Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

سارے رنگ

$
0
0

کورونا وائرس: ’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔۔۔!‘‘

خانہ پُری
ر ۔ ط ۔ م

’’کورونا وائرس‘ سے زیادہ اسکولوں کی ’’چُھٹی کَروناں‘‘ وائرس ہمیں برباد کر رہا ہے۔‘‘

ثمر بھائی حسب عادت صوفے پر بیٹھنے سے پہلے ہی بولنا شروع ہوگئے۔ ’’ہماری حالت تو یہ ہے کہ کورونا‘ کا انکشاف ہوا تو قوم اس پر لڑتی رہی کہ یہ فلاں ملک سے کیوں آیا اور فلاں ملک سے کیوں نہیں آیا۔۔۔!‘‘ ثمر بھائی نے اپنی روایتی تنقید کا ایک دفتر کھول لیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یار لوگ تو کہہ رہے ہیں کہ ہر طرح کے اجتماع پر پابندی ہونا چاہیے، یہ ٹھیک ہے کہ بچوں میں بے احتیاطی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ابتداً اسکول وغیرہ بند کرنا سمجھ میں آتا تھا، لیکن اب اللہ کا نام لے کر اسکول کھول دینے چاہئیں۔ اگرچہ کورونا کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن یہ سب بیرون ملک سے آنے والے مسافروں میں ہی تشخیص ہوا ہے اور یہ بات اطمینان بخش ہے کہ یہ مرض یہاں دوسروں میں نہیں پھیلا اور یہ بھی اچھی بات ہے کہ ’کورونا‘ کے پہلے مریض صحت یاب ہو کر گھر بھیجے جا چکے ہیں۔

ثمر بھائی نے تو اپنے دل کی ساری بھڑاس نکالتے کے ساتھ ہی چائے کا آخری گھونٹ بھر کر پیالی دھری اور چلتے بنے اور ہم دوبارہ اخبار پر نگاہیں جما کر بیٹھ گئے، جس میں ’کورونا وائرس‘ کی احتیاطی تدابیر لکھی تھیں، کہ:

ہاتھ اچھی طرح دھوئیں… لوگوں سے فاصلہ رکھیں… گلے نہ ملیں… مصافحہ نہ کریں اور منہ ڈھانپ کر رکھیں وغیرہ وغیرہ۔

یہ ساری تجاویز ہم جیسے ’’غیر سماجی‘‘ معاشرے کے لیے کتنی لایعنی ہیں۔۔۔ دیکھیے ناں، ہم اپنی فکری آزادی، سُکھ، چین، استحکام اور امن وامان سمیت نہ جانے کتنی چیزوں سے ہاتھ پہلے ہی دھو چکے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ بہت سے لوگ رفع حاجت کے بعد اتنے خوش ہوتے ہیں کہ نہیں چاہتے کہ اس عمل سے ان کے ہاتھ پر ’نادیدہ‘ جو کچھ لگا ہے وہ اتنے جلدی چھُوٹ جائے، اور انہیں ’اِس‘ سے ہاتھ دھونا پڑیں۔ اس لیے وہ بیت الخلا سے بنا ہاتھ دھوئے ایسے ہنستے گاتے ہوئے نکلتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں، جو ایسے ہاتھ دھوتے ہیں یاتھ پر صابن ملتے ہوئے نل ہی بند کرنا بھولے جاتے ہیں۔۔۔ گویا ہاتھ نہ دھونے والوں کا پانی ضایع کرنا بھی انہی کا ذمہ ہوتا ہے۔۔۔۔ رہی بات ہاتھ دھو کر پیچھے پڑنے کی تو ان گنت لایعنی باتوں پر ہمارا یہ رویہ اب ہمارا تشخص بن چکا ہے۔

دوسری احتیاط ’لوگوں سے فاصلہ رکھیں‘ پر بھی ہم پہلے سے عمل پیرا ہیں۔۔۔ اللہ گواہ ہے کہ بنا کسی ضرورت یا کام کے ہم کسی کو اپنے قریب ہی نہیں آنے دیتے۔۔۔ اب بس یہ کرنا ہوگا، ہم اپنے سے ’بڑے لوگ‘ جن سے ہم فاصلہ گھٹانا چاہتے ہیں، کچھ احتیاط کر لیں گے۔۔۔ اور چھوٹے لوگوں کی کیا مجال ہے کہ خواب وخیال میں بھی ہمارے قریب پھٹکیں!

