( قسط نمبر10)
گلگت بلتستان کا ایک ضلع استور ہے۔ جو گلگت سے کم و بیش ایک سو تیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ استور کے ضلعی ہیڈکوارٹر پہنچنے کے لئے پہلے شاہراہ قراقرم پر سفر کرنا ہوتا ہے۔جو گلگت سے رائے کوٹ پل تک انتہائی شاندار طور پر حال ہی میں چین نے ازسر نو بنائی ہے۔ جگلوٹ اور بونجی سے آگے تھیلچی کے مقام پر ایک ذیلی سڑک استور کی جانب مڑتی ہے۔
دریائے سندھ پر بنے پختہ پُل کو پار کرنے کے بعد یہ سڑک دریائے استور کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے آپ کو ایک ایسی دنیا میں پہنچا دیتی ہے جس کا تصور کرنا شاہراہ قراقرم کے سفر کے دوران ناممکن ہے۔5092مربع کلومیٹر رقبہ پر پھیلاہوا ضلع استور پہلے پہل ضلع دیامر کی ایک تحصیل تھی، جسے 2004 ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا تھا۔
اس کے مغرب میں ضلع دیامر،شمال میں ضلع گلگت،مشرق میں ضلع سکردو اور جنوب میں صوبہ خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر کا ضلع نیلم واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 8500 فٹ ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ الف اعلان پاکستان کی ضلعی تعلیمی رینکنگ 2015ء کے مطابق ضلع استور پاکستان کے تعلیمی نقشے پر 148اضلاع میں 32ویں نمبر پر ہے۔ لیکن اگر بنیادی ڈھانچے اور سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو یہ ضلع148 اضلاع میں114ویں نمبر پر ہے۔
استور کے لوگ سنٹرل سپیریئر سروسز کے امتحان میں بھی گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں سے کہیں آگے ہیں۔ روزگار کے مواقع کی قلت اور ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ تھوڑا بہت میل جول رکھنے کی وجہ سے استور کے لوگ تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ علاقہ مقبوضہ اور آزاد کشمیر سے جڑاہوا ہے۔کشمیر کے لوگ بھی تعلیم کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔
انہی تاریخی اور جغرافیائی حقائق اورکشمیر کے ساتھ قربت کی بنا پر ضلع استور میں تعلیم کو دی جانے والی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔استور کی تاریخ کا احوال کچھ یوں بیان کیاجاتا ہے کہ ایک ایرانی سردار غازی مکپون پہاڑوں کے ساتھ اپنی دلچسپی کی وجہ سے پھرتے پھراتے اس خطے میں جا نکلا۔ اس کی شادی سکردو کے حکمران خاندان میں ہوئی ۔اس شادی کے نتیجے میں اس کے چار بیٹے پیدا ہوئے جو اسکردو، استور،کھرمنگ اور روندو کی وادیوں کے حکمران بنے۔کئی صدیوں تک ان علاقوں میں اسی خاندان کی حکمرانی رہی۔
پھر آپس کی چپقلشوں اور اقتدار کے جھگڑوں کی وجہ سے اس حکمران خاندان کی گرفت کمزور پڑتی گئی یہاں تک کہ کشمیر کے حکمران ڈوگروں نے اٹھارویں صدی میں یہاں اپنا تسلط جمالیا۔ ڈوگروں اور بعد میں کشمیرکے حکمران بننے والوں سے لڑ کر آزادی حاصل کرنے اور پاکستان میں شامل ہونے والے گلگت بلتستان کے باشندے سیاسی اعتبار سے بہت بیدار مغز ہیں۔ لیکن غربت، وسائل پر چند بااثر خاندانوں کا قبضہ اور موسم کی شدت ایسے مسائل ہیں جن سے نبردآزما رہنا ان کی قسمت میں لکھا ہے۔
