دنیا ہمارے تصور اورخیال سے بھی زیادہ نازک ہے۔ ہم کب اور کیا سوچتے ہیں، کب کب اپنے فیصلے بدلتے ہیں اور وہ بدلے ہوئے فیصلے کس طرح انسانی زندگیوں میں ہلچل مچادیتے ہیں۔
خاص طور آخری لمحات میں بدلے ہوئے یہ فیصلے غیرمتوقع نتائج بھی دیتے ہیں چاہے وہ بڑے نتائج ہوں یا چھوٹے۔ ذیل میں تاریخ کے چند واقعات پیش کیے جارہے ہیں جن میں آخری لمحات میں بدلے گئے فیصلوں نے تاریخ کو ہی بدل ڈالا اور بڑے عجیب و غریب نتائج پیش کیے جنہوں نے تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
ناگاساکی پر ایٹمی بم باری سے پہلے اور بعد میں۔۔۔نہ ناگاساکی پر حملے کا کوئی پروگرام تھا اور نہ اسے تباہ کرنا تھا مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ کسی دوسرے شہر پر حملے میں تاخیر اور آؒخری منٹ میں کیا جانے والا وہ فیصلہ جس نے ایک شہر کو بچالیا اور دوسرے شہر کو تباہی سے دوچار کردیا۔ بات تو عجیب ہے، لیکن ہے بہت حیران کن:
ہیروشیما پر ایٹمی بمباری کے تین روز بعد رات کے 3:49پر اور 9 اگست 1945 کی علی الصبح B-29 Bockscar طیارہ جسے امریکی فضائیہ کا میجر چارلس ڈبلیو Sweeney اڑا رہا تھا، پیسیفک کے Tinian island سے بلند ہوا۔ اس کی منزل جاپانی شہر Kokura تھا۔ اسے اس شہر کو تباہ کرنا تھا، مگر عین موقع پر کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ پوری کہانی ہی بدل گئی۔ یہ شہر تو تباہ نہیں ہوا البتہ جاپان کا دوسرا شہر ناگاساکی تاریخ کی اس تباہی سے دوچار ہوا کہ اس کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔
چند روز پہلے ہی ہیروشیما پر یورینیم سے تیار کردہ ہتھیار، یہ ہتھیار Bockscar کا سب سے زیادہ مہلک ہتھیار تھا۔ یہ اس تباہ کن مشن پر روانہ ہوا۔ پھر رات کی کالی چادر طلوع آفتاب میں بدلی اور صبح کی سپیدی نمودار ہوئی۔
اس کے ساتھ ہی جاپانی شہر Kokura میں زندگی نے انگڑائی لی اور پورا شہر سنہری دھوپ میں ڈوب گیا، مگر وہاں کے لوگ اس خطرے سے بے خبر تھے جو بڑی تیزی سے ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس سے پہلے موسمی خبریں لانے والے طیاروں نے Kokura پر صاف موسم کی اطلاعات دی تھیں اور اسی لیے Bockscar اپنے ہدف کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہا تھا جہاں اسے ایک Big Stink ایک B-29 کے ساتھ فلم بندی بھی کرنی تھی اور حملہ بھی کرنا تھا۔
٭ناگاساکی کی تباہی:
تاہم Big Stink پورے آسمان میں کہیں دکھائی نہیں دیا، اس لیے Bockscar نے فضا کا پورا چکر لگایا، وہ فلم بنانے والے جہاز کا انتظار کررہا تھا جس کے ساتھ اسے آگے کا کام کرنا تھا، وہ انتظار میں تھا کہ وہ طیارہ نظر آجائے، مگر اسے مایوسی ملی اور طیارہ دکھائی نہ دیا۔
لگ بھگ 40 منٹ کی پرواز کے بعد Sweeney Kokura کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس وقت تک حالاں کہ بادل چھائے ہوئے اور قریبی شہر پر ہونے والے حملے کا دھواں بھی چھایا ہوا تھا جس سے ایک نیا فضائی منظر وجود میں آچکا تھا۔ اگلے پچاس منٹ میں Bockscar نے آسمانوں میں ہی اپنے اہدافی شہر کے اوپر وہ فاصلہ عبور کرلیا اور آگے بڑھتا چلا گیا۔ نیچے Kokurans یعنی Kokura کے باسی اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف تھے، انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ ان کے سروں پر کیا قیامت ٹوٹنے والی ہے۔
