یہ جیون مصفّا پانی کا کوئی چشمہ بھی نہیں کہ بس بلا کسی خدشے کے اس سے سیراب ہُوا جائے، کوئی آبشار اور جھرنا بھی نہیں کہ بس اس سے فیض یاب ہُوا جائے، یہ سب اس کا ایک حصہ تو ہوسکتے ہیں، جُز تو ہیں یہ کُل نہیں۔
جیون تو کبھی جوہڑ، جی! تعفن زدہ جوہڑ بھی بن جاتا ہے۔ یہ جیون ہر پل نیا رنگ اور نیا روپ دھارتا ہے۔ روپ بہروپ ہے یہ تو، کبھی آسان کبھی دشوار کبھی دشوارتر۔ کبھی تو یوں لگتا ہے بس بہار ہی بہار ہے اور فریب ایسا کہ جیسے اس بہار کو کبھی خزاں چُھو کر بھی نہیں گزرے گی، خودفریبی میں ڈال دینے والی۔ کبھی تو ایسی روشن کہ کیاکہنے اور کبھی ایسی سیاہ کالی کہ سب کچھ مٹا دے، عجب ہے یہ زندگی۔
فقیر کو تو یہی سمجھایا گیا ہے جی! لیکن مجھ کوڑھ مغز کے پَلے پڑا کچھ نہیں۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں آسائشات اور چکاچوند ترقی۔ واہ جی واہ کیا بات ہے! جس طرف نگاہ اٹھائیے ترقی۔ کبھی ایسا لگتا ہے ناں کہ ترقی کے ساتھ زندگی بھی خودکار ہوگئی ہے۔ اب ہم خود نہیں چلتے ہمیں ترقی چَلاتی ہے۔ کچھ پاگل اس ترقی کو انسانیت کی موت قرار دیتے ہیں، لیکن چلیے وہ تو پاگل ہیں ناں فقیر کی طرح اور اتنا تو سب جانتے ہی ہیں کہ بے وقوفوں کے منہ نہیں لگنا چاہیے، بالکل بھی نہیں۔
فقیر کے کئی پاگل یار بیلی ہیں، جی رب تعالٰی نے بہت عنایت فرمائی ہیں جی! شُکر مالک کا۔ ہاں تو فقیر نے ایک دن اپنے ایک پاگل لیکن ندیم باصفا کو گھیر لیا اور اسے قائل کرنے کی کوشش کی کہ زندگی کے ہر شعبے میں شان دار ترقی ہوئی ہے۔ لیکن وہ مجھ سا ناسمجھ سمجھ کے ہی نہیں دیا بل کہ بحث کرنے لگا۔ جب بات طول پکڑ گئی تو چیخنے لگا: بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری ترقی۔ جب دیکھو ترقی، ترقی اور ترقی۔ کوئی اور بات ہی نہیں کرتا تُو۔ تو فقیر نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ میں غلط کہہ رہا ہوں کیا، دیکھ نہیں رہا، اندھا ہوگیا ہے، دیکھ تو کتنی آسانی ہوگئی ہے، ہر میدان میں نت نئی ایجادات، اتنے بڑے فلائی اوورز، سڑکیں اور ان پر بھاگتی دوڑتی رنگ بہ رنگی گاڑیاں۔ رابطے کی تو دنیا ہی بدل گئی، اب ہم کہیں بھی نہیں چُھپ سکتے۔
ایک چھوٹے سے آلے نے کتنی آسان کردی زندگی۔ دنوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے۔ چھوٹے سے آئی پوڈ نے موسیقی کی دنیا بدل دی۔ ایک چھوٹے سے ڈبے نے خبروں کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ ای کامرس نے جدید معیشت کی بنیاد ڈال دی۔ کتنے پُرسکون ہوگئے ہم، اور تاب ناک ہوگئے ہیں ہمارے چہرے۔ ایک چھوٹے سے پلاسٹک کارڈ سے تم دنیا کی ہر شے خرید سکتے ہو۔ پیسے ہوں، نہ ہوں کریڈٹ کارڈ ہو تو جو چاہو خریدو، پیسے بعد میں دو۔ ہر طرف معلومات کا سمندر، بِل بورڈز اور ان پر عوام کی آگہی کے لیے درج کردیا گیا، یہ دودھ اچھا ہے، یہ کپڑا اچھا ہے، یہ رنگ دل کش ہے۔ یہ برش عمدہ ہے۔ مقابلے کی کتنی پُرکشش دنیا تخلیق ہوگئی ہے اور دیکھ میں تجھے بتاتا ہوں کہ ۔۔۔۔!
