Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

ایک دن کا بادشاہ

$
0
0

چترال: قدرت نے بعض علاقوں اور مقامات کو ہر طرح کی موسمی خوب صورتی اور قدرتی نظاروں سے نوازا ہے، پاکستان میں ملکہ کہسار مری، گلیات، ناردرن ایریاز، سوات، دیر اپنے قدرتی حسن ومناظر کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن چترال کی کالاش وادیوں کی خوب صورتی ہر موسم میں اپنے منفرد کلچر کی وجہ سے ان سب میں یکتا ہے۔

کالاش کی وادی میں اگر ایک طرف پہاڑوں، آبشاروں، قدرتی جنگلات ، پھل دار درختوں ، دودھ کی رنگت جیسا بہتا پانی ، مال مویشی، سبزہ اور ان گنت چیزیں دعوت نظارہ دیتی ہیں تو دوسری جانب ساڑھے چار ہزار سال قدیم تہذیب کے حامل کالاش قبیلے کے لوگوں کی سال بھر نہ ختم ہونے والے اور یکے بعد دیگرے انجام پانے والے تہوار اور رسوم سیاحوں کے لیے انتہائی دل چسپی کا باعث ہیں۔

بہت سارے مقامی وغیرمقامی سیاحوں ا ور لوگوں کا خیال ہے کہ کالاش کی وادیوں کی سردیوں کی خوب صورتی گرمیوں کی نسبت زیادہ دل کش ہوتی ہے اور خود مقامی لوگ بھی سردی کو زیادہ پسند اور اس موسم کا شدت سے انتظار کرتے ہیں کیوںکہ سردی کے موسم میں جب وادیاں برف کی چادر اوڑھ لیتی ہیں تو کھیتی باڑی اور دیگر کام کاج مکمل طور پر رُک جاتے ہیں اور یہاں باسی ہاتھ پر ہاتھ دھرے جمع کردہ اشیاء کو کھاتے، موج اُڑاتے، کھیل کود اور دیگر رسوم میں وقت گزارتے ہیں، سردیوں کی ان رسومات میں سے بادشاہ کا انتخاب سب سے دلچسپ مرحلہ ہوتا ہے۔

دنیا میں اس کی مثال ہو یا نہ ہو لیکن کالاش ویلیز میں ایک دن یا نصف دن کے لیے بادشاہ کے انتخاب کی رسم صدیوں سے چلی آرہی ہے اور اب تک سینکڑوں افراد بادشاہ (میتار) کا لقب حاصل کر چکے ہیں جب کہ اس دوران ہزاروں مال مویشی ذبح کرکے میتار بننے کی خوشی میں دعوت پر لٹائے جاچکے ہیں۔ میتار بنانے کی یہ رسم آج بھی انتہائی دل چسپی اور جوش و جذبے سے ادا کی جاتی ہے۔ حال ہی میں شدید برف باری کے بعد بمبوریت ویلی میں گاؤں انیڑ کی دو ٹیموں کے مابین کالاش قبیلے کا مشہور ومعروف سرمائی کھیل کریک گاڑ (سنوگاف) کا مقابلہ ہوا، ٹیموں کی شناخت شادی شدہ اور غیرشدہ کے نام سے کی گئی تھی جس میں غیرشادی شدہ کھلاڑیوں کی ٹیم نے مد مقابل شادی شدہ ٹیم کو ٹکنے نہیں دیا اور زبردست کھیل پیش کرکے ایک کے مقابلے میں تین گولوں سے کام یابی حاصل کی۔ اس کام یابی پر منعقد ہونے والا جشن دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہر کوئی کام یابی پر مدہوش اور ڈھول کی تھاپ پر محو رقص تھا۔

اس جشن کی رنگینوں میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب گاؤں کے لوگوں نے حسب روایت کالاش نوجوان خوش ولی کو میتار (بادشاہ) چُن لیا۔ بادشاہ کو کندھوں پر اُٹھاکر مخصوص گیت گائے گئے اور ڈھول کی تھاپ پر ناچتے گاتے اُسے گاؤں میں پھرایا گیا۔ خصوصی لباس چپان اور ٹوپی پہنائی گئی۔ گاؤں کے لوگ انتہائی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے باری باری میتار سے گلے ملے اور مبارک باد دی جب کہ خواتین نے نئے بننے والے میتار پر اخروٹ اور خشک میوہ جات کی برسات کردی۔ میتار (بادشاہ) کے انتخاب کے موقع پر مقامی لوگوں اور سیاحوں کا ایک جم غفیر موجود تھا اور یہ گمان ہورہا تھا کہ جیسے حقیقی معنوں میں کسی بادشاہ کا انتخاب کیا گیا ہے اور اُس کی تاج پوشی کی جارہی ہے۔

