واردات قتل کی ہو یا چوری ڈکیتی کی گاؤں دیہات میں آج بھی کھوجی پر انحصار کیا جاتا ہے کہ وہ کُھرا اٹھاکر یا پاؤں کے نشان کی مدد سے اپنے ہدف کو ڈھونڈ نکالتا ہے۔
ماضی میں تو ماہر کھوجیوں کو سرکاری سرپرستی بھی میسر ہوا کرتی تھی۔ ہر گاؤں میں نمبردار، تھانیدار کی طرح ایک سے زائد کھوجیوں کا ہونا لازمی تھا لیکن عہدجدید نے جہاں اور دیگر اقدار، ویلیوز اور دیگر ضروری چیزوں کو اذکار رفتہ قرار دیا وہیں کھوجی بھی غیرضروری ٹھہرے۔ شہروں میں پیدا ہونے والی نسل شاید آگاہ نہ ہو کہ محض پاؤں کے نشان کی مدد سے کھوج لگانے والے نہ صرف کھوجی کے تن و توش، معذوری اور دیگر علامات کی نشان دہی بھی کردیا کرتے تھے۔
کہتے ہیں ایک عرب کا اونٹ گم ہوگیا اس نے صحرا میں جانے والے چند لوگوں سے کہا تم نے میرا اونٹ تو نہیں دیکھا۔ ان میں سے ایک نے کہا وہ اونٹ کانا تو نہیں تھا۔ اس نے کہا ہاں ایسا ہی تھا۔ دوسرا بولا اس کے پاؤں میں کوئی زخم یا تکلیف، کہنے لگا ہاں ایک پاؤں میں چوٹ لگی تھی۔ اب تو مالک کو یقین ہوگیا کہ یہ اونٹ کے بارے میں جانتے ہیں۔
کہنے لگا جلدی بتاؤ وہ کہاں ہے انہوں نے کہا بھئی ہمیں کیا پتا۔ اس نے شور مچادیا لوگ جمع ہوئے تو الزام لگادیا کہ میرا اونٹ گم ہوا تمام نشانیاں یہ جانتے ہیں لیکن دینے سے انکار کرتے ہیں۔ لوگوں کے استفسار پر وہ صحرا نشین کہنے لگے بھئی ہم نے دیکھا کہ راستے میں صرف ایک طرف سے جھاڑیوں کو منہ مارا گیا تھا حالاں کہ دوسری سمت بھی جھاڑ جھنکار تھے جس سے محسوس کیا کہ اس کے ایک سمت کی آنکھ خراب ہے۔ رہی بات لنگڑے ہونے کی تو اونٹ کے پاؤں کے تین نشان واضح اور چو تھا علامتی تھا جس سے لگتا تھا کہ وہ زخمی یا پھر معذور ہے اسی طرح دیگر نشانیاں بھی مشاہدے کا نتیجہ ہیں۔ لوگوں نے ان کی ذہانت کو سراہتے ہوئے اونٹ مالک کو اپنے گمشدہ اونٹ کی تلاش کا مشورہ دیا۔
کم و بیش دو دہائی قبل کا قصّہ ہے شاہ پور چاکر، کھڈرو کے درمیان بہنے والی جمڑاؤ کینال کے راستے ہم سندھ کے پہلے عرب دارالحکومت منصورہ کی سمت جارہے تھے جس کے آثار تحصیل سنجھورو میں ہیں کہ راستے میں کچھ افراد کو دیکھا جو فولادی تھال ہاتھ میں لیے ایک آدمی کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔
وہ زمین پر بیٹھتا کچھ دیکھتا نشان لگاتا تو وہ تھال یا پرات اس نشان پر ڈھک کر ہاتھ میں موجود عصا سے اشارہ کرتا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ کھوجی ہے جسے سندھی میں ’’ پے ری‘‘ یعنی پاؤں یا پیر کی مدد سے اس کے حامل کی تلاش میں معاونت کرنے والا۔ رات ان گاؤں والوں میں سے کسی ایک کے گھر میں واردات ہوئی تھی اور وہ ملزم کا کھوج لگاتے جمڑاؤ کینال کے گوٹھ لسکی کے قریب سے ہوتے ہوئے کھڈرو کے نواح کی سمت جارہے تھے۔ ملزم ملا یا نہیں لیکن یہ حیرت ہمارے سب ساتھیوں کو تھی کہ کس طرح محض نشان کے بل پر وہ کھوجی آگے بڑھتا جارہا تھا۔ نواب شمس الدین خان آف لوہارو اور فیروزپور جھرکہ نے جب عزت و ناموس پر نگاہ ڈالنے والے انگریز افسر کو قتل کرایا تو اس کے وفادار ملازم نے گھوڑے کو الٹے نعل لگوائے تھے کہ وہ آتے ہوئے جاتا ہوا محسوس ہو، لیکن ماہر کھوجی نے نعل کے ساتھ خون کے قطروں سے اندازہ لگالیا تھا کہ یہ محض دھوکا دینے کی کوشش ہے ورنہ گھوڑا جا نہیں آرہا تھا۔