اُس نے چند لمحے تو فقیر کی اتنی دانش بھری باتیں سنیں اور پھر مجھ سے الجھ گیا: بند کر اپنی بکواس، بہت سن لی میں نے۔ جا کسی اور کو یہ بے ہودہ کتھا سنا۔ تیری ترقی تجھے مبارک۔ جا چاٹ جاکر اسے، مجھے تو ہر طرف، اندھیر ہی اندھیر، بربادی اور تباہی نظر آتی ہے۔ تیری یہ سحر انگیز گفت گُو بھی ایک فریب ہے۔ بڑا آیا مجھے سمجھانے۔ جا اپنا رستہ لے۔
فقیر بھی کوئی ہار ماننے والا کہاں جی! تو اس نادان کو پھر سے سمجھانے لگا: لیکن تجھے ہر طرف، اندھیرا، بربادی اور تباہی کیوں دکھائی دے رہی ہے۔ تیرے کہنے سے تھوڑی اندھیر ہوگا، بربادی ہوگی۔ اور سن آج کل تو طب کی دنیا میں بھی ترقی ہوگئی ہے۔ جدید طبی آلات اور دوائیں انسانی زندگی کو طول دینے، پُرلطف بنانے کی جستجو میں ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ تُو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگیا ہے۔ کسی اچھے ماہرنفسیات سے مشورہ کرتے ہیں۔ اس میں بھی بہت ترقی ہوگئی ہے۔ تُو جلد صحت یاب ہوجائے گا اور پھر تُو بھی کہے گا ترقی ہوگئی۔ تو وہ کہنے لگا: تُو باز نہیں آئے گا ناں۔ اگر یہ بیماری ہے تو مجھے بہت پیاری ہے۔ جان سے زیادہ عزیز ہے یہ مجھے۔ چل اب یہاں سے۔ وہ فقیر کا دوست ہے تو اسے کیسے چھوڑا جاسکتا تھا تو فقیر نے کہا: تُو میری بات کیوں نہیں سمجھتا۔ یہ تو اور زیادہ خطرناک بات ہے کہ تو اسے بیماری بھی نہیں سمجھتا، قنوطی انسان۔ پاگل ہوگیا ہے تُو اسی لیے تو ہلکان رہتا ہے، اداس رہتا ہے۔ میری مان آ چل میرے ساتھ تجھے لے چلوں کسی ماہر کے پاس ۔۔۔۔!
لیکن وہ تو نرا گاؤدی ہے جی! بالکل سمجھ کے نہیں دیا اور فقیر سے لڑنے پر اتر آیا اور کہنے لگا: اچھا! اب تُو ایسے باز نہیں آئے گا۔ بیمار میں نہیں تُو ہے ذہنی بیمار۔ تُو اسے ترقی کہتا ہے۔ اتنی دیر سے سُن رہا ہوں تیری بکواس، یہ بتا یہ ساری ترقی جسے تُو اور تیرے جیسے کوڑھ مغز ترقی کہتے ہیں۔ کس کے لیے ہے۔۔۔۔؟ انسان کے لیے ناں۔ میں مانتا ہوں ترقی ہوگئی، لیکن انسان تو دُکھوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ ہجوم میں تنہا ہوگیا ہے۔ یہ ساری ترقی مُٹھی بھر انسانوں کے شاطر ذہن کی پیداوار ہے۔۔۔۔ چند سرمایہ داروں نے دنیا کے ہر انسان کو جو آزاد پیدا ہوا تھا غلام بنالیا ہے۔ ذہنی غلام، جسمانی غلام، ایسا سحر ہے اس کا کہ انسان غلامی کو غلامی ہی نہیں سمجھتا۔ اسے آزادی کا نام دے کر اترانے لگا ہے۔ بڑی بڑی کاریں، سڑکیں، آسائشیں انسان کو تن آسان بنا رہی ہیں اور تن آسانی انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی۔ اسے بے حس، خود غرض اور مفاد پرست بناتی ہے۔ اشتہار کی دنیا انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو، نہ ہو۔ ضرور خریدی جائے۔ یہ لے لو، وہ لے لو۔ اگر پیسے نہیں تو کریڈٹ کارڈ ہے۔
