Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

سیلفی کا جان لیتا جنون

$
0
0

’’چلیں اب ایک سیلفی ہوجائے۔۔۔!‘‘ شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں ہمیں یہ جملہ سنائی نہ دیتا ہو۔ گھر، دفتر، تفریحی مقامات حتٰی کہ بیچ ٹریفک میں بھی آج کل لفظ ’’سیلفی‘‘ کی گونج بہ آسانی سنی جاسکتی ہے۔

موبائل فون کے ذریعے اپنی تصویر بنانے کا عمل سیلفی کہلاتا ہے، سب سے پہلی سیلفی کس نے لی ہوگی یا اس لفظ کا سب سے پہلے استعمال کس نے کیا ہوگا؟ کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال 2013 تک لفظ سیلفی اتنی شہرت اور اہمیت ضرور اختیار کر گیا تھا کہ آکسفورڈ ڈکشنری نے اِس لفظ کو اُس سال کا مشہور ترین لفظ قرار دینے میں ذرا بھی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیلفی لینے کے رجحان میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

جس میں سب سے کلیدی کردار آئے دن نت نئے متعارف ہونے والے اسمارٹ فونز کا ہے ۔ اب تو ’’سیلفی فون‘‘ بھی عام فروخت کے لیے دست یاب ہیں جن میں بطور خاص سیلفی لینے کے لیے ایک نہیں، دو نہیں بلکہ چار چار کیمرے نصب ہوتے ہیں تاکہ آپ کی لی گئی سیلفی زیادہ سے زیادہ شان دار نظر آسکے۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ اب سیلفی خوش گوار یادیں محفوظ کرنے کے بجائے صرف خودنمائی کے لیے استعمال ہورہی ہیں تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ دنیا بھر میں سیلفی کے ذریعے خودنمائی کا یہ خبط اس خطرناک سطح تک جاپہنچا ہے کہ بعض مواقع پر لوگ منفرد یا انوکھی سیلفی لینے کی کوشش میں اپنی قیمتی جان تک سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

جدید طبی اصطلاح میں سیلفی کے اِس جنون کو ’’سیلفی سینڈروم‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک بین الاقوامی تحقیقاتی مطالعے میں کیے گئے سروے کے مطابق اکتوبر 2011 سے اکتوبر 2019 تک307 افراد سیلفی لیتے ہوئے موت کے منہ میں چلے گئے جو سالانہ اوسطاً 39 افراد بنتے ہیں۔ سیلفی کے دوران موت کے نمایاں ترین اسباب میں ڈوب جانا یا اونچی جگہ سے گرنا سرفہرست ہے جب کہ قاتل سیلفی کی دوڑ میں مرد خواتین پر واضح عددی برتری رکھتے ہیں، اب تک سیلفی سے ہونے والی ہر دس اموات میں سے سات اموات مردوں کی تھیں اور یہ تناسب 70 فیصد کے قریب بنتا ہے۔

نیز سب سے زیادہ فکر کی بات تو یہ ہے کہ سیلفی لیتے ہوئے زندگی کی بازی ہار دینے والوں میں پچاس فیصد افراد کی عمریں 20 سے 29 سال کے درمیان ہوتی ہیں جبکہ 36 فیصد افراد کی عمر 10 سے 19 سال بتائی گئی ہے۔ اس تحقیقی مطالعے میں شریک سائنس دانوں نے تجویز دی ہے کہ دنیا بھر میں بالخصوص خطرناک مقامات پر سیلفی کی ممانعت کے زون ہنگامی بنیادوں پر بنائے جائیں تاکہ اس نوعیت کی ذاتی تصاویر کے سبب واقع ہونے والی اموات کا کچھ سدباب کیا جاسکے۔

شاید اسی لیے بعض ممالک میں سیلفی لینے کے دوران بڑھتی شرح اموات پر اکثر پبلک مقامات اور سیاحتی جگہوں کو ”نو سیلفی زون” بھی قرار دیا جارہا ہے، جس میں سمندر کا کنارہ، پہاڑیاں اور بلند عمارتیں شامل ہیں۔ فی زمانہ موضوع کی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے قارئین کی دل چسپی و معلومات کے لیے چند جان لیوا سیلفیوں کا مختصر احوال پیش ِ خدمت ہے۔

