غزل
عرو جِ ارتقا پہ بھی یہ مہریں ثبت موت کی
بتا رہی ہیں ہمتیں نہیں ہیں پست موت کی
اسے پتہ چلے کہ پیاری کس قدر ہے زندگی
میں سانس روک لوں اگر انا پرست موت کی
کبھی کبھی تو غالب آتے دیکھ کر تڑپ اٹھوں
کئی برس کی زندگی پہ ایک جست موت کی
ہمیں مٹا کے خود فنا سے کس طرح نہ جا ملے
فضا میں گونجتی ہوئی صدا کرخت موت کی
ازل سے ایک دوسرے سے پنجہ آزما ہیں یہ
نہ زندگی کی فتح ہے نہ ہے شکست موت کی
میں پارساؤں کے فیوض کا ہوں معترف مگر
نہ راہ روک پائیں گے یہ نیک بخت موت کی
بعید کیا ہے راگنی نئی حیات کی بنے
سنائی دے رہی ہے جو یہ بازگشت موت کی
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء ُ الدین)
۔۔۔
غزل
خیرخواہ اب، نہ کوئی یار مرا باقی ہے
پھر بھی اک آس ہے باقی کہ خدا باقی ہے
کیا ہوا گر گئی جو ہاتھ سے تلوار مرے
اب بھی اس ہاتھ میں شمشیرِ دعا باقی ہے
بعد میں کس طرح ماروں گا میں یہ نوعِ سکوت
ترکشِ صوت میں اک تیرِ صدا باقی ہے
چند جلنے دو دیے اِ س سے گھٹن دور کرو
اب جو طوفان کے دامن میں ہوا باقی ہے
شاید اس طرح بھروسہ ہو کسی پر پھر سے
فرض کرتے ہیں زمانے میں وفا باقی ہے
کرگیا بند سخی وقت سے پہلے در کو
آج پھر بھول گیا ایک گدا باقی ہے
(عزم الحسنین عزمی۔گجرات، ڈوڈے)
۔۔۔
غزل
میں کیوں کہوں کہ لوگ ہی فقط بُرے ہیں دوستا
مجھے تو اپنے آپ سے یہی گِلے ہیں دوستا!
کبھی جو حل نہ ہو سکے، وہ مسئلے ہیں دوستا
کبھی جو سَر نہ ہو سکے، وہ معرکے ہیں دوستا
تو پھر یہ تیری من پسند اُڑان کس طرح بھریں؟
جنہیں اُڑا رہا ہے تُو، وہ پَر کٹے ہیں دوستا
ہمیں کیوں دیکھ کر ترے، پسینے چھوٹنے لگے
ہم اِس سے پہلے کیا کبھی کہیں ملے ہیں دوستا
وہ ہم ہی تھے جو سہہ گئے، تری نگاہِ سنگ بھی
اِنہیں نہ دیکھ اس طرح یہ آئینے ہیں دوستا
تجھے سہارتے ہوئے، تجھے سنبھالتے ہوئے
ہم اپنے ہاتھ سے کہیں نکل گئے ہیں دوستا
بَجا کہ ہم نہیں رہے، تمہارے کام کے مگر
ہم اپنے کام کے بھی اب کہاں رہے ہیں دوستا
اویسؔ یہ بتا مجھے کہ تُو کہاں رہے گا اب؟
وہ خواب کے مکان تو اجڑ چکے ہیں دوستا
(اویس احمد ویسی۔ زیارت معصوم، ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
جادۂ خواب کہیں گرد میں تحلیل نہ ہو
دیکھ اے ماہ جبیں! شوق کی تذلیل نہ ہو
حسن ہو، اور ستم کیش نہ ہو، حیرت ہے
یعنی اوزان میں ہو فعل، مفاعیل نہ ہو؟
کام اکٹھے کریں دونوں کسی منصوبے پر
اور ایسا ہو کہ اس کی کبھی تکمیل نہ ہو
تتلیاں دوست ہیں، مانا، مگر اے شیریں بدن
لب پہ ہر وقت رہیں، اتنی بھی اب ڈھیل نہ ہو
دل کا کہنا ہے ’’یہ آنکھ اس کا زیاں کرتی ہے
پس مری مان، اسے خون کی ترسیل نہ ہو‘‘
کیسے کردار نبھے ایسے جہاں میں کہ جہاں
کوئی ہم زاد نہ ہو، چاند نہ ہو، جھیل نہ ہو
لطف ہے گرچہ تری مختصراً ’’ہوں‘‘ میں بھی
مگر اتنا بھی نہیں یار کہ تفصیل نہ ہو
(زبیر ارشد۔گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
دل میں قیدی بنی کسی کی یاد
اشک آنکھوں سے ہوگئے آزاد
دل کے گوشے نہیں سنبھلتے ہیں
خاک بستی کوئی کریں آباد
تیری آنکھوں کو دیکھ لینے سے
ہلنے لگتی ہے روح کی بنیاد
ہاتھ میں کیمرا پکڑ کر لوگ
خوب دیتے رہے ہمیں امداد
سب امیدوں کا خون کر کے کہا
جا پرندے تجھے کیا آزاد
تیری یادوں سے نبض چلتی تھی
ایک دن روک لی گئی امداد
جاؤ اب کوئی بھی نہیں ہے یہاں
جاؤ اب مر گیا ترا شہزادؔ
(شہزاد مہدی۔ گلگت بلتستان)
۔۔۔
غزل
تسخیرِ کائنات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
یعنی خدا کی ذات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
دل بیٹھنے لگا ہے محبت کے حبس سے
خوشبو تری حیات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
