Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

برف کے دیس میں

$
0
0

جوائس کیرول اوٹس
ترجمہ: تنویر رؤف

تیس سالہ سسٹر ائرین ایک بلند قامت۔ متین اور قابل خاتون تھیں۔ ان کے خدوخال دیکھنے والے کو مبہوت کردیتے تھے۔ ستواں ناک جھیل جیسی گہری آنکھیں۔ سنجیدہ دانش سے مزین چہرہ۔ وہ ہر زاویہ اور ہر طرح سے ایک پر کشش خاتون تھیں۔ سسٹر ائرین اپنی جوانی میں جب ایک استانی تھیں تو زیادہ جاذب نظر اور ذہین نظر آتی تھیں۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ وہ شگفتگی۔ توانائی اور جاذبیت باقی نہیں رہی تھی۔ وہ اس بات سے باخبر تھیں کہ یونیورسٹی میں ان کو بالکل آخری لمحات میں اس لیے منتخب کیا گیا کہ جو شخص اس آسامی پر آنے والا تھا وہ صاحب کردار اور قابل اعتبار نہیں تھا اور دوسری بات یہ کہ سسٹر ائرین کو ان کی زیادہ عمر کی وجہ سے کم تنخواہ پر رکھا گیا تھا سب سے زیادہ یہ ماحول سسٹر ائرین کے کے لیے نامانوس تھا۔

وہ اب یہ دعا مانگتی تھیں کہ یہ دو سیمسٹر بخوبی مکمل کرواسکیں حالاںکہ وہ جب بھی کلاس میں ہوتیں تو قطعا بھول جاتیں کہ وہ کمزور ہو چکی ہیں۔ ان کے اندر وہی جوش و ولولہ بھر جاتا اور وہ ہمیشہ کی طرح اپنا علم شاگردوں میں منتقل کرنا چاہتیں۔ جیسے ہمیشہ کرتی آئیں تھیں لیکن کلاس سے باہر وہ اپنا اعتماد بحال نہیں رکھ پاتیں۔ الجھن محسوس کرتیں۔ لوگوں کی چبھتی نگاہوں سے ان کو لگتا کہ جیسے وہ نن ہیں تو ان کا وجود بے مقصد ہے۔ وہ اپنے دکھ کا اظہار اپنے ساتھیوں پر بھی نہیں کرتی تھیں جو ان کے ساتھ کام کرتے تھے۔ سسٹر ائرین کو یہ محسوس ہوتا کہ ان کو وقتی طور پر رکھ لیا گیا ہے۔ یہ احساس ان کو مزید کم زور کر دیتا۔ مگر پھر وہ اپنے خدشات کو اپنا وہم سمجھ کر دماغ سے جھٹک دیتیں۔

البتہ کلاس میں وہ ایک زندہ دل اور کامل ماہر استاد ہوتیں۔ سمسٹر کے شروع ہونے کے تقریباً دو ہفتے گزرنے کے بعد سسٹر ائرین کو کلاس میں ایک نیا طالب علم نظر آیا۔ وہ ایک دبلا پتلا سا لڑکا تھا جس کے بال ہلکے بھورے رنگ کے تھے۔ اور چہرہ بالکل سپاٹ اور جذبات سے عاری تھا۔ یہ علامات حادثاتی نہیں تھیں بلکہ خود ساختہ تھیں وہ جب سسٹر ائرین کو دیکھ رہا تھا تو سسٹر ذہنی طور پر اس کے کسی بھی سوال کا جواب دینے کے لیے تیار تھیں۔ اور یہی ہوا۔ جیسے ہی اس نے سوال پوچھنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو سسٹر نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں جھٹکا سا لگا جیسے اس کو اپنے ہاتھ پر قابو نہ ہو۔ سسٹر نے اشارے سے ظاہر کیا کہ وہ سن رہی ہیں۔ تو وہ بولا “شیکسپیئر۔ ہیلمٹ ڈرامے میں اس نظریے سے کیسے متفق ہو سکتا ہے؟ ایک آدمی کے دماغ میں بیک وقت دو مختلف نظریے کیسے آسکتے ہیں؟ اس کا سوال بہت ہی عجیب اور بے معنی سا تھا۔ کلاس کے دوسرے طلبہ بھی حیرت سے اس کو دیکھنے لگے کہ اس نے کیسا بے تکا سوال کیا ہے۔

وہ لڑکا بھی عجیب قنوطی اور مخبوط الحواس سا لگ رہا تھا۔ سسٹر ائرین نے جواب دیا کہ ” شیکسپیئر کے کسی بھی ڈرامے میں کہانی، ماحول اور کردار کے مطابق خیال اور مکالمہ ہوتا ہے۔” لیکن وہ لڑکا اس بات پر مُصر تھا کہ ہر مکالمہ اور کردار میں ایک جیسا سبق ہونا چاہیے۔ دیانت اور اخلاق کا سبق۔ سسٹر ائرین کو اس پر غصہ اور جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی اس لیے انہوں نے اپنے چہرے کے تاثرات سخت کرتے ہوئے کہا،” ڈراما کہانی کی عکاسی کرتا ہے اور اسی کے مطابق مکالمے ہوتے ہیں۔” سسٹر ائرین نے اس سے کلاس کے بعد ملنے کا کہا۔

کلاس ختم ہوتے ہی وہ سسٹر ائرین کے پاس آگیا اور آتے ہی بولا “سسٹر میری بات کا برا نہیں منائیں اور آج میرے اچانک آنے کا بھی۔ میں نے کچھ دل چسپ باتیں سنی ہیں۔” یہ کہہ کر وہ سسٹر ائرین کو بغور دیکھنے لگا اور سسٹر ائرین کے چہرے پر کچھ ایسا عجیب سا تھا کہ وہ مسکرا نے لگا۔ اور بولا۔

