اِبلاغیات میں جہاں الفاظ بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، وہیں تصاویر بھی بہت سے لمحوں کو ساکت کر کے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیتی ہیں۔۔۔ بہت سے لمحے ہمارے لیے یادگار ٹھیرتے ہیں، تو بہت سے ٹھیر کر زمانے کی تاریخ بن جاتے ہیں۔ عام طور پر تو ہم یہ کہہ لیں کہ وہ منظر جو ہم نہ دیکھ سکے، وہ تصاویر کے ذریعے دیکھ لیتے ہیں۔۔۔ چاہے ’منظر‘ سے ہماری یہ دوری زمانی ہو یا مکانی، تصویر اس کا کافی حد تک ازالہ کر سکتی ہے۔۔۔ لیکن ’تصویر کشی‘ اپنے وجود میں ایک مکمل اور نہایت دل چسپ فن ہے۔۔۔ اِس میں جہاں ’سیکنڈ‘ کے ہزارویں حصے میں بپا ہونے والے کسی اہم منظر کا ٹھیر جانا اہمیت رکھتا ہے، وہیں روشنی کی کمی وبیشی اور آڑھا ترچھا ہونے سے لے کر کیمرے کا ’زاویے‘ بھی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جس کے کمال سے ایسے شان دار منظر محفوظ ہو جاتے ہیں کہ پھر انہیں دیکھنے والے اَش اَش کر اٹھتے ہیں۔۔۔ پھر چاہے مناظر ہمارے بار بار کے دیکھے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں، انہیں کیمرے کی آنکھ میں قید کرنے والا ’تصویر کَش‘ ان مناظر کو اپنی ’کاری گری‘ سے ایک نئی انفرادیت پر فائز کر دیتا ہے۔۔۔
’اِبلاغیات‘ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ تمام باتیں ہمارے ذہن میں تھیں، اور کلفٹن، کراچی میں واقع ’فرانسیسی کلچرل سینٹر‘ (آلیانس فرانسز) میں ہماری ملاقات فوٹوگرافی کے ایک سینئر استاد رحمت اللہ خان سے ہوئی۔۔۔ جس میں ہم نے فوٹوگرافی کی اہمیت اور اس سے جڑی ہوئی بہت سی باتوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ ہماری ایک گھنٹے کی ملاقات میں ہمارے سوالات پر ’مہمان‘ تین، چار مرتبہ کچھ معترض سے بھی ہوئے۔۔۔ بہرحال، یہ سب معلومات ہماری بیٹھک کا حصہ ہوگئیں۔۔۔ ہم نے اپنی گفتگو کا آغاز ’پرنٹ‘ اور ’ڈیجیٹل‘ تصویر کے حوالے سے کیا، وہ کہتے ہیں کہ ’اسکرین پر تصویر دیکھنا اور کسی کو بھیجنا آسان ہو گیا ہے۔ ہم نے استفسار کیا کہ ’اس کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں؟‘ تو وہ بولے کہ فیزیکلی تو بہت فرق ہے، لیکن اس سے ترسیل بہت آسان ہوگئی ہے، یہاں بیٹھے بیٹھے امریکا بھیج دی اور وہاں پرنٹ کیا اور لگا دیا گیا۔‘
’تو گویا پرنٹ تو لیا گیا؟‘ ہم نے پوچھا، تو وہ بولے کہ نمائش کے لیے تو ’پرنٹ‘ لینا پڑے گا، لوگ کہتے ہیں کہ ’فوٹوگرافک فلم‘ ختم ہوگئی، لیکن آرٹ فوٹوگرافر ’فلم‘ پر ہی کام کر رہا ہے، یہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ دنیا میں ہر طرح کی مشینیں آئیں، کیمرا بھی ایک الیکٹرانک مشین ہے، لیکن ’ہیومن فیکٹر‘ ہمیشہ اہم رہے گا۔ آج بھی بہت سی چیزوں پر ’دست کاری‘ یا ’ہاتھ سے تیار کردہ‘ اسی لیے لکھا جاتا ہے کہ اس کی اہمیت برقرار ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ آپ فوٹو گرافی کو بہت محدود کر رہے ہیں، آج کل کے دور میں فوٹوگرافی پرنٹنگ کی محتاج نہیں، نہ پہلے کبھی تھی۔ ’پرنٹ میڈیا‘ پر ضرور فرق پڑا ہے، لیکن فوٹوگرافی کی پرنٹنگ پر ایسا کوئی اثر نہیں پڑا!