برسوں پہلے ایک کھوجی سے سانگھڑ کے ایک ہوٹل پر گفتگو ہوئی۔ آج بھی یاد ہے اس کا کہنا تھا کہ سائیں یہ علم اسکول کالج سے نہیں ملتا۔ اچھے استاد کی صحبت کامل بناتی ہے۔ وہ کہنے لگا کہ میرے ایک استاد تھے جن سے میں نے کُھرا اٹھانا سیکھا تھا۔ وہ اتنے ذہین تھے کہ ایک واردات کے ملزم کا پتا چلاتے چلاتے کئی پرانے ملازموں کی بھی نشان دہی کردیتے تھے۔ دینو نامی وہ شخص بتانے لگا کہ سنجھورو کے اطراف میں مویشی چوری کی ایک واردات کو اندھے قتل کی طرح پولیس نے بھی سرد خانے میں ڈال دیا تھا۔ استاد ایک کھرے کو تلاش کرتے جارہے تھے کہ ایک پاؤں پر رک گئے اور سامنے جاتے شخص کو رکنے کا اشارہ کیا۔
اس کے پاؤں کو ناپا اور جوتے اتروا کر چلایا اور کہا کہ یہ فلاں واردات میں بھی جوتے پہن کر کبھی ننگے پاؤں چل کر ہمیں دھوکا دے گیا تھا لیکن آج پکڑا گیا۔ خاص بات یہ تھی کہ مال مسروقہ اس کے گھر سے برآمد ہوا اور اس شخص نے کئی دیگر وارداتوں کا بھی اعتراف کرلیا۔ دینو ہی کی طرح ایک اور کھوجی لال بخش سے بھی نواب شاہ ریلوے اسٹیشن پر ملاقات ہوئی تھی وہ سرہاری کے کسی گوٹھ کا باشندہ تھا اور کراچی آرہا تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے اپنے فن کے کچھ اسرار و رموز بتائے اور کئی عقدے کھولے میرے یہ کہنے پر کہ تمام پاؤں کم و بیش ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ انہیں ہزاروں یا درجنوں میں علیحدہ کیسے شناخت کرلیا جاتا ہے؟ وہ کہنے لگا’’نہ سائیں نہ۔ ہر پاؤں دوسرے سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔
اسکول میں سب بچے ایک جیسے یونیفارم میں ہوتے ہیں لیکن ٹیچر اور چوکی دار انہیں بہ آسانی دور ہی سے پہچان لیتے ہیں اور اگر وہ گھر کے کپڑوں میں ہوں تو واقعی انہیں مشکل ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک ماہر کھوجی اپنے ہدف کو کبھی نہیں بھلاتا۔ ہر شخص کا پاؤں دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ آج آپ کی سائنس بتاتی ہے کہ انگلیوں کے نشان، آنکھوں کی پتلیاں اور چہرے کی ساخت مشابہت کے باوجود مختلف ہیں تو یہی حال پیر کے نشان کا ہے۔ لال بخش بتانے لگا کہ کوئی شخص چلتے ہوئے ایڑی پر زور دیتا ہے تو کوئی پنجے پر دباؤ ڈالتا ہے۔ بعض لوگ پاؤں جماکر چلتے ہیں تو کچھ اسے زمین پر رگڑتے ہوئے گھسیٹے ہیں۔
نشان واضح ہو تو اندازہ ہوتا ہے کہ چور لحیم شحیم ہے، تن و توش بھاری ہے اور اگر کھرا غیرواضح ہو تو یہ چور کے دبلے پتلے اور اکہرے جسم کی علامت ہوگا۔ چور نے لمبے ڈگ بھرکر بھاگنے کی کوشش کی ہو تو ہم اسے خوفزدہ یا بدحواس تصور کرتے ہیں، جو اسی علاقے کا ہے اور شناخت کے خوف سے جلدازجلد دور جانے کا خواہاں ہے۔ ماضی میں راستے کچے ہوتے تھے اور چوروں کی کھوج آسان۔ اب پختہ سڑکوں نے مشکل کردی ہے اس کے باوجود اس فن کے ماہر اپنے ہدف کو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ یہی ان کی خوبی ہے جو انہیں دوسروں سے ممتاز اور منفرد بناتی ہے۔ زمانہ قدیم کی داستانوں میں بھی کھوجیوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ آج کے سراغ رساں کتے اور فضائی اڈوں و بندر گاہوں پر منشیات تلاش کرنے والے ’’آلات‘‘ بھی ان کھوجیوں کی ترقی یافتہ شکل ہے۔