مانا سمجھ رہے ہیں مجھے بدگمان آپ
تصویر ِ ممکنات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
یارو بٹی ہوئی ہے مری خواہشِ نمو
فردا کے حادثات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
طاعون، تپ وہ پولیو چیچک چلے گئے
مجھ کو کرونا مات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
حیرت زدہ نہ کیجیے باتوں سے اب ولیؔ
تصویرِ شش جہات پہ تھوڑا بھی شک نہیں
(شاہ روم خان ولی۔ مردان)
۔۔۔
غزل
کیا اٹھائے پھر رہے ہیں، خاک، میدانوں سے وہ
پوچھتے ہیں راستا کعبہ کا میخانوں سے وہ
وہم تھا میرا کہ بس مجھ پر قناعت ہو گئی
حیف، اب بھی مل رہے ہیں روز بیگانوں سے وہ
کوئی بتلائے گا کیا یہ پیار کا انداز ہے؟
یا جھگڑتے پھر رہے ہیں اپنے دیوانوں سے وہ
مار کر کنکر، پڑھا لاحول ابراہیمؑ نے
تب کہیں جا کے بچے ہیں تین شیطانوں سے وہ
جن کی پیدائش کا مقصد بس تری تقدیس تھا
لڑ رہے ہیں آج کل دھرتی کے بھگوانوں سے وہ
کیا کوئی بچھڑا ہوا پھر سے ملاقاتوں میں ہے؟
پھر چُرانے لگ گئے ہیں پھول گلدانوں سے وہ؟
کچھ سنے اور کچھ کہے بِن ہی روانہ کر دیا
کیا یہی کرتے ہیں محسنؔ اپنے مہمانوں سے وہ
(محسن اکبر۔ حجرہ شاہ مقیم)
۔۔۔
غزل
گھٹی گھٹی سی ہوا ہے، گھٹی گھٹی ہوئی شام
کسی طرح سے گزرتی نہیں رکی ہوئی شام
تمہارے سامنے آنے سے رونما ہو گی
ہماری زیست کی شاموں سے اک چھپی ہوئی شام
تھکن سے چور ہے، داغ ِالم سے بوجھل ہے
ملالِ یار کے ملبے تلے دبی ہوئی شام
تمہارے قرب کی لذت میں شعر کہتی تھی
تمہارے قرب میں رنگ ِغزل بنی ہوئی شام
ہماری آنکھ کے حلقوں سے جان لینا تم
کہ ہم نے ہجر میں کاٹی ہے اک تھکی ہوئی شام
(علیزہ زہرہ۔کراچی)
۔۔۔
غزل
دیکھیں گے نہ اس چاند کو ہم عید کریں گے
اس بار اپنے چاند کی تائید کریں گے
پائیں گے دیکھ لینا بقائے دوام وہ
جو زندگی میں آپ کی تقلید کریں گے
تنقید قومی مشغلہ ہے اور یہاں پہ لوگ
اصلاح کرنے والوں پہ تنقید کریں گے
مایوس گر نہ ہوں گے ترے امتحان سے
ہوں گے ضرور پاس جو امید کریں گے
حارث یہاں پہ سوچنے والوں کی سوچ ہے
ایجاد کریں گے تو کچھ جدید کریں گے
(حارث انعام۔حکیم آباد، نوشہرہ)
۔۔۔
غزل
تُو خطا سے ہر گھڑی ڈرتا رہے
جو بتایا حق نے ہے کرتا رہے
اُس کا جینا ہو گا کیا جس پر میاں
یار بھی الزام ہی دھرتا رہے
تیرا کعبے جانا ہے بے فائدہ
گر پڑوسی بھوک سے مرتا رہے
آس اعظم بے وفا سے مت لگا
تجھ پہ واجب ہے وفا کرتا رہے
(اعظم بلوچ۔احمد پور شرقیہ، بہاولپور)
۔۔۔
غزل
لڑکھڑاتی ہوئی وہ سامنے آئے، ہائے
دل میں آتی ہے مگر ہاتھ نہ آئے، ہائے
کاش ایسے وہ کرے لطفِ مسلسل ہم پہ
پاس آئے تو کبھی دور نہ جائے، ہائے
وہ سنورتے ہیں اور آئینہ یہ کہتا ہے سنو
دیکھنے والا تجھے جان سے جائے، ہائے
ایک تو حسن غضب اُس پہ نرالی ہے ادا
دل چرا کے بھی مجھے آنکھ دکھائے، ہائے
یہ تیری شرم و حیا ہے جو مجھے بھاتی ہے
ورنہ توصیف تجھے منہ نہ لگائے، ہائے
(توصیف احمد توصیف ۔لاہور)
۔۔۔
غزل
ہر بار چل پڑا ہوں بیابان کے لیے
نکلا ہوں بارہا میں گلِستان کے لیے
لاکھوں اٹھیں گے ہاتھ مجھے اس کا علم تھا
کپڑا ہی کم پڑا تھا گریبان کے لیے
بے شک فقط خدا سے شِفا کی امید ہے
لازم ہے احتیاط بھی انسان کے لیے
مجھ پر بہت قریب سے اک قہقہہ لگا
کنکر اٹھا رہا تھا میں شیطان کے لیے
اک نظم جب غریب پہ لکھنا تھی تب مجھے
الفاظ ہی نہیں ملے عنوان کے لیے
علمِ عروض سیکھ کے شاعر ہوا ہے تُو
حُلیہ بگاڑ شعر کا اوزان کے لیے
انجم وبائے شہر سے ہم عاشقوں کو کیا
رختِ سفر تُو باندھ پرستان کے لیے
(امتیاز انجم۔اوکاڑہ)
The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.