ادھر Sweeney اپنی کوشش میں لگا رہا، آخرکار مسلسل تین ناکام کوششوں کے بعد Sweeney نے اپنا ارادہ ملتوی کردیا اور اس کی جگہ دوسرا متبادل ٹاسک انجام دینے کا ارادہ کرتے ہوئے ایک نئے ہدف کی طرف بڑھ گیا۔ اب اس کا رخ ناگاساکی کی طرف تھا جو جاپان کا وہ شہر تھا جو تباہ ہونے والا تھا۔ یہ آخری لمحات میں کیا جانے والا وہ فیصلہ تھا جس نے جاپان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی تاریخ ہی بدل ڈالی اور دنیا کے عظیم شہر ناگاساکی کی تباہی اور بربادی کی نئی تاریخ رقم ہوگئی جس کے زخم آج تک تازہ ہیں۔
٭وہ تقریر جس نے ٹیڈی روز ویلٹ کی جان بچالی:
یہ 1912 کی بات ہے جب ٹیڈی روز ویلٹ نے 1908میں اپنے صدارت سے دست بردار ہونے کے فیصلے پر دکھ اور پچھتاوے کا اظہار کیا تھا، چناں چہ وہ واپس اپنی صدارتی مہم جوئی کی طرف لوٹ آیا جس میں وہ بل موس پارٹی کی طرف سے امریکی صدارتی امیدوار تھے۔ اسی سال کی 14 اکتوبر کو وہ حاضرین سے خطاب کرنے کے لیے Milwaukee Auditorium میں روسٹرم پر پہنچے اور خطاب کرتے ہوئے کہا:’’دوستو!میں آپ سب سے گذارش کروں گا کہ جتنا ممکن ہو خاموشی اختیار کریں۔‘‘، اس کے بعد انہوں نے نہایت فکر انگیز خطاب کیا، یہ ایسے الفاظ تھے جو سونے کے حروف سے لکھے جانے کے قابل تھے۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ آپ پوری طرح یہ جانتے ہیں یا نہیں کہ مجھے مار دیا گیا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی تمام پریشان حاضرین کے منہ سے آہیں نکل گئیں۔ اس کے بعد ٹیڈی روزویلٹ نے اپنی ویسٹ کے بٹن کھولے تاکہ وہ اس کے نیچے موجود خون آلود قمیص کو دکھاسکیں۔ اس کے بعد سابق صدر نے اپنے سابقہ الفاظ میں مزید یادگار الفاظ کا اضافہ کرتے ہوئے کہا:’’کسی بل موز کو مارنے سے زیادہ اس کام میں وقت لگتا ہے۔ میں کسی ہلاکت کی افواہ کی پروا نہیں کرتا۔‘‘
اس کے بعد روزویلٹ نے اپنے کوٹ کی جیب سے پچاس صفحات پر مشتمل اپنی تقریر کا مسودہ نکالا جو گولی لگنے سے پھٹ چکی تھی اور پھر حاضرین سے کہا:’’یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میری تقریر کا مسودہ میرے پاس تھا جس کی وجہ سے میں آج آپ سب کے سامنے موجود ہوں ، جب کہ اس میں لگنے والی گولی نے میری جان بچالی۔ اگر میری تقریر میری جیب میں نہ ہوتی تو یہ گولی سیدھی میرے دل میں گھس جاتی۔ گولی اب بھی میرے جسم میں ہے، اس لیے میں لمبی تقریر تو نہیں کرسکوں گا، لیکن میں پوری کوشش کروں گا۔‘‘
یہ سن کر آڈی ٹوریم میں ہلچل مچ گئی، لوگ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ اس کے بعد ٹیڈی روزویلٹ نے 90منٹ تک دھواں دھار اور پرجوش تقریر کی اور تاریخ میں غیرمعمولی نام پیدا کرکے سبھی لوگوں کو حیران کردیا۔
٭جب تقریر نے قتل کی سازش ناکام بنادی:
قتل کی وہ کوشش 8 PM کو کی گئی جب روزویلٹ اپنے ہوٹل سے باہر ایک کھلی کار میں بیٹھنے لگے اور انہوں نے اپنا ہیٹ لوگوں کی طرف دیکھ کر ہلایا۔ اسی وقت اندھیرے میں ایک اعشاریہ 38 کے کولٹ ریوالور کی روشنی کا جھماکا ہوا اور ٹیڈی روز ویلٹ کو گولی ماردی گئی۔ ایک ایڈی کانگ نے ممکنہ قاتل کو بڑی مشکل اور مہارت سے قابو کرلیا اور اسے دوسرا وار کرنے کا موقع نہیں دیا۔ اس کے بعد لوگوں کے ہجوم نے اسے گھیرلیا۔ مجرم ایک پاگل اور مخبوط الحواس avarian immigrant تھا جس کا نام جان فلیمنگ شرینک بتایا گیا، پبلک اس کو وہیں مارڈالتی اگر بیچ میں روزویلٹ نے مداخلت نہ کی ہوتی۔ انہوں نے کہا تھا:’’اسے مت مارو، بلکہ اسے میرے پاس لے آؤ۔ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد روزویلٹ نے شرینک سے پوچھا:’’تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘
جواب میں شرینک کے حلق سے آواز بھی نہ نکلی تو ٹیڈی روزویلٹ نے ہجوم سے کہا:’’اسے پولیس کے حوالے کردو۔‘‘
پھر روزویلٹ نے اپنی قمیص کے اندر ہاتھ ڈالا اور محسوس کیا کہ اس میں سکے کے سائز کا سوراخ بن گیا تھا۔ پھر انہوں نے اپنے ایڈی کانگ سے کہا:’’اس نے مجھے گولی ماردی ہے۔‘‘ سابق صدر نے اپنے ہاتھ میں دو تین بار کھانس کر دیکھا اور جب خون کا کوئی قطرہ دکھائی نہ دیا تو وہ مطمئن ہوگئے کہ ان کے پھیپڑے محفوظ ہیں۔
پھر انہوں نے یہ حکم جاری کیا کہ انہیں Milwaukee Auditorium لے جایا جائے تاکہ وہ وہاں اپنے لیے منتظر حاضرین سے خطاب کرسکیں۔
روزویلٹ کو شوٹ کرنے والے شرینک کی حالت ایسی تھی جیسے وہ حالت خواب میں ہو یا نشے میں ہو۔ شرینک کو بعد میں پاگل قرار دے دیا گیا اور 1943 تک یعنی اپنی موت تک وہ وہیں رہا۔
٭مارٹن لوتھر کنگ:
جب مارٹن لوتھر کنگ نے برجستہ کہا:’’میں نے ایک خواب ناک تقریر کی ہے۔‘‘
’’میں نے ایک خواب ناک تقریر کی ہے۔‘‘ یہ فقرہ ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے مشہور و معروف کلمات میں سے ہے جو کبھی کسی امریکی نے اپنی زبان سے ادا کیے تھے۔ یہ ایک بے مثال اور اثر انگیز تقریر کے یادگار الفاظ تھے جو انہوں نے لنکن میوریل میں 28 اگست1963کو ادا کیے تھے۔ یہ فقرہ بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ لیا گیا۔ بلاشبہہ یہ جملے مارٹن لوتھر کنگ کی زبان سے ہی ادا ہوسکتے تھے۔ انہوں نے انسانی حقوق کے لیے جس طرح جدوجہد کی، اس کا گواہ پورا امریکا تھا۔
بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ اس دن مارٹن لوتھر کنگ جونیر جس طرح روسٹرم پر چل کر پہنچے تھے، اس روز انہیں ایک لکھی ہوئی تیار تقریر ہی پڑھنی تھی جس کی نقول پریس کے پہلے سے موجود لوگوں میں تقسیم بھی کردی گئی تھیں، جن میں خواب کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا تھا۔
تاہم اس تقریر کا ساتواں پیرا پڑھتے ہوئے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر سانس لینے کے لیے رکے، اس مختصر سے وقفے میں مارٹن لوتھر کنگ کے دوست معروف سنگرMahalia Jackson نے چیخ کر کہا:’’انہیں اس خواب کے بارے میں بتاؤ۔‘‘
مارٹن لوتھر کنگ نے اس تقریر کے مسودے کو ایک طرف کیا، اپنا انداز بدلا اور پھر ایک نئے انداز میں بات شروع کی:’’میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔‘‘