استور نامی قصبہ تو چالیس کلومیٹر کے بعد آجاتا ہے لیکن راستے بھر میں دریائے استور اپنی خوبصورتی، تیز رفتاری، جوش، تُندی اور گذرگاہ کی دل فریبی کے بنا پر آپ کو کسی اور طرف نظریں جمانے کا موقعہ نہیں دیتا۔ استور سے لے کر دریائے سندھ کا حصہ بننے تک یہ دریا اس قدراُترائی میں بہتا ہے کہ اگر اس پر ہر دس کلو میٹر کے بعد بند باندھ کر بجلی پیدا کرنے کے لئے ڈیم بنایا جائے۔
تو یقینا ہر ڈیم سے پانچ پانچ سو میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔دریا کا بہاؤانتہائی تنگ گھاٹیوں میں اس قدر نشیب میں ہے کہ ڈیم بنانے کے لئے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر بند باندھنے کی ضرورت نہیں۔ قدرتی طور پر دونوں اطراف کے بلند و بالا پہاڑ ڈیموں کی دیواروں کا کام دے سکتے ہیں۔ جبکہ بہاؤ رو کنے کے لئے کنکریٹ کی ایک مضبوط دیوار بند کا کام دے گی۔ اس راہ میں دریا کے کنارے کچھ زیادہ آبادیاں بھی نہیں ہیں کہ جنہیں دوبارہ بسانے پر بہت زیادہ خرچ اُٹھتا ہو۔ زیادہ تر بستیاں دریائے استورسے بہت بلندی پر ہیں اور دریا میں گرنے والے نالوں سے اُوپر آباد ہیں۔سڑک کا زیادہ تر حصہ بھی دریا سے اس قدر اونچائی پر ہے کہ ازسرنو تعمیر کئے جانے والے حصوں پر بہت بھاری رقم خرچ نہ ہوگی۔
استور کہنے کو تو ضلعی صدرمقام ہے لیکن اس کی سڑکیں، گلیاں، بازار، آبادی اور دیگر سہولیات کسی بھی اعتبار سے ضلعی صدر مقام سے لگا نہیں کھاتیں۔تنگ و تاریک سڑکیں، جنہیں پختہ کرنے والوں کی ہڈیاں بھی قبروں میں گل چکی ہوں گی اور ان کی مرمت کرنے والے ابھی پیدا ہی نہیں ہو سکے ہیں۔ کچی گلیاں، زمانہ قدیم کی پرانی وضع کی دکانیں،اور بے تحاشہ تجاوزات اگر استور کی خوبصورتی کو ماند رکھنے کے لئے ناکافی ہوں توبغیر منصوبہ بندی کے بننے والی مار کیٹیں، ہوٹل،گھر اور دکانیںباقی ماندہ کام بخوبی کر رہی ہیں۔
دن کے آغاز کے ساتھ ہی یہاں کے بازاروں میں جیپوں اور گاڑیوں کا شور، حجاموں، مستریوں، سبزی فروٹ والوں، ہوٹلوں،اور پھیری لگا کر سامان فروخت کرنے والوں کا اس قدر شور ہوتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔یہی بازار سرشام یوں خاموش ہوجاتا ہے جیسے یہاں کوئی نہیں رہتا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سیاحوں کی جنت کہلائے جانے کے مستحق اس علاقے کے مرکزی قصبے کے کسی بھی پٹرول پمپ میں موجود باتھ روم استعمال کے قابل نہیں۔ پوچھنے پر انتہائی لاتعلقی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ پانی نہیں ہے۔ در آں حال یہ کہ استور قصبے میں دریائے استور کے علاوہ جگہ جگہ چشمے اور نالے بہہ رہے ہیں۔
استور کی وجہ شہرت بہت سی جگہیں ہیں۔ جن میں چلم، منی مرگ، پریشنگ، رتواور دیوسائی، میرملک، راما جھیل، رین بو جھیل، اللہ والی جھیل( یہ نام اس جھیل کو اس لئے دیا گیا ہے کہ پریشنگ وادی کے ایک کنارے واقع اس جھیل کا اگر بلندی سے نظارہ کیا جائے تو یہاں پریشنگ نالہ ’جسے دریا کہنا زیادہ مناسب ہو گا‘ ایسے ’زگ زیگ‘ انداز میں بہہ رہا ہے کہ جیسے خالق کائنات کا نام اللہ لکھا ہواہو۔یہاں اس دریا کاپانی جھیل کہ صورت اختیار کرلیتا ہے اسی وجہ سے اسے اللہ والی جھیل کہا جاتا ہے۔)