’تصویر کی ’طبعی شکل‘ کو ’ڈیجیٹل‘ پر برتری حاصل ہے؟‘
وہ کہتے ہیں کہ ’نمائش‘ تو ’پرنٹ‘ کی شکل میں ہی ہوگی اور تصویر اسکرین پر بھی وہی تاثر دے گی، جو پرنٹ میں دے گی۔ ’مطبوعہ ذرایع اِبلاغ‘ کی وسعت کے مقابلے میں ’برقی ذرایع اِبلاغ‘ کی محدود ’اسکرین‘ کا ذکر ہوا، تو وہ بولے کہ آج کل ’ایس ایم ڈی‘ آگئی ہے، جتنی بڑی اسکرین چاہیں لگالیں۔ ہم نے کہا، لیکن وہ ہر ایک کے پاس تو نہیں؟ اخبار میں تو ہم کسی بھی تصویر کو جتنا چاہے بڑا کر سکتے ہیں، لیکن ’اسکرین‘ پر ایک مخصوص چوکھٹے کے قیدی ہیں؟‘
رحمت اللہ خان کا کہنا تھا کہ سائز کے باوجود تصویر کے تاثر میں فرق نہیں پڑے گا، بلکہ ’الیکٹرانک‘ زیادہ طاقت وَر ذریعہ ہے، کیوں کہ لوگوں کی ’پرنٹ میڈیا‘ سے زیادہ ’الیکٹرانک‘ ذرایع تک رسائی ہے۔ یہ بھول جائیے کہ فوٹوگرافی کے تاثر پر کوئی فرق پڑے گا۔ چاہے کسی بھی ذریعے سے دیکھیے، یہ بصری زبان ہے، اسی طرح ہر جگہ سمجھی جاتی رہے گی۔
تصویر کشی میں جدید تبدیلیوں سے متعلق ہمارے سوال پر وہ کہتے ہیں کہ ’اس میں دو تین چیزیں شامل ہوئی ہیں، بالخصوص اب ہر چھوٹے اور ’موبائل فون کیمرے‘ سے بھی ’فوٹوگرافی‘ اور ’ویڈیو گرافی‘ شروع ہوگئی ہے۔ دنیا میں بہت سارے لوگ کسی حد تک پروفیشنل کام اب ’سیل فون‘ سے کر رہے ہیں۔
ہم نے پوچھا ’کیا ’سیل فون‘ عام کیمرے کا نعم البدل ہے؟‘ وہ بولے کہ کافی حد تک ہے، اصل میں یہ ابھی اتنا بہترین استعمال نہیں ہو رہا۔ 2004ء میں بحرہند کے سمندری طوفان ’سونامی‘ کی تباہ کاری موبائل کیمرے کی ویڈیو میں محفوظ ہوئی، جو ’سی این این‘ پر بھی نشر ہوئی، جس کے بعد اس طرف رجحان بڑھا، اب کیمروں کی بڑی کمپنیاں اپنے عدسے (لینس) سیل فون کے لیے فراہم کر رہی ہیں، کچھ عدسے اس کے علاوہ بھی لگائے جاتے ہیں۔
رحمت اللہ خان کہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے تمام آرکیولوجیکل فوٹو گرافی کی ہے۔ آرکیالوجی میں تو ’گلیمر‘ نہیں ہوگا، نئی نسل کو فیشن فوٹوگرافی اور ’ماڈلنگ‘ چاہیے، کیوں کہ وہ شہرت اور ’گلیمر‘ میں بہت دل چسپی لیتے ہیں۔
