مجھے میرے ’’رائیڈر‘‘ سے بچاؤ۔۔۔!
ر۔ ط۔ م
آج کل آمدورفت کی جدید ترین سہولت بہ ذریعہ موبائل فون منگائی جانے والی سواریاں ہیں۔ یعنی اب ہم رکشے اور ٹیکسی کے ساتھ اسکوٹر بھی گھر بیٹھے منگا سکتے ہیں۔۔۔ اسکوٹر کا سفر سستا پڑنے کے ساتھ بعض اوقات شدید ٹریفک میں سہولت کا باعث بھی بنتا ہے۔۔۔ سو گذشتہ دنوں ہم نے بھی ایک اسکوٹر بُک کرائی۔۔۔
کہتے ہیں کہ پہلے رکشے ٹیکسی والے کو یہ بتانا پڑتا تھا کہ جانا کہاں ہے اور اب یہ سمجھانا پڑتا ہے کہ اُسے آنا کہاں ہے! اب اس میں ایک اور ’بیماری‘ بھی سرایت کرگئی ہے کہ پوچھا جاتا ہے کہ کرایہ نقد دیں گے یا کارڈ سے؟ اس کے بعد ہم انتظار کرتے رہیں، پتا چلتا ہے کہ وہ صاحب کہیں گپیں ہانکنے میں مصروف ہیں، اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ گاڑیوں کے ازدحام سے نکلنے کی جستجو میں ہیں، یکایک ہم موبائل میں دکھائے گئے نقشے میں دیکھتے ہیں کہ موصوف تو کہیں اور چلتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔ ہم نے انہیں کئی ’پیغام‘ لکھ بھیجے سرکار کہاں چلے؟ مگر جواب ندارد۔۔۔ لیجیے اب 10، 15 منٹ آپ کو انتظار کی سولی پر لٹکا کر موصوف بکنگ ’منسوخ‘ کر کے رفوچکر ہو چکے ہیں اور اب ایک نیا ’چہرہ‘ موبائل پر آکر ہماری بے بسی کو منہ چڑا رہا ہے کہ اب نزدیک ترین ’صاحب‘ یہ ہیں۔ یعنی اب آپ کے سفر کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے۔۔۔ بس ’پانچ‘ منٹ میں آپ کے روبرو ہوں گے۔ پھر دوبارہ سے وہی جواب سوال۔۔۔ قسمت اچھی ہوئی اور ان کا دل چاہا تو وہ آجائیں گے، نہیں تو وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ آخر ابھی آپ اتنے بڑے تو نہیں ہوئے کہ آپ کے وقت کی بھی کوئی قیمت ہو!
یہ تو ہوگئی معمول کی مشق۔۔۔۔ اب اصل ماجرا سنیے، اس تمام کارروائی سے گزرنے کے بعد ہم منتظر رہے کہ ہماری سواری اب آتی ہے کہ تب آتی ہے۔۔۔ خدا خدا کر کے کہیں موبائل کے نقشے میں ان کی بالکل نزدیک ’موجودگی‘ ظاہر ہوئی، لیکن ہم اِدھر اُدھر دیکھا کیے، کہ ان کی کوئی خبر تو ملے۔ یہ بالکل ’قبل از موبائل فون‘ زمانے کی معشوق سے پہلی ملاقات جیسا ہے، جس میں بتایا جاتا تھا کہ میں فلاں رنگ کے کپڑے پہنے، فلاں جگہ پر کھڑی ہوئی چیونگم چبا رہی ہوں۔۔۔ مگر یہاں تو گاڑی کی بتائی گئی نمبر پلیٹ بھی اکثر غلط نکلتی ہے، کبھی تو بندہ بھی کوئی اور ہوتا ہے، اور ہم کھڑے ہکا بکا ہی رہ جاتے ہیں کہ خدایا یہ ہمارے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا۔۔۔ آنا زاہد کو تھا اور آ شاہد گیا۔۔۔ اب یہ معاملہ بھی یہاں تک ہوتا تو ہم چپ ہوکر اِسے عادت بنانے کی کوشش کرتے، لیکن بات کچھ ایسی تھی کہ آپ نے بھی شاید ہی کبھی سنی ہو۔ ابھی ہم ان سے پوچھ ہی رہے تھے کہ ’سرکار، بتلائیے تو سہی آپ کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟ کہ اچانک ہمارے فون نے ’خبر‘ کی کہ ہمارا تو سفر بھی شروع ہو چکا ہے۔۔۔!
