بعض لوگ ہماری بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کودیکھ کر ہمیں ’’کہنہ مشق‘‘ ادیب کہنے لگے ہیں لیکن عید کے موقعے پر انھوں نے اس کہنہ مشق کے دائیں ہاتھ کی کہنی پر اتنا تشدد کیا کہ ایک ہفتے سے اس کی ٹکور کروارہے ہیں۔
عید ملنے کے لیے آنے والے احباب مسلسل تین روز تک کہنی سے کہنی ٹکراتے رہے اور ذرا خیال نہ کیا کہ ہماری ہڈیاں اب بُھربُھری بلکہ کُرکُری ہوچکی ہیں۔ کورونا نے مجبور کردیا ہے کہ انسان کسی سے ہاتھ نہ ملائے بلکہ تمام دن اپنے ہی ہاتھ ملتا رہے۔ وہ معانقہ بھی نہ کرے کہ کہیں اس کے نتیجے میں مقاطعہ نہ ہوجائے۔ لہٰذا آدابِ عید کی بجاآوری کے لیے کہنی یہ دونوں فرائضِ غیرمنصبی انجام دیتے دیتے ’’کُہنا‘‘ ہوگئی ہے۔
ڈھائی تین ماہ سے گھروں میں محصور یار دوست اور عزیز و اقارب عید کے تین دنوں میں یوں باہر نکل پڑے جیسے گھوڑوں کی ریس چھوٹتی ہے۔ سماجی فاصلے کے سرکاری مشوروں اور احکام کو ہوا میں اڑا کر لوگوں نے ثابت کردیا کہ تہوار زمین پر بنے دائروں میں کھڑے ہوکر نہیں منائے جاتے۔ یہ وہ مواقع ہوتے ہیں جن کے لیے کسی فلمی شاعر نے کہا تھا ؎
آپ تو نزدیک سے نزدیک تر آتے گئے
پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہوگئے
جانِ جانان کے رتبے تک پہنچنے کے لیے صرف نظروں سے نظروں کا ٹکرانا ہی کافی نہیں، جسمانی تصادم بھی ضروری ہوتا ہے۔ کبھی اس مقصد کے حصول کے لیے سینے دھونکے جاتے تھے، اب یہی اُفتاد کہنیوں پر آن پڑی ہے۔ عید کے دن ہم نے گھر آنے والے پہلے مہمان کا استقبال اپنی اُس مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کیا جس میں اب بڑی حد تک کڑواہٹ آگئی ہے اور جو لوگوں کو قریب کھینچنے کے بجائے کھلم کھلا یہ اشارہ دیتی ہے کہ…ذرا فاصلے سے ملا کرو۔ بہرحال آنے والے دوست نے ہمارے چہرے پر توجہ نہ دی (یا اُسے اس قابل نہیںسمجھا) اور جھٹ کہنی نکال کر ہماری طرف بڑھے۔
ایسا لگتا تھا کہ یہ اُسے ہماری پسلیوں میں گھونپ دیں گے۔ ہم نے پُھرتی سے اپنی کہنی پر ان کی کہنی کا وار روکا اور عید مبارک کہہ کر کہنی سہلانے لگے…یعنی اپنی کہنی۔ آدھے گھنٹے بعد جب وہ جانے کے لیے کھڑے ہوئے تو انھوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی کہنی پر ’’تاؤ‘‘دیا۔ ہم نے انھیں یاد دلایا کہ وہ یہاں آتے ہی یہ نئی رسمِ دنیا ادا کرچکے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ تہنیتی کہنی تھی اور یہ رخصتی کہنی ہے۔ ہم ابھی پہلے ٹکراؤ کی کیفیت سے پوری طرح بحال نہیں ہوئے تھے کہ انھوں نے اُسی ’’مضروب‘‘ کہنی کو مزید مغضوب کردیا۔ ہمارا حال یہ تھا کہ ؎
دل یہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے
تیر پہ تیر چلاؤ تمھیں ڈر کس کا ہے
