آج کل کی خواتین اپنے حقوق مانگتے ہوئے کسی سے نہ ڈرتی ہیں اور نہ ہی شرم محسوس کر تی ہیں، بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنے حقوق کی جنگ لڑتی ہیں۔ دوسرے ممالک کی طرح ہمارے ملک پاکستان میں بھی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ قدم بڑھا رہی ہیں۔ تقریباً ہر شعبے میں خواتین نمایاں ہیں۔ ہوائی جہاز اڑانے سے لے کر جدید سوفٹ ویئر بنانے تک ہماری خواتین پیش پیش دکھائی دیتی ہیں۔
8مارچ خواتین کا عالمی دن کے طور پہ منایا گیا اور دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خواتین اس دن کو کافی جوش و خروش سے منایا، لیکن پچھلے دو برسوں سے اس کو منانے کا انداز یک سر تبدیل ہو چکا ہے۔ پاکستان میں ایسی بہت سی خواتین ہیں، جو گم نام ہو کے بھی خواتین کے لیے اچھے کام کر رہی ہیں۔ یہ ایسی خواتین کے لیے کام کرتی ہیں، جو آگے بڑھنے کی صلاحیت تو رکھتی ہیں لیکن کسی وجہ سے آگے نہیں آسکتی۔
اب زمانہ انٹرنیٹ کا ہے اور اس تیز رفتار دور میں ایک عورت مشعل پکڑے عورتوں اور بچیوں کو محفوظ طریقے سے انٹرنیٹ کا استعمال سکھا رہی ہے۔ یہ خاتون نگہت داد ہیں۔ اُن کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان میں خواتین کو انٹرنیٹ پر آزادی میسر نہیں ہے اور انہیں انٹرنیٹ پر ان کے ’صنف نازک‘ ہونے کی بنیاد پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ 38 سالہ نگہت داد پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔
نگہت پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادی، ڈیجیٹل سیکیورٹی، سائبر ہراسمنٹ اور فیمینزم کے حوالے سے سر گرم ہیں۔ نگہت کی تنظیم نے پاکستان میں پہلی سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن متعارف کروائی۔ جس کا مقصد آن لائن ہراساں ہونے والے افراد کو مفت، محفوظ اور رازدارانہ سہولت فراہم کرنا ہے۔ اس ہیلپ لائن کے ذریعے متاثرین کو قانونی مدد، ڈیجیٹل سیکیورٹی سپورٹ اور نفسیاتی مشاورت فراہم کی جاتی ہے۔ 2018ء میں عالمی اقتصادی فورم نے نگہت داد کو اپنی سالانہ ینگ گلوبل لیڈرز کی فہرست میں شامل کیا۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن جلیلہ حیدر نے اپنی ہزارہ برادری اور دوسری خواتین کے لیے ہر پلیٹ فارم میں آواز اٹھائی۔ جس کے سبب انہیں ’بی بی سی‘ نے انہیں اپنی دنیا بھر کی 100 بااثر خواتین کی فہرست میں شامل کیا۔ اپنے والد کی وفات کے بعد جلیلہ کو ایسا محسوس ہوا کہ برادری کا نظام برابری پر نہیں چل رہا۔ جلیلہ کی والدہ نے اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا اسکول کھول رکھا تھا۔ اس اسکول میں آنے والے بچوں کو دیکھ کر انھوں نے اس معاشرتی تقسیم کو شدت سے محسوس کیا ۔ یہی وہ وقت تھا جب انھوں نے بچوں کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے کام کرنا شروع کیا ۔
بشریٰ خالق انسانی حقوق کی محافظ اور کمیونٹی آرگنائزر ہیں۔ بشریٰ خواتین میں جدوجہد برائے خودمختاری خواتین (women in struggle for empowerment) کے نام سے ایک تنظیم چلاتی ہیں۔ دیہاتوں میں بہت سی خواتین کے شناختی کارڈ رجسٹرڈ نہیں ہوتے ۔ جس کی وجہ سے انھیں بینک اکاؤنٹ کھولنا ، ڈرائیونگ لائسنس اور ووٹ ڈالنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں دیہی اور قبائلی علاقوں میں بہت سی خواتین کارڈ کے ساتھ یا اس کے بغیر یہ کام نہیں کر سکتی۔
رسم و رواج اور خاندانی دباؤ کے مطابق، وہ قانونی شناخت کے بغیر اپنے گھروں کی رازداری میں رہتی ہیں۔ انہی خواتین کے لیے بشریٰ خالق نے آواز اٹھائی۔ بشریٰ پاکستان میں خواتین کی شمولیت اور مساوات کے لیے لڑ رہی ہیں۔ خاص طور پر دیہی اور قبائلی علاقوں میں پس ماندہ طبقات کے لیے بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دینا صرف آغاز ہے اور یہ سب بشریٰ خالق کی کی کوششوں کا نتیجہ ہے ۔
The post کوششیں کرنے والی۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.