“کیا ہم آپ کے آفس میں بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔” پھر وہ دونوں چلتے ہوئے سسٹر ائرین کے آفس پہنچ گئے۔ سسٹر ائرین اپنی کرسی پر بیٹھ گئیں اور لڑکا ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ ” شاید آپ جانتی ہوں کہ میں یہودی ہوں۔ ”

سسٹر ائرین نے بغور اس کو دیکھتے ہوئے کہا،” ہاں میں جانتی ہوں۔”

پھر وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ ” پھر آپ یہ جاننا چاہتی ہوں گی کہ میں یہاں کیا کر رہا ہوں۔ یہ تو عیسائیوں کی درس گاہ ہے۔”

سسٹر ائرین نے اس کی بات کو جیسے کوئی اہمیت نہ دی اور اپنے چہرہ سے بھی یہی ظاہر کیا۔

وہ کرسی کے بالکل کنارے پر بیٹھا تھا۔ اگرچہ وہ جوان تھا مگر سسٹر کو وہ جوان نظر نہیں آ رہا تھا۔

اس کا چہرہ سخت گیر تھا۔ لگتا تھا اس نے اپنی جوانی کو اچھی طرح سے نہیں گزارا۔ اس کی جلد سسٹر ائرین ہی کی طرح بدرنگ اور پیلی تھی اور اس کی دھنسی ہوئی آنکھیں کسی ایک جگہ پر مرکوز نہیں تھیں۔ وہ سسٹر ائرین کو اور ان کے اردگرد اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے ایکسرے لے رہا ہو۔ کبھی کبھی اس کی آواز سیٹی کی طرح تیز ہوجاتی،” سنو! سسٹر میں نے اچھا کیا کہ آج تمھاری کلاس میں آگیا۔ تم ایک اچھی ٹیچر ہو۔ یہاں لوگ جانتے ہیں کہ اچھی ٹیچر کیسی ہوتی ہے؟ میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ واقعی تم ایک اچھی ٹیچر ہو۔” سسٹر ائرین نے اپنی بھنوئیں سکیڑتے ہوئے کہا، “میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ ہٹو تم کیا بات لے کر بیٹھ گئے ہو۔”

لڑکے نے سسٹر ائرین سے بے تکلفانہ انداز میں کہا، ” میں نے کولمبیا یو نیورسٹی سے بی اے کیا ہے اور پھر آگیا پڑھنے کے لیے اس بے کار شہر میں جان بوجھ کر آگیا۔”

” میں یہاں کسی مقصد کے کے لیے آیا ہوں۔ میں 300 ڈالر کے عوض یہاں پڑھنے آیا ہوں۔ ” یہ کہہ کر وہ سسٹر ائرین کو دیکھنے لگا۔ جیسے چیک کر رہا ہو کہ وہ کتنی مرعوب ہوئی ہیں۔

” آپ جانتی ہیں کہ میں اتنی رقم کے ساتھ کہیں بھی فیلوشپ کرسکتا تھا مگر میں یہاں آیا۔ میرا گھر یہاں اسی شہر میں ہے۔ اس لیے یہاں داخلہ لیا ہے۔ میں گذشتہ سال آیا تھا۔ اب یہ میرا دوسرا سال ہے۔ میں اپنی ماسٹرز کا تھیسس مکمل کر رہا ہوں۔ میں آپ سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کی کلاس میں مجھے داخلہ مل سکتا ہے؟ حالانکہ میں لیٹ ہوچکا ہوں۔ کلاسز شروع ہوچکی ہیں۔ کیا مجھے اس کے لیے خاص اجازت نامہ لینا ہوگا؟

گو کہ سسٹر ائرین کو اس کی باتوں سے الجھن ہورہی تھی۔ مگر وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ لڑکا بہت ہی معصوم اور اچھا بن کر بات کر رہا تھا جیسے وہ بہت ہی شریف اور پڑھاکو ہے۔

سسٹر کی توجہ بٹانے کے لیے بولا” کیا آپ انگلش پڑھاتی ہیں؟”

کہنے لگا “میں تاریخ کا طالب علم تھا۔” کہتے ہوئے اس کا چہرہ سخت ہوگیا۔ سلوٹیں گہری ہوگئیں اور چہرہ ظاہری مسکراہٹ کے ساتھ عجیب سے تاثرات دینے لگا۔” انھوں نے مجھے نکال دیا۔” پھر اس نے پہلو بدلا اور جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور سسٹر ائرین کو پیش کیا مگر انھوں نے سر ہلاکر منع کردیا۔ سسٹر ائرین اس کے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھیں جو بچوں کی طرح تھے چھوٹے چھوٹے 10 سال کے بچہ کے ہاتھوں جیسے۔ اور ناخن عجیب سے جامنی رنگ کے۔ ” آپ کیا سمجھتی ہیں اس بات سے؟”

” ارے میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ تم کیا بتا رہے ہو۔ ”

وہ بولا ” میری ماسٹرز کی پڑھائی بہت اچھی طرح جاری تھی کہ یہ منحوس آگیا۔ معاف کرنا پروفیسر ائرین مگر اس ٹیچر نے میرے ساتھ بہت برا کیا۔”

