یہ بات شروع ہوتی ہے 8 مارچ 2020ء سے، جس دن اتفاقاً میری سال گرہ بھی ہوتی ہے اور یہ وہ وقت تھا کہ جب ’کورونا‘ وائرس دنیا کے کافی ممالک میں تباہی مچا چکا تھا، بہرحال تب تک پاکستان میں حالات اتنے تشویش ناک نہیں ہوئے تھے، تو ہم لوگ کافی پرسکون تھے، مگر ہمیں کیا معلوم تھا کہ آنے والا وقت کس قدر کٹھن ثابت ہوگا۔
میں توکافی خوش تھی کہ اگلے دن یونیورسٹی جاؤں گی اور اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں سیروتفریح کو جاؤں گی، لیکن اسی رات کو حکومت نے ا علان کر دیا کہ اسکول اور یونیورسٹی کل سے لے کر غیراعلانیہ مدت کے لیے بند رہیں گے۔ اس خبر کے بعد ہماری یونیورسٹی نے فیصلہ کیا کہ اب آن لائن کلاسیں ہوں گی۔ یہ سن کر میں نے تو پہلے یہ سوچا کہ آخر یہ سب ممکن کیسے ہوگا؟ لیکن آہستہ آہستہ سب سمٹنے لگا۔
شروع کی ’آن لائن‘ کلاسوں میں تو عجیب سا لگا، کیوںکہ ہم عام طور پر استاد کو سامنے لیکچر دیتے ہوئے دیکھنے کے عادی تھے، مگر اب ہم ایک اسکرین کے سامنے بیٹھے سبق حاصل کر رہے تھے۔ اب ہم سب پر کافی دباؤ تھا، ایک تو پڑھائی کا، اپنے پیاروں کی صحت و تن درستی کا اور اوپر سے یہ ’آن لائن‘ کلاسیں۔
اس ہی طرح آن لائن کلاسوں کا آغاز ہوا، مجھے لگا کے ہمارے اساتذہ ہم پر کام کا دباؤ کم رکھیں گے، مگر ’آن لائن‘ کلاسوں کے شروع ہوتے ہی کچھ اساتذہ نے ہم پر کام کا پہاڑ توڑ دیا، لیکن دوسری طرف کچھ اساتذہ نے ہمارا خیال کیا اور ہم پر کام کا دباؤ کم رکھا۔ ایک طرف سے دیکھا جائے، تو روز روز کے خرچے، آنے جانے کے مسائل اور خواری تھی، لیکن وہ کسر ہمارے اساتذہ مختلف ’اسائمنٹ‘ میں پوری کر دیتے تھے۔
مجھے ایسا لگا تھا کے آن لائن کلاسوں کی بدولت مجھے اپنے گھر والوں کے ساتھ ذیادہ وقت گزارنے کا موقع ملے گا، مگر حیران کن بات تو یہ تھی کہ پڑھائی کے دباؤ کی وجہ سے میں اپنے کمرے میں کمپیوٹر اسکرین تک محدود ہو کر رہ گئی تھی اور ایک ہی گھر میں ہوتے ہوئے اہل خانہ میری شکل دیکھنے کو بھی ترس گئے تھے۔ ایک تو ہمارا انٹرنیٹ بھی اتنا آہستہ ہے کہ کبھی کبھی اساتذہ ہمارے حالات کو سمجھے بغیر ہماری غیر حاضری لگا دیتے تھے۔
مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس سیمسٹر میںمجھے کچھ کورسوں میں ایک لفظ تک سمجھ میں نہیں آیا، اسکرین کے سامنے بیٹھ بیٹھ کر آنکھوں کا بھی بُرا حال ہو چکا ہے اور جوڑوں میں درد کا تو کوئی نہ ہی پوچھے۔ نام کی پڑھائی تو چل ہی رہی تھی اور سب سر کے اُپر سے گزر رہا تھا کیوں کہ کوئی عملی کام نہیں ہو پا رہا تھا۔
یونیورسٹی نہ جانے کی وجہ سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے چھٹیاں شروع ہو گئی ہیں، لیکن پھر صبح نو بجے اٹھنا پڑتا تھا اور کلاس لینی پڑتی تھی، کچھ اساتذہ تو اپنی مرضی سے کلاسوں کے اوقات بدل دیتے تھے، جس کی وجہ سے تمام طلبہ کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مجھے تو یہ سمجھ میں نہیںآتا کہ اساتذہ یہ کیسے سوچ لیتے ہیں کہ ہم ان حالات میں اپنی سو فی صد کارکردگی دے سکتے ہیں۔
ہمارے ایک استاد نے تو حد ہی کر دی، جب انہوں نے سخت ’لاک ڈاؤن‘ میں باہر جانے کو کہا وہ بھی ایک اسائمنٹ کے لیے، جب طلبہ نے سوال اُٹھایا، تو وہ کہنے لگے کہ ’سنیٹائزر‘ ساتھ لے جائیے گا۔ یہ سن کر مجھے نہایت افسوس ہوا کہ ہمارے اساتذہ کو ہماری تھوڑی سی بھی فکر نہیں۔۔۔!
میں صرف اساتذہ ہی کے بارے میں نہیں کہوں گی، بلکہ طلبہ کے بارے میں بھی بولوں گی، جو استاد کی عزت نہیں کرتے اور اس مشکل وقت میں جب اساتذہ ہمیں پڑھا رہے ہیں، وہ بھی ہم پر اپنا قیمتی وقت لگا رہے ہیں، تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اُن کی عزت کریں، نہ کہ اُن چند طلبہ کی طرح شرارتوں، بے ادبی اور بدتہذیبی پر اُتر آئیں۔ میری کچھ کلاسیں رمضان میں بھی ہوئیں، جن کی وجہ سے روزوں میں عبادت کا وقت بھی نہیں ملتا تھا۔
ان کلاسوں کی اچھی بات یہ بھی تھی کہ مجھے یونیورستی کے لیے صبح چھے بجے اُٹھنا نہیں پڑتا تھا،آرام و سکون سے بستر میں بیٹھ کر کلاس لینے کی عیاشی تھی۔ نہ ہی تیار ہونا پڑتا تھا اور روز روز کے لمبے سفر اور تھکن سے چھٹکارا تھا۔ ’آن لائن‘ کلاسوں کی ایک مثبت بات یہ بھی ہے کہ ان کی بدولت اس مشکل وقت میں ہمیں مصروف رکھا ورنہ ہم بالکُل بے کار ہو جاتے۔ ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہم ایک مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور بغیر کسی فکر کے اپنے گھروں میں بیٹھے کلاس لے رہے ہیں۔
آخر میں، میں یہ ہی کہنا چاہوں گی کہ سب نے اپنی اپنی طرف سے پوری کوشش کی کے یہ ’آن لائن‘ کلاسوں کا سلسلہ کام یاب ہو جائے اور اساتذہ نے بھی اپنی طرف کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ بات مجھے کافی مثبت لگی۔ اس مشکل وقت نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہمیں اللہ کا کتنا شکر ادا کرنا چاہیے، اپنی موجودہ سہولتوں کی وجہ سے۔
بس یہ کہنا چاہوں گی کہ یونیورسٹی والوں کو بچوں پر اتنا کام کا دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے تھا، ہر چیز میں توازن ضروری ہے۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ بچوں کو اساتذہ کا احترام کرنا چاہیے، کیوں کہ جب آپ دوسروں کی عزت کریں گے، تب ہی لوگ آپ کی عزت کریں گے۔
The post میں صرف کمپیوٹر اسکرین تک محدود ہو کر رہ گئی۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.