استور کے قابل ذکر سیاحتی مقامات میں سے ایک نمایاں نام راما جھیل کا ہے۔شہر کے مرکزی چوک سے ایک راستہ راما جھیل کی طرف مڑتا ہے۔جو یہاں سے تقریباً بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔یہ سارا راستہ پیچ در پیچ موڑوں، کھیتوں اور اُن کے درمیان بنے ہوئے نئے اور پرانے گھروں سے ہو کر گذرتا ہے۔جہاں کاشت کئے ہوئے کھیت اور گھر نہیں ہیں وہاں تا حد نظر قدرت نے سبزہ بچھا رکھا ہے۔
جس پر علاقے کے لوگوں کے مال مویشی چرتے ہیں۔یہ سڑک کسی زمانے میں پختہ تعمیر ہوئی ہو گی لیکن اب یہ ا پنی حالت زار کی وجہ بننے والے متعلقہ عملے،ٹھیکیداروں اور یہاں کے رہنے والوں کی غفلت کی داستان بہ زبان خاموشی سنا رہی ہے۔استور کی پسماندگی، سڑکوں، پلوں، راستوں اور عمومی صورت حال اس قدر تکلیف دہ ہے کہ بیان سے باہر ہے۔راما میڈوز ایک ملکوتی خوبصورتی رکھنے والی جگہ ہے۔آپ کے سامنے کھلا سرسبز وشاداب ہموار میدان ہے۔ جس میں نالیوں کی صورت دودھیا برفیلا پانی بہہ رہا ہے۔پانی کے کنارے بھیڑ بکریاں اور مویشی چر رہے ہیں۔
میدان کے اردگرد چیڑھ، دیودار اور کیل کے اونچے اونچے درخت ہیں۔میدان کے پیچھے ایک ڈھلوان پر شاداب جنگل اپنی خوبصورتی سے آپ کو مسحور کررہا ہے۔جنگل سے چونگڑا کی برفپوش چوٹی، اس کے ساتھ جڑا ہو نانگا پربت،نیلے آسمان پر بادلوں کی تیرتی ٹکڑیاں،یہاں اگر چاند کی چودھویں رات کو آسمان صاف ہو تو چاندنی میں نہائے ہوئے راما میڈوز میں گذاری ہوئی رات آپ کی زندگی کی سب سے حسین رات ثابت ہو گی۔ مجھے جھیلیں اچھی لگتی ہیں۔ قدرتی جھیلیں اپنے اندر بے پناہ خوبصورتی رکھتی ہیں۔ گلگت بلتستان آنے کا ایک مقصد قدرتی مناظر خاص طور پر جھیلوں سے لطف اندوز ہونا تھا۔
مجھے راما جھیل دیکھنے کی خواہش پوری کرنے کے لئے تین بار راما جانا پڑا۔ پہلی بار میں یہاں مئی کے مہینے میں ریڈیو پاکستان کی ایک ٹیم کے ہمراہ آیا تھا۔اُس وقت راما جنگل اور اس کے اردگرد کا علاقہ برف سے ڈھکا ہوا تھا۔استور سے آنے والی کچی پکی سڑک اسی جنگل میں ختم ہو جاتی ہے۔جھیل کی طرف جانے کے لئے ایک ٹریک سا بنا ہوا ہے۔ جس پر ایک وقت میں ایک ہی گاڑی چل سکتی ہے۔پہاڑی علاقوں میں پیدل چلنا بہت محنت طلب کام ہوتا ہے۔ جب برف میں چلنا پڑجائے توچند قدم پر سانس پھول جاتا ہے۔
راما میں بنے پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس پہنچ کر معلوم ہوا کہ راما جھیل جانے وا لے راستے میں لکڑی کا ایک پل آتا ہے۔ جس کا ایک کنارا اس طرح سے پانی کی زد میں آ کر منہدم ہو چکا ہے کہ گاڑی کا پل پار کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔اس پل سے آگے جھیل کے راستے میں ایک دوگلیشیر بھی آتے ہیں۔جنہوں نے پیدل جانے والوں کا راستہ بھی روک رکھا ہے۔اس مقام سے جھیل تک کا فاصلہ گو کہ زیادہ نہیں دو یا تین کلو میٹر ہے لیکن چڑھائی اس قدر سخت ہے کہ پہنچنے میں تین گھنٹے لگتے ہیں اور چلچلاتی دھوپ میں منجمند برف پر چڑھائی چڑھنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ غرض جی کڑا کرکے جھیل دیکھنے کی خواہش پوری کرنے کو اگلی بار پر اُٹھا رکھا اور ریسٹ ہاؤس ہی میں پکنک منا لی۔