اس کے بعد وہ ٹیچر کے بارے میں بے حد فضول گوئی کرتا رہا۔ مزید بتاتے ہوئے وہ آگے کو جھکا اور نفرت انگیز لہجہ میں بولا کہ میری اور ٹیچر کی کافی منہ ماری ہوئی۔ اس کے بعد اس سے برداشت نہیں ہوا تو مجھے کلاس سے نکال دیا۔ اس لیے اب میں انگلش پڑھنا چاہتا ہوں۔ ادب تاریخ سے بہتر ہے۔ یورپ کی تاریخ تو یک دم کچرا ہے۔ آسمان و زمین کے قلابے۔ بس جنگ و جدل اور لاشیں۔ ہے نہ صحیح بات؟ ارسطو کہتا ہے کہ شاعری تاریخ سے زیادہ معتبر ہے۔ ٹھیک کہتا ہے وہ۔ آج تمھاری کلاس میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ انگلش ہی میرے لیے بہتر ہے۔ شیکسپیئر اور بس شیکسپیئر ” سسٹر ائرین نے سوچا کہ اب وہ کہے گا کہ شیکسپیئر اور وہ کتنے ہم خیال ہیں۔

سسٹر ائرین کی نظروں میں آج اس کا کلاس میں آنا، اس کا ہاتھ اٹھا کر پوچھنا۔ اٹھے ہوئے ہاتھ کو جھٹکا لگنا۔ ماتھے پر بل۔ سوچتی گہری آنکھیں سب نظروں میں گھوم گیا۔” آپ کی کلاس میں طلبہ ایسے ہی ہیں۔ غیرسنجیدہ۔ میں سب جانتا ہوں کہ آپ یہاں نئی ہیں اور میں ایک سال سے یہاں ہوں۔ میرا کورس تو ختم ہو جاتا مگر میرے والد بیمار ہوگئے۔ اور اسپتال میں رہے۔ میری پڑھائی متاثر ہوئی اور امتحان میں اچھا نتیجہ نہیں آیا۔ مگر اب میں انگلش پڑھوں گا۔ میں انگلش کے 6 کورس لے لوں گا۔ اور مجھے یقین ہے کہ میں اچھی کارکردگی دکھاؤں گا۔ جب کوئی بات ٹھان لوں تو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔”مسلسل بولنے سے وہ ہانپنے لگا۔ جب سسٹر ائرین مسکرانے لگیں تو بولا کہ ” میں آپ کی کلاس میں آسکتا ہوں ناں؟”

سسٹر ائرین اتنی دیر سے بیٹھی اس کی باتیں سنتے سنتے تھک چکی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ کورس کا سلیبس دے دیں گی۔ سلیبس دیکھ کر وہ خوش ہوگیا۔ اور سسٹر سوچنے لگیں کہ کہیں انھوں نے اس کو اپنی کلاس میں لے کر غلطی تو نہیں کردی۔ وہ اٹھا اور خوشی سے کچھ بولتا ہوا چلا گیا۔ سسٹر ائرین ا یک بہت ہی شفیق استاد تھیں انھوں نے اس کا نام بھی معلوم کرلیا تھا۔

” ایلن ویسٹین”

اگلے دن جب سسٹر ائرین شیکسپیئر پڑھانے کلاس میں گئیں تو ایلن ویسٹین موجود تھا اور وہ سب سے قابل طالب علم ثابت ہوا۔ مگر ایک ہی ہفتے میں اس کے بدلتے ہوئے غیرسنجیدہ انداز اور منتشر خیالات سے کلاس کے دیگر طلبہ بھی متاثر ہونے لگے کیوںکہ وہ کلاس کے عین وسط میں بیٹھتا تھا۔ مگر ہجوم میں بھی وہ تنہا لگتا۔ اپنی ہی دنیا میں گم رہتا اور ایسے ایسے موضوعات پر بولتا کہ دوسرے طلبہ منہ جھکا کر ہنستے۔ سسٹر ائرین۔ ایلن ویسٹین کے حق میں بولنا چاہتیں مگر پھر خاموش ہوجاتیں، کیوںکہ اس کی باتوں اور دلائل میں کہیں نہ کہیں بدتہذیبی کا عنصر ہوتا وہ اپنے دلائل Goethe اور Freud کے بارے میں ایک ہتھیار کی طرح استعمال کرتا۔ تو سسٹر ائرین اس موضوع کو وہیں ختم کردیتیں۔ سسٹر ائرین تنہائی میں اکثر اس کے بارے میں سوچتیں اور جب وہ جونیئر نن سسٹر کارلوٹا سے اس کا ذکر کرتیں تو اس کی شخصیت کا بہت خراب تاثر ابھرتا۔ اس کے باوجود سسٹر ائرین اس کو پسند کرتی تھیں اور کہتیں کہ وہ بہت ذہین لڑکا ہے۔ سسٹر کارلوٹا اگرچہ انگریزی کی استاد تھیں مگر گذشتہ 4 سال سے چھوٹی کلاسوں کو حساب پڑھا رہی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔

پیپر شروع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ سب اپنی اپنی سیٹ پر موجود تھے اور سسٹر ائرین فکرمند تھیں کہ ایلن ویسٹین نظر نہیں آرہا تھا۔ ان کے کان دروازے پر لگے تھے کہ ابھی وہ دھڑ سے دروازہ کھول کر اندر آئے گا اور دھم سے اپنی کرسی پر بیٹھ جائے گا۔ اور شرمندہ سی مسکراہٹ سسٹر ائرین کو دے گا۔ مگر وقت گزر رہا تھا اور اس کا کچھ پتا نہیں تھا۔

سسٹر ائرین نے اپنا لیکچر بھی طویل کردیا کہ شاید وہ آجائے مگر وہ نہ آیا۔ اگلے دن سسٹر ائرین کو خود پر بھی پچھتاوا تھا کہ اس کو اجازت کیوں دی۔ مگر وہ سمجھ نہیں پارہی تھیں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ آخر وہ کوئی عام عورت نہیں تھیں۔ ایک استاد تھیں اور ان کا ایک مقام اور وقار تھا، جس کو اس نے مجروح کیا تھا۔ وہ اسی سوچ بچار میں تھیںکہ انھوں نے اس کو لبرل آرٹس کی بلڈنگ کی سیڑھیوں پر بیٹھا دیکھا۔