’لو بھئی، یہ کیا مذاق ہے۔۔۔؟‘ ہم نے بارہا اپنی آنکھیں ملیں کہ کہیں واقعی ہم محو سفر تو نہیں۔۔۔ لیکن صاحب ہم خدا کو حاضر ناظر جان کے کہتے ہیں کہ ہم وہیں بقید ہوش وحواس کھڑے ہوئے تھے۔۔۔ ایک طرف ہمیں تاخیر ہو رہی ہے، تو دوسری طرف یہ ناگہانی افتاد آن پڑی۔۔۔ انہیں فون کیے، میسج کیے، کوئی جواب نہیں۔ آخر کو ہار کر چاہا کہ ہم اپنا یہ ’سفر‘ منسوخ ہی کر ڈالیں، کیوں کہ ہم تو اس سفر میں مسافر ہی نہیں، یہ سفر تو ہمارے نام پر کوئی اور کر رہا ہے! گویا؎
’’رائیڈ‘‘ میری تھی مگر اس پر سفر اُس نے کیا!
لاکھ جتن کرلیے کہ کسی طرح یہ سفر منسوخ بھی نہ ہوا، منطقی اعتبار سے تو بات درست تھی کہ جب سفر ہو ہی نہیں رہا تو منسوخ کیا ہو۔۔۔! لیکن موبائل فون پر دکھائی دینے والا نقشہ برابر یہ بتا رہا تھا کہ اب ہم فلاں جگہ سے گزر رہے ہیں۔۔۔! عجیب تماشا تھا، ہم نے دل پر جبر کر لیا، مگر جب تک ’ہماری‘ سواری پر ’نامعلوم‘ مسافر کا سفر جاری رہا، تب تک ہم اور کوئی دوسری سواری منگوانے سے بھی تو قاصر تھے۔۔۔ یہ واقعی بہت بڑی مشکل تھی، آخر کو اس ’سُوپر‘ سروس پر چار حرف بھیجے اور دیسی طریقے سے رکشا پکڑ کر منزل کی راہ لی۔
کہاں تو یہ آن لائن ٹیکسی کی اتنی بڑی سروس کہ جس نے کراچی جیسے شہر میں لوگوں کے دل موہ لیے تھے اور اتنی ’اُوپر‘ ہوئی کہ اپنی اُس ہم عصر کمپنی کو بھی خرید لیا، وہی کمپنی جس نے اپنی بائیک سواری کے متنازع اشتہار سے ’شہرت‘ حاصل کی تھی جس میں دلہن کو بتایا گیا کہ اگر شادی سے بھاگنا ہو تو ’سلیم‘ کرو!‘ مانا کہ نہ ہم شادی سے فرار ہورہے تھے اور نہ ہی ہم نے ’سلیم‘ کی تھی، لیکن اصولی طور پر ’سلیم‘ اب انہی کے کھاتے میں ہے، تو کیا یہ برق رفتاری صرف دلہن کو شادی سے بھگانے کے لیے ہے؟
ہمارے پاس اُس رائیڈر کا نام اور بائیک کا نمبر بھی محفوظ ہے، ہم نے اس گھناؤنی حرکت کی باقاعدہ شکایت درج کرائی، لیکن کوئی جواب تک نہیں دیا گیا۔۔۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ سفر شروع کرنے سے پہلے باقاعدہ مسافر سے بھی منظوری لی جائے، جس سے یہ تصدیق بھی ہو جائے کہ آیا سواری لے کر بھی جائی جا رہی ہے یا نہیں۔۔۔!
