Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

سارے رنگ

$
0
0

ہم ’فیل‘ ہونے والوں سے کوئی پوچھے
 یہ بِنا امتحان کے ’پاس‘ ہونا۔۔۔!

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

’کورونا‘ کے سبب فروری 2020ء سے اسکولوں اور کالجوں سمیت تمام تعلیمی ادارے بند ہیں ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں سندھ کے وزیرتعلیم سعید غنی نے بنا امتحان کے تمام طالب علموں کو پاس کرنے کا اعلان کر دیا۔۔۔! جس نے ہمارے پرائمری اسکول سے شروع ہونے والے ’فیل‘ کے ایک پورے ’سلسلے‘ کی یاد دلا دی۔۔۔ یہاں تو اردو کا بھی ’پاس‘ ہونا بعض اوقات بہت سے امتحانات کا نتیجہ ہوتا ہے یا پھر بڑے بڑے امتحان لا کھڑے کرتا ہے۔۔۔ بہرحال ہم یہاں انگریزی کے ’پاس‘ ہونے کا ہی پاس رکھیں گے۔۔۔

ہمارے تعلیمی مراحل میں کیسے کیسے مضامین آئے اور کس کس طرح ہم نے اپنی جان جوکھم میں ڈالی۔۔۔ بالخصوص روز اول سے ریاضی یا ’میتھ‘ کا امتحان ہمارے لیے کسی عذاب سے کم نہیں رہا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ’میتھ‘ سے موت آتی تھی، اس کلاس میں ہماری حالت یہ ہوتی تھی کہ جوں جوں جمع تفریق کی آسان مشقوں کے بعد ذرا ضرب اور تقسیم کے ’ٹیڑھے‘ سوالات شروع ہوتے، ہمارے ذہن پر بوجھ بننے لگتا۔۔۔ ہم میتھ کی کتاب میں یہ دیکھتے رہتے کہ اب ’آسان مشقوں‘ کا کتنا کام رہ گیا ہے، گویا جیسے کوئی قریب آتے ہوئے ’خطرے‘ کے نشان کو دیکھ کے ڈرتا رہتا ہے کہ اب بس اتنا دور ہے۔۔۔!

ہم باوجود کوشش کے ’ریاضی‘ کے سوالات کبھی نہیں سمجھ پائے۔۔۔ ہندسوں اور کلیوں کے گورکھ دھندے کے پیچیدہ مراحل ہمیں کبھی ازبر نہیں ہو سکے، آخر کو پھر ہم ریاضی کے سارے ’حساب کتاب‘ بلیک بورڈ سے دیکھ کر ’چھاپ‘ لیتے، کبھی خدانخواستہ کوئی ٹیچر کچھ سوال سمجھا کر باقی ماندہ سوال خود کرنے کے لیے کہتا، تو ہم اپنے ڈیسک پر ساتھ بیٹھے دیرینہ ہم جماعت عاطف الرحمن کی نقل کرتے یا بعد میں اس کی کاپی سے مِن وعَن اتا رلیتے۔۔۔ یوں سال تو کسی نہ کسی طرح گزر ہی جاتا، لیکن امتحانات کے زمانے میں شاید پورے امتحانات ایک طرف اور صرف ’ریاضی‘ کا پرچا ایک طرف۔۔۔ اس لیے جیسے تیسے کر کے ریاضی کے امتحان کے ’گیپ‘ والے دن اپنی چھوٹی بہن سے کچھ آسان سوالات حل کرنے کے طریقے بہ مشکل سمجھتے، کچھ رَٹ لیتے اور جیسے تیسے جا کر امتحان میں لکھ آتے۔۔۔ کبھی کوئی اہم مشق بہت جاں گسل ہوتی، تو اکا دکا چیزیں نقل کرنے کو ’ایگزام بورڈ‘ یا ہتھیلی پر ضرور لکھ کے لے گئے۔