سسٹر ائرین کو لگا کہ جیسے پیچھے سے کوئی آواز دے رہا تھا۔ مڑ کر دیکھا تو ایلن ویسٹین تھا جو ہانپتا ہوا ان کی طرف دوڑتا ہوا آرہا تھا۔ وہ گہرے نیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس تھا۔ گلے میں ٹائی بندھی ہوئی تھی۔ اور دیکھنے میں وہ ایک چھوٹا سا آدمی لگ رہا تھا۔ وہ قریب آکر پھولے سانسوں کے درمیان بولا۔

“سسٹر ائرین میں آپ سے کل نہ آنے کی معافی چاہتا ہوں۔ میرا پہلا پرچا تو اب نہیں ہو گا میں یہاں کے قانون جانتا ہوں۔ اچھی بات ہے ڈسپلن قائم رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ میں بھی جب ٹیچر بنوں گا ایسا ہی کروں گا۔ مگر سسٹر میرے گھریلو حالات اور مسائل۔۔۔” وہ ہکلاتے ہوئے اور تھوک نگلتے ہوئے بولا ” شاید آپ نہیں سمجھ سکتیں میرے مسائل اور پریشانیوں کو۔” سسٹر ائرین اس کو گہری نظر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور اس وقت ان کو بالکل عجیب مگر سچا لڑکا لگ رہا تھا۔ حالانکہ اس کی حرکتیں غیرمانوس اور اور عجیب ہوتی تھیں۔

سسٹر ائرین کو اس کی بات میں کوئی دل چسپی نہیں تھی بس ایک انسانیت کا رشتہ تھا۔ وہ اس کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتی تھیں۔ سسٹر ائرین کو اپنے لڑکپن کا دور یاد آرہا تھا۔ جب وہ بھی اپنی بات کی پکی تھیں۔ ان کے والدین بھی غریب تھے۔ مگر سسٹر ائرین جن کا اصلی نام Yvonne تھا۔

ان کے والدین کے آنسو اثر نہیں کرسکے تھے۔ اور انھوں نے بھی جو چاہا وہ کیا۔ سسٹر ائرین نے اس سے کہا ” تم اگر چاہو تو آج اپنا پیپر دے سکتے ہو۔” یہ سن کر وہ مسکرایا ” سسٹر ائرین آپ واقعی ایک بہترین استاد ہیں۔” پھر وہ اپنے بریف کیس میں پیپر ڈھونڈتا رہا۔ سسٹر کو یقین تھا کہ وہ ایسے ہی ڈھونڈ رہا ہے اس کو پیپر نہیں ملے گا۔ اور پھر سے وہ جھوٹے سچے بہانے تراشے گا۔

بلآخر اس کو پیپر مل گیا اور وہ سیدھا کھڑے ہوتے ہوئے بولا، “سسٹر میں نے کل ہی 300 صفحات لکھ لیے تھے، جب کہ جواب 15 صفحہ کا تھا۔” یہ کہتے ہوئے وہ بہت خوش تھا اور خوشی سے اس کے گال گلابی اور آنکھیں چمک رہی تھیں۔ کہنے لگا” شاید آپ کو یقین نہ آئے مگر میرے پاس کتاب ہے۔ آپ دیکھ سکتی ہیں کہ میں نے صحیح جواب لکھا ہے۔”

سسٹر ائرین کو تعجب ہو رہا تھا۔ اور اس کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے ان کا دل چاہ رہا تھا کہ اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کو دلاسا دیں۔” کیا میں آپ سے یہاں بات کر سکتا ہوں؟ دراصل اس وقت میری وہ کلاس ہے جس سے مجھے سخت چڑ ہے۔ لیکن میں برداشت کرلوں گا۔”

سسٹر ائرین کچھ گھبرائی ہوئی تھیں۔ انھوں نے اس کے پیپر پر مضمون کا عنوان دیکھا۔

‘‘Erotic Melodies in Romeo and Juliet’ Allen Weinstein, Jr.’’

” کیا میں آپ سے یہاں بات کر سکتا ہوں۔ ” وہ سمجھ رہا تھا کہ سسٹر ائرین کچھ الجھن کا شکار تھیں۔ سسٹر ائرین اس کو گھورتی رہیں تو وہ بولا ” اچھا چلیں ہم یہاں پر ٹہلتے ہوئے بات کر لیتے ہیں۔” آپ نے جو کچھ کلاس میں بتایا تھا میں اس پر بات کرنا چاہتا ہوں۔” سسٹر ائرین کچھ متذبذب تھیں مگر اس نے کوئی پرواہ نہیں کی اور ساتھ چلتا رہا۔ دونوں کافی دور آگئے۔ راستہ بھر وہ بولتا رہا۔ سسٹر ائرین کو اس کی بے تکی باتوں میں کوئی دل چسپی نہیں تھی کیوںکہ وہ کلاس کے کسی مباحثے پر بات کر رہا تھا۔

اس کا کہنا تھا کہ” انسانیت کو مذہبی لوگ نکال دیتے ہیں اور خود کو یہودی سے بہتر سمجھتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے۔ مذہبی لوگ صرف مذہب سے منسلک رہتے ہیں انسانیت سے نہیں، جب کہ نازیوں کے بعد یہودی انسانیت پر توجہ دیتا ہے اور پوری انسانیت کے لیے سوچتا ہے۔ اور یہودی یہ ثابت بھی کرے گا۔ میں آپ کے اندر ایک مذہبی کے ساتھ انسان بھی دیکھتا ہوں۔” وہ سسٹر کو دیکھے بغیر بات کر رہا تھا۔ جیسے وہ سسٹر ائرین سے مخاطب نہ ہو، بلکہ اپنا نظریہ بیان کر رہا ہو۔