فوٹوگرافی میں ’گلیمر‘ کا پوچھا گیا، تو وہ بولے کہ جہاں خاتون شامل ہو جائے! ہم نے کہا کہ کیا بس یہی تعریف ہے؟ وہ بولے ہمارے ملک میں تو یہی ہے۔ ہم نے رحمت اللہ خان کے سامنے ’ویڈیو‘ کی ’فوٹو گرافی‘ پر برتری کا سوال رکھا، تو وہ بولے ’میں موازنے میں نہیں جانا چاہتا، چھوٹی چھوٹی ویڈیو زیادہ چل رہی ہیں، لیکن ’اِسٹل‘ تصویر کا اپنا مزا ہے، وہ ہمیشہ رہے گا۔۔۔! ویڈیو دیکھنے کے لیے ہمیں کوئی آلہ چاہیے، ٹھیری ہوئی تصویر دیکھنے کے لیے ہمیشہ آلہ درکار نہیں۔ اگر ایک چَھپی ہوئی ’البم‘ 10منٹ میں دیکھ لی جائے، تو اس کی ویڈیو کم سے کم آدھے گھنٹے کی ہوگی۔۔۔ ’البم‘ میں وقت کی بچت ہے۔ فوٹوگرافی دراصل ایمجینگ کی ماں ہے، پہلے ’سنگل فریم‘ بنا، پھر ’ملٹی پل فریمنگ‘ ہوئی، بنیادی طور پر سب کیمرے ہی ’اِسٹل‘ ہیں۔ یہ تو ایڈیسن کی مہربانی ہے کہ اس نے ’موشن پکچر‘ کیمرا بنایا اور اب ’ڈیجیٹل فوٹوگرافی‘ کے بعد ’سینماگراف‘ آرہا ہے، اس کا پروٹو ٹائپ بھی بن گیا ہے، جس میں براہ راست تصویر آئے گی۔‘
’الیکٹرانک میڈیا‘ میں تصویر کے بہ جائے ’ویڈیو‘ کی کھپت کا ذکر کیا، تو اُن کا کہنا تھا کہ ’ویڈیو بھی دراصل ’تصویر‘ ہی ہے، اسے الگ نہ کریں۔‘
’کیا آج بھی یہ بات درست ہے کہ ’ایک تصویر ایک ہزار الفاظ پر بھاری ہے؟‘
ہم نے ’ایم اے‘ کے زمانے میں پڑھا ہوا ایک مشہور مقولہ سوال بنایا، تو وہ بولے کہ ’آج کی تصویر ایک لاکھ الفاظ پر بھاری ہے۔۔۔! اس میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے انکشافات اور کارروائیاں تصاویر پر ہوئیں۔ وہ ’بلیک اینڈ وائٹ‘ کو حقیقی فوٹوگرافی قرار دیتے ہیں۔ ہم نے کہا جو چیز نیلی ہے وہ نیلی دکھائی دے اور جو جامنی ہے وہ جامنی دکھائی دے، تو کیا یہ حقیقت سے قریب تر نہ ہوئی؟‘
ہمارے سوال پر وہ اپنا موقف دُہراتے ہیں کہ حقیقتاً فوٹوگرافی تو بلیک اینڈ وائٹ ہی ہے، انسانی آنکھ تین رنگ سرخ، نیلا اور سبز ہی دیکھ سکتی ہے، اِن تینوں کو برابر ملایا جائے، تو سفید روشنی بنتی ہے۔ فوٹوگرافی بھی 1826ء میں بلیک اینڈ وائٹ آئی، پھر 1861ء میں رنگین ہوئی۔ ان رنگوں کو حقیقی نہیں کہتے، حقیقی تو یہ ہے کہ آپ انہیں کتنا اچھا دکھا سکتے ہیں۔۔۔ اس میں رنگ آنا ضرور نہیں۔ دنیا کی بڑی طاقت وَر تصاویر ’بلیک اینڈ وائٹ‘ ہیں۔‘ ہم نے پوچھا کہ آج کی دنیا میں رنگین تصویر جو تاثر دیتی ہے، کیا ایک ’بلیک اینڈ وائٹ‘ تصویر سے ہم وہ تاثر لے سکتے ہیں؟ وہ اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بلیک اینڈ وائٹ‘ تصویر کا اپنا ایک چارم Charm ہوتا ہے۔‘