باقی کوئی نقل وغیرہ نہیں کی، یوں سمجھیے جب کام یابی سے یہ ’میتھ‘ کا پیپر دے کر لوٹتے، تو بھلے اس کے بعد کئی پرچے باقی ہوں، لیکن ذہن پر سے ایک بہت بڑا بوجھ ہٹ جاتا۔۔۔ اس کے باوجود بھی، جب ہم اپنے ’فیل‘ ہونے کی ’تاریخ‘ پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ انتہائی غیرمتوقع طور پر پانچویں کلاس میں ’سوشل اسٹدیز‘ سے شروع ہوتی ہے۔۔۔ ہم پر ’ہاف ائیرلی‘ کی ’رپورٹ کارڈ‘ سے یہ خبر بجلی بن کر گری کہ ہم فیل ہوگئے ہیں۔۔۔! تو ہم ’رپورٹ‘ ہاتھ میں لیے اپنی ڈیسک پر نہ جانے کتنی دیر تک ’ہیڈ ڈاؤن‘ کیے زارو قطار روتے رہے تھے۔۔۔ ہمیں یاد ہے کہ مس شائستہ کے اُس سوشل اسٹڈیز کے پیپر میں صرف ’سوال وجواب‘ اور ’چوس دی کریکٹ آنسرز‘ تھے۔ ہم مطمئن تھے، پیپر یقیناً اچھا نہیں ہوا تھا، لیکن ہمیں کسی طور یہ ڈر نہیں تھا کہ فیل بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔

زندگی میں پہلی بار فیل ہونے کے موقع پر گھر میں پوزیشن ہولڈر چھوٹی بہن کے سامنے ذلت کا احساس ہمیں اور مار رہا تھا۔۔۔ خیر دوسری بار ’فیل‘ ہونے کا سہرا ضرور ’میتھمٹیکس‘ کے سر بندھا۔۔۔ اور تب ہم ساتویں جماعت میں تھے، تو یہ بھی ’ہاف ایئر لی‘ امتحانات۔۔۔ لیکن دل چسپ امر یہ تھا کہ ہمیں ’میتھ‘ پڑھانے والے کلاس ٹیچر سر منظور تھے، انہوں نے ہمیں کم ازکم پاس ہونے کے لیے درکار 33 میں کم پڑنے والے چند نمبر دے کر ’پاس‘ کیا، کیوں کہ ہم ’میتھ‘ میں فیل ہونے کے باوجود کلاس میں تھرڈ تھے۔۔۔ سر منظور نے بتایا تھا کہ پلس کیے گئے یہ نمبر ٹوٹل میں شمار نہیں ہوں گے، بس یہ آپ کو تھرڈ ہونے کی وجہ سے ’رعایت‘ دی گئی ہے۔

شاید اب مجھ جیسے اوسط درجے کے طالب علم کے لیے کٹھن تعلیمی مراحل شروع ہو چکے تھے۔۔۔ آٹھویں میں سائنس کے سخت ٹیچر سر عرفان کے پیپر کی سختی سے ہم نہ لڑ سکے۔۔۔ اس کی بُہتیری تیاری کی، لیکن ہمیں ’انجام‘ صاف دکھائی دیتا تھا۔۔۔ اس لیے ہم نے غیرحاضر ہونے میں پناہ ڈھونڈی۔۔۔ شاید طبیعت خرابی کا کچھ بہانہ کیا تھا، یا پھر یہی کہہ دیا تھا کہ گھر میں مہمان آنے کی وجہ سے ہماری تیاری نہیں ہو سکی۔۔۔ بہرحال ہمارا ایسا کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔۔۔ ہر دم اور ہر طرح زیادہ سے زیادہ پڑھانے کے خواہاں ابو اس بات پر کافی پریشان ہوئے تھے۔۔۔ اور پھر انہوں نے بہت چاہا کہ کسی طرح ٹیوشن وغیرہ کا کوئی سلسلہ ہو اور ہماری یہ کسر پوری ہو جائے۔۔۔ لیکن جناب یہ کسر کیا تھی، بس رَٹا مارنے کا معاملہ تھا۔۔۔ اتنا سارا ہم رٹ نہیں پا رہے تھے، اور یوں بس ’غیر حاضر‘ ہو کر براہ راست ’فیل‘ ہونے کی ہزیمت سے بچے۔۔۔ لیکن رپورٹ میں تو بہرحال ’فیل‘ ہی لکھ دیا گیا۔۔۔ جس پر کلاس کے بھلے بچے رشک کرتے تھے کہ تم اچھا خاصا ’پاس‘ ہو جاتے، اگر سائنس کے پیپر میں آجاتے۔۔۔ اب اپنی اصل حالت تو ہم ہی جانتے تھے، اس لیے چُپکے ہو رہے۔ شکر ہے یہ بھی ’ہاف ائیر لی‘ امتحان ہی تھے۔