اس موقع پر منتخب شدہ میتار نے گاؤں کے باسیوں اور مہمانوں کے لیے ایک بیل ذبح کرکے اسپیشل ڈش (جوش) کی ضیافت دی۔ حسب روایت دیسی گھی سے تیار ہونے والی اس اسپیشل ڈش پر تقریباً ڈھائی لاکھ روپے صرف ہوئے، کیوںکہ کالاش طریقے کے مطابق گوشت کا الگ حصہ، اسپیشل ڈش (جوش) دیسی گھی کی پیالی اور روٹی ہر ایک میں تقسیم کی گئی۔ رات بھر اس خوشی میں موسیقی کی محفل جمی رہی جس میں نوجوانوں نے خوب جی بھرکر ڈانس کرکے شدید سردی کو مات دے دی۔ اس موقع پر بادشاہ کے احکامات کی بجا آوری کے لیے ایک اور نوجوان نجیب اللہ کالاشی کو بطور وزیر بھی منتخب کیا گیا، جس نے حاضر مہمانوں کے لیے بکرا ذبح کر کے دعوت دی۔

کالاش وادیوں میں شدید برف باری کے دوران زندگی کو متحرک رکھنے کے لیے کھیلوں اور دعوتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ گویا مل بیٹھنے اور سردی کا مقابلہ کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ بادشاہ کے احکامات پر عمل درآمد کے کئی قصے بھی مشہور ہیں اور جب بادشاہ کسی کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس کی بجاآوری لازمی تصور کی جاتی ہے۔ کئی مرتبہ میتار (بادشاہ) نے گاؤں کے رہائشی دوسرے افراد کو مال مویشی ذبح کرکے دعوت دینے کے احکامات دیے۔ تو پورے گاؤں کے لوگوں نے اپنا حصہ ڈال کر ضیافت کا اہتمام کیا۔ بادشاہ کسی کو کوئی عنایت کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس کی بجا آوری کی جاتی ہے۔ سیکڑوں افراد میتار کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر ان کے لیے دعوت وضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے کیوں کہ یہی عمل بادشاہ کے لیے کالاش برادری میں اپنی ناک اونچی رکھنے اور فخر کی بات ہوتی ہے۔

برادری میں یہ رسم پُشت در پُشت اور سینہ بسینہ چلی آرہی ہے۔ مذہبی تہواروں اور خاندانی خوشی غمی میں نہایت فخریہ انداز میں اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ مذہبی پیشوا، بیٹان وغیرہ جب اس حوالے سے اپنے مخصوص انداز میں تاریخ بیان کرتے ہیں تو کالاش بزرگ مردو خواتین اُن کو گھیر لیتے ہیں اور انتہائی انہماک سے اْنہیں سنتے ہیں اور اگلی نسل کو منتقل کرنے کے لیے یہ باتیں یاد کرتے ہیں۔ کالاش وادیوں کی یہ ثقافت شاید ہی دنیا میں کہیں پائی جاتی ہو کیوںکہ یہ دنیا کی واحد نسل ہے جو چترال کی تین وادیوں میں آباد ہے۔

گیارہویں صدی عیسوی تک کالاش حکم رانوں کی حکومت افغانستان کے کنڑ صوبہ کے صدر مقام اسد آباد (چغنسرائے) سے چترال کے بالائی علاقہ موڑکہوہ تک پھیلی ہوئی تھی، جس کی باقیات چترال کے کئی مقامات پر آج بھی موجود ہیں۔ بادشاہ بننے کی یہ رسم اصل بادشاہت کو زندہ رکھنے اور اپنی تاریخی حیثیت کو دوام بخشنے کی کوشش ہے اور ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو پہاڑوں کے دامن میں رہنے والے کالاش قبیلے کے لوگوں کو تہذیب و تمدن سے عاری سمجھتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ تہذیب و تمدن اور حکومت کے رموز و آداب سے پوری طرح واقف ہیں اور انہوں نے چترال اور افغانستان کی طویل وادی میں صدیوں تک حکومت کی۔