رحمت اللہ خان نے اپنی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ وہ 25 اکتوبر 1962ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، 1977-78ء میں میٹرک کیا، تب پاکستان میں فوٹوگرافی کہیں نہیں پڑھائی جاتی تھی، ایک امریکی یونیورسٹی نے داخلہ بھی بھیج دیا، لیکن وہ نہ جا سکے، پھر سندھ یونیورسٹی سے مارکیٹنگ میں ’ایم بی اے‘ کیا اور 10 برس ’کمپیوٹر فرم‘ میں مارکیٹنگ کے شعبے سے منسلک رہے، کہتے ہیں کہ اس وقت ’کمپیوٹر‘ بیچنا بہت دشوار تھا۔ آٹھ سال کی عمر سے فوٹوگرافی کر رہا ہوں۔ بڑے بھائی فوٹوگرافی کا شوق رکھتے تھے، میں ان کے جس کیمرے سے تصاویر کھینچتا تھا، وہ میرے پاس محفوظ ہے۔ 1991ء سے فوٹوگرافی پڑھانا شروع کی اور 1994ء میں ’مارکیٹنگ‘ کی ملازمت چھوڑ کر مکمل طور پر تدریس پر مرکوز ہوگئے۔ فوٹو جرنلزم سے بھی منسلک رہے اور فیشن فوٹوگرافی بھی کی۔ کہتے ہیں کہ ’بلیک اینڈ وائٹ‘ تصاویر میرا خاص موضوع ہے، ایک دو شادی کی تقاریب میں ’بلیک اینڈ وائٹ‘ فوٹو گرافی کی مانگ کی، شادی کی تقاریب میں وقت بہت لگتا ہے، اس لیے جان چھڑانے کے لیے انہیں بہت زیادہ پیسے بتائے، لیکن انہوں نے ہامی بھر لی!
رحمت صاحب شہر کی مختلف جامعات میں فوٹو گرافی، فلم اور ٹی وی پروڈکشن پڑھاتے رہے، تاہم اپنے ’پی ایچ ڈی‘ کی طرف متوجہ ہونے کے سبب گزشتہ ڈیڑھ سال سے ’آلیانس فرانسز‘ اور ’پی اے سی سی‘ (پاک امریکن کلچرل سینٹر) تک محدود ہیں۔ وہ ’آلیانس فرانسز‘ میں پروفیسر فوٹو گرافی ہیں۔ وہ فوٹو گرافی کو مذہب کی طرح سمجھتے ہیں۔ ایک ماہ نامے میں فوٹوگرافی پر لکھتے رہے ہیں، مجموعی طور پر ڈیڑھ، دو سو کے قریب مضامین لکھ چکے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں ’ماڈلنگ‘ بھی سکھاتا تھا، لیکن اب خود کو آرکیالوجی، ہیریٹیج اور کلچر کے لیے وقف کر دیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’آلیانس فرانسز‘ میں پاکستان میں فوٹوگرافی کا پہلا بین الاقوامی تسلیم شدہ ڈپلوما شروع کیا، اس کے علاوہ ’بنیادی فوٹو گرافی‘ ’بلیک اینڈ وائٹ ڈیولپنگ فلم‘ اور ’ویڈیو پروڈکشن اور فلم ڈاکیو منٹری‘ وغیرہ پر بھی کورس کراتے ہیں۔