٭ڈوبتے سورج کے ساتھ سیلفی نے زندگی کا چراغ گُل کردیا

نومبر 2018 میں ایک 35 سالہ جرمن نژاد خاتون سری لنکا میں دورانِ سیاحت اپنی ایک دوست کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہوکر ڈوبتے سورج کا نظارہ کر رہی تھی کہ اچانک اُس کے ذہن میں پہاڑ سے ذرا مزید ا آگے جھک کر غروب ہوتے ہوئے سورج کے ساتھ سیلفی لینے کا انوکھا خیال آیا اور اُس نے یہ بات اپنی دوست کو بتاتے ہوئے کہا ’’چلو ڈھلتے سورج کے کچھ مزید قریب جاکر سیلفی لیتے ہیں‘‘۔ دوست نے اس خطرناک کام سے خاتون کو باز رہنے کا مشورہ دیا لیکن وہ خاتون اپنی دوست کی بات کو سنا اَن سنا کر جیسے ہی آگے بڑھی وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھنے کے باعث پیر پھسلنے سے 4000 فٹ (ایک ہزار 200 میٹر) بلند پہاڑ سے ایک کھائی میں جاگری۔ بدقسمتی سے اس کھائی تک پہنچنے کوئی راستہ نہ تھا۔

جس کے باعث سری لنکن آرمی کو طلب کرنا پڑا۔ سری لنکن آرمی اور امدادی کارکنوں نے 6 گھنٹے کی تلاش اور ریسکیو آپریشن کے بعد خاتون کی لاش کو بڑی تگ و دو کے بعد آرمی ہیلی کاپٹر کی مدد سے گہری کھائی سے نکالا۔ یہ جان لیوا حادثہ سری لنکا کے معروف سیاحتی مقام ورلڈز اینڈ پر پیش آیا، جو سری لنکا کے وسط میں ’’ہورٹن پلینز نیشنل پارک‘‘ میں قائم ہے، دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے یہ جگہ انتہائی پرکشش سمجھی جاتی ہے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جو اس سیاحتی مقام پر ہوا ہو۔ اس سے قبل سال 2015 میں ہالینڈ سے تعلق رکھنے والا نیا نویلا شادی شدہ جوڑا اپنے ہنی مون کو منانے کے لیے اسی مقام پر سیلفی لیتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گیا تھا، تاہم خوش قسمتی سے یہ جوڑا پہاڑ کی چوٹی سے گرنے کے بعد ایک درخت کی شاخوں میں پھنس گیا تھا جس کی وجہ سے اس نو بیاہتا جوڑے کو زندہ بچا لیا گیا تھا۔

٭بالکونی میں بنائی گئی جان لیوا سیلفی

گھر کی بالکونی میں میں کھڑے ہوکر سیلفی لے کر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹ کرنے کا رجحان ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ ہے۔ خاص طور پر بڑے شہروں میں جہاں کی زندگی فلیٹس میں مقید ہوتی ہے۔ گھر کی بالکونی سے سیلفی لے کر بیرونی زندگی کی منظرکشی کرنا اکثر افراد کا من پسند مشغلہ ہے مگر یہ کام کتنا زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ، اس کا اندازہ امریکی ریاست فلوریڈا میں پیش ہونے والے ایک تازہ واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اکتوبر 2018 میں پاناما شہر میں ایک 44 سالہ امریکی خاتون سینڈرا مونیولا دا کوسٹا (Sandra Manuela Da Costa) صرف ایک منفرد سیلفی لینے کے شوق میں رہائشی ٹاور کی 27 ویں منزل سے گر کر ہلاک ہوگئی۔ سینڈرا دو بچوں کی ماں اور اسکول ٹیچر تھی جو حال ہی میں پرتگال سے اپنی ملازمت کے سلسلہ میں پانامہ شہر میں منتقل ہوئی تھی۔

