے حوالے سے مختلف اشیاء کے شوکیس موجود ہیں۔ چنیوٹ کے لکڑی کے کام میں استعمال ہونے والے اوزار بھی رکھے گئے ہیں۔یہاں لائل پور کی اہم شخصیات کی تصاویر بھی آویزاں ہیں جن میں ضیاء محی الدین، ساحر لدھیانوی، ڈاکٹر طارق رحمان، امیتابھ بچن کی والدہ اور مالا بیگم کے علاوہ دیگر شامل ہیں۔ بھگت سنگھ کے گھر کی مختلف اشیا کا ایک کارنر الگ سے موجود ہے۔
پارچہ بافی گیلری؛چوںکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ذکر کے بغیر فیصل آباد کا تعارف ادھورا ہے اس لیے یہ یہاں کی اہم گیلری ہے۔ اس گیلری میں ہاتھ اور کھڈی سے بنے ہوئے کپڑوں کے مختلف نمونہ جات، ہاتھ سے کام کرنے والے اوزار چرخہ، روئی دھننے والا آلہ، بیلنا اور کھڈی وغیرہ رکھے گئے ہیں۔
تحریک پاکستان گیلری؛
اس گیلری میں تحریک پاکستان کے حوالے سے قائداعظم کی مختلف تصاویر کے علاوہ ارفع کریم کو ملنے والے تمغوں اور اس کے زیراستعمال اشیا رکھی گئی ہیں۔حضرت سلطان باہوؒ کے مقبرے کا ماڈل اور جھنگ سے نکلنے والے نوادرات بھی عجائب گھر کا حصہ ہیں۔
54۔ لاہور ہیریٹیج کلب میوزیم؛
طاہر یزدانی ملک صاحب (مرحوم) لاہور کی ایک جانی مانی ہستی تھے۔ وہ ایک سیاح اور تاریخ و ثقافت سے انتہائی محبت کرنے والے شخص تھے جنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اپنی اسی محبت بلکہ جنون سے مجبور ہو کر انہوں نے اپنے گھر کے ایک مخصوص حصے میں لاہور ہیریٹیج کلب اور میوزیم کی بنیاد رکھی۔ افسوس کہ میں ان کی زندگی میں ان سے ملاقات نہ کر سکا۔ ان کی یہ تنظیم خالصتاً غیرسرکاری اور غیرمنافع بخش ہے۔
کہتے ہیں کہ ان کے پاس زبردست معلومات تھیں اور جب ایک بار وہ کسی موضوع پر بولنا شروع ہوتے تھے تو سننے والا گنگ رہ جاتا تھا۔
ان کے اس میوزیم میں آپ ہزارہ اور وادیٔ کالاش کے خوب صورت اور نفیس ملبوسات کے علاوہ خوب صورت گھڑٰیال، شمع دان، چھوٹا دھاتی سامان، ڈھیر ساری پرانی استریاں، عطر کی شیشیاں، روایتی ملبوسات، پُرانے ریڈیو، بُدھا کے مجسمے، خوب صورت پیانو، جنگِ عظیم کی بندوقیں، ہزارہ ثقافت کی خوب صورت جائے نماز اور پرانی پاکستانی و ہندوستانی فلموں کی تصاویر بھی دیکھ سکتے ہیں۔تاریخ کے متوالوں کے لیے یہ میوزیم کسی خزانے سے کم نہیں۔یہ میوزیم گلبرگ بلاک ای میں واقع ہے جسے آج کل طاہر یزدانی مرحوم کے بیٹے علی شیر طاہر دیکھ رہے ہیں۔
55۔ کومو میوزیم آف آرٹ؛
(COMO (contemporary/modern) Museum of Art )
لاہور کے علاقے گلبرگ کے قلب میں واقع کومو میوزیم، پاکستان کا پہلا میوزیم ہے جو خصوصی طور پر صرف جدید و ہم عصر آرٹ کی ترقی و ترویج کے لیے بنایا گیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کے مقاصد میں لاہور میں ادب، ثقافت اور آرٹ کو پروان چڑھانا بھی شامل ہے جس کے لیے یہاں ہر قسم کی نمائشیں اور بیٹھکیں منعقد کی جاتی ہیں۔
یہ میوزیم سال 2019 کے اوائل میں آرٹسٹ و ڈیزائنر سحر ترین نے بنایا ہے۔ یہاں کا خوب صورت اسٹوڈیو تمام آرٹسٹس کے کام کو سراہنے کا کام بخوبی انجام دے رہا ہے۔ یہ میوزیم 2019 کے لاہور لٹریری فیسٹیول اور لاہور بینالے جیسے ایونٹس کی میزبانی بھی کر چکا ہے۔ہر سال مئی کی 18 تاریخ کو دنیا بھر میں عجائب گھروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی سیاح کا تعلق اس کی زمین، اسکی ثقافت سے تب تک نہیں جڑ سکتا جب تک وہ ان عجائب گھروں میں محفوظ اپنی تاریخ میں دل چسپی نہیں لیتا۔سیاحت کا، تاریخ کا، رسم و رواج کا، ثقافت کا اور ان عجائب گھروں کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور انہی کے حسین امتزاج کو ہم ورثہ کہتے ہیں۔
عالمی یوم عجائب گھر، ہر سال دنیا بھر میں ”بین الاقوامی کونسل برائے عجائب گھر ”کے تعاون سے 18 مئی کو منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر عجائب گھروں کی اہمیت اور اس کے معاشرے اور ثقافت پر اثرات کا شعور اجاگر کرنا ہے۔ اس دن کو منانے کی ابتدا 1977ء میں ہوئی۔ عالمی یوم عجائب گھر کی شراکت میں عالمی سطح پر ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ 2016ء میں 145 ممالک کے 35,000 عجائب گھروں نے اس عالمی یوم میں شرکت کی۔
پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو جتنا یہ تاریخ و ثقافت کے حوالے سے امیر ملک ہے، اتنے ہی کم ہمارے پاس عجائب گھر ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق حکومتی سرپرستی میں ہمارے پاس تقریباً 56 چھوٹے بڑے میوزیم اور 12 آرٹ گیلریز موجود ہیں، جب کہ دو درجن کے قریب نجی عجائب گھر بھی مقامی ثقافت کو سنبھالنے میں اپنا بھرپور حصہ ڈال رہے ہیں۔ یہ عجائب گھر ہمارا وہ قیمتی سرمایہ ہیں جن کے بغیر ہماری تاریخ نا مکمل ہے۔ ان کی تعداد میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ملتان اور ڈیرہ غازی خان جیسے بڑے اور تاریخی شہروں میں میوزیم کا نہ ہونا بھی سراسر زیادتی ہے۔ ذرا سوچیں تو، وہ شہر کہ جس کی بنیادوں میں عجائبات بھرے پڑے ہیں ایک عجائب گھر سے محروم ہے۔ ملتان سمیت جنوبی پنجاب کی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے یہاں ایک عجائب گھر کا قیام ناگزیر ہے۔ حکومت وقت کو اس پر سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے تاکہ اس خطے کے تاریخی و ثقافتی خزانوں کو یہیں نمائش کے لیے رکھا جا سکے۔
The post عجائب خانوں کی عجیب دنیا appeared first on ایکسپریس اردو.