۔۔۔
محبت سے میرا اعتبار کبھی ختم نہیں ہوتا!
مریم مجید ڈار، آزاد کشمیر
آج سورج نے ساڑھے پانچ بجے رخت سفر باندھا تو احساس ہوا کہ دن کی طوالت میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے اور ہوا شدت سے نہ چلے تو دن میں براہ راست دھوپ کے مزاج میں خاصی تیزی محسوس ہوتی ہے۔ موسم نے برف کے بستر پر سبک کروٹیں لینا شروع کر دی ہیں اور میری نگاہیں نادانستگی میں ڈینڈلائن کے ننھے چمک دار سورج ڈھونڈتی ہیں، مگر ان کی نیند ابھی نہیں ٹوٹی۔ نم دار جگہوں پر گھاس کی پتیاں ہری ہیں اور ننھے جامنی پھول بھی سفاک جاڑے سے مقدور بھر مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔
صبح آنکھ کھلتے ہی میرا رخ پرندوں کے دسترخوان کی جانب ہوتا ہے اور جب انہیں خالی برتن کے کناروں پر منتظر بیٹھا پاتی ہوں تو ان کی محبت اور بھروسا میرے کاسۂ دل کو خوشی کے سنہری سکوں سے لبالب بھر دیتے ہیں۔ میرے ننھے دوست! ان انتظار کرنے والوں میں ایک ’لنڈورا پنچھی‘ بھی شامل ہے۔ اس کی دُم شاید کسی بلی کے حملے میں کام آ گئی، مگر خوش قسمتی سے جان بچ گئی تو اب وہ اچھلتا ہوا سب سے پہلے کھانا کھانے آتا ہے۔
خوش گلو بلبلیں، ہمالیہ کے مہمان اور سر تا پا سیاہ رنگ اوڑھے چمک دار پروں والے کوے! سبھی موجود ہوتے ہیں اور ان کی میزبانی کا سلسلہ شام ڈھلے تک جاری رہتا ہے۔
میں زندگی سے کبھی مایوس نہیں ہوتی اور محبت سے میرا اعتبار کبھی ختم نہیں ہوتا کیوں کہ زندگی میں اس کی آمد ہر سمت سے ہوتی ہے۔ اگر ہماری محبتوں کا کچھ حصہ حملہ آوروں کے باعث کھو بھی جائے، تو سر گھٹنوں میں دبائے زندگی کے خاتمے کا ماتم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اچھلتے ہوئے پرندے کی مانند دوبارہ لوٹ آنے والی محبت کا انتظار کرنا چاہیے، جو اپنی دم کے لمبے اور شان دار پروں کے پھر سے اگ آنے کا عرصہ اپنی زندگی کی حفاظت میں گزار رہا ہے۔
اگر آج بارش ہے تو کل چمکیلا سورج بھی آئے گا۔ ابھی سخت جاڑا اپنے رنگ دکھا رہا ہے۔ تو وہ دن بھی آئیں گے، جب سحاب (بادل) بہار زمین اور اہل زمین کو وہ انوکھی بارشیں عطا کریں گے، جن میں سیپ میں موتی پڑتا ہے، گائے کے سینگوں میں گلوچن بنتی ہے اور بانس میں بنسلوچن (مخصوص رس) کا جنم ہوتا ہے۔کٹھن دنوں میں زندگی خوشی اور محبت کی امیدوں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے اور یہی یقین ہمیں مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جانے سے بچائے رکھتا ہے۔
اگر آپ اپنے گرد تتلیاں دیکھنا چاہتے ہیں، تو آپ کو پھول کھلانے ہوں گے اور اگر خوشی، سکون اور راحت درکار ہو تو غیر مشروط، بلاجواز اور مسلسل محبت کرنی ہو گی کہ کائنات میں حیات کا جوہر فقط محبت ہے۔۔۔!