یوں ہم تین بار الگ الگ مضامین میں ناکامی کی ہزیمت اٹھا چکے تھے۔ ’جنرل گروپ‘ کے نویں کے امتحانات میں یہ سوچ کر دل مسرت سے بھرا جاتا تھا کہ اس کے بعد اب زندگی میں دوبارہ کبھی ’میتھ‘ سے سامنا نہیں ہوگا۔۔۔ لیکن جناب ایسے کیسے۔۔۔؟ ’ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے!‘‘ یہ میٹرک کلاس کی ریاضی تھی، اپنی سی ’ریاضت‘ اور تیاری کے بعد جب پیپر دے کے گھر آکر تخمینہ لگایا تو ’انّا للہ‘ تو اسی وقت پڑھ لی تھی کہ کام خراب ہوگیا ہے۔۔۔! بہرحال یوں کہہ لیں کہ عزت بچ گئی کہ پھر کچھ چیزیں رَٹ کے اگلے سال میٹرک کے امتحانات کے ساتھ ریاضی سے بھی ’جان چھڑوانے‘ میں کام یاب ہوگئے۔۔۔ مگر مجموعی طور پر گریڈ ’سی‘ بنا۔۔۔ جو یقیناً کوئی قابل فخر نہیں۔۔۔

اب ہم کالج میں آچکے تھے، جہاں فرسٹ ایئر کے تو پیپر نکال ہی لیے، لیکن انٹر میں پہلی مرتبہ ’انگریزی‘ ہمارے پیروں کی زنجیر بن گئی۔۔۔ ہمارے اسلامیہ کالج میں ’انگریزی‘ کے اساتذہ ہی ’غائب‘ رہتے تھے، کچھ ہی کلاسیں لی ہوں گی، اس لیے اب ہم اپنے دَم پر کیسے پاس ہوتے۔۔۔! پھر بدقسمتی یہ بھی تھی کہ ’انٹر‘ میں انگریزی کے دونوں پیپر کے نمبر ملا کر بھی اگر ’پاسنگ‘ ہو جائے، تو بات بن جاتی، لیکن ہمارے تو پچھلے نمبر بھی واجبی نکلے۔۔۔ اس لیے ہم بری طرح مار کھا گئے۔۔۔ یہ ہماری تعلیمی زندگی کا ایک شدید ترین صدمہ تھا۔

شاید یہ رزلٹ رمضان میں آیا تھا اور ہم رزلٹ کے اخبار میں اپنا ’انجام‘ دیکھ کر کمرے میں جا کر بہت دیر تک کونے میں پڑے رہے تھے۔۔۔ کیوں کہ ہم تو پوری تندہی سے ’جامعہ کراچی‘ میں ’آنرز‘ کے خواب دیکھ رہے تھے اور اب ہر چند کہ سال تو ضایع نہیں ہوا، پہلے تو سال ضایع ہونے کا خوف بھی لاحق ہوا تھا، لیکن پھر پتا چلا کہ کالج میں بی اے میں داخلہ لیا جا سکتا ہے، تو کچھ جان میں جان آئی اور پھر سَپلی یا ’ضمنی امتحان‘ میں سرخرو ہوگئے۔