چینی ثقافت سے خصوصی دل چسپی کا ماجرا سناتے ہوئے رحمت اللہ کہتے ہیں کہ ’مارکیٹنگ‘ کی ملازمت کے دوران ہانگ کانگ گئے، جہاں سے چینی ثقافت سے عشق شروع ہوا۔ پھر کئی بار چین گئے اور چینی صوبہ ’سینکیانگ‘ پر کام کیا۔ ان تصاویر کی چار پانچ نمائشیں بھی ہوئیں۔ مجھے پاکستان میں ’چائنا مین‘ کہا جاتا، اب بھی لوگ کہتے ہیں کہ تم نے ’فرنچ کلچرل سینٹر‘ میں ’چینی مرکز‘ بنایا ہوا ہے۔ چین پر ایک کتاب بھی شایع ہوتے ہوتے رہ گئی، ہوا یوں کہ اس کتاب کی تصاویر کا چینی زبان میں کیپشن لکھنے والے صاحب انتقال کر گئے، وہ کتاب کا بہ یک وقت انگریزی اور چینی ایڈیشن لانا چاہتے تھے، اس لیے اشاعت نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ ’موئن جو داڑو‘ اور ’رنی کوٹ‘ اور آرکیالوجی اور ہیریٹیج وغیرہ کے کام کو بھی شایع کرانا چاہتے ہیں۔
رحمت اللہ خان اِن دنوں ڈنمارک کی ایک جامعہ سے فوٹو گرافی پر ’پی ایچ ڈی‘ کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ وقت طلب کام ہے۔ ہفتے کی صبح سے اتوار کی شام تک ’آلیانس فرانسز‘ میں رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ میرا دوسرا نہیں بلکہ پہلا گھر ہے۔ 2010ء میں شادی ہوئی، کوئی مجھ سے بچوں کا پوچھے، تو میں کہتا ہوں کہ چھے ہزار کتابیں ہیں۔ جن کے موضوعات فوٹوگرافی، فلم پروڈکشن، ٹی وی پروڈکشن اور تاریخ وغیرہ ہیں۔
ایوارڈز کا ذکر ہوا تو وہ بولے کہ اکثر مقابلوں میں، مجھے ہی ’جیوری‘ میں بٹھا دیا جاتا ہے، اس لیے ایسا کوئی ایوارڈ کوئی نہیںِ ملا، البتہ یادگاری شیلڈ بے شمار ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میرا موضوع ’آرکیالوجی اور ہیریٹج‘ ہے، اس کی نمائشیں تو ہوتی ہیں، لیکن مقابلے نہیں ہوتے۔
رحمت اللہ نے بتایا کہ ’جیوپولیٹکس اینڈ ہسٹری آف سینٹرل ایشیا اینڈ سلک روڈ‘ پر اُن کی خاص دل چسپی ہے، وہ اس پر لیکچر بھی دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایشیا میں یہی خطہ کام کا ہے۔ عربوں نے کچھ ایجاد نہیں کیا، ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی صرف چارپائی ایجاد کی، یہاں بھی پرانے لوگوں نے جو کچھ ایجاد کیا ہے، تو اس کا بنیادی تعلق وسطی ایشیا سے ہی بنتا ہے۔
تصاویر میں ’ایڈیٹنگ‘ کا معاملہ
’تصویر میں تدوین (ایڈیٹنگ) کتنا ضروری ہے؟‘ ہمارے اس سوال پر وہ کہتے ہیںکہ یہاں ’ایڈیٹنگ‘ کے تصور کو لوگ غلط سمجھتے ہیں۔ ہم پہلے ’فوٹوگرافک فلم‘ استعمال کرتے تھے، اس کا ’نیگیٹو‘ اور پھر ’پوزیٹو‘ بناتے تھے، اب ایسا نہیں ہوتا، اب ہم ان تصویروں کا ’کنٹراسٹ‘ اور ’سائز‘ بنانا پڑتا ہے۔
’کیا ’ایڈیٹنگ‘ اُس ہی کو کرنا چاہیے جس نے تصویر لی کھینچی ہو؟‘ وہ بولے ضروری نہیں ہے۔