۔۔۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا اپنے قارئین کے نام خط
ابو سلمان شاہ جہاں پوری
ستمبر 1913 میں ’’الہلال‘‘ سے دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کی گئی تھی۔ جو نومبر 1914 میں ضبط کرلی گئی، اس زمانے میں عام طریقہ یہ تھا کہ دو ہزار کی ضمانت ضبط کر لینے کے بعد 10 ہزار کی ضمانت مانگی جاتی تھی، چناں چہ ’’الہلال‘‘ سے بھی مانگی گئی، یہ ضمانت بھی شاید داخل کر دی جاتی، مگر چوں کہ اس کے بھی ضبط ہو جانے کا اندیشہ تھا، اس لیے ضمانت داخل کرنے کے بہ جائے ’’الہلال‘‘ بند کر کے دوسرا اخبار جاری کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ یہ نیا اخبار ’’البلاغ‘‘ کے نام سے جاری ہوا جس کا پہلا نمبر 12 نومبر 1915 کو شایع ہوا۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس عاجز کی خدمات کی قبولیت کے لیے اپنے بندوں کے دل کھول دیے ہیں اور انہیں مقبول و محبوب بنا دیا ہے۔ اگر ’’الہلال‘‘ نے اپنی زندگی کے لیے دستِ سوال پھیلانا جائز سمجھا ہوتا تو 10، 20 ہزار کی فراہمی میں دو چار دن سے زیادہ مدت نہ لگتی، لیکن اس نے اسے پسند نہ کیا اور یہ تمام امر تمام بزرگوں پر روشن ہے۔
’’الہلال‘‘ کے دوبارہ جاری کرنے کے لیے اب تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں اور صرف روپے کی وجہ سے دیر ہو رہی ہے، اس لیے صرف اتنی تکلیف خریدارانِ ’’الہلال‘‘ کو دینا چاہتا ہوں کہ وہ چھے ماہ کی قیمت پیشگی مرحمت فرمائیں۔ جو دفتر ’’الہلال‘‘ کے ذمے ان کا قرض حسنہ ہوگا اور جسے خریداری کے حساب میں مجرا کیا جائے گا۔ ’’الہلال‘‘ کی شش ماہی قیمت اصل چھے روپے بارہ آنے ہے، لیکن وہ صرف چھے روپے بھیج دیں۔
بعض خریداروں کی قیمت ختم ہونے کے قریب ہے، بعضوں کا سال شروع ہوا ہے، لیکن یہ درخواست تمام خریداروں سے ہے۔ انہیں اپنے حساب کا خیال نہ کرنا چاہیے، جس وقت ان کی پچھلی قیمت ختم ہو جائے گی، اس کے بعد ہی اس رقم کو ان کے حساب میں جمع کر لیا جائے گا، قیمت انہیں بہر حال آیندہ دینی ہی ہے۔ ’’الہلال‘‘ صرف اتنی ہی اعانت اپنے وسیع حلقۂ معاونین سے چاہتا ہے، اگر انہوں نے ایسا کیا تو اس موقعے پر دفتر کو روپے کی دقت کا سامنا نہ ہوگا۔ جس کی وجہ سے ہمیشہ مبتلائے مشکلات رہا ہے۔ اگر اس تحریر کو دیکھتے ہی روپیا آپ نے روانہ کردیا تو ہفتے کے اندر ’’الہلال‘‘ شایع ہو جائے گا۔
دوسری درخواست نئے خریداروں سے پیشگی قیمت بھجوانے کی ہے، جس سے بہتر، جائز طریقہ پریس کی اعانت کا اور کوئی نہیں۔
فقیرابوالکلام
14۔میکلوڈ اسٹریٹ۔کلکتہ
(مکاتیب ابوالکلام آزاد، جلد اول سے لیا گیا)
۔۔۔
جاڑے کی سوگواری
محمد علم اللہ، نئی دلی