وہ اپنے اپارٹمنٹ کی بالکونی کی ریلنگ کے ساتھ کھڑے ہوکر سیلفی لیتے ہوئے اپنے پیچھے کے منظر کو تصویر میں شامل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ تاہم وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی اور بالکونی سے نیچے آ گری۔ امریکی پولیس کے ذرائع کے مطابق سینڈرا تیز ہوا چلنے کے باعث اپنا توازن کھو بیٹھی۔ نیز لوکسر ٹاور میں رہنے والے عینی شاہدین کے مطابق زمین پر گرتے ہوئے بھی اس خاتون نے سیلفی اسٹک کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ مذکورہ ٹاور کے نزدیک موجود تعمیراتی کام کرنے والے تعمیراتی کمپنی کے ایک مزدور نے اپنے موبائل فون سے سینڈرا کے بالکونی سے گرنے کے منظر کو ریکارڈ کر لیا۔ نوجوان مزاحیہ شاعر نوید ظفر کیانی کا زیرِنظر شعر ایسے حادثات کی مناسبت سے کتنا بر محل شعر ہے کہ

منظر کے انتخاب نے چھت سے گرادیا

سیلفی کے اشتیاق میں بندہ تمام شُد

اس واقعے کی انٹرنیٹ پر زیرگردش وڈیو میں ایک شخص کو دوسرے سے یہ کہتے ہوئے صاف سنا جا سکتا ہے کہ ”یہ خاتون پاگل ہے، یہ جا رہی ہے، اس کو دیکھو، اس کو دیکھو… یہ نیچے گر رہی ہے۔” برطانوی اخبار ڈیلی مِرر نے اپنی ویب سائٹ پر واقعے کی وڈیو پوسٹ کی ہے، جسے اس مختصر لنک سے آپ بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں: http://bit.ly/2Akgigb

٭جنگلی ریچھ کے ساتھ سیلفی لینے کا انجام

مئی 2018 میں بھارتی ریاست اڑیسہ میں سیلفی کے ایک شوقین کو ناگہانی حادثے کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب ایک ریچھ نے جس کے ساتھ وہ اپنی سیلفی بنانے کے لیے اس کے قریب پہنچ گیا تھا اچانک جنگلی ریچھ نے اس پر حملہ کرکے ہلاک کردیا۔ 27سالہ پربھو بھٹارا جو کہ پیشہ کے اعتبار سے ایک ڈرائیور تھا اور شادی کے مہمانوں کو اپنے ٹرک میں لے کر اُڑیسہ شہر کے ایک مضافاتی گاؤں جارہا تھا کہ سڑک کنارے ایک ریچھ کو دیکھ کر اس نے اس کے ساتھ سیلفی لینے کا پروگرام بنایا اور گاڑی روک کراس نے مہمانوں کو گاڑی میں ہی چھوڑا اور خود جنگلی ریچھ کے پاس جا پہنچا لیکن اس سے پہلے کہ سیلفی کے لیے پوز بناتا ریچھ نے اس پر حملہ کردیا اور اسے بھنبھوڑ کر شدید زخمی کردیا۔

جس سے پربھو موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ریچھ وہاں ایک جوہڑ پر پانی پینے میں مصروف تھا اور پربھو دبے قدموں ریچھ کے بالکل عقب میں پہنچ کر سیلفی لینے ہی والا تھا کہ اچانک اُس کا پاؤں پھسل گیا اور توازن برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے ریچھ کے چنگل میں جا پھنسا۔ ایک شخص نے پربھو کو بچانے کی کوشش بھی کی جو کامیاب نہ ہوسکی جب کہ وہاں موجود افراد نے پتھر اور ڈنڈے مار کر ریچھ کو بھگانا بھی چاہا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ جائے حادثہ کی تصویر چند مقامی لوگوں نے اتاری اور اس واقعے کی وڈیو بھی بنائی۔

وڈیو میں صاف نظر آتا ہے کہ حادثہ کا آغاز ریچھ کی برہمی سے ہوا، جس نے اپنے ساتھ سیلفی بنانے والے شخص پر اپنے تیز ناخنوں سے حملہ کرکے اسے بری طرح زخمی کیا اور پھر اسے بھنبھوڑ کر رکھ دیا جب کہ اس کے ہتھے چڑھنے والا پربھو جان بچانے کی بھرپور جدوجہد کرتا نظر آتا ہے۔ وڈیو میں مقامی لوگوں کے چیخنے چلانے کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔ اس حادثے کی انٹرنیٹ پر زیرگردش ویڈیو کا مختصر لنک ہے: http://bit.ly/2EUbceH ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اسی علاقہ میں دسمبر 2017 میں بھی تین مختلف واقعات میں دو افراد ہاتھیوں کے ساتھ سیلفی بنانے کی کوشش میں اپنی جان گنوا چکے ہیں۔