کیا ’ایڈیٹنگ‘ سے تصویر کی سچائی اور حقیقت پر فرق پڑتا ہے؟ اس استفسار پر وہ کہتے ہیں ’اگ
ر آپ زیادہ کریں، تو تھوڑا بہت پڑتا ہے۔ آپ تصویر میں ’فوٹو ایڈیٹنگ‘ کر سکتے ہیں، لیکن ’گراف
کلی ورک‘ نہیں کر سکتے!‘
’تصویر میں وہ اثرات (ایفیکٹس) ایسے تاثر دیں، جو وہاں ہوں نہیں، جیسے کیمرا کسی جگہ رنگوں کو زیادہ چمکتا ہوا دکھا دیتا ہے، تو کیا یہ تصویر حقیقت سے قریب تر ہوگی؟ کہتے ہیں کہ ’بالکل ہوگا، دراصل ’ایڈیٹنگ‘ کی ضرورت خراب تصویر میں پڑتی ہے۔‘
اسے حقیقت سے متصادم نہیں سمجھیں گے؟ ہم نے پوچھا، تو وہ بولے کہ نہیں، دو تصویروں میں ’زاویوں‘ اور ’کنٹراس‘ کی وجہ سے فرق ہوتا ہے۔ ’ریئل کلر‘ کے حوالے سے رحمت صاحب کہتے ہیں کہ ’ریئل کلر‘ کچھ بھی نہیں ہوتا، جو دکھا رہے ہیں وہ ریئل ہوگا۔ ہم نے کہا ’اور جو وہاں دکھائی دے رہا ہے وہ ریئل نہیں؟‘ تو وہ بولے کہ جو ہے وہ تو ہوگا، ہم اسے تبدیل نہیں کر رہے، اس کے رنگ کے ’درجے‘ کو اوپر نیچے کر رہے ہیں۔ جیسے ایک رنگ کو آپ ’کالا‘ کہیں گے، لیکن میرے لیے گرے ہے، اب آپ اسے ’گِرے‘ دیکھنا چاہتے ہیں یا ’بلیک‘؟ یہ بطور فوٹو گرافر آپ پر منحصر ہے۔ میں اِسے ہلکا کردوں گا، تو گِرے اور گہرا کر دوں گا، تو ’سیاہ‘ دکھائی دے گا۔
پہلے تصویرکھینچیں یا جان بچائیں۔۔۔؟
ہمارے سوالات کے ’پلندے‘ میں ایک اہم سوال فوٹوگرافی کی اخلاقیات کے حوالے سے بھی تھا، وہ بولے کہ فوٹوگرافی کا ہمیشہ مثبت استعمال کرنا چاہیے، کسی کو بلیک میل وغیرہ نہ کریں۔ ہم نے کہا کبھی موقع ایسا ہوتا ہے کہ تصویر لینے کے ساتھ اس وقت آپ کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔۔۔ جیسے آپ کا پانی ڈال دینا، پانی پلانا یا روک دینا وغیرہ، لیکن آپ اس کے بہ جائے تصویر لے لیتے ہیں۔۔۔۔ جیسے ’کیون کارٹر‘ (Kevin carter) کی 1993ء میں افریقا میں قحط کے زمانے میں دم توڑنے والے بچے کے انتظار میں موجود گِدھ کی مشہور (’پولیٔٹزر‘ ایوارڈ یافتہ) تصویر تھی، ہمارے سامنے بھی ایسے موقعے آسکتے ہیں کہ جیسے کوئی خود کُشی کر رہا ہے، تو آپ اسے روکیں یا اس کی مرتے ہوئے تصویر بنائیں؟ اس پر وہ کہتے ہیںکہ ’تصویر کھینچنے والے کی ذمہ داری ہے کہ پہلے تصویر کھینچے۔۔۔ پہلے اُسے اپنا کام کرنا ہے۔‘