“سسٹر یہ ، پڑھیں میں نے رات کو یہ لکھا تھا۔” وہ ایک طویل اور آزاد نظم تھی جو ٹائپ رائٹر پر ٹائپ ہوئی تھی، جس کا ربن بھی گھس چکا تھا۔

” میرے والد کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے۔ وہ بے حد نفیس اور شان دار انسان ہیں، مگر آہ، ان کی صحت روز بروز گر رہی ہے۔ اب میں بڑا ہوچکا ہوں۔ وہ کم زور ہو رہے ہیں اور صحت بھی خراب ہو رہی ہے۔ مجھے ان کو دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔ اسی لیے میں اسکول نہیں آیا تھا۔” اس کے جملے سے اس کے درد کا اندازہ ہو رہا تھا۔ زندگی، موت، مایوسی کا ذکر تھا۔

ویسٹین نے سسٹر ائرین سے اپنی نظم کے بارے میں پوچھا تو سسٹر نے کہا” بہت عمدہ، بہت اچھی۔ ” یہ سن کہ وہ بہت خوش ہوا اور ان کے ہاتھ سے اپنی نظم لے لی۔ ” یہاں میں بہت کم لوگوں سے بات کرتا ہوں۔”

اندھیرے میں سسٹر ائرین محسوس کر سکتی تھیں کہ ویسٹین ان کو بغور دیکھ رہا ہے اور گھبرارہی تھیں کہ اب وہ کیا کہنے والا ہے۔

“ویسٹین! تم نے پیپر دیا اس کا شکریہ۔”

یہ کہہ کر وہ چلی گئیں۔ اگلے دن وہ اسکول 10 منٹ دیر سے آیا تو غصے میں تھا۔ سسٹر ائرین جب چرچ گئیں تو کچھ اپ سیٹ تھیں۔ ان کو اس بات کا پچھتاوا تھا کہ انھوں نے اتنا وقت ضائع کیا اور اپنی تنہائی کا جواز ویسٹین کی صحبت میں ڈھونڈا وہ شرمندہ تھیں کہ اس کے بارے میں اتنا سوچتی رہیں۔ سسٹر ائرین کو ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار کر گیا تھا، جس میں رقص و سرور تھا۔ تنہائی تھی۔ دکھ تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ اس کو پناہ دیں۔ اس کی دیکھ بھال کریں۔

جب یونیورسٹی کے ڈین نے کلاس میں ویسٹین کی کارکردگی کے بارے میں سسٹر ائرین سے پوچھا تو انھوں نے اس کی بہت تعریف کی جب کہ وہ جانتی تھیں کہ ڈین اس کی تعریف سننا پسند نہیں کرتے۔

۔۔۔۔۔

سسٹر ائرین ایک نن تھیں جن کا بظاہر اس دنیا اور اس کے جھمیلوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔وہ اپنی عبادت اور دعاؤں میں شرمندگی محسوس کر رہی تھیں۔ مگر اس کے ساتھ وہ ویسٹین کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ بھی رکھتی تھیں۔ سسٹر ائرین کو اس کے ساتھ ہم دردی تھی اور وہ چاہتی تھیں کہ اس کے دکھ دور ہوجائیں۔ وہ اس دنیا کی باسی نہیں تھیں اور ان کو سب منع تھا کہ وہ کسی میں دل چسپی لیں۔ ان کو صرف اپنی رہبانیت سے جُڑا رہنا تھا۔ وہ خوف زدہ تھیں کہ وہ لڑکا ان کو زندگی کی طرف مائل کر رہا تھا۔ ایک عام انسان جس کی خواہشات ہوتی ہیں لیکن بطور ایک راہبہ ان کے لیے یہ سب سختی سے منع تھا۔ ان کو کیا ہوتا جارہا ہے۔ بہت دن تک وہ مضطرب رہیں۔ ویسٹین کا پیپر کافی دنوں تک ان کے پاس رکھا رہا۔

سسٹر ائرین اس کو چیک کر کے اے گریڈ دے چکی تھیں۔

ویسٹین جب کافی دنوں تک نہیں آیا۔ نہ پیپر لینے نہ کلاس میں تو سسٹر نے آفس میں جاکر پتا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بتانے آیا تھا کہ اس کے والد بہت بیمار ہیں۔ اس لیے وہ کچھ عرصہ کلاس لینے نہیں آئے گا۔

آفس سکریٹری نے بتایا کہ گذشتہ برس بھی اس نے اپنی پڑھائی کا بہت نقصان کیا تھا۔ اور امتحان بھی نہیں دیا تھا۔ اور اس کا یہی معمول تھا کہ کبھی آیا کبھی غائب۔ سسٹر ائرین نے بھی اس کا انتظار کرنا اور اس کی آنے کی توقع چھوڑ دی تھی کہ وہ واپس آئے گا۔ مگر ایک دن سسٹر کو اپنی ڈاک میں اس کا خط ملا، جو بہت کالی سیاہی میں لکھا ہوا تھا تاکہ صاف پڑھا جاسکے اور جلی حروف میں اپنا پتا بھی لکھا تھا، جیسے سسٹر ائرین پر حق جتا رہا ہو اور ان کی توجہ چاہتا ہو۔ اس کا پتا تھا

Birch crest Manor

شہر کے شمالی حصے میں

اس نے خط میں لکھا تھا۔

پیاری سسٹر ائرین!