٭اتحادیوں کا روز قیامت کا تذبذب:
یہ دوسری جنگ عظیم کا واقعہ ہے جب اتحادیوں نے نارمنڈی کے ساحلوں پر بہت بڑا اور قیامت خیز معرکہ شروع کیا۔ اس عظیم آپریشن میں چار ہزار سے زیادہ بحری جہاز اور 11,000 جنگی طیارے شامل تھے، مصنوعی بندرگاہیں انگلش چینل کے پار پانی میں گھسیٹ کرلائی گئی تھیں اور لاکھوں افراد کسی نہ کسی صورت میں اس آپریشن کا حصہ تھے۔
اس حملے کے پہلے دن 150,000 سے زیادہ افراد کی کام یاب اور محفوظ لینڈنگ کی تیاری مکمل ہوچکی تھی۔ اگر یہ لوگ ہٹلر کے دفاعی قلعے یورپ کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے اور فرانس میں قدم رکھنے میں بھی کامیاب ہوجاتے تو ان حملہ آوروں کے پیچھے پیچھے سیکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں اضافی اتحادی فوجی نازیوں کے پنجوں سے یورپ کو آزاد کرا لیتے۔
تاہم ایسا نہ ہوسکا، پورے وقت، مکمل کوشش اور برسوں کی تیاریوں کے بعد بھی ایسا نہ ہوسکا۔ حالاں کہ انہوں نے برسوں کی محنت کے بعد یہ عظیم پلان تیار کیا تھا، لیکن پھر بھی انہیں اس پر عمل کرتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا اور کام یابی کی کوئی امید یا ضمانت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
انہیں دوسری طرف سے سخت مزاحمت کی امید تھی اور زمین پر کسی بھی طرح کی معمولی سی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ وہ ہر لحاظ سے تیار تھے۔ انہیں موسم کا بھی خیال تھا اور حساب کتاب میں گڑ بڑ کی بھی توقع تھی۔ یہ ذرا بھی غلطی سارے پلان کو تباہ کرسکتی تھی۔ کوئی بھی فرد General Dwight D. Eisenhower سے زیادہ پریشان نہیں تھا کیوں کہ اسے بہت سے تلخ حقائق کا علم تھا اور سپریم ہیڈکوارٹرز الائیڈ ایکسپیڈیشنری فورس کا کمانڈر تھا۔
٭موسم کی دھوکے بازی:
لیکن ان کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جنرل آئزن ہاور اور اتحادی کمانڈرز کو ایک چیز پر بالکل کوئی کنٹرول نہیں تھا، مگر یہ وہ چیز تھی جو ہر طرح کی احتیاط کے ساتھ تیار کیے گئے پورے پلان کو تباہ کرسکتی تھی اور وہ تھا موسم۔۔۔ ڈومز ڈے کی کامیابی کے لیے اس سارے کام میں کچھ کنڈیشنز یا موسمی کیفیات کے کمبی نیشن کی ضرورت تھی جن میں اس دن کے ایک خاص وقت میں سمندری مدوجذر اور اس کی کیفیات درکار تھیں۔
ایک پورا اور مکمل چان آپریشن سے پہلے ان ساحلوں پر رات کو پیراشوٹ لینڈنگ میں بڑا مددگار ثابت ہوسکتا تھا۔ ساحلوں پر پہلا لینڈنگ کرافٹ اپنے فوجیوں کو اس طرح اتارتا کہ وہ ہائی اور لو یعنی بلند اور نچلے مدوجذر کے درمیان ہوئے جس کے ساتھ آنے والا مدوجذر آ بھی جاتا۔ تاہم ان تمام کیفیات کے ہونے کے باوجود موسم کے تعاون کی اشد ضرورت تھی، آئزن ہاور نے 5جون کے حملے کا شیڈول اس طرح بنایا تھا کہ اس میں کسی غلطی کی گنجائش نہیں تھی، لیکن پھر بھی موسم نے ان کا ساتھ نہ دیا۔
٭ مشن میں تاخیر:
4جون 1944کو یعنی حملے سے ایک روز پہلے ایک موسمی محاذ کھل گیا۔ زیریں بادل چھاگئے جن کی وجہ سے طیاروں کے لیے اپنے اہداف تلاش کرنا مشکل ہوگیا۔ ساتھ ہی بپھرے ہوئے سمندر اور طوفانی ہواؤں نے لینڈنگ کرافٹس کی لانچنگ اور لینڈنگ دونوں ہی مشکل بنادیں۔ چناں چہ 5جون کی لینڈنگ منسوخ کردی گئی لیکن اس وقت تک فوجی پہلے سے ہی اپنے بحری جہازوں پر متعین ہوچکے تھے اور دور دراز مقامات سے تمام بحری جہاز پہلے ہی نارمنڈی کی طرف چل پڑے تھے۔
ان جہازوں کو بیچ میں روکنا اور ساتھ ہی امید رکھنا کہ وہ جرمن انہیں نہیں دیکھ سکیں گے، بہت مشکل کام بن چکا تھا۔ چناں چہ اس حملے کی تاریخ میں ایک روز کی مزید تاخیر کردی گئی اور یہ6 جون مقرر کی گئی، لیکن شرط یہ تھی کہ اس روز موسم بہتر ہوجائے۔ ورنہ اس حملے کی تاریخ کئی ہفتوں بعد رکھی جاسکتی تھی اور اس کے لیے موسم اور چاند کے ساتھ سمندری طغیانی کو بھی پیش نظر رکھا جانا تھا۔ پھر یہ کیفیات 18 سے20 جون تک آرہی تھیں یا پھر اگلا پورا مہینہ صحیح طغیانی اور چاند کی کیفیات کے مطابق آرہا تھا۔
٭آئزن ہاور کا ڈومز ڈے جوا:
6جون کو حملہ نہ کرنے فیصلے میں تبدیلی کا مطلب یہ تھا کہ ہزاروں بحری جہازوں کو واپس بلالیا جاتا اور ان تمام فوجیوں کو بھی واپس طلب کرلیا جاتا جو پہلے ہی بحری جہازوں پر سوار تھے۔ زیادہ بہتر صورت یہ تھی کہ اس مشن کو کینسل کردیا جائے اور اگلے ماہ پر رکھ لیا جائے۔ تاہم 4جون کی شام کو رائل ایئر فورس میٹیرولوجسٹ جیمس اسٹیگ نے آئزن ہاور سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ اپنی پیش گوئی شیئر کی کہ 6 کو خراب موسم میں وقفہ ہوگا اور اس روز حملہ ممکن ہوسکے گا۔ پوری کی پوری کمانڈ کا بوجھ آئزن ہاور کے کندھوں پر تھا اور وہ اس کے لیے کوئی فیصلہ کرنے کے لیے فکرمند تھے کہ یا تو وہ 6 کو حملہ کردیں یا کینسل کردیں یا پھر اگلے چند ہفتوں تک بہتر موسم کا انتظار کریں۔
اپنے ماتحتوں کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد آئزن ہاور نے ماہرین موسمیات پر اعتماد کرنے کا فیصلہ کیا اور 6 کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ بعد میں حالات و واقعات نے یہ ثابت کردیا کہ آئزن ہاور کا یہ موسمی جوا متعدد حوالوں سے صحیح ثابت ہوا، کیوں کہ اگر حملے کی تاریخ مزید پیچھے کی جاتی تو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑجاتا۔19 سے22 جون تک نارمنڈی کے ساحل سے ایک بہت بڑا طوفان ٹکرایا جس کی وجہ سے وہاں لینڈنگ ناممکن ہوجاتی یا پھر فوجی بھی باقی سب سے الگ ہوجاتے۔ تاہم اتحادی ابھی تک جنگل سے باہر نہیں تھے اور نہ وہ صحیح موسم میں تھے۔ یہ ساری کی ساری مہم جوئی اب بھی ناکامی کا شکار ہوسکتی تھی۔
ایک کمانڈر کی حیثیت سے آئزن ہاور کا فرض تھا کہ وہ اپنے ملک کے قیمتی فوجیوں کی جانیں بھی بچائیں اور انہیں خواہ مخواہ ضائع نہ ہونے دیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا تھا۔ انہوں نے جوانوں سے اپنے خطاب میں کہا تھا:’’تم پر ایک اہم جنگ مسلط ہوچکی ہے، جس کے پیچھے ہم گذشتہ کئی ماہ سے لگے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا کی نگاہیں تم پر ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ تمہیں فتح سے کم اور کچھ نہیں چاہیے۔ جاؤ میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ آپریشن ایک فتح کے طور پر پلان کیا گیا ہے اور تمہیں جیت حاصل کرنی ہے۔ ہم اپنی فتح کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اپنی راہ میں آنے والے ہر رکاوٹ کو دور کردیں گے اور اس کامیابی کو حاصل کرکے رہیں گے۔‘‘