’گلے نہ ملیں‘ والی احتیاط کو یہ لکھنا چاہیے تھا کہ ’اپنوں کا گلا دبانے کے لیے گلے ملنے کے بہ جائے ’متبادل‘ طریقے ڈھونڈیے، تاوقتے کہ ’کورونا وائرس‘ کا خوف چَھٹ جائے۔‘ اس کے ذیل میں یا اسی کے آگے قوسین میں یہ لکھنا بھی مناسب رہتا کہ ’کسی کے گلے نہ پڑیے!‘ یہ عادت تو واقعی کورونا کا خطرہ نہ ہو، تب بھی کوئی اچھی نہیں ہے۔

’مصافحہ نہ کریں!‘ یہ وہ احتیاط ہے جسے لکھنے والے نے اس لیے ضروری سمجھا کہ اگر لوگوں سے فاصلہ رکھنے سے باز نہ رہ سکے، تو کم سے اُن سے ہاتھ ملانے سے تو دور رہو!، جیسے گذشتہ دنوں برلن میں جرمن وزیرخارجہ ہورشت زیہوفر نے اپنے ملک کی چانسلر انجیلا مرکل سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا کہ ’کہیں کورونا نہ ہو جائے!‘ اور پھر یہ تصویر اگلے روز اخبارات کی زینت بنی۔ اپنے ہاں کے احمد فراز تو پہلے ہی شاعری شاعری میں یہ نکتے کی بات کہہ گئے تھے کہ ’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔۔۔!‘ ان ’جرمنوں‘ کو اب جا کے یہ بات سمجھ میں آئی ہے۔۔۔!

رہی بات منہ ڈھانپنے کی تو بہت سے پیسے کھانے والے لوگ منہ چھپائے پھرتے ہیں، گویا انہیں بھی پتا ہوتا ہے کہ وہ اب سماج میں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔ البتہ ’کورونا‘ وائرس سے حفاظت کی ایک اور تازہ احتیاط یہ سامنے آئی ہے کہ ہر شخص دوسرے سے کم سے کم ایک میٹر کا فاصلہ ضرور رکھے۔۔۔ لیکن وہ جو کراچی جیسے گنجان شہر میں ایک ایک کمرے کے گھر میں سات، سات افراد رہتے ہیں، وہ ’فاصلے‘ بڑھانے پر آئے تو گھر میں تو صرف دو تین بندے ہی رہ سکیں گے، ویسے ہی ’عدالتی کدال‘ سے کراچی میں ’تجاوزات‘ اور ’غیرقانونی‘ کے نام پر گھروں کی ’’توڑ پھوڑ کرونا‘‘ وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس وائرس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ صرف عام آدمی کو گھروں سے نکال نکال کر سڑک پر لا رہا ہے۔۔۔ جب کہ یہ تعمیرات کرنے والے اؒصل ’تخریب کار‘ (المعروف معمار)، رشوت خور سرکاری افسران اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سے لے کر مختلف سیاسی جماعتوں کے بھتا خوروں کی طرف تو دیکھتا بھی نہیں۔۔۔ بلکہ ایک آنکھ میچ کے ’خلق خدا‘ کی بے بسی اور رسوائی سے لطف لیتا ہے!

سرکاری طور پر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ’ڈینگی‘ بخار کے لیے زیادہ تر ہم سردیوں کی آمد کا انتظار کیا کرتے تھے کہ ڈینگی پھیلانے والا مچھر ’’خود‘‘ ہی ٹھنڈ سے مر جائے گا۔ ایسے ہی ’کورونا‘ سے بھی یہ امید لگائی جا رہی ہے کہ اس کا وائرس ہمارے دیش کی پگھلا دینے والی گرمی کی تاب نہ لاسکے گا اور پھر ہم خم ٹھونک کر کہیں گے دیکھا۔۔۔ کیسے بھگایا! اللہ کرے بالکل ایسا ہی ہو اور ہمارے شہر اور ملک سمیت پوری دنیا کو جلد ہی سے اس موذی وبا سے نجات مل جائے۔

۔۔۔

آدمی سے ڈرتے ہو؟ آدمی تو تم بھی ہو۔۔۔
محمد علم اللہ، نئی دلّی

شہر میں ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑے تھے، چار دن تک بلوہ ہوتا رہا۔۔۔ درجنوں لوگ جان سے گئے، بیسیوں لاپتا اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اب قدرے سکون تھا، مگر ہر نفس دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا، بالخصوص ’اجنبی‘ کو کڑی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ فضا میں زہر اتنا گھول دیا گیا تھا کہ آدمی کو اپنے سائے سے بھی خوف محسوس ہوتا۔