چترال کی کالاش وادیاں جہاں موسم گرما میں تمام سیاحوں کے لیے انتہائی دل چسپی اور کشش کا باعث ہوتی ہیں، وہیں موسم سرما میں مہماتی سیاحوں اور کلچرل سیاحوں کے لیے یہ جنت سے کم نہیں اور وہ یہاں آنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سیاحت کو فروغ دینے کے سلسلے میں اقدامات کے بعد ان علاقوں کی رونقیں مزید بڑھ چکی ہیں اور امسال تقریباً دو لاکھ سیاحوں نے چترال اور کالاش کی وادیوں کی سیر کی، جس کے باعث یہاں کی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

سرمائی سیاحت میں دل چسپی رکھنے والے سیاحوں خصوصاً فیملی کے ساتھ آنے والے سیاحوں کے لیے یہ بات کسی خوش خبری سے کم نہیں کہ ان وادیوں میں کئی مقامات پر گیسٹ ہاؤسز تعمیر ہو چکے ہیں جن میں اعلیٰ معیار کی سہولیات سیاحوں کو دست یاب ہیں۔ یہ گیسٹ ہاؤسز زیادہ تر کالاش کی تعلیم یافتہ خواتین چلارہی ہیں اور ان میں گھر جیسا ماحول میسر ہے، جب کہ ان میں کالاش تہذیب و ثقافت کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔

اسی طرح ٹی سی کے پی کے زیرانتظام کیمپنگ پاڈ کی تعمیر بھی آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ کالاش کی وادیوں میں اب بھی بڑی تعداد میں سیاح موجود ہیں اورکریک گاڑ (سنوگاف) کے مقابلے بھی جاری ہیں۔ ہر روز ایک گاؤں کا مقابلہ دوسرے گاؤں سے ہوتا ہے جس کے باعث برف پر زندگی سب سے زیادہ متحرک دکھائی دیتی ہے۔ کریک گاڑ کا یہ مقابلہ بمبوریت کے بالائی مقام شیخاندہ میں بھی جاری ہے۔ گذشتہ سال کاتی کلچر آرگنائزیشن کے زیرانتظام سنوگاف ٹورنامنٹ کے فائنل میں گبور ٹیم نے کام یابی حاصل کی تھی اور یہ مقابلے ایک ماہ تک جاری رہے۔ شیخان قبیلہ جسے قریش بھی کہا جاتا ہے، کا دعویٰ ہے کہ کریک گاڑ جسے وہ اپنی زبان شیخانوار میں مچئے کہتے ہیں، اصل میں ان کا کھیل ہے۔

اس حوالے سے علاقے کی ممتاز سیاسی اور سماجی شخصیت سابق ناظم یوسی ایون عبدالمجید قریشی کا کہنا ہے کہ دراصل کریک گاڑ (سنوگاف) نورستان (افغانستان) میں کھیلا جاتا ہے، تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل جب پہلی مرتبہ ان کے آباؤاجداد نورستان سے آکر مہترچترال کی اجازت سے شیخاندہ میں آباد ہوئے، تب سے اس کھیل کو کالاش وادیوں میں فروغ ملا اور کالاش قبیلے کے لوگ بھی یہ کھیل کھیلنے لگے۔

اسی طرح بادشاہ (میتار) کے چناؤ کی رسم بھی ان کی ثقافت کا حصہ ہے۔ ممتاز سوشل ورکر کالاشی نوجوان لوک رحمت کا کہنا ہے کہ چاہے یہ رسم کہیں سے بھی آئی ہو ہمیں یہ دل وجان سے زیادہ عزیز ہے۔ اسی طرح کریک گاڑ (سنوگاف) کو کالاش قبیلے میں بہت پذیرائی ملی اور اب یہ کھیل وادی میں بسنے والے شیخان، کھو اور کالاش قبیلے سب کا مقبول کھیل بن گیا ہے اور یہاں کے باسی اس میں انتہائی دل چسپی لیتے ہیں۔ اس کھیل کے بعد میتار (بادشاہ ) کے چناؤ کی رسم اس کو مزید دل چسپ بنا دیتی ہے۔

The post ایک دن کا بادشاہ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>