یوں ہمارا سال تو بچ گیا، لیکن ’بی اے آنرز‘ سے محرومی کوئی کم دھچکا نہ تھا۔۔۔ اس دوران ’جامعہ اردو‘ سے ’جامعہ کراچی‘ تک کتنے پھیرے لگائے تھے کہ کوئی درخواست وغیرہ دے کر داخلے میں رعایت مل جائے۔۔۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔۔۔ لیکن جب ’سَپلی‘ دی اور اس کا رزلٹ آیا تو ’بی‘ گریڈ میں لکھے گئے دو رول نمبروں میں سے ایک ہمارا تھا، خدا جانے دوسرے طالب علم پر کیا گزری ہوگی، جو ’بی‘ گریڈ لانے کے باوجود ہماری طرح ’سَپلی‘ کا داغ لگا بیٹھا تھا۔۔۔ تو یہ ہے ہمارے پانچ بار فیل ہونے کا ’کچا چٹھا‘ جسے سپردِ قلم کرنے کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ ہم جیسے طالب علموں نے ’پاس‘ ہونے کے لیے کتنے پاپڑ بیلے۔۔۔ اور آج ’کورونا‘ کی دور دور رہنے کی اس وبا میں کتنے آرام سے بیٹھے بٹھائے ’پاس‘ ہونے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔۔۔ ذرا کوئی ہم سے پوچھے کہ ایسے مشکل امتحانات کے ایک ایک پَل کیسے پہاڑ جیسے ہوتے تھے۔۔۔ اور ان امتحانات سے گزرنا کسی طرح ’پل صراط‘ سے گزرنے جیسا ہوتا تھا۔

۔۔۔

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
حمزہ فضل اصلاحی

دنیا بھر میں کئی مشہور دیواریں ہیں، جیسے ’دیوار چین‘ اور دیوار برلن، ان کی اپنی اپنی تاریخ ہے، داستانیں ہیں، دیومالائی قصے اور کہانیاں بھی۔ یہ ان کی تفصیل کا موقع نہیں ہے۔ دیواروں کے محاورے اور کہاوتیں بھی ہیں۔ کوئی کسی خطرے سے کسی کی حفاظت کرتا ہے یا اپنے عزم اور حوصلے سے خطرے کو ٹال دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گیا۔ اسی طرح کسی کو دیوار سے لگایا بھی جاتا ہے۔ سنا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں دیواروں میں چنوایا بھی جاتا تھا۔

اور اور تو دیواریں سنتی بھی ہیں۔ ان کے کان بھی ہوتے ہیں۔ اب بولنے بھی لگی ہیں، کاتب یا فن کار انہیں زبان دیتے ہیں، ان پر آڑی ترچھی لکیریں بناتے ہیں، انہیں لفظوں اور جملوں سے سجاتے ہیں۔ ان کے ذریعے لکیر کے فقیر سماج کو سبز باغ دکھاتے ہیں، چلتے چلتے انگریزی کا ماہر بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں، بیٹھے بیٹھے مضر اور مہلک بیماریوں سے نجات دلانے کا راستہ بتاتے ہیں، پلک جھپکتے ہی دولت کا انبار لگانے کا جادوئی نسخہ بھی سجھاتے ہیں۔ اس طرح کسی کو چونا لگانے کے لیے رنگ و روغن کی ہوئی دیواریں ضروری نہیں ہیں، بلکہ یہ سب کسی بھی اور کسی کی بھی دیوار پر کیا جا سکتا ہے۔ کسی کی پرانی دیوار پر فن کا مظاہرہ کرنے کے زیادہ مواقع ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی ہنسی خوشی ٹاٹ میں مخمل کا پیوند لگانے کی اجازت دے ہی دے گا۔ یہ دیواریں رشتوں میں بھی حائل ہوجاتی ہیں، خون کے رشتوں کو بھی نہیں چھوڑتیں۔ سنیے عباس تابش کیا کہہ رہے ہیں: ’’بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ = ہو گیا دیوار دیواروں کے بیچ‘‘