ہمارے ایک محترم پولیس افسر جاوید عنایت اﷲ مغل جو پولیس ایف آئی اے اور ٹریفک پولیس میں ڈی آئی جی رہے بتاتے ہیں کہ ماہر کھوجی سِدھائے ہوئے جاسوس کتوں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں وہ محض نشان ہی پر نہیں چلتے وہ دوران تعاقب بہت سی دیگر نشانیوں کو بھی ذہن اور دماغ میں محفوظ کرتے جاتے ہیں اور ان علامتوں کی مدد سے وہ مجرم کو بہ آسانی شناخت کرلیتے ہیں البتہ بعض مرتبہ وہ مجرم کو بچا بھی لیتے ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے وابستہ سنیئر صحافی الیاس انجم بتانے لگے کہ ایک کھوجی بہرحال اسی سماج میں رہتا ہے۔ اس کی رشتہ داریاں، سماجی تعلقات بھی ہوتے ہیں۔ کوئی اس کا سردار اور زمین دار ہوتا ہے ۔
دباؤ اسے مجبور بھی کردیتا ہے کہ وہ کُھرا گم ہوجانے کا عذر تراش لے لیکن ایسا کبھی کبھار اور اکا دکا واقعات ہی میں ہوتا ہے ورنہ تو کھوجی اپنے فن کی سچائی کے لیے ایسے دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتے کہ اس سے ان کے فن اور مہارت پر حرف آتا ہے یہی بات ایک بار دوران گفتگو ہمارے دوست شکارپور کے سابق صحافی فرحان مرتضیٰ ابڑو نے بھی کہی تھی کہ اپر سندھ میں جسے اتر اور وہاں رہنے والوں کو اترادی کہا جاتا ہے۔ ایسے ایسے کھوجی یا پیری گزرے ہیں جو پکی سڑک اور برستی بارش میں بھی کھرا اٹھالیتے تھے یعنی مجرم کی شناخت کرلیا کرتے تھے۔ میرے نانا محمد حنیف خان ریلوے پولیس کے ریٹائرڈ تھے۔ برٹش ہندوستان کے بہت سے واقعات بیان کیا کرتے تھے۔
ایک بار انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے گاؤں گوڑیانی ضلع روہتک میں واردات ہوگئی۔ تفتیش کے لیے پولیس دوسرے گاؤں سے آئی کہ گوڑیانی میں تھانہ یا چوکی پٹھانوں نے بننے نہ دی تھی۔ اپنے تنازعات خود حل کیا کرتے تھے۔ بتانے لگے کہ کھوجی نے اصل مجرم کے ساتھ چلنے والے قدموں پر توجہ مرکوز کی اور پھر ان کا کھرا لیا جو قریبی آبادی کی سمت جارہے تھے۔ وہ چند گھر تھے ان میں سے ایک کے دروازے پر نشاندہی کی کہ اس گھر کا آدمی آپ کو چور تک پہنچادے گا اور ہوا بھی یہی کہ کچھ سامان تو اسی کے گھر سے نکلا اور مجرم بھی پکڑاگیا کہ پتھریلے راستے پر مجرم کا کھرا غائب تھا لیکن اس کے معاون کی تلاش آسان نکلی۔ ایک بات انہوں نے اور بتائی تھی کہ کھوجی جتنی جلدی مقام واردات پر پہنچے گا اتنی جلد ہی مجرم کی نشاندہی بہ آسانی ہوسکے گی۔
یہ طے ہے کہ جدید ٹیکنالوجی آجانے، سراغ رساں کتوں کی موجودگی اور دیگر اسباب و آلات کے باوجود کھوجیوں کی اہمیت ختم نہیں ہوئی کیوںکہ کھوجیوں کا دماغ کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے جس طرح پولیس کا شعبہ سراغ رسانی، فنگر پرنٹس کا سہارا لیتا ہے اسی طرح کھوجی باریک بینی سے پیروں کے نشان کو شناخت کرکے غیرمعمولی حد تک درست اندازہ لگالیتے ہیں۔