جس میں شرکت کے لئے میرے ساتھ ریڈیو پاکستان گلگت سے شاہ زمان، اکاؤنٹینٹ محمد اکرم، ایڈمن اسسٹنٹ خورشید احمد خان، پروڈیوسر واجد علی، پروڈیوسر غلام محمد، پروگرام منیجر گل بہار، لائبریرین لیاقت علی، سکیورٹی گارڈ اور علی حسن ڈرائیور بھی آئے تھے۔ پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس کے ساتھ ہی محکمہ جنگلات کا بھی ریسٹ ہاؤس ہے جو قدرے پرانا اور نسبتاً چھوٹا ہے۔کچھ آگے پی ٹی ڈی سی موٹل ہے جس میں بارہ کمرے ہیں۔ اس موٹل کے سامنے پولو گراؤنڈ ہے۔ اور ایک وسیع قطع اراضی سرسبز میدان پر مشتمل ہے۔جس کے اردگرد چیڑھ اور دیودار کا ایک گھنا جنگل پھیلا ہوا ہے۔ یہی جنگل راما کی سب سے بڑی خوبصورتی،سب سے بڑا حسن اور وجہ شہرت ہے۔
دوسری مرتبہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اگست کے پہلے ہفتے استور جانا ہوا۔اگرچہ برف پگھل چکی تھی لیکن راما نالے کے پل کی مرمت نہیں ہو پائی تھی اور اُس روز راما جھیل دیکھنے کے خواہش مندوں کی ایک کثیر تعداد جس میں ہم لوگ بھی شامل تھے جھیل دیکھنے سے محروم رہی۔ہم نے جنگل میں اندر تک جا کے ایک نسبتاً خاموش جگہ پر ڈیرہ جمایا۔ کھانا گرم کیا اوراس سے لطف اندوز ہوئے۔ جنگل میں پکنک منانے والوں کی کثیر تعداد موسیقی اور رقص سے دل بہلا رہی تھی۔اس جنگل کی خوبصورتی اور قدرتی ماحول سیاحوں کی کثرت کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔
تیسری بار راما پہنچنے کی وجہ راما فیسٹول تھا۔ جس کا انعقاد صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کی ہدایت پر کیا تھا۔اس فیسٹول کی کوریج کے لئے میرے ہمراہ خورشید احمد خان پروڈیوسر اور علی حسن ڈرائیور تھے۔ ظہرکی نماز پڑھ کر اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہم لوگ گلگت سے روانہ ہوئے تو کم و بیش چالیس کلو میٹر بعد تھلیچی کے قریب ہماری گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہوگیا۔خوش قسمتی سے قریب ہی ایک پیٹرول پمپ تھا جہاں پنکچر لگانے کی سہولت موجود تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پیٹرول پمپ پر ایک ہی شخص تعینات تھا جو گاڑیوں میں پیٹرول/ڈیزل بھی بھرتا تھا اور پنکچر بھی لگاتا تھا۔
اُس کی مصروفیت کی وجہ سے ہمیں وہاں ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔اس تاخیر کی وجہ سے جب ہم استور پہنچے تو رات چھا چکی تھی اور عشاء کی اذانیں ہو رہی تھیں۔ بازار میں ہی ایک زیر تعمیر مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد ایک قریبی ہوٹل میں کھانا کھایا۔کیونکہ استور اوراسی طرح کے تمام علاقوں میں لوگ سرشام گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور ہوٹل وغیرہ بھی رات گئے تک نہیں کھلے ہوتے۔کھانے سے فارغ ہوکر رات بسر کرنے کے لئے جگہ تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے۔تمام ہوٹل ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے سیاحوں سے بھرے ہوئے تھے اور کہیں بھی جگہ نہیں تھی۔ایک ہوٹل والے نے کہا کہ اگر آپ ایک کمرے میں گذارا کر سکیں تو ہمارے ہمسائے میں واقع ایک ہوٹل ہے۔