٭چلتی ٹرین کے سامنے سیلفی کا بخار

تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں واقع ’’سیمسین ریلوے اسٹیشن‘‘ پر ایک 24 سالہ خاتون اپنے دوست کے ساتھ ریل کی پٹری پر آنے والی ریل کے ساتھ سیلفی لیتے ہوئے ہلاک ہوگئی ۔ اس اندوہ ناک واقعے میں خاتون کے بچ جانے والے دوست کا حادثہ کی تمام تر تفصیل بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’میں اور میری دوست ریلوے ٹریک کے سامنے بیٹھے مشروب پی رہے تھے کہ اچانک ہمیں دور سے ریلوے پٹری پر ایک ریل گاڑی آتی دکھائی دی۔ میری دوست نے مجھ سے کہا کہ کیوں نہ اس آنے والی ٹرین کے ساتھ ایک سیلفی ہوجائے، ہماری یہ سیلفی سوشل میڈیا پر دھوم مچا سکتی ہے۔

مجھے بھی اپنی دوست کی اس بات سے اتفاق تھا سو ہم دونوں ریلوے پٹری کے عین بیچوں بیچ کھڑے ہوکر ریل گاڑی کے اپنے قریب آنے کا انتظار کرنے لگے، جیسے ہی ریل گاڑی ہمارے قریب آئی ہم نے سیلفی اُتار کر جلدی سے ریلوے پٹری سے دور ہوجانے کی کوشش کی لیکن شاید ٹرین ہماری توقع سے زیادہ تیزرفتار تھی اور ہماری ریل گاڑی سے ٹکر ہوگئی۔ ‘‘ فروری 2018 کی صبح پیش آنے والے اس حادثے میں بدقسمت خاتون موقع پر ہی ہلاک ہوگئی تھی جب کہ اُس کا دوست ریل گاڑی کی ٹکر سے شدید زخمی ہوگیا تھا، جسے بعدازاں جائے حادثہ پر موجود لوگوں کی کوشش سے بروقت ہسپتال پہنچا دیا گیا، جہاں اُسے ملنے والی طبی امداد نے موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ لوگوں میں چلتی ٹرین کے عین سامنے آکر سیلفی بنانے کا رجحان تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔

خاص طور پڑوسی ملک بھارت میں اس طرح کے واقعات کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ گذشتہ سال جنوری 2017 میں بھی بھارتی شہر کلکتہ کے علاقے ہاوڑا میں چلتی ٹرین میں لڑکوں کا گروپ سیلفی اسٹک کے ذریعے سیلفی بنا رہا تھا، اسی دوران ایک لڑکا ٹرین سے باہر گرگیا، جس پر دوست کو بچانے کے لیے اس کے تین ساتھیوں نے بھی نیچے چھلانگ لگادی، مگر ان میں سے دو لڑکے ٹرین کے پہیوں کے نیچے آکر ہلاک ہوگئے۔ اس واقعے کے عینی شاہدین کے مطابق سارا مسئلہ سیلفی بنانے سے شروع ہوا، بچے تصویر بنانے میں اتنا مگن تھے کہ انہیں ٹرین کے ہلنے کا احساس ہی نہ ہوا، اور جھٹکا لگنے سے جب ایک دوست باہر گرا تو دیگر بھی اسے بچانے کے لیے گود پڑے اور ٹرین کے نیچے آکر ہلاک ہوگئے۔