عید کے دن ہی شام تک ہماری کہنی متورّم ہوچکی تھی۔ بیگم اس کی ٹکور کرتی جاتیں اور دن بھر آنے والوں کو بے نقط سناتی جاتی تھیں۔ درمیان میں اپنی شعلہ فشاں زبان کا ایک آدھ گولا وہ ہماری طرف بھی چھوڑدیتیں۔ انھیں اس بات کی مطلق پروانہ تھی کہ جو غریب جسمانی تکلیف سہہ رہا ہے، کم ازکم اسے ذہنی اذیت سے تو محفوظ رکھیں لیکن ہماری بیگم کا تو یہ حال ہے کہ ع تیری زباں کے آگے نہ دہقاں کا ہل چلے۔ زبان کیا ہے دودھاری تلوار ہے جس کی ایک دھار سننے والے کو گھائل کرتی ہے جبکہ دوسری اسے شہادت کے درجے پر فائز کردیتی ہے۔
باسی عید کو ہم نے اپنے ’’بیڈ روم‘‘ کو قرنطینہ قرار دے دیا اور خود اُس میں مائیوں بیٹھ گئے۔ ہمارا خیال تھا کہ اب بقیہ دن سکون سے گزرے گا لیکن حضرت علامہ نے غلط تھوڑی کہا تھا ع سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں۔ عین اُس وقت جب سورج سوا نیزے پر اور ہمارا مُوڈ اس سے بھی دو نیزے اوپر تھا ہمارے ایک سابق باس اچانک اور غیرمتوقع طور پر چلے آئے۔ ان کی ناگہانی اینٹری بالکل ایسی تھی جیسے ایک قدیم شاعر اپنے محبوب کے گھر میں آن دھمکے تھے ؎
گھر میں ترے کُودا کوئی یوں دھم سے نہ ہوگا
جو ہم سے ہوا فعل وہ رستم سے نہ ہوگا
(نوازش حسین نوازشؔ)
اب اگر ہم اُن سے اپنے کورونامیں مبتلا ہونے کا امکان تو کیا شبہ بھی ظاہر کردیتے تو وہ فوراً رفو چکر ہوجاتے اور اس بات کو آگے پھیلاتے۔ لوگوں کو تو بہانہ چاہیے افواہ طرازی کا۔ بڑھتے بڑھتے یہ افواہ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب تک پہنچتی ۔ وہ ہمارا ٹیسٹ تو بعد میں کرواتے پہلے ہمارے محلّے کو سِیل کراتے اور یوں ہم اپنے ہمسایوں کے لیے باعثِ اذیت وحزیمت بنتے۔ (ہم ہمیشہ اتنی ہی دور کی سوچتے ہیں اور اسی لیے ہمارے قریب کے کام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔) مجبوراً ہم نے اپنے اصلی چہرے پر ایک نقلی چہرہ (یعنی خوش دلی والا چہرہ) چڑھا کر ان کے استقبال کی تیاری کی۔
دریں اثنا انھیں اسٹڈی میں بٹھایا تھا تاکہ چاروں طرف کتابیں دیکھ کر انھیں کچھ اجنبیت کا احساس ہو اور کتابوں کی نامانوس ’’بُو‘‘ انھیں جلد اٹھنے پر مجبور کردے۔ پھر جوں ہی ہم اپنی کہنی سہلاتے ہوئے اسٹڈی میں داخل ہوئے انھوں نے جھٹ سے اس پر اپنی کہنی جڑ دی۔ یوں سمجھیے کہ بجلی سی کوند گئی۔
ہم ہائے کہہ کر رہ گئے لیکن انھوں نے کمال بے اعتنائی سے ہماری آہ وبُکا کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا ’’اور سناؤ کیا حال چال ہے؟‘‘ ہم نے کراہتے ہوئے جواب دیا ’’چال تو اب بھی مستانہ ہے لیکن حال آپ کی مشفقانہ کہنی نے پہلے سے بدتر کردیا ہے۔‘‘، ’’کیوں؟‘‘انھوں نے تجابلِ عارفانہ سے کام لیا۔ ہم نے سوجی ہوئی کہنی انھیں دکھائی تو اُلٹا انھوں نے اس کی ذمے داری ہم پر ڈال دی۔
بولے ’’آپ نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟‘‘ ہم نے عرض کیا،’’آپ نے بتانے کا موقع دینے سے پہلے ہی اظہارِمحبت کردیا تھا۔‘‘ یہ سن کر وہ ہمیں دوائیں تجویز کرنے لگے۔ پہلے کچھ لگانے کی دوائیں بتائیں جن میں ہلدی چونے سے لے کر ’’ڈِیپ ہِیٹ اسپرے‘‘ تک شامل تھا۔ پھر کھانے کی دواؤں پر آگئے۔