اس کے ذریعے خرید لو۔ اور پھر غلام بنے رہو۔ ان مٹھی بھر شاطروں نے انسان کو تباہ و برباد کردیا۔ لالچی بنادیا۔ اسے ناامید کردیا۔ خوف زدہ کردیا، انسان انسان نہیں رہا پیسا کمانے اور خرچ کرنے کی مشین بن گیا۔ یہ ایک مایا جال ہے جو سرمایہ داروں کے وحشی گروہ نے بُنا اور اسے پُرکشش بنایا ہے۔ تاکہ دنیا کے معصوم اور آزاد انسان اس جال میں پھنس جائیں اور کوئی یہ سوچنے بھی نہ پائے کہ چند سرمایہ داروں نے دنیا بھر کے انسانوں کو غلام بنالیا ہے۔ بس ان کا کام چلتا رہے۔ اصل ترقی انسان کو بام عروج تک پہنچاتی ہے۔ اسے زنجیروں سے آزاد کرتی ہے۔ لیکن یہ ترقی کے نام پر دھوکا ہے۔ اب کوئی سوچتا ہی نہیں کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے۔۔۔۔ ؟ اسے کیا کرنا ہے۔۔۔۔ ؟ اس مصنوعی ترقی نے انسان کو تنہائی، اداسی، کرب، دکھوں کے جہنم میں دھکیل دیا یہ سب آسائشیں ہوتے ہوئے بھی سب ناآسودہ ہیں۔
سب دُکھی ہیں۔ خوشی تو انسان کے اندر سے پھوٹتی ہے۔ آزاد انسان حقیقی خوشی حاصل کرتا ہے، غلام نہیں۔ ہاں میں اس دن مان لوں گا جب انسان یہ سوچنے لگے گا کہ خود کو اس ہشت پا بَلا سے کیسے چھڑایا جائے اور پھر وہ دن ہوگا سب سے سُہانا، جب دنیا کے وسائل پر قابض چند مٹھی بھر لوگوں سے وہ سب کچھ چھین لیا جائے گا، جس پر دنیا بھر کے انسانوں کا حق ہے۔ ہاں پھر میں مان لوں گا۔ ترقی ہوگئی، انسان نے خود کو پہچان لیا۔ فقیر اس کا بے سر و پا بھاشن کب تک سنتا تو کہا: اچھا، اچھا بس کر، بہت ہوگیا تیرا بھاشن۔ نہ جانے کیسے کیسے قنوطی بستے ہیں اس دنیا میں۔ جو اس ترقی کو ترقی نہیں غلامی کہتے ہیں۔ مایا جال کہتے ہیں، فقیر وہاں سے آنے لگا تو وہ کہنے لگا: ہر نئی ایجاد اپنے ساتھ ہزار فتنے بھی تو لائی ہے اس پر کب بات کرے گا۔
لیکن فقیر کو لگتا ہے کہ وہ پاگل درست سمجھتا ہے، کیا پتا۔ لیکن چلیے اب ہم ایک منظر دیکھتے ہیں۔ آپ نے بھی وہ منظر دیکھا ہوگا اور ناک پر رومال رکھ کر وہاں سے گزر گئے ہوں گے۔ آخر ان سے ہمارا کیا رشتہ ناتا ؟ ان کا تو یہ کام ٹھیرا۔ آخر وہ اس کا معاوضہ پاتے ہیں، کوئی احسان تو نہیں کرتے ناں۔ اور بس یہی سوچتے ہوئے ہم انہیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ آئے دن ایسی خبریں ہم پڑھتے اور سنتے ہیں کہ وہ گٹر کی صفائی کے لیے اترا اور پھر وہیں کا ہو رہا۔ جب اسے بہ مشکل نکالا گیا تو اس کی لاش پُھول چکی تھی اور ہم نے اپنی جیب سے ایک بار پھر رومال نکال لیا تھا۔ ایک خونیں گٹر ایک زندہ انسان کو نگل گیا۔ کچھ دیر کے لیے شاید ہم جاگ بھی گئے ہوں لیکن پھر آنکھیں موند لیں۔ لیکن آنکھیں مِیچ لینے سے حقائق تو نہیں بدلتے!