میں ٹھیک ہوں اور یہاں بہت خوش ہوں۔ میرا ڈاکٹر بہت اچھا اور قابل ڈاکٹر ہے جو مجھے سمجھتا ہے مگر میرے والد میرے لیے پریشان رہتے ہیں۔ میں ان کو سمجھاتا ہوں مگر وہ نہیں سمجھتے۔ آپ کو جب بھی فرصت ہو۔ آپ یہاں میرے والد کی طرف آسکتی ہیں۔ آپ کو وہ لڑکا یاد ہے۔ MEASURE FOR MEASURE، جس کی بہن جب جیل میں اس سے ملنے آتی تھی تو وہ کہتا تھا۔ اس دنیا سے تو اچھا ہے اُس دنیا میں چلا جاؤں۔ آپ میرے والد کو سمجھا سکتی ہیں کہ وہ میری اتنی پروا ہ نہ کیا کریں۔ خط کے آخر میں اس نے اپنے والد کا نام لکھا تھا۔

سسٹر ائرین راہ داری میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے ویسٹین کا خط پڑھ رہی تھیں۔ وہ خوف زدہ تھیں اور ویسٹین کے لیے پریشان تھیں۔ اور چلتے ہوئے سوچ رہی تھیں کہ خدا نے اس کو اتنے دکھ دیے۔ وہ جانتی تھیں کہ ویسٹین نے ان کو خط کیوں لکھا؟ اور وہ ان سے کیا چاہتا ہے؟ ایسی کیفیت سسٹر ائرین کی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ ان کو کلاؤڈو کی وہ تقریر یاد آرہی تھی کہ ’’meaure is for measure‘‘ یعنی “جیسا کروگے ویسا بھرو گے۔”

اے ہے۔ بس مرنا ہی ہے۔

اور جانا کہاں ہے

کس کو خبر ہے

ٹھنڈ میں، ایک قید میں سڑنے کو

یہ زندہ جیتی جاگتی جان

ایک مٹی کے ڈھیر میں بدلنے کو ہے

اور آزاد پُرسکون روح

یہ آگ کے شعلوں میں ناچتے ہوئے

یہ برف کی دبیز تہہ میں دبے ہوئے

یہ نادیدہ ہواؤں میں مقید

بھٹکتے بھنور میں چکراتے ہوئے

اس معلق دنیا میں جکڑے ہوئے

تباہی سے مزید تباہی کی جانب

شور و ہنگامہ خیزی سے بھرپور

غربت، افلاس، ظالم وقت اور قید

کیا یہ سب وہی جنت ہے؟

جس کے لیے ہم موت سے ڈرتے ہیں؟

سسٹر ائرین نے اس کے والد کے گھر فون ملایا تو ایک عورت کی آواز آئی۔” جی یہ Allen Weinstein کا گھر ہے آپ کس سے بات کرنا چاہیں گی؟”

” میں ویسٹین صاحب سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ ان کے بیٹے کے بارے میں بہت ضروری ہے یہ۔”

کچھ دیر خاموشی کے بعد آواز آئی۔

” آپ شاید ان کی والدہ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔”

” جی جی والدہ سے۔ بہت ضروری بات کرنی ہے۔ ” سسٹر ائرین نے کہا۔

دوسری طرف کافی دیر خاموشی رہی۔ سسٹر ائرین نے پھر کہا تو ادھر سے آواز آئی جی Allen نے آپ کا ذکر کیا تھا۔ سسٹر ائرین پریشان اور الجھن کا شکار ہوگئی تھیں کہ دوسری طرف فون پر کون ہے اور آخر کیا بات ہے؟

انھوں نے سسٹر کارلوٹا کو اپنے ساتھ لیا اور شام کے دھندلکے میں کار میں چل پڑیں۔ سسٹر کارلوٹا بھی پریشان تھیں کہ آخر سسٹر ائرین کو کیا ہوا ہے اور وہ اتنی متفکر کیوں ہیں؟ ان کی آنکھیں اور چہرہ بے حد متفکر تھا۔ وہ شہر کے ہجوم میں کار چلاتی ہوئی گلیوں، چوراہوں سے گزرتی ہوئی شہر سے باہر کھیتوں کھلیانوں کو پار کرتی چلی جا رہی تھیں۔ راستے میں ڈھیروں درخت کٹے پڑے تھے۔ شام ہوتی جارہی تھی۔ عجیب پراسرار سا ماحول تھا۔ سسٹر ائرین ایک جہاںدیدہ اور ذہین پروفیسر تھیں۔ انھوں نے کچھ تو سوچا ہو گا۔ کافی فاصلہ طے کرکے جب وہ ایک جگہ پہنچیں اور وہاں سے وہ پھر ایک سڑک پر مڑ گئیں جو ایلن کے گھر کی طرف جارہی تھی۔ وہ کچھ ڈری گھبرائی سی بھی تھیں کہ گھر ملے یا نہ ملے۔ ایک عجیب ان کہی کیفیت سے دوچار تھیں۔ جیسے ہی ان کی کار ایلن کے گھر کے قریب آئی تو وہ حیران رہ گئیں۔ بے حد شان دار و وسیع عمارت۔ بہت وسیع و عریض باغ مگر خشک گھاس اور سوکھے پتے بھی ادھر ادھر۔ اس علاقے میں سب گھر ایسے ہی شان دار بنے ہوئے تھے۔ وہ کوئی عام جگہ نہیں بلکہ رؤسا کا علاقہ تھا۔ بڑے بڑے فارم ہاؤسز۔ سنگ مر مر کے بنے بڑے عالی شان گھر، شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں اور چاروں اطراف میں سرو کے درخت جیسے جنت میں آگئے ہوں۔