تازہ دیوار (وال) کو ’سوشل میڈیائی‘ مجاہدوں نے ’دیوار قہقہہ‘ بنا دیا ہے۔ اس کے نیچے یا اس کی تصویروں کے نیچے بیٹھ کرخوب ہنس رہے ہیں اور ہنسا رہے ہیں، دراصل یہ دیوار ماتم (دیوار گریہ نہیں) ہے۔ اس کی جڑوں میں رہنے والے خود کو کیا سمجھتے ہوں گے۔ وہ پوچھتے ہوں گے کہ آپ اپنے جیسے انسانوں کو اتنا گیا گزرا سمجھتے ہیں؟ کیا وہ روتے نہیں ہوں گے؟ چلیے اچھا ہے، جو کبھی پکی دیوار بنانے کا خواب بھی نہیں دیکھے ہوں گے، اب وہ قیصر الجعفری کے الفاظ میں ان دیواروں سے مل کر رو لیں گے، جی بھر کے رو لیں گے۔

ویسے بھی کچی دیواروں سے مل کر رونا اچھا نہیں ہے، کیوں کہ کچی دیواریں آنسو جذب کرنے سے کمزور ہو جاتی ہیں۔ اس دیوار کو بچانے کے لیے لوگ آنسو پی جاتے ہیں۔ آنسو کے سامنے دیوار کھڑی کرتے ہیں۔ ان کے بچے بھی ان دیواروں کو چھو لیں گے، اگر ان پر کانٹے نہیں لگائے ہوں گے تو گھڑی دو گھڑی کے لیے ان پر بیٹھ کر دم لے لیں گے۔

۔۔۔

 

کام یاب ہو تو سیاست داں اورناکام رہے تو مہاتما۔۔۔!
مولوی محمد سعید

30 جنوری 1948ء کی شام تھی۔ میں ہمشیرہ کے گاؤں گیا ہوا تھا کہ میرا منجھلا بھانجا بھاگا بھاگا آیا اور کہنے لگا ’’مہاتما گاندھی کو گولی لگ گئی ہے۔ لوگوں نے ریڈیو پر سنا ہے۔‘‘ یہ سن کر بڑا قلق ہوا۔ ذہن میں بے شمار خدشات ابھرنے لگے کہ اگر کسی مسلمان نے انھیں قتل کیا ہے، تو اسی آڑ میں اب تک بیسیوں مسلمان بستیاں تہ تیغ ہوچکی ہوں گی، لیکن جب تفصیلات آنا شروع ہوئیں اور خود پٹیل کی زبانی سنا کہ قاتل ایک ہندو نتھورام گوڈسے ہے تو کم ازکم یہ خدشہ رفع ہوگیا۔

دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات نئی دہلی پہنچنا شروع ہوگئے۔ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہوگا، جہاں ان کی موت نے انسانوں کو مغموم نہ کیا ہو۔ پاکستان میں بازار اور سنیما فوراً بند ہوگئے۔ ریڈیو پر سے گاندھی جی کے بارے میں اتنا جامع پروگرام پیش کیا گیا کہ خود ہندوستانیوں نے اپنے ریڈیو کی کم مائیگی پر شکوہ اخباروں میں کیا۔ ’پاکستان ٹائمز‘ میں فیض صاحب نے بڑا پرسوز مقالہ لکھا جس میں عقیدت کے ساتھ ساتھ فیض کی شاعرانہ افتاد طبع بھی بڑی آب و تاب سے جھلک رہی تھی۔