ہم سب یک زبان ہوکر چیخ رہے ہیں کہ ہم باوقار ہوکر دور جدید کا سامنا کریں گے۔ ہماری کون سی کَل سیدھی ہے۔ ہم نے آخر کیا ہی کیا ہے جو ہم اس قدر خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ فلک بوس عمارتیں بنا ڈالیں، خوب صورت پلازے کھڑے کرلیے، کنکریٹ کا بے ہنگم جنگل اگا لیا، انڈر پاسز اور فلائی اوور بنالیے، اس لیے؟ اور وہ بھی بغیر کسی منصوبے کے۔ جس سماج میں تکریم انسانیت ختم ہوگئی ہو، اسے آپ معاشرہ کہتے ہیں! ہم مادیت کے اس اندھے اور بے حس غار سے نکلیں تو سوچیں بھی۔ آپ کی دانش وری بجا، آپ ترقی کو رو رہے ہیں۔ فقیر کو کہنے دیجیے ہم تو ابھی تک گٹر کی صفائی کے قابل بھی نہیں ہوسکے۔ ہم زندہ سلامت انسانوں کو ان خونیں گٹروں کے حوالے کردیتے ہیں۔ وہ مجبور انسان کبھی زہریلی گیس کی نذر ہوجاتا ہے یا پھر اس میں بہہ جاتا ہے۔ ہم نے ان کی صفائی کے لیے کوئی جدید مشینری کیوں نہیں لی اور اگر وہ موجود ہے تو کہاں ہے؟ پھر آپ ان مجبور انسانوں کو قربان کرکے انسانیت کی تذلیل کیوں کررہے ہیں؟
فقیر نے گندگی سے لبالب بھرے گٹر میں ایک زندہ انسان کو کھڑے ہوکر صفائی کرتے دیکھا تو میرے پاؤں شل ہوکر وہیں چپک گئے۔ کچھ دیر فقیر کھڑا رہا تو وہ مسکرا دیا: ’’دیکھو باؤ جی! گندگی تُسی پھیلاتے ہو اور جب ہم اسے صاف کرتے ہیں تو ہم کو بھنگی بولتے ہو اور آپ لوگ صاف۔ فقیر نے اس سے بات کرنا چاہی تو اس نے دھتکار دیا۔ اسے یہی کرنا چاہیے تھا۔ لیکن فقیر نے تہیّہ کرلیا تھا کہ اب بات ہوگی اور ضرور ہوگی۔
آخر موتی میرے کام آیا۔ وہ ہمیشہ لوگوں کے کام آتا ہے۔ اس نے ایک ایسا ہی فرد ڈھونڈ نکالا اور فقیر اس کی نظرانداز کی گئی بستی میں جا نکلا۔ لوگ اپنی تنگ و تاریک، غلیظ اور حبس زدہ کھولیوں کے باہر آڑی ترچھی گلیوں میں چادر بچھائے بیٹھے تھے۔ کچھ تاش کھیل رہے تھے۔ فقیر اندھی گلیوں سے ہوتا ہوا اس کے گھر پہنچا۔ بچوں کا ایک جلوس ہمارے پیچھے تھا۔ جسے موتی کے ایک پتھر اور موٹی سی غلیظ گالی نے منتشر کردیا۔
یہ ہے عنایت مسیح! جس نے ہماری پھیلائی ہوئی گندگی صاف کرنے میں اپنی عمر گزار دی، اور ہم نے اسے کیا دیا۔۔۔؟
میرے والد ہیرا مسیح کسان تھے۔ تم یوں سمجھو کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو انھیں مزدوری کرتے پایا۔ زمین کی مزدوری ہل چلانا ہی ہوتی ہے۔ میں گوجراں والا کے ایک دیہات میں پیدا ہوا۔ پڑھ لکھ نہ سکا اس لیے کہ ہم صرف کام کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور پڑھے لوگ ہمارے اوپر راج کرتے ہیں۔ میں اپنے والد کے ساتھ ہی مزدوری کرتا تھا۔
میری عمر 20 سال کی ہوئی تو میری شادی کردی گئی۔ میری تین لڑکیاں اور ایک بیٹا ہوا۔ اب وہی بیٹا ہے۔ تینوں لڑکیاں انتقال کرگئیں۔ میں سوہنی زندگی کی تلاش میں کراچی پہنچا، یہاں اپنے ہی لوگوں میں پہنچا۔ وہ یہی کام کرتے تھے۔ مجھے نوکری مل گئی، یہی نوکری کہ گٹر کھولنا میرا کام ٹھیرا۔ مجبوری تھی۔ پیٹ لگا ہوا ہے ناں، ہر کام یہ پیٹ دوزخی کراتا ہے۔ یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں گٹر صاف کروں گا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں کپتان بنوں گا، تھانے دار بنوں گا یا پھر اچھی سی نوکری کروں گا۔ لیکن سوچنے سے کیا ہوتا ہے جی! جب بھوک سامنے ناچ رہی ہو، بچے بھوکے ہوں تو انسان ذلیل ترین کام کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ میرے نزدیک ہاتھ پھیلانا لعنت ہے۔ انسان گندگی صاف کرلے لیکن بھیک نہ مانگے۔ بس یہ سوچ کر میں نے یہ کام شروع کردیا۔