اس میں انتظام کر دیتے ہیں۔کوئی اور چارہ نہ دیکھ کر ہم نے اس پر حامی بھر لی۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ ہوٹل کم و بیش پچاس برس پرانا ہے کچے کمرے اور لکڑی کے چرمراتے شہتیروں کی چھتیں ہیں۔یہ ہوٹل ریسپشن وغیرہ جیسی لغویات سے پاک تھا اور انتظام کرنے والوں میں سے کوئی بھی وہاں نہ تھا۔ لیکن اس میں کچھ مقامی افراد مسافروں کی حیثیت سے ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہمارے ساتھ والے کمرے میں مقیم صاحب مصر تھے کہ انہیں کمرے کا کرایہ پانچ سو روپے اسی وقت ادا کئے جائیں کیونکہ مالک کا یہی حکم ہے۔ ہم نے انہیں ساتھ والے ہوٹل کا حوالہ دیا کہ ہماری بات اُس سے ہو چکی ہے اور وہی ہماری بکنگ کا ذمہ دار ہے، ہم صبح اسے ہی ادائی کریں گے لیکن یہ مسافر صاحب رقم لینے پر اصرار کرتے رہے۔ہمارے سمجھانے پر بھی جب وہ ٹس سے مس نہ ہوئے تو ہم نے سامان اُٹھایا اور وہاں سے چل دیئے۔شہر کی دوسری طرف ضلعی دفاتر کے ساتھ ایک نیا ہوٹل موجود تھا جہاں خوش قسمتی سے جگہ مل گئی۔
لیکن وہاں مسئلہ یہ بن گیا کہ ہمارے ساتھ والے کمرے میں کوئی چھ افراد مقیم تھے اور لگتا تھا کہ وہ برسوں بعد ایک دوسرے سے ملے ہیں۔کیونکہ ہر پانچ منٹ بعد وہ باآواز بلندگپ شپ کے دوران جوش میں آکر ایک دوسرے کے ہاتھوں پہ ہاتھ مار کر قہقہے لگاتے تھے اور شدید تھکن کے باوجود اُن کا شور ہماری نینداُچاٹ کئے جا رہا تھا۔
تقریباً دو گھنٹے تک اس صورت حال میں کروٹیں بدلتے ہوئے وقت گذارا اور پھرمیں تنگ آکر اُن کے پاس گیا اور دریافت کیاکہ آخر وہ کب تک سو نا پسند کریں گے؟اس پر شاید انہیں تھوڑی سی شرم آئی اور اُن کی ہنگامہ آرائی پر مشتمل محفل قدرے انسانیت کی حدود میں آگئی۔صبح ناشتہ کرنے کے بعد جب ہم راما کی طرف روانہ ہوئے تو ایک حیرت انگیز منظر دیکھنے کو ملا۔ استور شہر اور مضافات کی تقریباً ساری آبادی یعنی خواتین، بچے بوڑھے، جو ان، لڑکے لڑکیاں جوق در جوق موٹر سائیکلوں، گاڑیوں، جیپوں، پک اپس کے ذریعے اور پیدل راما کی طرف رواں دواں تھے۔ سال میں ایک مرتبہ منعقد ہونے والے راما فیسٹول میں شرکت کا ذوق و شوق دیکھتے ہوئے عام لوگوں کے لئے استور میںتفریح کے مواقع کی کمی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا۔ شدید سردی کے پانچ چھ ماہ گھروں میں بند رہنے والی خواتین کے لئے بھی گھروں سے باہر نکلنے کا یہ ایک نادر موقع تھا اس لئے وہ اپنے شیر خوار بچوں کو اُٹھائے بڑی استقامت سے ساتھ راما کی طرف جا رہی تھیں۔
اور تو اور چل سکنے والے بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔گاڑیوں کی ایک طویل قطار کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے جب ہم راما پہنچے تو ایک بہت بڑا میلہ ہمارا منتظر تھا۔ روایتی دستکاریوں کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی اشیاء کے بے شمار سٹال خیموں کی صورت لگے ہوئے تھے۔ڈھول کی مسحور کن دھنیں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا دل بہلا رہی تھیں۔پی ٹی ڈی سی مو ٹل کے جو کمرے پولو گراؤنڈ کے سامنے تھے اُن میں اٹلی سے آئے ہوئے سیاحوں کا ایک گروپ مقیم تھا۔ وہ سب اپنے کمروں سے باہر نکل کر میلے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان اس میلے کے مہما ن خصوصی تھے۔اُ ن کی آمد پر پولو کا میچ شروع ہوا۔شائقین کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ہر دو ٹیموں کے حامی نعرے لگا کراپنی اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔لیکن یہ میچ ضلع دیامر کی ٹیم نے با آسانی جیت لیا۔ دیامر کی ٹیم داریل تانگیر کے کھلاڑیوں پر مشتمل تھی جن کے گھوڑے چھوٹے قد کے تھے اور وہ با آسانی تیز بھاگ سکتے تھے۔ کھلاڑی بھی بہت منجھے ہوئے اور تجربہ کا ر تھے۔وہ استور کے کھلا ڑیوں کو اس طرح سے پٹا رہے تھے کہ چند منٹوں میں سارا میچ یکطرفہ نظر آنے لگا۔ وقت ختم ہونے تک دیامر کی ٹیم دس گول کر چکی تھی جبکہ استور والے ابھی پانچ گول کر پائے تھے۔کھیل ختم ہونے پر انعامات تقسیم کئے گئے۔ اور پھر وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان نے تقریر کی۔
حافظ صاحب جامعہ اشرفیہ لاہور کے فاضل ہیں اور اپنے بڑے بھائی سیف الرحمان کے قتل کے بعد سیاست میں آئے۔وہ بہت اچھے مقرر بھی ہیں۔ نپے تلے الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بہت اچھے انداز میں بیان کردیتے ہیں۔اُن کی غیرمعمولی مقبولیت کا ایک سبب اُن کا یہ فن خطابت بھی ہے۔ مئی 2015ء میں ہونے والے انتخابات میں اُن کی قیادت میں مسلم لیگ(ن) نے دو تہائی اکثریت سے کامیابی حا صل کی اور انہوں نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا۔نوجوان ہونے اور پیپلز پارٹی کے گذشتہ دور کی بدترین بدعنوانی کی وجہ سے حافظ حفیظ الرحمان بہت ہی محتاط ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ کرپشن ختم ہو۔ گلگت بلتستان میں بدعنوانی روکنے کے لئے محض انتظامی حکم نامہ کافی نہیں۔
یہاں تو بدعنوانی کی جڑیں اس قدر گہری ہو چکی ہیں کہ انہیں اکھاڑ پھینکنا ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔ بدعنوانی کا عالم یہ ہے کہ میں یہاں صرف ایک چھوٹی سی کچی سڑک کی مثال دوں گا۔ راما جھیل تک پہنچنے کے لئے استور سے راما جنگل تک ایک پختہ سڑک موجود ہے جو کہ ’ہر چند کہیں ہے، کہیں نہیں‘ کے مصداق راما جھیل کا رخ کرنے والوں کا امتحان تو لیتی ہی ہے لیکن اصل امتحان راما جنگل پہنچ کر شروع ہوتا ہے۔جنگل سے آگے ڈیڑھ دو کلو میٹر کی کچی سڑک ہے جس پر جیپیں اور گاڑیاں چل سکتی ہیں۔
اس کچے راستے کا آغاز راما جھیل سے نکلنے والے نالے پر بنے ہوئے پُل سے ہوتا ہے۔اُس برس مئی میں اس پُل کا ایک پشتہ سیلابی پانی کی نذر ہو چکا تھا۔یہ پشتہ مئی سے لے کر اگست تک کے سارے عرصے میں مرمت نہیں ہو پایا۔ گویا ان چار ماہ میں کوئی ملکی یا غیر ملکی سیاح راما جھیل کا شہرہ سُن کر اُسے دیکھنے کی غرض سے استور اور پھر راما جنگل تک پہنچ بھی جائے تو بھی وہ راما جھیل نہیں دیکھ سکتاتھا۔کیونکہ چند ہزار روپوں سے اس چھوٹے سے پشتے کی مرمت کا کشٹ اُٹھانے کی زحمت کون کرے؟ یہ اور بات ہے کہ ہر سال کے بجٹ میں سرکاری طور پر راما جنگل سے راما جھیل تک جانے والے راستے کو کھلا رکھنے کے لئے دس لاکھ روپے منظور کئے جاتے ہیں کیونکہ اس راہ میں دو گلیشئر بھی آتے ہیں اور لینڈ سلائڈنگ بھی ہوتی ہے۔ لیکن یہ رقم کہاں خرچ ہوتی ہے؟ اس سوال کا جواب مجھے چار بار راما جانے اور آخری مرتبہ جھیل تک پہنچنے میں کامیاب ہونے کے باوجود نہیں مل سکا۔