انہی حالات میں ایک رات میرا دوست بیمار پڑگیا، میرے پاس اس کے گھر سے فون آیا کہ اسپتال پہنچیے، جلدی جلدی پہنچا، تو معلوم ہوا کہ بلڈ پریشر بڑھ گیا تھا اور کوئی پریشانی والی بات نہیں، اور اسے معمولی طبی امداد کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔ اب رات کافی ہو چکی تھی، نصف رات تک کھلی رہنے والی دکانیں بھی بند ہو چکی تھیں۔۔۔

جاتی ہوئی سردی کی خنک ہوا میں قریبی پیڑوں کے پتوں کی سرسراہٹ بتا رہی تھی کہ شہر اس وقت کس قدر سکوت میں ہے۔ کہیں دور سے کچھ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ماحول کی پراسراریت بڑھا رہی تھیں، اسپتال میں آنے والے کسی مریض کی گاڑی کی آواز کبھی اس سناٹے میں نقب لگاتی، تو کبھی برق رفتاری سے ’زووں‘ کر کے کوئی گاڑی یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں جاتی، پھر وہی سناٹا راج کرتا۔۔۔ اگر یہ عام ماحول کی کوئی رات ہوتی تو شاید یہ خاموشی اتنی محسوس بھی نہ ہوتی، لیکن اب ماحول اور تھا، سچی بات ہے کہ اس خالی سڑک پر اکیلا میں بہت خوف زدہ تھا، کیوں کہ کوئی رکشے والا جانے کی ہامی بھی نہ بھرتا تھا، میں منہ مانگا کرایہ دینے کی بات کر کے انہیں منانے کی کوشش کرتا، مگر بے سود۔

میں ابھی پیدل ہی نکلنے کا سوچ رہا تھا کہ ایک دم سامنے ایک سیاہ گاڑی آ کر رکی۔

’’کہاں جائیے گا؟‘‘ اس نے شیشہ نیچے کر کے مجھ سے پوچھا، تو میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ اُسے اپنا پتا بتا دیا۔ شاید خوف ایسا تھا کہ میں جلدی میں یہ فیصلہ ہی نہ کرپایا کہ اسے پتا بتاؤں بھی یا نہیں۔

’’بیٹھ جائیے۔۔۔‘‘ اس نے آہستگی سے کہتے ہوئے میرے لیے پچھلا دروازے کا لاک کھول دیا۔

کہنے کو میں گاڑی میں بیٹھ گیا تھا، لیکن ذہن میں عجیب وغریب واہمے اور ہول اٹھنے لگے کہ نہ جانے یہ مجھے کہاں لے جائے۔۔۔ دفعتاً میرے ذہن میں بلوے کے دوران اغوا ہونے والوں کے قصے گردش کرنے لگے۔۔۔ مارے خوف کے میرا حلق خشک ہو گیا۔ اگر اس نے کچھ بد معاشی کی تو میں کس طرح اپنا بچاؤ کر سکتا ہوں؟ اس نے اگر گاڑی کسی اجنبی راستے کی طرف موڑی، تو میں چلتی گاڑی سے کس طرح اتر سکتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔

’’جناب! شاید آپ کو یہیں اترنا تھا۔‘‘ اس نے ’عقبی شیشے‘ سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا تو میں ہڑبڑا گیا۔

میں نے سوچا حالات اچھے نہیں ہیں، میں اسے یہ نہیں بتاؤں گا کہ میں مسلمان ہوں۔ اترتے ہوئے میں نے اس سے ہاتھ ملایا اور اپنا نام بتایا سنتوش اس نے مسکراتے ہوئے کہا ’میں سعد!‘ مصافحہ کرتے ہوئے اس نے گاڑی کی بتی جلائی، تو میں نے دیکھا کہ ونڈ اسکرین کے اندرونی حصے پر ’اوم‘ لکھا ہوا تھا۔

۔۔۔

کراچی کی ایک گلی کامنظر!

سلیمان شاہ

شہر کی ایک مصروف کاروباری گلی۔ چارہا جانب دکانیں۔ دکانوں سے نکلتا، حدود سے تجاوز کرتا سامان تجارت۔ قدم رکھنے کی جگہ نہیں۔ ایک گدھا گاڑی بیچ گلی میں سامان سے لدی راستہ دیکھنے کی تگ و دو میں۔

ایک رکشے والا جانے کہاں سے نکل کر آ کھڑا ہوا تھا۔ ایک بوڑھا ہتھ گاڑی لیے تھکا تھکا سا نظر آیا۔ گدھا گاڑی والا رکشے والے کو کوس رہا تھا۔ رکشے والا دکان داروں کو قابض قرار دے رہا تھا۔ بوڑھا حکومتی مشینری کو موردِ الزام ٹھیرا رہا تھا۔