تاہم حملے سے ایک روز پہلے انہوں نے ایک اور پیغام بھی تیار کیا جو دوسری صورت میں دیا جانا تھا۔ وہ پیغام یہ تھا: Cherbourg-Havre ایریا میں ہماری لینڈنگز ایک تسلی بخش کام یابی حاصل کرنے کے لیے ناکام ہوئی ہیں۔
میں نے اپنی فوج کو پیچھے ہٹالیا ہے، اس وقت حملہ کرنے کا میرا فیصلہ اور جگہ دونوں مجھے فراہم کی گئی بہترین معلومات کی صورت میں تھا۔ پیدل فوج، فضائیہ اور بحریہ سبھی نے بہادری اور وطن سے اپنی لگن کی بہترین مثالیں قائم کی ہیں۔ اگر اس میں کوئی ناکامی ہوئی تو اس کا تنہا ذمے دار میں ہوں۔
پھر یہ ہوا کہ اتحادیوں کو بڑی تعداد میں نقصان اٹھانا پڑا، ڈومز ڈے پر 10,000افراد زخمی ہوئے اور لگ بھگ 4500 لقمۂ اجل بنے۔ تاہم یہ تمام نقصانات آئرن ہاور اور ان کے کمانڈرز کے اندازوں سے کہیں کم تھا۔
6 جون کے اختتام تک 156,000 فوجی لینڈ کرگئے تھے اور ایک ساحل کو بھی حاصل کرلیا گیا تھا۔
٭آخری لمحات کا برتھ ڈے سرپرائز جس نے اتحادیوں کی ڈومز ڈے پر مدد کی تھی:
آئزن ہاور نے نارمنڈی لینڈنگز میں آخری لمحات پر اپنے فیصلے بدل کر جس طرح ساری دنیا کو حیران کیا تھا، اسی طرح بدلتے موسم نے بھی اس صورت حال میں اہم کردار ادا کیا تھا، آخر اسی جگہ پر اتحادیوں کو ایک غیر متوقع تحفہ بھی دیا گیا۔
1944 تک جرمن کمانڈر جسے مغربی اتحادی بہت عزت کی نظر سے دیکھتے تھے اس کا نام تھا ارون رومیل، یعنی ڈیزرٹ فوکس جس نے انہیں شمالی افریقہ میں تگنی کا ناچ نچا دیا تھا، ہٹلر نے اسی کو شمالی فرانس کے دفاع کا انچارج بنادیا تھا۔ اتحادیوں کو توقع بھی تھی اور خوف بھی کہ اس کی وجہ سے انہیں ڈومز ڈے پر بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ ڈومز ڈے پر رومیل نارمنڈی سے دور تھا۔ خراب موسم جس نے آئزن ہاور کے لیے اپنے فیصلے پر عمل کرنا آسان بنادیا تھا، اس نے ڈیزرٹ فوکس کو یہ سمجھنے پر مجبور کردیا کہ ان حالات میں اتحادی کبھی حملہ نہیں کریں گے۔
اس لیے رومیل نے ایک خبط میں آکر یہ فیصلہ کیا کہ اس نے اپنی کمانڈ سے دوری اختیار کرتے ہوئے جرمنی واپسی کا فیصلہ کیا تاکہ اپنی بیوی کو اس کی سال گرہ کے موقع پر پہنچ کر حیران کردے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ 6جون 1944 کو تھا ۔ بعد میں اس کے ماتحتوں نے اسے فون پر بتایا کہ اس کی غیر حاضری میں وہاں کیا ہوا ہے۔
رومیل 7 جون تک نارمنڈی واپس نہ پہنچ سکا۔ اس وقت تک حملہ پہلے ہی کامیاب ہوچکا تھا اور اتحادی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرچکے تھے۔ اس طرح انہوں نے اپنے دشمن کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ کام یابی حاصل کرلی تھی۔ نہ وہ اپنی بیوی کی سال گرہ کے موقع پر اسے مبارک باد دینے گھر جاتا اور نہ ہی یہاں اتحادیوں کو یہ ساری کامیابی ملتی۔
The post اور پھر تاریخ بدل گئی appeared first on ایکسپریس اردو.