سسٹر ائرین تو اپنے کپڑوں سے شرمندہ سی تھیں کہ ایسے عالی شان گھر میں معمولی کپڑوں میں کیسے جائیں گی۔ ونسٹن کا گھر تو سب سے ہی الگ لگ رہا تھا جیسے V کو الٹا کردیا جائے اس شکل کا صدر دروازہ تھا۔ کالی چھت والی راہ داری سے سسٹر ائرین کی کار جب دروازے تک پہنچی تو ائرین نے سسٹر کارلوٹا سے کہا کہ وہ جلد واپس آجائیں گی۔ دروازے پر ایلن کی مان ملیں۔ بالکل ایلن کی طرح چھوٹے چھوٹے ہاتھوں والی۔ وہ ائرین کو اندر لے گئیں اپنی جوانی میں وہ بہت خوب صورت رہی ہوں گی۔ مگر اب سفید بالوں کا اونچا سا جوڑا بنائے ہوئے تھیں۔ اور اب ان کے چہرے میں کوئی دل کشی نہیں تھی۔ وہ ائرن سے بولیں کہ ایلن ابھی آتا ہے۔ انھوں نے آواز دی کہ مہمان آئے ہیں۔ پھر وہ بیٹھک میں لے گئیں جہاں ایک کونے میں پیانو رکھا تھا اور دوسرے کونے میں بھی موسیقی کا آلہ رکھا تھا اور درمیان میں سفید قالین اور بے حد قیمتی فرنیچر۔

سسٹر ائرین پر کپکپی طاری تھی ایلن کی ماں نے ائرین سے کہا؛

“پروفیسر ائرین جب آپ کا فون بجا تو میں۔۔۔۔کیا میں آپ کو پروفیسر کہہ سکتی ہوں؟ میں نہیں جانتی تھی کہ آپ سے کیسے بات کروں۔ اصل میں ایلن کرسچین اسکول جانا چاہتا تھا۔ میں نے اس کے والد کو سمجھایا کہ اس کو جانے دیں۔ آج کل بچوں کے مزاج اور خیالات بدل رہے ہیں۔ نیویارک میں وہ اپنا خیال نہیں رکھ سکا اور واپس یہاں گھر آگیا۔ کیا میں آپ کو پروفیسر کہہ سکتی ہوں؟ سسٹر نے کہا کہ وہ ان کو سسٹر ائرین کہہ سکتی ہیں۔ ایلن کی ماں حیران ہی ہو رہی تھیں کہ اتنے میں ایلن کے والد کمرے میں داخل ہوئے۔ انھوں نے گہرے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ عمر میں لگ بھگ 50 کے ہوں گے۔ وہ بہت تیزی اور روانی میں تھے۔ اپنے کندھے پکڑے ہوئے تھے۔ ہینڈ سم آدمی، اچھی جسامت چہرے سے بہت تیز لگ رہے تھے۔ سسٹر ائرین کی طرف کرسی آگے کی طرف گھسیٹی، جس کی وجہ سے سفید غالیچے کا کونا بھی الٹ گیا، مگر انھوں نے اس کی پرواہ نہیں کی اور بیوی کو ایک طرف کرتے ہوئے سسٹر سے بولے،” آج میں جلدی گھر آگیا مجھے لائیبی (بیوی) نے فون کردیا تھا۔ سسٹر! آپ کو ایلن کا خط ملا ہو گا؟ کیا میں وہ خط دیکھ سکتا ہوں؟

لائبی پیچھے سے سسٹر ائرین کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ ان کا شوہر بہت زور سے بولتا ہے اور کنفیوز کر دیتا ہے۔ سسٹر ائرین نے وہ خط ان کو دے دیا۔

لڑکے کے باپ نے اتنی تیزی سے خط پڑھا اور سسٹر ائرین کو دیکھا کہ وہ سمجھیں کہ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہ رہے ہیں کہ وہ اتنا پڑھا لکھا قابل ہے کہ پڑھنے میں اتنی روانی ہے۔ پھر وہ بولے، ” اچھا تو وہ وہاں خوش ہے، مگر ہم سے وہ کوئی بات نہیں کرتا۔”

” لیکن وہ آپ کو لکھتا ہے کہ وہ خوش ہے اس کا کیا مطلب؟ یہ سب کیا بکواس ہے؟ وہ خوش نہیں ہے وہ گھر واپس آنا چاہتا ہے۔”

سسٹر ائرین کی آواز حلق میں پھنس رہی تھی۔ ان کو ڈر تھا کہ ایلن کی طرح اس کا باپ بھی چیخنا شروع نہ کردے۔ وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ خط ڈاک میں بھیجنے سے پہلے کسی کو پڑھ لینا چاہیے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے۔ اس کا باپ مزید چراغ پا ہو گیا۔ “سسٹر وہ خودکشی کرنا چاہتا ہے۔ اس کو اسپتال میں ہونا چاہیے۔”وہ زور زور سے اپنا سر ہلا رہا تھا اور ایلن کی ماں رو رہی تھی۔ سسٹر ائرین کا دم گھٹ رہا تھا۔” معاف کرنا سسٹر مجھے روز اس پر بہت خرچہ کرنا پڑتا ہے ایلن کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔ مجھے پروا نہیں کہ وہ خوش ہے یا ناخوش ہے۔ تم چاہتی ہو کہ میں اس کو نکال لوں؟ میں نے 2 گھنٹے تو بحث کی ہے داخل کرنے کے لیے۔ دیکھو اس کو خود پر قابو نہیں ہے۔ وہ یہاں توڑ پھوڑ مچا رہا تھا۔ اس خط میں اس نے کیا لکھا ہے، ہم سے بات نہیں کرتا۔” غصے سے ان کا رنگ سیاہی مال ہو رہا تھا اور منہ سے جھاگ نکل رہے تھے۔” وہ مجھے برے برے ناموں سے پکارتا ہے۔ گالیاں دیتا ہے۔ لائیبی تم جاؤکچن میں ان کو لے کر اور دونوں ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر رو لو۔ میں اس کمینے کو ٹھیک کر دوں گا۔” سسٹر وہ آپ کو اچھا پیپر دیتا ہے نمبر بھی اچھے لیتا ہے۔ آپ فکر نہ کریں شاید آپ کی طرح اور لوگ نہیں ہوں گے جو اتنی فکرکریں۔” کونوینٹ واپس جاتے ہوئے سسٹر ائرین کے دماغ میں ساری باتیں گونج رہی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ ویسٹین کسی کمرے کی کھڑکی سے سب کچھ دیکھ ریا ہو گا سن رہا ہو گا۔