پیدل چلنے والے اس انتظار میں کہ کب راستہ بنے اور وہ چلتے بنیں۔ دکان داد بے نیاز ہوکر گاہکوں سے بھاؤ تاؤ میں مصروف تھے۔ ایسے میں ایک پستہ قامت آدمی بھاگتا ہوا آیا اور چیخا

’’کے ایم سے افسران آرہے ہیں۔۔۔‘‘

دکان داروں نے گھبرا کر گاہکوں کو چھوڑا اور سامان اندر کرنے لگے۔ کچھ ’سیل مین‘ مالکوں سے ڈانٹ سنتے ہوئے اَدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔ رکشے ولا بھی جانے کہاں غائب ہوگیا۔ گدھا گاڑی عقبی گلی میں مڑتی ہوئی نظر آئی۔

بوڑھا ہتھ گاڑی لیے خراماں خراماں فٹ پاتھ کے ساتھ چلنے لگا۔ پیدل چلنے والے شکر ادا کرنے لگے۔ چند لمحوں میں تنگ گلی دور تک وسیع اور کشادہ نظر آنے لگی۔ ’کے ایم سی‘ افسران نے اپنے کارکردگی پر گلی میں فوٹو کھینچوائے اور گاڑیوں میں چلتے بنے۔

گلی آہستہ آہستہ پھر تنگ ہونے لگی!

۔۔۔

علی گڑھ والی پھپھو۔۔۔
سہیل اختر

وہ ہمارے بچپن میں گھر آئیں، اور ’رقیہ پھپھو‘ کہلائیں، وہ اب ’علی گڑھ‘ کی یادیں سمیٹتے سمیٹتے ایک بڑی عمر کی خاتون میں ڈھل چکی ہیں۔ سارا گھر سنبھالا ہوا ہے۔ ناشتے، کھانے سے لے کر سبکی آمدورفت اور ان کے جملہ مسائل اور سرگرمیوں تک انہیں سب خبر ہوتی۔ رسم و رواج کی بات ہو یا بیاہ شادی کی ’رقیہ پھپھو‘ تو یہاں بھی پیش پیش۔ رقیہ پھپھو کے بارے میں میں جو بھی معلومات ہیں، وہ سنی سنائی ہیں اور بس۔ جب رقیہ پھپھو آئی تھیں، تو ان کے شوہر بھی ساتھ تھے، تب رقیہ 18،  20سال کی ہوں گی۔ اللہ بخشے، امیّ نے نجانے اسے کہاں سے ڈھونڈ لیا؟ تب سے وہ اور اس کا شوہر ہمارے ہاں ملازم ہوگئے تھے۔

مجھے آج بھی یاد ہے جب رقیہ کا میاں گزرا، تو میں گلی میں کھیل رہا تھا، یہ بات ہمارے گھر میں ان کے آنے کے دس ایک برس کے بعد کی ہے۔ امی کا رقیہ کا ساتھ ایسا بیٹھا کہ پھر کبھی نہ چھُوٹا، برسوں پہلے امی گزر گئیں، میری شادی ہوئی، بچے ہوگئے، مگر رقیہ موجود رہیں، ہاں اتنا ہوا رقیہ، رقیہ نہ رہی سب کی رقیہ پھپھو بن گئیں۔ شخصیت میں وقار آگیا، میرے بچے بیاہ کر ملک سے باہر بس گئے، تو پورا گھر رقیہ پھپھو کے سپرد ہوگیا۔

ایک دفعہ یوں ہوا کسی محفل میں میں کہہ بیٹھا یہ ہماری پھپھو نہیں، بلکہ مارے ہاں کام کرتی ہیں! ارے بس پھر نہ پوچھیے، کیا ہوا۔۔۔ رو رو کر رقیہ پھپھو نے آنکھیں سُجالیں، امی جان سے بار بار دہائی دیتیں، دیکھیے بی جان! چھوٹے میاں صاحب نے کیا کر دیا، بہ مشکل معاملہ رفع دفع کرایا گیا۔ رقیہ پھپھو آج بھی ہمارے گھر کی رونق ہیں۔ ہم بھی ان کی قدر کرتے ہیں اور وہ بھی ہمارا دَم بھرتی ہیں۔۔۔ خون کا رشتہ نہ ہو کر بھی یہ رشتہ کتنا اَن مول ہے، سب سے بڑھ کر ہم اُن کے زیر سایہ ان کی قدر ومنزلت سے واقف ہیں، لیکن ہم اکثر رشتے کھو دینے کے بعد قدر کرتے ہیں، جس کا پھر کوئی فائدہ نہیں رہتا۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>