ہم نے کہا کہ فوٹو گرافر پہلے انسان بھی تو ہے؟ تو وہ بولے کہ ’اس کو بچانے والے اور بہت سارے ہیں، ضروری نہیں ہے، وہی کرے۔‘ ہم نے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے اس کے سوا اور کوئی قریب نہ ہو؟‘ وہ کہتے ہیں کہ نہیں، اسے پہلے تصویر لینا چاہیے!‘
’کیون کارٹر‘ نے تو اُس بچے کو نہ بچانے کے پچھتاوے میں خود کُشی کر لی تھی؟‘ ہم نے پوچھا، تو وہ بولے کہ اس کی وجہ ملازمت سے بے دخلی اور نشے کی وجہ وسے کام نہ کر پانا تھا، وہ ڈپریشن میں چلا گیا تھا۔‘
ہم نے کہا ڈپریشن کی وجہ یہی تو تھی؟‘ وہ بولے کہ نہیں اس کے ساتھ اور دیگر وجوہات بھی تھیں۔ ویت نام کی جنگ میں بھی بہت سی تکلیف دہ تصاویر ہیں، جس میں لوگوں کو گولیاں ماری جا رہی ہیں، اب آپ کہیں گے کہ انہیں روکا کیوں نہیں، تو بندوق کے سامنے کون کھڑا ہوگا!‘
’’کیا تصویر جھوٹ بھی بول سکتی ہے۔۔۔؟‘‘
ہم نے رحمت صاحب سے استفسار کیا کہ ’’کبھی تصویر ’جھوٹ‘ بھی تو بول سکتی ہے؟ جیسے ایک تصویر کے چھوٹے ’فریم‘ میں زمین پر گرئے ہوئے ایک بچے کے گال پر ایک جوتا رکھا ہوا ہے، لیکن بڑی تصویر میں دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اس نے اپنے ہاتھ میں ہی جوتا لے کر اپنے منہ پر رکھا ہوا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کی ’فینٹسی‘ بنائی جاتی ہے۔ پروپیگنڈا اور اینٹی پروپیگنڈا دونوں چل رہے ہیں۔۔۔ ایسی ’ایڈیٹنگ‘ بھی ہوتی ہے، لیکن حقیقی چیز ’حقیقی‘ نظر آتی ہے، ہم تصویر کو دیکھ کر پہچان جاتے ہیں اور پھر سچائی سامنے آجاتی ہے۔
ہم نے تصاویر کے ایسے سوفٹ ویئر کا ذکر کیا، جو اس قدر صفائی سے تبدیلیاں کرتا ہے، کہ اصل اور نقل پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے؟ تو وہ بولے کہ ’ایسے سوفٹ وئیر آتے رہتے ہیں، اور چند دن کے لیے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔۔۔‘
’’کیا اس سے سچائی پر اثر نہیں پڑا؟‘‘ہم نے پوچھا تو وہ بولے کہ کوئی اثر نہیں پڑا، دیکھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ تصویر ’تدوین شدہ‘ ہے۔
’ایک عام آدمی کس طرح تصویر کو کس طرح جانچ سکتا ہے؟‘ ہم نے معلومات چاہی، تو وہ بولے کہ تصویر خود بول دیتی ہے کہ وہ جعلی ہے، سوفٹ وئیر ’فوٹو شاپ‘ کا اشتہار آیا، تو اس میں تصویر میں فلسطینی راہ نما یاسر عرفات اسرائیلی وزیراعظم سے ہاتھ ملا رہے تھے، درمیان میں امریکی صدر بھی موجود تھے۔ لوگوں نے اِسے دیکھتے ہی کہا کہ ایسا ممکن ہی نہیں!
