سنا مکی اور پیٹ کے کیڑوں سے نجات کے حوالے سے بہت ساری ای میلز آئیں ، بچوںکے پیٹ میں کیڑوں کے حوالے بہت سے پریشان والدین نے رابطہ کیا کہ ان کے بچے کے پیٹ میں کیڑے ہیں، دوا بتادیں۔ جنھیں علاج کا مشورہ دیا وہ دوا کا نام جاننے کے لیئے ہی اصرار کرتے رہے ۔ آج کسی مرض پر لکھنے کے بجائے چند باتیں آپ سے کرنا ہیں۔
سب سے پہلے میں واضح کردوں کہ ہومیوپیتھک طریقہ علاج ایلوپیتھک سے یکسر مختلف ہے ۔ محض ایک علامت یا مرض کے نام پر دوا تجویز نہیں کی جاسکتی۔کیڑوں کے ہر مریض کوایک مخصوص دوا نہیں دی جاسکتی۔ اسی طرح دیگر امراض مثلاً بلڈپریشر اور بخار وغیرہ کا معاملہ ہے۔ ہومیوپیتھی میں ایک مرض کے لیئے درجنوں میڈیسن ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی ایک کا انتخاب مریض کی تمام علامات کی بنا پر کیا جاتا ہے۔
ہومیوپیتھی میں کسی چیز کی خواہش اور نفرت، پسند، نا پسند جیسے کہ نمک کھانے، بار بی کیو کی خواہش، ٹھنڈا پانی پینے کی شدید خواہش ،گرم مشروبات کی طلب، برف کھانے کی عادت، کوئلہ کھانے کی زبردست خواہش، مرض میں کمی بیشی، مزاج ، کانسٹیٹیوشن بڑی اہمیت کا حامل ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ تکلیف کے اوقات یعنی ٹائمنگ بھی اہمیت رکھتی ہے۔
جب تک مذکورہ بالا تمام علامات معلوم نہ ہوں صحیح دوا کا انتخاب نہیں کیا جاسکتا۔ بصورت دیگر بہت سی دوائیں ہیں، تکے میں بدل بدل کر دی جاسکتی ہیں۔آپ کو کیڑوں کے دو دوائیں بتائی تھیں:
سائنا سپاء جیلیا۔
لیجیئے مزید نوٹ کرلیں :
ٹیوکریئم سینٹو نائین۔ کلکیریا فاس اور ایک لمبی لسٹ ہے۔ اب ہر کسی کو یہ تمام دوائیں نہیں دی جاسکتیں۔
ایک کیس جان لیجئے۔ ایک دس سالہ بچی سانس کی تکلیف الرجک استھما میں مبتلا تھی۔ ہر چند ماہ میں اٹیک ہونا لازمی تھا جبکہ اس سے پہلے کوئی تکلیف نہیں رہی تھی۔ چند دن کارپٹ پر سونے کی وجہ سے الرجی، سانس لینے میں تکلیف، دمہ جیسی کیفیت ہوگئی۔
عرصہ دراز تک ایلوپیتھک، ہومیوپیتھک علاج، ٹوٹکے غرضیکہ جو بھی کیا جاسکتا تھا ،کیا گیا۔ تمام ٹیسٹ رپوٹس کلیئر تھیں۔ ڈاکٹرز کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ اسے مسئلہ کیا کس چیز سے الرجی ہے۔ دوران سانس الٹیاں، بخار، دھڑکن کابڑھ جانا۔ وہ کئی دن تک لیاقت نیشنل ہسپتال کراچی میں داخل رہی۔ بچی کی کیس ٹیکنگ کی گئی، کئی دوائیں بدلی گئیں، وقتی آرام مل جاتا تھا۔ ایک بار شدید اٹیک کے دوران کیس ٹیکنگ میں پتہ چلا کہ اسے شدید میٹھے کی خواہش ہے، اسے کچھ بھی میٹھا چاہیے۔ اس ایک خواہش نے صحیح دوا کے انتخاب تک پہنچا دیا۔ پھر دوا کی ایک خوراک نے منٹوں میں بستر سے اٹھا دیا۔ اگر وہ نمکین یا کسی اور چیز کی خواہش رکھتی تو یقیناً دوا کچھ اور ہوجاتی۔ کچھ عرصہ علاج سے الحمد للہ وہ مریضہ بالکل ٹھیک ہے۔ آج 24 سال کی ہے۔ اب کبھی کبھار کوئی مسئلہ ہوجائے تو موجودہ کنڈیشن پر دوا دے دی جاتی ہے ۔
اگر کوئی فردکسی مسئلہ سے متعلق کوئی مشورہ چاہتے ہیں تو پوری تفصیل لکھیے ورنہ قاصر رہوں گی، میں آپ کو صرف مشورہ دے سکوں گی ۔ علاج کے لیئے کسی قریبی ہومیو ڈاکٹر سے رابطہ کیجیئے کیونکہ یہ سیلف میڈیکیشن ہوگی۔ ڈاکٹر سے رابطے میں رہنا لازم ہوتا ہے ۔ ہوسکتا ہے جس تکلیف میں آپ مبتلا ہوں، اس میں کچھ زیادتی ہوجائے یا کوئی نئی کنڈیشن بن جائے اور آپ پریشان ہوجائیں حالانکہ وہ شفایابی کی طرف پہلا قدم ہو ۔
یا پھر ہوسکتا ہے کہ دوا بدلنے یا طاقت بڑھانے کی ضرورت پڑجائے لیکن آپ اسے ہی کھاتے رہیں اور پھر ٹھیک نہ ہونے پر دوا تجویز کرنے والے ڈاکٹر کو برا بھلا کہیں۔ اس لئے معالج سے براہ راست تعلق ازحدضروری ہوتاہے۔
The post سیلف میڈیکیشن ، مفید یا نقصان دہ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.