قائد اعظم کا پیغام حسب معمول ہر شاعری سے مبرا تھا۔ انھوں نے گاندھی جی کو اس پس منظر سے جدا نہ کیا، جس میں ربع صدی سے دونوں ایک دوسرے کے رفیق و حریف رہ چکے تھے۔ انھوں نے کہا کہ گاندھی جی عظیم ہندو راہ نما تھے۔ عام لوگ اس ماحول میں اس پیغام سے قدرے مایوس ہوئے لیکن قائد نے ہنگامی طور پر بھی اپنے طویل سیاسی تجربے سے اپنے آپ کو الگ نہیں کیا۔ وہ شخصیات کو ان کے کردار اور ماحول سے جدا کرنے کے قائل نہیں تھے۔ ان کے نزدیک ہر فعال شخصیت کی طرح گاندھی جی کسی لمحے بھی تنقید سے بالا نہیں تھے۔

گاندھی جی نے ہر بڑے آدمی کی طرح اپنے مداح بھی چھوڑے اور ناقد بھی۔ خود انگریزوں کے اندر بعض اہل قلم ان کی مہاتمیت سے مرعوب تھے اور بعض انتہائی نکتہ چیں، چناں چہ لارڈ ویول نے ان کی شخصیت کا جو تجزیہ کیا ہے ان کے تلخ تجربے کا غماز ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ گاندھی جی 70 فی صد نہایت زیرک سیاست داں تھے، 15 فی صد مہاتما تھے اور باقی 15 فیصد محض ڈھونگ، لیکن دنیا کے اکثر صحافی ان کے اس قدر مداح تھے کہ انھوں نے ان کا نام دنیا کے ہر گوشے میں اچھال رکھا تھا۔ ہمارے جاننے والی لیگ کی ایک مقتدرہ خاتون جب یورپ گئیں تو واپسی پر کہنے لگیں کہ یوگوسلاویہ کے دیہات میں سے گزر رہی تھی کہ لوگوں نے پہچان کر کہ ہندوستان سے آئی ہوں، گاندھی جی کے بارے میں استفسارات کیے۔

گاندھی جی کے سیاسی اسلحہ خانے میں ہتھیاروں کی کمی نہیں تھی۔ کسی سیاسی چال میں کام یاب ہوجاتے، تو سیاست داں ہوتے، ناکام رہتے تو مہاتما۔ پھر کبھی اعتراف گناہ، کبھی سچائیت کا برت، ورنہ اکثر چپ۔

ویسے وہ عملی تحریکوں کا ڈول ڈالنا جانتے تھے۔ انھوں نے تقریباً ہر 10 برس کے بعد ایک تحریک میدان میں اتاری اور جتنا قدم آگے بڑھا اسے اگلی تحریک تک مستحکم کرتے رہے۔ جنوبی افریقا سے آنے کے بعد پہلی تحریک میں جو خلافت ایجی ٹیشن کے ایام میں چلی وہ دوسروں کے سہارے آگے بڑھی لیکن وہ اس سے جلدی دست بردار ہوگئے۔ اس لیے کہ انھیں اپنی قوم پرستی کی تحریک مسلمانوں کی بین الاقوامیت میں گم ہوتی دکھائی دی۔ بعد کی دو تحریکیں (1931 اور 1943 کی) انھیں کی پروردہ تھیں۔ ان تحریکوں سے یہ انکشاف ہوا کہ وہ اپنے عدم تشدد کو اپنے پیروکاروں کے تشدد کے سہارے آگے بڑھانا جانتے تھے۔

بہرکیف اس نیم براعظم کے اندر سیاسی بیداری پیدا کرنے میں ان کا بڑا گراں قدر حصہ ہے۔ بلاشبہہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔ زندگی کے کاروبار میں وہ اتنے ہی کشادہ قلب تھے، جتنا کہ ایک ذات پات کا معترف ہندو ہو سکتا ہے۔ خود انھوں نے بارہا کہا کہ میری سوچ سراسر ہندوانہ ہے۔ جہاں تک ان کی مہاتمیت کا تعلق ہے وہ اپنے پرستاروں کے نزدیک مہاتما بدھ کے بعد سب سے بڑے انسان تھے۔ اس لیے یہ امر باعث تعجب نہیں کہ ان کی زندگی میں ان کی مورتی کی پوجا شروع ہو چکی تھی۔

(خود نوشت آہنگ بازگشت سے لیا گیا)

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>