قطر کے دارالحکومت دوحا میں 29 فروری کو امریکا اور افغانستان طالبان کے درمیان امن معاہدے کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ 10 مارچ کو ہونے والے بین الافغان مذاکرات سے قبل طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔
معاہدے پر دستخط کے اگلے روز افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کیا۔ اس انکار کے ایک، دو دن بعد انھوں نے صوبہ ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں ایک فوجی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلام آباد سے اپنے تعلقات ختم کر دیں۔
سوال یہ ہے کہ افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی امن معاہدے کے بعد افغانستان طالبان اور پاکستان سے ناراض کیوں ہے؟ امریکا کے ساتھ مذاکرات سے قبل افغانستان طالبان کی کابل میں قیام امن کے لئے بنیادی شرط یہ تھی کہ قیام امن کے لئے وہ صرف واشنگٹن کے ساتھ براہ راست بات چیت کریں گے۔اس حوالے سے طالبان کا موقف یہ تھا کہ کابل کا حکمران ’’بااختیار‘‘ نہیں بلکہ ’’ بے اختیار‘‘ ہے اس لئے ہم ان کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس امریکا اور افغانستان کا موقف تھا کہ اگر طالبان امن چاہتے ہیں تو بات چیت کابل سے ہی کرنا ہو گی۔
گزشتہ صدارتی انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں جاری غیر ضروری جنگ کو ختم کرکے اپنی مسلح افواج وہاں سے واپس بلا لیں گے۔ صدر منتخب ہونے کے بعد انھوں نے افغانستان طالبان پر ہر طرح کا دباؤ ڈالا کہ وہ ڈاکٹر اشرف غنی حکومت کے ساتھ قیام امن کے لئے بات چیت کریں لیکن طالبان انکار کرتے رہے اور اپنے اس موقف پر قائم رہے کہ مذاکرات ہوںگے تو براہ راست صرف امریکا سے اور یہ کہ وہ کابل کے حکمران کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے۔
واشنگٹن نے افغانستان طالبان کو صدر ڈاکٹر اشرف غنی انتظامیہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر مجبور کرنے کے لئے اسلام آباد پر بھی دباؤ ڈالا لیکن طالبان نے اسلام آباد کو بھی انکار کر دیا۔ 2018 ء میں امریکا نے طالبان کا مطالبہ مان لیا اور ان کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔ قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکا اور افغانستان طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت سے صدر ڈاکٹر اشرف غنی شدید ناراض ہوئے، اس لئے کہ صدر ٹرمپ نے انھیں اعتماد میں لئے بغیر افغانستان طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کر دئیے تھے۔افغانستان کے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات سے امریکا نے نہ صرف اپنی پالیسی میں تبدیلی کی بلکہ طالبان کے موقف کو تسلیم کیا جبکہ صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے موقف کو مسترد کیا جس پر وہ ناراض ہوئے۔
دوحا میں جب امریکا اور افغانستان طالبان کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا تو صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے امریکا کو پیغام بھیجا کہ براہ راست بات چیت میں افغانستان کو بھی شامل کیا جائے۔ امریکا نے کوشش کی کہ دوحا میں ہونے والی براہ راست بات چیت میں کابل بھی حصہ لے لیکن طالبان نے انکار کیا۔ طالبان کے انکار کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کابل کے بغیر جاری رہی۔ صدر ڈاکٹر اشرف غنی براہ راست بات چیت میں شامل نہ ہونے پر شدید ناراض رہے۔ انھوں نے بھرپور کوشش کی کہ مذاکرات کی میز پر ان کے نمائندے بھی موجود رہیں لیکن وہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہوئے اس لئے کہ طالبان ان کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں تھے۔
