چولستان جیپ ریلی کو اس وقت پاکستان کے بڑے سپورٹس ایونٹ میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ ریلی موٹر سپورٹس کے شائقین و پیشہ ور افراد کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت تو رکھتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ مقامی لوگوں میں ایک تہوار کی پہچان بنا چکی ہے۔ ریلی کے دوران چولستان کی ثقافت، رہن سہن اور کھانے باہر سے آنے والے سیاحوں کی خصوصی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔
چولستان جیپ ریلی کا آغاز 2005 ء میں ہوا جو کہ اب ایک بین الاقوامی سطح کی سرگرمی بن چکی ہے، جس میں نامور ملکی و غیرملکی مرد ڈرائیورز کے ساتھ ساتھ اب خواتین ڈرائیورز بھی حصہ لیتی ہیں۔ تین سے چار روز پر مشتمل یہ کھیل نہ صرف تفریح مہیا کرتا ہے بلکہ ریاست بہاولپور کی تہذیب و تمدن اور ثقافتی ورثہ کوبھی اجاگر کرنے کا باعث ہے اور جنوبی پنجاب میں موسم سرما کی سیاحت کا ذریعہ بھی ہے۔ اس ریلی کی بدولت شائقین سفر کے منفرد تجربہ سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ چولستان کے تاریخی مقامات کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر مقامی فنکاروں کے پروگرام ،آتش بازی، صحرا میں لگائے گئے محفوظ کیمپوں میں شب بسری ، اونٹ اور جیپ پر شکارکرنا تقریب کے لطف کو دوبالا کر دیتا ہے۔
بہاولپور، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے جنوب میں واقع ہے، عباسی خاندان نے 200 سال تک (1748ء سے 1954ء) اس ریاست پر حکومت کی ہے۔سرائیکی یہاں کی مقامی زبان ہے لیکن اردو ،پنجابی اور انگلش بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ بہاولپور کا علاقہ 300 میل تک دریائے ستلج اور دریائے سندھ کے ساتھ واقع ہے۔ شائقین، نوابوں کے شہر بہاولپور میں منفرد جگہوں اور میوزیم کے ساتھ صحرا کے بڑے بڑے حصوں، دین گڑھ قلعہ، خان گڑھ، بجنوٹ قلعہ، موج گڑھ قلعہ اور جام گڑھ قلعہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔
بہاولپور میں سیاحتی دلچسپی کے مراکزکی طویل فہرست موجود ہے جن میں سے چند درجہ ذیل ہیں۔
پاکستان کا سب سے بڑا صحرا چولستان تقریباً 25000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ چولستان کو مقامی طور پر روہی کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کے رہائشی افراد کو روہیلا کہا جاتا ہے، چولستان لفظ چولنے سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے جگہ تبدیل کرنا یا حرکت کرنا کیوں کہ چولستان میں ریت کے ٹیلے ہوا کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اپنا رخ تبدیل کر لیتے ہیں۔ چولستان کو اہم جغرافیائی حیثیت حاصل ہے، جو سندھ کے صحرائے تھر تک اور مشرق میں بھارت کے صحرائے راجھستان تک پھیلا ہوا ہے۔ چولستان خالص صحرا تقریباً 483 کلو میٹر لمبا اور64 سے 290 کلو میٹر چوڑا ہے۔