مجھے وہ پہلا دن آج بھی یاد ہے۔ جب میں گٹر میں اترا تو ہنس رہا تھا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ میں اندر سے بہت رویا کہ یہ کام بھی کرنا تھا۔ میرے دوستوں نے پوچھا کہ ہنس کیوں رہا ہے؟ میں نے کہا، محنت کررہا ہوں، خوش ہوں۔ تو میرے ایک دوست نے کہا، ہنس تو تُو ایسے رہا ہے جیسے صاب کی کرسی پر بیٹھ رہا ہے۔ بس ایک دو دن مسئلہ رہا۔ پھر میں ایسا ہوگیا جیسے برسوں سے یہ کام کر رہا ہوں۔ گٹر میں اترو تو اس وقت تو یہی بات سر پر سوار ہوتی ہے کہ جلد از جلد گٹر کھل جائے اور اس عذاب سے ہماری جان چھوٹ جائے۔ وہ کوئی گھر یا باغ تو نہیں ہوتا، ایسا لگتا ہے کہ میں زندہ قبر میں اتر رہا ہوں۔ اندر جگہ تنگ ہوتی ہے، گھٹن ہوتی ہے، گھبراہٹ کی وجہ سے کام کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اس وقت اور زیادہ مسئلہ ہوتا ہے جب گٹر پورا بھرا ہوا ہو۔ پھر ہمیں اندھوں کی طرح اندازے لگانا پڑتے ہیں۔ کبھی اندازہ درست ہوجاتا ہے، کبھی پورا دن لگ جاتا ہے۔ برسات کا موسم ہمارے لیے خاص کر مصیبت لاتا ہے۔
اتنے حادثات ہوگئے ہیں کہ ڈر تو بہت لگتا ہے لیکن مجبوری ہے۔ کام تو کرنا ہی ہے، ورنہ کھائیں گے کہاں سے، نوکری کرنی ہے تو نخرا کیسا۔ خطرہ تو ہر کام میں ہوتا ہے اگر ڈرائیور کو دیکھیں اس کا بھی ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے، جہاز بھی گر جاتا ہے، بس یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتا ہوں۔ آپ خود سوچیں، آپ کے جسم پر اگر چند قطرے بھی گندا پانی لگ جائے تو آپ نہانا شروع کردیتے ہیں، ہمیں دیکھیں اس پانی اور غلاظت میں کھڑے رہ کر کام کرتے ہیں۔ اس سے جلدی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ ہزار طرح کی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر کے پاس گئے تو اس نے گلوکوز لگا دیا۔ لال پیلی گولی دے دی، ہم کون سا افسر ہیں جو ہمارا اچھا علاج ہو۔ ہم مرجائیں گے تو اور بہت ہیں، اگر افسر مرجائے تو کہاں سے آئے گا۔ ہمارے ہاں ہر آدمی دوسرے آدمی کے کام کو گھٹیا سمجھتا ہے۔
ہر آدمی صاب ہے یہاں۔ صاب ڈرائیور کو گھٹیا سمجھتا ہے، چھوٹے صاب کو بڑا صاب گھٹیا سمجھتا ہے، اس طرح سے سب ایک دوسرے کو گھٹیا سمجھتے ہیں، ہماری تو گنتی چھوڑو۔ ہمارے ساتھ عام اور خاص لوگوں کا رویہ یک ساں ہے۔ دنیا کے کم تر لوگ ہم ہیں۔ چاہے یہاں کتنی بھی ترقی ہوجائے لوگوں کا رویہ نہیں بدلے گا کیوں کہ ہمارے ہاں پیسا خدا ہے۔ ہر آدمی پیسے کو سلام کرتا ہے اگر میرے پاس دولت آجائے تو جو لوگ ہم سے سیدھی طرح بات نہیں کرتے ہمارے ساتھ مل کر کھانا بھی کھائیں گے۔ دولت ہر عیب چھپا لیتی ہے، ذات چھپا لیتی ہے۔ ہر آدمی ہمیں بھنگی کہتا ہے۔ ہم سب جو نظر آتے ہیں وہ ہوتے نہیں ہیں۔ سب جھوٹ بولتے ہیں۔ صرف اپنا فائدہ سوچتے ہیں۔ کسی کے پاس زہر کھانے کو نہیں ہے۔ کسی کے پاس پیسے گننے کی فرصت نہیں ہے۔
آئیے! فقیر کے سنگ ترقی کا راگ ضرور الاپیے لیکن ٹھہریے! کتنے انسانوں کی دست رس میں ہیں یہ ساری آسائشات۔۔۔۔۔؟
The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.