٭اُڑتے جہاز کے ساتھ سیلفی کا جنون

میکسیکو سٹی کی ریاست چیہواہوا کے ایک قصبے چینیپاس میں رہنے والی دو نوجوان لڑکیاں جن کی عمریں بالترتیب 17 اور 18 برس کے لگ بھگ تھیں، رن وے سے بلند ہوتے ایک چھوٹے طیارے کے ساتھ سیلفی لینے کی کوشش میں طیارے کے پر کی زد میں آکر جاں بحق ہوگئیں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ دونوں لڑکیاں رن وے کے قریب منعقد ہونے والی گھوڑوں کی ریس کی تقریب میں شرکت کے لیے آئی تھیں اور تقریب کے اختتام پر گھر واپسی کے لیے اپنی فلائیٹ کا انتظار کر رہی تھیں کہ کسی طرح یہ دونوں ایئرپورٹ سیکیوریٹی اہل کاروں سے نظر بچا کر رن وے پر جاپہنچیں۔ رن وے سے ایک اُڑنے والے جہاز کے بالکل قریب سے سیلفی لینے کی خواہش میں وہ رن وے پر کھڑے ایک ٹرک پر چڑھ گئیں تاکہ بلند ہوتے جہاز کے ساتھ بالکل قریب سے ایک یادگار اور منفرد سیلفی اُتار کر اپنی دوستوں کو حیران کر سکیں، مگر اُن کا یہ ’’سیلفی ایڈونچر‘‘ جان لیوا ثابت ہوا اور طیارے کا پر ان دونوں لڑکیوں کے سروں ٹکرا گیا جس کے باعث دونوں بچیاں موقع پر ہی دم توڑ گئیں جب کہ لڑکیوں کے ساتھ پر ٹکرانے کے باعث طیارے کو بھی زبردست نقصان پہنچا اور طیارے میں سوار کئی مسافر زخمی بھی ہوئے۔ تاہم ایئرپورٹ حکام کی جانب سے طیارے کے حادثے میں زخمی ہونے والے مسافروں کی اصل تعداد میڈیا کو فراہم نہیں کی گئی۔

٭کیا جان لیوا سیلفی سے بچنا ممکن ہے؟

سیلفی سینڈروم کے مرض پر تحقیق کرنے والے کئی نامور محققین اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہمیں اُمید ہے کہ اگر لوگ ہمارا ساتھ دیں اور سیلفی لیتے ہوئے غیرضروری ایڈونچر ازم سے پرہیز کریں تو اس مسئلہ سے بخوبی نمٹا جا سکتا ہے۔‘‘ اس ضمن میں محققین کی ٹیم نے ’’سیفٹی کیمرا‘‘ کے نام سے ایک ایسی منفرد موبائل اپلی کیشن بھی تیار کی ہے جو سیلفی لینے والے افراد کو خطرے سے متنبہ کرتی ہے۔ یہ موبائل ایپ اونچے مقامات، ٹرین کی پٹری یا ایسی کسی بھی خطرناک صورت حال جس سے سیلفی لینے والے کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ دورانِ سیلفی ہی سرخ لفظوں میں لکھا ایک پیغام سیلفی لینے والے کی موبائل اسکرین پر ظاہر کردیتی ہے کہ ’’ یہاں سیلفی لینا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے ‘‘ جب کہ محفوظ مقام پر سیلفی لیتے ہوئے موبائل اسکرین پر سبز لفظوں میں یہ پیغام نمودار ہوجاتا ہے کہ ’’یہاں سیلفی لی جاسکتی ہے۔‘‘ چونکہ یہ ایپ حال ہی میں تخلیق کی گئی ہے۔

اس لیے اس کے سو فیصد درستی کے حوالے سے تو فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اس ایپ کو بنانے والی ٹیم کا یہ دعویٰ ضرور ہے کہ ان کی ٹیم نے تین ہزار سیلفیوں پر اس ایپ کا تجربہ کیا ہے اور خطرناک تصاویر کے بارے میں اس ایپ نے 70 فیصد مواقع پر بالکل درست نشان دہی کی ہے۔ دعوے کی سچائی جاننے اور اُس کی تصدیق و تردید کے لیے آپ اپنی رائے بھی اس ایپ میں درج کرسکتے ہیں، جو مستقبل میں اس ایپ کو مزید بہتر بنانے میں معاون ہوسکتی ہے۔ ایپلی کیشن کو درج ذیل مختصر لنک سے ڈاؤن لوڈ کرکے اپنا اسمارٹ فون کا ناگزیر حصہ بنایا جاسکتا ہے: http://bit.ly/2rUfv0X    n

The post سیلفی کا جان لیتا جنون appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>