خالص صحرا 16000 مربع کلو میٹر ہے۔ 1000 سال پہلے چولستان دریائے ہاکڑا کے پانی سے بھرا ہوا سرسبز علاقہ تھا اور یہ علاقہ دوسری سے چوتھی صدیوں میں بہت مشہور تھا۔ آثار قدیمہ کے ماہرین نے قدیم دریا کے 500 کلو میٹر کے ساتھ اب تک 400 آبادیوں کودریافت کیا ہے۔ سندھ وادی کی تہذیب میں صحرا کے درمیان میں سب سے بہترین آبادی ڈیراور قلعہ کی تھی جو امیر بہاولپور کی آبائی رہائش گاہ تھی۔ قلعہ کی بڑی دیواریں چالیس (ہر ایک سائیڈ پر دس) بڑے پشتوں پر مشتمل ہے، جو طلوع سحرکے وقت ایسے نظر آتے ہیں جیسے ریت سے باہر نکل رہے ہوں۔ قریب ہی ایک سنگ مرمر سے بنی خوبصورت مسجد ہے، جو دہلی میں موجود سرخ قلعہ میں موجود موتی مسجد کی مکمل کاپی ہے۔
یہ وہ جگہ ہے، جہاںچودھویںکا چاند ایک دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔ اس سے پہلے کہ آپ اس کو سمجھیں آ پ کو اس منظر سے محبت ہو جائے گی۔ چولستان کے علاقے میں کئی قلعے ہیں، جن میںڈیراور قلعہ،دین گڑھ قلعہ،میر گڑھ قلعہ،جام گڑھ قلعہ،موج گڑھ قلعہ،مروٹ قلعہ،فلورا قلعہ،خان گڑھ قلعہ،خیر گڑھ قلعہ،نوا نکوٹ قلعہ،بجنوٹ قلعہ شامل ہیں۔ قلعہ ڈیر اوراس کے جنوب میں 45 کلومیٹر کے فاصلے پر چنن پیر (چنن کامطلب چاند کی طرح) کا مزار ہے جوکہ مقامی طور پر چنڑ پیر کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ایک بہت اہم زیارت کا مرکز ہے اور تہوار میں یہ صحرا کو زندہ کر دیتا ہے۔ یہ صحرا سالانہ جیپ ریلی کی میزبانی بھی کرتا ہے جس کو چولستان جیپ ریلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ پاکستان میں موٹر کار کی کھیلوں کا سب سے بڑا تہوار ہے۔
جیپ ریلی ضلع بہاولپورمیں قلعہ ڈیراور کے قریب سے شروع ہوتی ہے، جس میںتقریباً 100 سے زیادہ ڈرائیور زاور ٹیمیں حصہ لیتی ہیں اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے سے زائد لوگ اس کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ جیپ ریلی میں جیپ کا لفظ کسی خاص کمپنی کے لیے نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ریلی صرف جیپ گاڑیوں پر مشتمل ہے یا جیپ گاڑیوں کو ترقی دینے کے لیے ہے۔ پاکستان میں اس کا مطلب ہے وہ گاڑی جو صحرا میں دوڑ سکے یا پختہ روڈ کے بغیر غیر ہموار راستوں پر چل سکے۔ صحرا کے دل میں اس تقریب کا مقصد باہر کی دنیا کو چولستان کی تاریخی اہمیت اور ثقافت سے متعارف کروانا ہے اور موسم سرمامیںسیاحتی مقام کو اجاگر کرنا ہے۔