اب رہا یہ سوال کہ ڈاکٹر اشرف غنی پاکستان سے ناراض کیوں ہیں؟ ڈاکٹر اشرف غنی پاکستان سے ناراض اس لئے ہیں کہ انھیں شکوہ ہے کہ اسلام آباد نے طالبان کو کیوں ان کے ساتھ براہ راست مذاکرات پرمجبور نہیں کیا؟ انھیں یہ بھی شکایت ہے کہ جب اسلام آباد نے امریکا اور افغانستان طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کے لئے راہ ہموار کی تو ان براہ راست مذاکرات میں کابل کو شامل کیوں نہیں کیا؟ اس لئے امن معاہدے کے چند دن بعد انھوں نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات ختم کردیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان طالبان کو مجبور کر سکتا تھا کہ وہ ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ براہ راست مذاکر ات کریں یا امریکا کے ساتھ براہ راست بات چیت میں کابل کو بھی شامل کیا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنا پاکستان کے بس سے باہر تھا۔اس لئے کہ امریکا اور افغانستان طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت تب ممکن ہوئی جب انھوں نے اپنی پالیسی بدل دی اور طالبان کو کابل کے ساتھ براہ راست بات چیت کی بجائے خود ان کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر راضی ہوئے۔ اگر امریکا طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت پر راضی نہیں ہوتا تو اسلام آباد ہرگز انھیں راضی نہیں کر سکتا اس لئے کہ وہ امریکا کی نہیں مان رہے تھے تو پاکستان کیسے انھیں مجبور کرتا؟ اس طرح جب براہ راست مذاکرات شروع ہوئے تو طالبان کی شرط تھی کہ بات چیت صرف امریکا کے ساتھ ہوگی۔ پاکستان سہولت کار کا کردار ضرور ادا کرتا رہا لیکن براہ راست مذاکرات میں میز پر کبھی بھی فریقین کے ساتھ شامل نہیں رہا۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ ہونے جا رہا تھا اور وہاں کی حکومت کو اس تمام عمل سے باہر رکھا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ قصور کس کا ہے؟اگر جائزہ لیا جائے تو بنیادی قصور ڈاکٹر اشرف غنی کا ہے۔ انھیں چاہئے تھا کہ براہ راست مذاکرات شروع ہوتے وقت امریکا سے مطالبہ کرتے کہ کابل کو شامل کیا جائے اگر وہ راضی نہ ہوتے تو ان سے اس وقت شدید ترین احتجاج کرتے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔اس کے برعکس براہ راست مذاکرات کے دوران وہ امریکا کے ساتھ مکمل تعاون کرتے رہے۔اب جب معاہدہ ہو گیا ہے تو دوسروں پر الزامات کی بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اس کی مکمل پاسدار ی کریں اس لئے کہ مذاکراتی عمل میں ان کی مشاورت شامل رہی ہے۔امن معاہدے کے بعد صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے بیانات نے صلح کی فضا میں ایک مرتبہ پھر ہلچل پیدا کردی ہے۔ اگر ان کے تحفظات ہیں بھی تو براہ راست امریکا سے بات چیت کریں، اس لئے کہ کوئی اور ان کے تحفظات کو دور نہیں کر سکتا۔
امن معاہدہ ہوجانے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تین دن بعد افغانستان طالبان کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ انھوں نے قطر دفتر میں معاہدے پر دستخط کرنے والے ملا عبدالغنی برادر سے آدھے گھنٹے تک گفتگو کی۔ ذرائع ابلاغ میں شائع شدہ خبروں کے مطابق ملاعبدالغنی برادر نے صدر ٹرمپ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ معاہدے کی مکمل پاسداری کریں گے۔
انھوں نے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران امریکی صدر کو یقین دلایا ہے کہ مستقبل میں طالبان ان کے ساتھ مثبت تعلق قائم کریں گے جبکہ ان سے درخواست بھی کی ہے کہ افغانستان کی بحالی میں ان کی مدد کریں۔ اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ نے طالبان کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ آپ سخت لوگ ہیں، غیرملکی فوجیوں کا انخلاء سب کے مفاد میں ہے۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے رابطہ کرکے افغان دھڑوں کے درمیان مذاکرات میں موجود رکاوٹیں دور کریں گے۔‘‘ لیکن اس رابطے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے ساتھ کوئی وعدہ نہیں کیا ہے کہ وہ دس مارچ سے قبل صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو مجبور کریں گے کہ طالبان قیدیوں کو رہا کریں۔
اگر اس طرح کی کوئی یقین دہانی کرائی ہوتی تو لازمی طور پر ٹیلی فونک رابطے کے بعد جاری بیان میں اس کا تذکرہ ضرور کیا جاتا۔ طالبان قیدی رہا نہ کرنے کے بیان پر ابھی تک امریکا نے کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔ صدر ٹرمپ جو ہر معاملے پر بیان دینا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں اس معاملے پر ابھی تک خاموش ہیں۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی کوئی بیان نہیں دیا ہے اور نہ ہی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ابھی تک اس پر کوئی وضاحتی بیان جاری کیا ہے۔
افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کے اس بیان کے بعد طالبان نے فوری طور پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک ان کے قیدی رہا نہیں کئے جاتے وہ بین الافغان مذاکرات میں حصہ نہیں لیں گے۔ طالبان نے اس بیان کے بعد عارضی جنگ بھی ختم کر دی ہے اور انھوں نے افغان ملی اردو (افغانستان کے مسلح افواج ) پر دوبارہ حملوں کی نہ صرف دھمکی دی ہے بلکہ عملی طور پر اپنی کارروائیاں بھی شروع کردی ہے۔
طالبان کی کارروائیوں کے جواب میں امریکا نے بھی ان کے خلاف فضائی کارروائی کی ہے۔ امریکا نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ ایسا اس لئے کر رہے ہیں کہ افغانستان کی فوج کی حفاظت ان کی ذمہ دار ی ہے۔ ان تازہ کارروائیوں سے لگ رہا ہے کہ معاہدے سے ایک ہفتہ قبل جو عبوری جنگ بندی کی گئی تھی وہ ختم ہو گئی ہے۔ دونوں اطراف سے دوبارہ کارروائیاں شروع ہو جانے کے بعد ان سوالات نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے کہ 29 فروری کو ہونے والے امن معاہدے کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس لئے کہ ابھی تو اس معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہے اور فریقین نے خلاف ورزیاں شروع کردی ہے۔
اس طرح یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا امریکا ڈاکٹر اشرف غنی پر دباؤ بڑھائیں گے کہ وہ طالبان قیدیوں کو رہا کریں تا کہ بین الافغان مذاکرات کے لئے راہ ہموار کی جا سکے۔ یہ بھی ایک خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکا اور ڈاکٹر اشرف غنی کی خواہش ہے کہ پہلے مختلف افغان دھڑوں کے ساتھ طالبان کی غیر موجودگی میں بات چیت کریں اور ان کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنے کے بعد طالبان کو بھی شامل کیا جائے لیکن اس تجویز کے بارے میں ابھی تک وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اگر واشنگٹن اور کابل اس طرح کا ارادہ رکھتے ہوں تو پھر ایک طرف بین الافغان مذاکرات طالبان کے بغیر جاری رہیں گے اور دوسری طرف دونوں قوتیں ایک دوسرے کے خلاف میدان جنگ میں نبرد آزما بھی ہوںگے لیکن یہ بھی ایک سوال ہے کہ طالبان بعد میں ان مذاکرات کا حصہ بننے پر تیار ہو جائیں گے جو ان کے بغیر ہو رہے ہوںگے۔
افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے طالبان سے جو مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان سے اپنے تعلقات ختم کر دیں، امریکا اور طالبان نے ابھی تک اس پر بھی کو ئی ردعمل نہیں دیا ہے۔دونوں کی طرف سے کوئی ردعمل نہ دینے کی وجہ سے اسلام آباد بھی شش و پنج کا شکار ہے، اس لئے کہ پاکستان ان مذاکرات میں بنیادی سہولت کار ہے اور مستقبل میں بھی اسلام آباد کا کردار مرکزی ہی ہوگا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ افغانستان کے صدر یہ سب کچھ بھارت کی ہمدردیاں حا صل کرنے کے لئے کر رہے ہیں۔ان کی یہ بھی کوشش ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں تاخیر ہو اور وہ اپنی دوسری مدت پوری کریں ۔ بعدمیں عبوری سیٹ اپ قائم ہو جس میں تمام افغان دھڑوں کی نمائندگی ہو۔
امکان یہی ہے کہ اگر بین الافغان مذاکرات شروع ہو گئے تو فوری طور پر تمام دھڑے کسی حل پر متفق نہیں ہوںگے بلکہ اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ایک خدشہ کہ جس کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر ڈونلڈٹرمپ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو کیا وہ اس معاہدے کی پاسداری کریں گے؟ افغانستان میں قیام امن کے لئے کیا گیا یہ معاہدہ اب بھی خدشات اور شکوک و شبہات کی زد میں ہے۔
اس معاہدے کی کامیابی اور ناکامی کا تمام تر انحصار تینوں فریقین امریکا، افغانستان کی حکومت اور افغانستان طالبان پر ہے۔ اگر تینوں فریقین نیک نیتی کے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہیں تو امن افغانستان کا مستقبل ہے اگر نہیں تو پھر خدشہ ہے کہ خطے میں ایک اور جنگ نہ چھڑ جائے، اس لئے کہ نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں ۔اگر ایک اور جنگ چھڑ گئی تو نہ صرف اس خطے کو اپنے لپیٹ میں لے گی بلکہ پوری دنیا پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوںگے، اس لئے فریقین کو چاہئے کہ وہ تدبر سے کام لیں اور اس خطے کو ایک اور جنگ سے بچائیں ۔
The post افغانستان امن معاہدہ : صدر ڈاکٹر اشرف غنی ناراض کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.