سردیاں ابھی اپنے جوبن پر نہیں آئی تھیں، لیکن شامیں سوگوار سردی کی چادر اوڑھنے لگی تھیں۔ جامعہ میں ’ہائی جینک کیفے‘ کے ایک دم سامنے کا پارک رات پڑتے ہی اداسی کے دیوان سے کوئی غزل نکال کر پڑھنے لگتا تھا۔ ذرا بہت سی رونق نماز شروع اور ختم ہوتے وقت ہوتی جب اللہ کے بندے پارک کے سامنے واقع مسجد میں آتے اور جاتے دکھائی دیتے۔
ہائی جینک کیفے جو دن میں حسین چہروں، زلفوں اور شوق نگاہوں سے گھرا رہتا تھا وہ بھی سرد شام کی اس اداسی میں ویرانے کی پراسرار کٹیا معلوم ہوتا۔ کیفے میں کام کرنے والا وہ لڑکا جس کے ابا پچھلے برس مر گئے تھے پرانی جرسی میں مڑا تڑا سا بیٹھا رہتا۔ اسے وقت مقررہ تک کیفے کھولے رکھنا تھا کہ یہی اس کی ذمہ داری تھی اب بھلے سے کوئی آئے یا نہ آئے۔ اداس سرد شام میں وہ کاؤنٹر کے پیچھے سے سامنے کی نیم تاریک سڑک کو یوں گھورا کرتا تھا، جیسے کسی کا منتظر ہو یا کسی کے چپکے سے گزر جانے کا دھڑکا لگا ہو۔ میں ایک شام ادھر سے نکلا تو اس لڑکے کی اداس آنکھیں میرے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں۔ میں نے کاؤنٹر کی جالی کے قریب جاکر اس سے پوچھا۔
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ میں اس کی دکان کا مستقل گاہک تھا اس لیے ذرا بے تکلفی سی تھی۔ کہنے لگا ’ابا آج ہی کے دن دنیا سے گئے تھے، بہت یاد آ رہی ہے ان کی۔‘ بات ختم کرتے کرتے اس کی آواز رندھ گئی، تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے جذبات کے ستار پر چڑھے نازک ترین تار چھیڑ دیے ہیں۔ میں نے جلدی سے موضوع بدلا اور پوچھا ’’آج اشتر آیا تھا؟‘‘
اس نے جیسے میری بات سنی ہی نہیں بس بولتا چلا گیا۔ آج امی کا فون آیا تھا۔ بول رہی تھیں لحاف بھروانے ہیں کچھ پیسے ہوں تو بھیج دینا۔ میں نے بولا ہے بھیج دوں گا۔ امی کو سردیوں میں دمے کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ وہ تو لحاف میں بھی ٹھٹرتی ہیں۔ پتا نہیں ان دنوں کیسے گزارہ کر رہی ہوں گی؟
میں اس کے مونولاگ کا سلسلہ توڑنا چاہتا تھا، لیکن جیسے مجھے اس کی بات کاٹنے کو لفظ ہی نہ مل رہے ہوں اور وہ تھا کہ اپنی کہے جا رہا تھا۔
ہمارے گھر میں ابا کے لائے ہوئے دو لحاف تھے لیکن ابا کے بعد جب بہن کی شادی کی تو امی نے انہیں لحافوں کی روئی سے اس کے جہیز کے لحاف کیے۔ اب ہمارے گھر میں لحاف نہیں ہیں۔ وہ لحاف کے خول ہیں۔ امی کے لیے لحاف ضروری ہیں۔ کل کہیں سے پیسوں کا انتظام کر کے بھجواؤں گا ورنہ امی سردی سے اکڑ جائیں گی!
میں اس کی باتیں بت کی طرح کھڑا سنتا رہا۔ پھر وہ جیسے خود ہی چونکا۔ اوہ میں نے بھی آپ کو کن باتوں میں لگا لیا۔ بند کرنے کا وقت ہو رہا ہے۔ یہ کہہ کر وہ کاؤنٹر پر سجے مشروبات سمیٹنے لگا۔ کیفے کی بتیاں کب بند ہوئیں اور کب شٹر گرا مجھے کچھ خبر نہ ہوئی۔ میں دیر تک اُس اداس جاڑے کی سوگواری بنا بیٹھا رہا۔۔۔
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.