پہلی تین روزہ چولستان جیپ ریلی 9 فروری سے 11 فروری 2005ء کو منعقد ہوئی۔دوسری چولستان جیپ ریلی 10 سے 12 مارچ 2006ء کو منعقد ہوئی، جس میں پنجاب ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن(TDCP) نے پہلی ،دوسری اور تیسری پوزیشن پر آنے والے ڈرائیورز کو بالترتیب 1 لاکھ، 75 ہزار اور 50 ہزارکا انعام دیا۔ تیسری چولستان جیپ ریلی 9 سے 11 مارچ 2007ء کومنعقد ہوئی، جس میں پنجاب ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن(TDCP) نے پہلی ،دوسری اور تیسری پوزیشن پر آنے والے ڈرائیورز کو بالترتیب 1 لاکھ 50 ہزار ،1 لاکھ اور75 ہزارکا انعام دیا۔چوتھی چولستان جیپ ریلی 8 سے 10 مارچ 2008ء کومنعقد ہوئی۔پانچویں چولستان جیپ ریلی 26 فروری سے 1 مارچ 2009ء کومنعقد ہوئی۔
نادر مگسی پانچویں جیپ ریلی کے چیمپین تھے۔ وقت اور فاصلے کی صحیح پیمائش کے لیے اس سال گاڑیوں میں ٹریکنگ سسٹم بھی متعارف کروایا گیا اور گاڑیوں کو چار حصوں(Catagories) میں تقسیم کیا گیا۔ چھٹی چولستان جیب ریلی2010ء میں19 سے 21فروری کو منعقد ہوئی۔2011ء میں جیپ ریلی منعقد نہیں ہوئی۔ ساتویں چولستان جیپ ریلی 17 فروری سے 19 فروری 2012ء کو منعقد ہوئی۔ نادر مگسی ساتویںجیپ ریلی کے چیمپین تھے۔ آٹھویں چولستان جیپ ریلی 15سے17 فروری 2013ء میں منعقد ہوئی، نویں چولستان جیپ ریلی 14 سے 16 فروری 2014ء کو منعقد ہوئی۔ دسویں چولستان جیپ ریلی 13 سے 15 فروری 2015ء کو منعقد ہوئی، جس میں رونی پاٹیل چیمپین تھے۔عورتوں میں رونی پاٹیل کی بیوی نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بارویں چولستان جیپ ریلی 12سے14فروری 2016ء کومنعقد ہوئی، جس میں صاحب زادہ سلطان نے پہلی اور رونی پاٹیل نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اس ریلی کے بعد پہلی ،دوسری اور تیسری پوزیشن پر آنے والے ڈرائیورز کو بالترتیب 3 لاکھ ،2 لاکھ اور1لاکھ کا انعام دیا گیا۔
بارہویں چولستان جیپ ریلی 9سے12 فروری 2017ء کومنعقد ہوئی جس میںنادر مگسی نے پہلی، رونی پاٹیل نے دوسری اور انس خاکوانی نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ 13 ویںچولستان جیپ ریلی 15 فروری سے 18فروری 2018ء کو پنجاب کے تین اضلاع رحیم یار خان، بہاولپور اور بہاولنگر میں منعقد کروائی گئی، نادر مگسی نے چولستان جیپ ریلی میں مسلسل دوسری مرتبہ پہلی پوزیشن حاصل کی، جس میںانھوں نے اپنا راستہ 4 گھنٹے 36منٹ اور 9 سیکنڈ میں طے کیا۔دوسری پوزیشن صاحب زادہ سلطان نے 4گھنٹے 37منٹ اور 36 سیکنڈ میں اور تیسر ی پوزیشن جعفر مگسی نے وہی فاصلہ 4گھنٹے 39منٹ اور 21 سیکنڈ میںطے کرکے حاصل کی۔دوسری کلاس میں ممتاز ڈرائیور جونی لیور کی بیوی تشنہ پٹیل نے 90 کلومیٹر کا ٹریک 2گھنٹے 41 منٹ میں مکمل کرکے پہلی پوزیشن، عاصمہ نے دوسری اور مومل خان نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ 14ویں چولستان جیپ ریلی14 سے 17 فروری2019ء میںبہت کامیابی سے منعقد کی گئی، جس میںنادر مگسی نے مسلسل تیسری بار کامیابی حاصل کی۔
چولستان جیپ ریلی میں عموماًگاڑیاں کو چار حصوں اے،بی،سی اور ڈی میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جن کو پٹرول ،ڈیزل ،انجن کی طاقت اور برانڈ کے حساب سے گاڑیوں کے تقسیم کیا جاتا ہے۔