’’لیکن وہ بچے کے جوتے والی تصویر کی حقیقت کیا ہے، جب کہ وہ قریب کی چھوٹی تصویر (فریم) کیا کہہ رہی ہے؟‘‘ ہم نے پچھلے سوال کی تشنگی دور کرنا چاہی، تو رحمت اللہ بولے کہ تصویر صرف ’دکھاتی‘ ہے، اور ایسی چیزیں کسی پروپیگنڈے کے لیے دکھائی جاتی ہیں اور پروپیگنڈے میں صرف تصویر تو نہیں ہوتی، کوئی تحریر بھی ساتھ ہوگی! ’کیپشن‘ کی اہمیت کے حوالے سے رحمت اللہ خان کہتے ہیں کہ ’تصویری صحافت‘ میں اس کی اہمیت ہے۔ ’کیپشن‘ کی ’اتھارٹی‘ کے لیے تصویر ہوگی۔‘
’پرنٹ میڈیا‘ دوبارہ آگے آئے گا۔۔۔!
رحمت اللہ خان کا خیال ہے کہ مطبوعہ کتاب کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوگی، اس وقت ’مطبوعہ ذرایع اِبلاغ (پرنٹ میڈیا) میں صرف اخبار پر اثر پڑ رہا ہے، کتابوں پر نہیں، میں بستر پر لیٹ کر چھَپی ہوئی کتاب ہی پڑھتا ہوں، اگر ’ٹیبلٹ‘ پر پڑھوں گا، تو ایک دو صفحے کے بعد مجھے نیند آنے لگے گی۔‘‘
ہم نے کہا کہ اس کی وجہ کہیں عادت تو نہیں؟ ورنہ بھاری کتاب سے آسان تو ہلکا پھلکا ’موبائل فون‘ ہے؟ وہ بولے کہ اگر ایسا ہوتا تو کتابیں شایع ہونا بند ہو جاتیں۔۔۔ آج ’پرنٹ میڈیا‘ پیچھے ضرور گیا ہے، لیکن کچھ وقت بعد اس کا احیا ہوگا، انسان چیزوں سے اکتا جاتا ہے۔ لوگ بھی ’موبائل‘ سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نوٹ بک، ٹائپ رائٹر، ٹی وی، اخبار، فون ڈائری وغیرہ کا ’بدل‘ ہے، اس لیے بالکل ختم تو نہیں ہوگا۔۔۔ علم ہمیشہ کتابوں سے پھیلا ہے، خلافت عثمانیہ اس لیے ختم ہوگئی کہ چھاپا خانہ ’حرام‘ قرار دیا گیا، نتیجتاً 250 سال طباعت نہ ہوئی اور وہ پیچھے رہ گئے۔ آج ہم ایک بال پوائنٹ تو بنا نہیں سکتے، لیکن راج دنیا پر کرنا چاہتے ہیں۔ میں ’اردو سائنس کالج‘ کے زمانے میں ’اسلامی جمعیت طلبہ‘ کا ’سی آر‘ منتخب ہوا۔ بعد میں اختلاف پر ’جمعیت‘ سے استعفا دے دیا، پروفیسر غفور احمد نے مجھے روکا کہ نہ جاؤ، حالات ٹھیک ہو جائیں گے، میں نے کہا تھا کہ آپ غلط کام کر رہے ہیں اور اس کے نتائج نکلیں گے، آج جماعت اسلامی پورے ملک سے ’غائب‘ ہوگئی ہے۔
The post مجھے مقابلوں کی ’جیوری‘ میں بٹھا دیا جاتا ہے، ایوارڈ کیسے ملتا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.