جب میں بہ ہزار دقت راما جھیل تک پہنچا تواس کے منظر میں اتنی دل کشی نہ تھی جس قدر کہ اُس کا شہرہ سنا تھا۔ جھیل کے اردگرد کے پہاڑ درختوں سے خالی ہو چکے تھے۔ جلانے کے لئے کاٹے جانے والے درختوں کی جگہ پُر کرنے کے لئے شجر کاری کی زحمت محکمہ جنگلات نے نہیں کی۔ حالانکہ راما جنگل کی دیکھ بھال اسی محکمے کی ذمہ داری ہے اور اس کا ایک ریسٹ ہاؤس یہاں گذشتہ پینتالیس برس سے موجود ہے۔جہاں قدم رنجہ فرمانے والے بڑے بڑے افسر اور وزراء خوش وقتی کے لئے تو یہاں آتے ہیں لیکن کبھی اپنے عملے کی کارکردگی دیکھنے یا جنگل کی حفاظت میں ناکامی پرذمہ داروں سے باز پُرس کرنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے ۔ بلاشبہ جھیل سے پہلے واقع راما جنگل بہت ہی خوبصورت جگہ ہے ۔
جہاں پہنچ کر استور اور اُس سے آگے کے راستے کی ساری کوفت،تھکن اور پریشانی ایک خوشگوار حیرت میں بدل جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ملک کو کس قدر رعنائیوں سے نوازا ہے۔ایک شاندار سدا بہار قدرتی جنگل اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ جس میں چشمے بھی ہیں اورگھنیرا سایہ بھی۔ قدرت کے سارے رنگ یہاں آنکھ مچولی کرتے نظر آتے ہیں۔ گرمیوں میں یہاں استور، گلگت، چلاس اور ملک کے دیگر علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ کیمپنگ کرنے ،دن گذارنے اور پکنک منانے آتے ہیں۔ جگہ جگہ آگ جلائی جاتی ہے ۔قریبی نالے کا پانی برتن دھونے اور دیگر ضروریات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہاں آنے والوں کے ہمراہ خواتین اور بچے بھی ہوتے ہیں۔کھانے پینے اور سیر کرنے کے علاوہ یہاں آنے والوں کو باتھ رومز کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ جن کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اگر استور کی ضلعی انتظامیہ اور صوبائی محکمہ سیاحت راما جنگل کو ایک پکنک پوائنٹ کے طور پر کچھ سہولیات کے ساتھ متعارف کرائیں تو یقینناً یہاں سیاحوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے۔ ۔کھانا پکانے کے لئے چند باورچی خانے اورخواتین و حضرات کے لئے الگ الگ بیت الخلاء تعمیر کرا دے ۔تو ایک دن یا زیادہ وقت گذارنے کے لئے یہاں آنے والے سیاح جگہ جگہ آگ جلاکر اور جنگل میں ہر طرف بول و براز کرکے ماحول کو آلودہ نہیں کریں گے۔یہاں پانی کی کمی نہیں ہے۔ہر طرف چشمے بہہ رہے ہیں۔راما جھیل سے نکلنے والا نالہ بھی قریب ہی بہہ رہا ہے۔تھوڑی سی پیش بندی کرکے اس جنگل کے حسن کو برقرا ر رکھا جا سکتا ہے۔
جو لوگ یہاں آکر خیمے لگاکر قیام کریں یا ایک دن کی پکنک منائیں اُن سے مناسب رقم بطور فیس لی جا سکتی ہے اس طرح سے باورچی خانے اور بیت الخلاء کی صفائی اور پانی کی نکاس کا مناسب انتظام چلانا بھی دشوار نہیں ہوگا۔ بصورت دیگر راما جنگل کا حال بھی جھیل سیف الملوک سے مختلف نہیں ہوگا۔جو سیاحوں کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں،گندگی پھیلانے اور حکومت کی غفلت کے با عث گندے بدبودار پانی کا ایک جوہڑ بن چکی ہے۔یہ اور بات ہے کہ ہر سال قدرت جھیل سیف الملوک اوراس کے اردگردکے پہاڑوں پر اس قدر برف باری کردیتی ہے کہ اس کا حسن برقرار رہتا ہے۔ (جاری ہے)
The post مقامی لوگ پیدل چل کر بھی راما فیسٹیول میں شرکت کیلئے پہنچتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.