پندرویں چولستان جیپ ریلی2020 جو450 کلومیٹر سے زائد فاصلے پر محیط ہے ان کو دو ٹریک (Track1&Track2)ٹریک 1 اور ٹریک 2 میں تقسیم کی گیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
اس سال چولستان جیپ ریلی کا راستہ 500تقریباً کلومیٹر تک بڑھا دیا گیا ہے، جو ضلع بہاولپو،رحیم یار خان اور بہاولنگر پر مشتمل ہے۔ دین گڑھ قلعہ،مروٹ قلعہ، خان گڑھ، بجنوٹ قلعہ، موج گڑھ قلعہ اور جام گڑھ قلعہ بھی اسی راستے میں شامل ہیں جو کہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔اس ریلی کا پہلا ٹریک 220 کلومیٹر کا ہے اور دوسرا ٹریک 246 کلومیٹر پر محیط ہے۔ریلی کوکامیاب بنانے کے لیے سرکاری، غیر سرکاری ادارے جن میں پاکستان آرمی،پاکستان رینجرز،ضلعی ومقامی حکومتیں بہاولپورڈویژن،پنجاب پولیس، پنجاب ایمرجنسی سروس ریسکیو 1122،چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی،پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ،محکمہ صحت، محکمہ زراعت سمیت متعدد ادارے و تنظیمیں خدمات سرانجام دیں گی۔
چولستان جیپ ریلی کو9 کیٹیگریز میں ریلی کو تقسیم کیا جاتا ہے جس میں آٹھ اقسام اوپر بیان کی گئی ہیں اور نویں قسم میں صرف خواتین شامل ہوں گی۔ریلی میں گاڑی کا انجن تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی نہ ہی انجن کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے والے کو ریس میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔ 2800cc گاڑی جو 10سال پرانی ہو اسے صرف ـ”C” یا “S3″ میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔ گاڑی کے کاغذات کی کاپی بھی ریس سے پہلے جمع کروانا لازمی ہے۔کسی بھی گاڑی کو کاغذات کی چیکنگ کے بغیر ریلی میں حصہ لینے کی اجازت نہیںہوتی ہے۔حفاظتی نقطہ نظر سے تمام حصہ لینے والے ڈرائیورز کو اپنی گاڑی کی چیکنگ کروانی ہوتی ہے۔ رول بار اور آگ بجھانے والا آلہ گاڑی میں ہونا ضروری ہے، حفاظتی لباس میںہونا لازمی جزو ہے، اس کے بغیر ریلی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی ۔
اس مرتبہ چولستان جیپ ریلی کو مزید سنسنی خیز بنانے کے لیے ڈرٹ بائیک ریلی کاانعقاد خصوصی طور پر کیا جارہا ہے جس میںرائیڈرکی حفاظت کویقینی بنانے کے لیے ان قواعد وضوابط پر عمل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے ۔مثلاً
٭تمام ڈرٹ بائیک رائیڈرز کی عمر 18 سال یا اس سے زیادہ ہونی چاہیے اور اس کے پاس صحیح ڈرائیونگ لائسنس ہونا ضروری ہے۔
٭تمام رائیڈرز رجسٹریشن فارم اپنے والدین / سرپرست کے دستخط کے ساتھ جمع کروائیںگے، ڈرٹ بائیک ریلی کے راستے پر مقابلہ کرتے ہوئے ہیلمٹ اور حفاظتی لباس کو ہر وقت پہننا لازمی ہے۔
٭ ڈرٹ بائیک رائیڈرزکودوران ریس ڈرٹ بائیک خراب ہونے کی صورت میں مرمت و تکنیکی خرابی کو دور کرنے کی اجازت ہوگی تاہم شرکاء کو یقینی بنانا ہوگا کہ ریلی کے راستے میں کسی بھی طرح کی رکاوٹ نہ ہو۔