بہت پہلے پڑھا تھا کہ ایئرپورٹ پر منشیات کی شناخت کے لیے لائے گئے غیرملکی کتے سونگھ کر جب کسی کارٹن، سوٹ کیس کو مشتبہ گردانتے تو کھولنے پر کچھ نہ نکلتا۔ تصور کیا گیا کہ یہ آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث صلاحیت کھوبیٹھے ہیں لیکن بعد میں نشان دہی ہوئی کہ ذہین ملزم ان پر ہیروئن کا پاؤڈر، چرس کے ذرات بکھیردیتے ہیں تاکہ کتوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ سکے جس طرح کھوجی ذہین ہوتے ہیں اسی طرح مجرم بھی اپنی فطانت کا استعمال کرتے ہیں۔ بلاشبہ سراغ رسانی کے جدید طریقوں نے کھوجیوں کی اہمیت کم کردی ہے لیکن ایسا نہیں کہ یہ فن ختم ہوگیا ہو بلکہ آج بھی چرواہے، کسان اور دیہات کے باشندے اپنے نقصان کی تلافی میں ان کھوجیوں سے ہی مدد لیتے ہیں جو زیادہ نہ سہی کم تعداد میں اب بھی موجود ہیں۔
ایک ریڈیو پروگرام میں سندھ یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر اور اس وقت کراچی یونیورسٹی میں کرمنالوجی کے پروفیسر فتح محمد برفت نے بتایا تھا کہ جس طرح انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشان اور چہرے کی ساخت اور آنکھوں کے زاویے سے کسی شخص کو بہ آسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح انسان کی چال، قدموں کے نشان بھی مروجہ تمام طریقوں سے کہیں زیادہ آسان طور اس کی پہچان کرادیتی ہے یہی بات نادرا کے ایک افسر نے بتائی تھی کہ ایک سے زائد ناموں اور ایڈریسز پر بنوائے گئے شناختی کارڈ کمپیوٹر پر فیس ریڈنگ کے دوران منسوخ کیے گئے لیکن جدید ٹیکنالوجی نے یہ کام بہت آسان کردیا ہے۔ دوسری طرف کہیں کہیں تکنیک بھی مات کھاجاتی ہے تو پھر قدیمی طریقے پر انحصار کیا جاتا ہے حب سے سنیئر صحافی اور پریس کلب کے صدر محمد الیاس کمبوہ سے اسی موضوع پر گفتگو ہوئی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک واردات میں اہل خانہ کا خیال تھا کہ یہ علی الصبح ہوئی ہے لیکن کھوجی نے اسے نصف شب کا واقعہ بتایا کہ قدموں کے نشان پر شبنم پڑی تھی یعنی واردات پہلے ہوئی اور اوس کے قطرے بعد میں گرے یہ مشاہدہ بھی اس مطالعہ کا مرہون منت ہے جو کھوجیوں نے اساتذہ سے سیکھا اور آگے بڑھایا۔
قدموں کے نشان متبرک اور مقدس بھی ہوتے ہیں۔ حیدرآباد، ٹھٹھہ سمیت متعدد شہروں میں حضرت علی ؓ کے پیروں کے نشان ’’قدم گاہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ سری لنکا میں حضرت آدم علیہ السلام کے پیر کا نشان اور نبی محترم ﷺ کے قدوم کو محبت کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ برسوں قبل موجودہ سنیئر ڈاکٹر کریم خواجہ نے ٹھٹھہ میں قدم گاہ مولاعلیؓ کی زیارت کرائی تھی اور اس نوع کا ایک تجربہ سنیئر ادیب مولائی ملاح نے محراب پور کے حوالے سے شیئر کیا تھا۔ یہ عقیدت واردات کا ایک الگ موضوع ہے جس پر گفتگو آئندہ سہی۔ فی الوقت تو کھوجیوں کے فن پر اکتفا کیجیے جو آج کل زوال پذیر ہے ممکن ہے آئندہ ان کا تذکرہ کتابوں میں ملے۔
The post کھوجی کہاں گئے، معدوم ہوتا ہوا فن appeared first on ایکسپریس اردو.