ساری ہی مانع درد ادویہ گنوادیں۔ ہم نے ان سے عرض کیا’’سر،کچھ دعائیں بھی بتادیں۔‘‘ وہ اس طنز کو سمجھ نہ پائے لیکن نہ جانے انھیں یہ کیسے محسوس ہوا کہ ہم پر ان کی کوئی نصیحت، کوئی خیر خواہی اثر نہیں کررہی۔ ارشاد ہوا ’’آپ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی صحت کی طرف سے کچھ بے فکرے ہوگئے ہیں۔ کاغذ منگائیے۔‘‘ ان کے حکم کی تعمیل ہوئی۔ انھوں نے جو جو مشورے ہمیں زبانی دیے تھے وہ انھیں ضبطِ تحریر میں لے آئے اور حکم صادر فرمایا’’ان تمام ہدایات پر ’الفاظ اور روح کے مطابق‘ عمل کرکے مجھے48گھنٹے کے اندر اپنی حالت کی رپورٹ دیں۔‘‘ ان کے دماغ میں ابھی تک افسری کا خنّاس سمایا ہوا تھا۔ جی میں تو آیا، ایک عوامی محاورے کا شعر پڑھیں اور انھیں باور کرائیں کہ جناب ؎
وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا
اب عطر بھی ملو تو پسینے کی بُو نہیں
لیکن مُروّت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ خاصی دیر تک طوعاً و کرہاً ان کا لیکچر سننے کے بعد حسبِ توفیق ان کی تواضع کرکے ہم نے انھیں رخصت کیا اور پھر سے اپنے ’’ڈربے‘‘ میں گھس گئے جہاں ہمیں ایک اور لیکچر کی مار پڑی۔ کہنی اب خاصی مخدوش ہوچکی تھی۔
بیگم نے مشورہ دیا کہ اب کوئی آئے تو کہنی ٹکرانے سے صاف انکار کردینا۔ ہم نے کہا،’’سامنے والا انکار کی مہلت کہاں دیتا ہے۔ وہ تو ملتے ہی دوستی کی کہنی آگے بڑھا دیتا ہے۔ اب اسے جھٹکا تو نہیں جاسکتانا؟‘‘،’’تو پھر الُٹی کہنی استعمال کرنے لگو‘‘ان کے پاس بھی مشوروں کی کمی نہیں۔ ہم نے احتجاج کیا، ’’تمھارا مطلب ہے کہ دوسری بھی تڑوالوں۔ بالکل ہی اپاہج ہوجاؤں؟‘‘ بولیں ’’میں تمھاری جگہ ہوتی تو کہنی کے جواب میں بیلن استعمال کرتی۔ اِن لوگوں کو دن میں تارے نظر آجاتے۔ اب تم ایسا کروکہ کہنی پر بھاری ڈریسنگ کرالو۔ اس طرح اس پر ’ضربِ عضب‘ تو پڑے گی مگر ذرا ہلکی۔‘‘ ان کی اس بات میں خاصا وزن تھا۔ دودن مصنوعی ڈریسنگ کے بعد جب کہنی کھولی تو وہ پھُول کر کُپّا ہورہی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب اصلی ڈریسنگ میں ہیں۔
یقین نہ آئے تو ہمارے اس مضمون کا ڈیل ڈول دیکھ لیجیے۔ کتنا اسمارٹ ہے ورنہ ہم تو دفتر کے دفترسیاہ کرنے کے عادی ہیں۔ جتنا تشددتمام دن اپنے کانوں پر برداشت کرتے ہیں اس کا حساب کاغذ پر چکاکر ہلکے ہوجاتے ہیں۔ عید تو گزر گئی۔ ڈریسنگ بھی ایک آدھ دن میں کھل جائے گی لیکن ہم اپنے محسنوں کو حضرتِ آتشؔ کی زبان میں یہ پیغام ضرور دیں گے کہ ؎
اور کوئی طلب اَبنائے زمانہ سے نہیں
مجھ پر احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں کرتے
The post ایک ’’کُہنہ مشق‘‘کی کُہنی appeared first on ایکسپریس اردو.