ایک ماہ بعد ویسٹین خود آگیا۔ اس نے وہی سوٹ پہنا ہوا اور ٹائی لگائی ہوئی تھی جو پہلی دفعہ سسٹر نے دیکھی تھی۔ وہ سیدھا سسٹر کے آفس میں آگیا جیسے کوئی کشش اس کو کھینچ کر لائی ہو اس نے آتے ہی سسٹر سے ہاتھ ملایا۔ سسٹر کا خوف ان کی آنکھوں میں اس نے دیکھ لیا ہوگا۔

طنزیہ مسکراتے ہوئے بولا ” سسٹر دیکھیں مجھے آزادی مل گئی میں اس خول سے باہر آگیا۔ کیا میں بیٹھ سکتا ہوں۔”

سسٹر ائرین کی سانس تیز تیز چل رہی تھی، بالکل ایسے جیسے سامنے دشمن بیٹھا ہو اور یہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ دشمن ہے۔” میں جانتا ہوں کہ آپ آئی تھیں اور آپ ہی آسکتی ہیں ورنہ کسی کو کیا پروا۔ آپ ایک انسان دوست اور ہم درد مذہبی خاتون ہیں۔ آپ کو معلوم ہے انھوں نے مجھے کمرے میں بند کردیا تھا۔ مجھے الیکٹرک شاک دیتے تھے۔ میں لعنت بھیجتا ہوں اتنے قیمتی ساز و سامان اور عالی شان بلڈنگ پر جہاں انسان کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔ 50 ڈالر ان کے لیے مجھ سے زیادہ قیمتی ہیں۔ جہاں ظلم اور تشدد ہوتا ہے مجھے ایک سیٹی مل گئی تھی جب مجھے شاک دیتے تھے تو میں انگلی سیٹی پر رکھ دیتا تھا اور اتنی زور سے بجتی تھی کہ ان لوگوں نے مجھے تنگ آکر فٹ قرار دے کر باہر نکال دیا۔ اب میں سڑکوں پر پھرتا ہوں آپ جیسے نارمل لوگوں کی طرح مٹی، دھول اور دھوئیں میں سانس لیتا ہوں۔” یہ کہہ کر وہ کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

سسٹرکا دل چاہ رہا تھا کسی طرح اس کو سکون فراہم کر دیں۔

” مسٹر ویسٹین ”

” مجھے Allen پکاریں ” اس نے دانت بھینچتے ہوئے کہا۔

“مجھے بہت افسوس ہے میرے والدین نے میرے ساتھ ایسا کیا اور آپ کی بھی تضحیک ہوئی۔”

وہاں جو ڈاکٹر ہے وہ بھی یہودیوں سے نفرت کرتا ہے اور ہمارے لوگ یہ بات جانتے ہیں۔ اس کی تو مجھ سے بڑی ناک ہے بابا۔ وہ سب ایسے ہیں غیرانسانی سلوک کرنے والے ظالم لوگ۔ مجھے آپ سے مدد چاہیے۔ میں کینیڈا جانا چاہتا ہوں۔ یہاں سے دور بہت دور۔ وہاں مجھے نوکری مل جائے گی یا میں خود کو ختم کرلوں گا۔ مگر یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔ لیکن میرے پاس رقم نہیں ہے۔ کیا آپ مجھے کچھ۔۔۔؟ ”

سسٹر نے کہا ” رقم؟ کیا تمھارے پاس نہیں ہیں پیسے؟ تمھارے پاس ہیں۔ جاؤ کہیں سے لے لو۔ کسی سے بھی۔ بہتر ہے تم واپس چلے جاؤ۔”

” میرے دوست ایک نمبر کے منافق ہیں۔ کل ایک دوست کو میں نے بہت آوازیں دیں مگر وہ انجان بن گیا جیسے مجھے جانتا ہی نہ ہو۔ مجھے دیکھا ہی نہ ہو۔ میں جانتا ہوں کہ آپ ایک رحم دل خاتون ہیں، ایک شعر کی طرح جو بہت حساس ہوتا ہے۔ صرف آپ ہی مجھے سمجھتی ہیں۔ کیا آپ مجھے 10 ڈالر دے سکتی ہیں؟ میرے بینک اکاؤنٹ میں 3000 ڈالر موجود ہیں مگر والدین نے مجھے بھکاری بنا ڈیا ہے۔ میں اپنے پیسے نہیں نکال سکتا۔ مجھے جانور کی طرح سمجھتے ہیں۔ میں آپ کو واپس کردوں گا۔ آپ میری مدد کردیں پلیز۔ آپ میرا ہاتھ تھام لیں۔ میں بہت پریشان ہوں۔ ” وہ سسٹر کا ہاتھ تھامنے آگے بڑ ھا، مگر سسٹر نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔

The post برف کے دیس میں appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>