٭تمام ڈرٹ بائیک رائیڈرز کے لیے حفاظتی لباس لازمی ہے، ڈرٹ بائیک رائیڈرزکو تمام ڈھیلی اشیاء کو ہٹا دینا چاہیے۔ ڈرٹ بائیک پر چلنے والی کسی بھی چیز کو بولٹ یا محفوظ طریقے سے باندھنا چاہیے۔
٭ٹائر اچھی حالت اور محفوظ طریقے سے لگے ہونے چاہیں، جس میں بولٹ نظر نہیں آنے چاہیں اور نہ ہی ٹائر کی سائیڈ وال میں دراڑیں نظر آرہی ہوں۔
٭تھروٹل ریٹرن ایکشن محفوظ اور مثبت ہونا چاہیے۔ جب انجن چل رہا ہو تو کوئی بھی اینڈھن، تیل، یا بریک آئل لیک دکھائی نہیں دینا چاہیے۔
٭ فورجد ویل میں کسی بھی دراڑ کی اجازت نہیں ہوگی۔ بریک کے پاس ایک مناسب پیڈل، ماسٹر شلنڈر میں معقول تیل اوراس کے ساتھ کسی قسم کا رساؤ نہیں ہونا چاہیے۔
٭وہیل بیرنگ، شاکس اور ہینڈل اچھی حالت میں ہونے چاہئیں۔ تکنیکی خرابی کی وجہ سے دیریا ڈرٹ بائیک رائیڈرز کی غلطی یاکوئی حادثہ پیش آنے کی صورت میں کسی قسم کا عذر قابل قبول نہیں ہوگا۔کسی بھی حادثے کی اطلاع فوری طور پر قریبی ریلی کے عہدیداریاچیک پوائنٹ پر دینی ہوگی۔
٭منتظمین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی وقت راستے یا واقعہ کے ضوابط کے کسی بھی حصے کو حذف ،شامل یا تبدیل کر سکتے ہیں۔
٭ریلی ٹائم منیجمنٹ کے لیے 24 گھنٹے والا وقت فارمیٹ استعمال کرے گی۔آرگنائزر ڈرٹ بائیکر کے راستے میں آنے والی مداخلتوں پر قابوں پانے کے لیے کوشاں رہے گا، تاہم راستے میں کسی رکاوٹ کی وجہ سے کسی تاخیر کا ازالہ نہیں کیا جائے گا۔
ایونٹ کے پہلے اور دوسرے دن 215 کلومیٹر والے ٹریک پر ریس متوقع ہے، جس پر مختلف جگہوں پر 7 چیک پوسٹ موجود ہوں گی اور تیسرے دن 246 کلومیٹر والے ٹریک پر ریس متوقع ہے، جس پر 11 چیک پوسٹ موجود ہوں گی۔ مجموعی طور پر 461 کلومیٹر کے طے کردہ فاصلے کے وقت کا حساب لگایا جائے گا، جس کے بعد ریس کے فاتح کا اعلان کیا جائے گا اور یہ تمام مرحلے مختلف کیٹیگریز کی گاڑیوں کے لیے الگ الگ ہوں گے۔
اس وقت سیاحت دنیا میں چھٹی بڑی صنعت بن چکی ہے جوکسی بھی ملک کی معیشت میں حیرت انگیز تبدیلی لاسکتی ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان ایک ایسے جغرافیائی خطے میں واقع ہے، جہاں قدرت نے اسے پُرفضا سیاحتی مقامات سے نوازا ہے جوکہ پوری دنیا کے لیے کشش رکھتے ہیں اور ان میںجنوبی پنجاب قابل ذکر ہے، جس کا تاریخی ،ثقافتی و جغرافیائی ورثہ حکومت وقت کی توجہ کا طالب ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں سیاحت کے فروغ کے لیے ملکی وغیر ملکی سیاحوں کے لیے دلچسپی پیدا کرنے والے مواقعوں پر توجہ مرکوزکریں جس سے ناصرف لوگوں کو روزگار میسر ہو گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت پر بھی اس کے مثبت و دوررست اثرات مرتب ہوں گے۔
The post چولستان جیپ ریلی appeared first on ایکسپریس اردو.