بچوں سے زیادتی اور اس درندگی کی وڈیو بنانے والے سہیل ایاز کی گرفتاری کی خبر صرف ایک خبر نہیں، اس میں ہماری بے خبری، بے حسی اور بچوں کے تحفظ سے بے اعتنائی کی پوری کہانی چھپی ہے۔
راولپنڈی سے گرفتار ہونے سہیل ایاز کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ بچوں کی فحش وڈیوز بنانے والے ایک گروہ کا سرغنہ ہے اور بچوں سے زیادتی کی وڈیوز براہ راست ’’ڈارک ویب‘‘ پر لاتا رہا ہے۔ اس پر تیس بچوں کے اغوا اور ان سے زیادتی کا الزام ہے۔ قانونی زبان میں ابھی وہ ’’مشکوک‘‘ ہے، لیکن اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ وہ ایک سیاہ ماضی رکھتا ہے، جس کی تفصیل خبروں میں آچکی ہے کہ سہیل ایاز برطانیہ میں بچوں سے زیادتی اور اس غلیظ عمل کی وڈیو بنانے کے الزام میں برطانیہ میں قید کاٹنے کے بعد دس سال قبل ملک بدر کردیا گیا تھا۔
یہ شخص برطانیہ میں بچوں کو تحفظ کے لیے قائم اقوام متحدہ کے ادارے ’’سیو دی چلڈرن‘‘ سے وابستہ تھا، جہاں وہ اپنا مکروہ کھیل کھیلتا رہا۔ گرفتاری کے بعد اس کے لندن میں واقع گھر سے ہزاروں کی تعداد میں بچوں سے زیادتی اور ان سے ہوس ناکی کرنے کے عمل کی تصاویر برآمد ہوئی تھیں، جن میں سے کچھ تصاویر۔۔۔صرف چھے (6) ماہ کے بچوں کی تھیں۔۔۔! کچھ تصاویر میں خوف زدہ، کرب اور تکلیف سے تڑپتے معصوم بچے بندھے ہوئے تھے یا ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔ سہیل ایاز نے اعتراف کیا تھا کہ یہ تصاویر درندگی کے 397 واقعات کی ہیں۔ اعترافی بیان کے مطابق اس نے بچوں سے متعلق ادارے میں ملازمت کی ہی اس لیے تھی کہ وہ بے آسرا بچوں تک رسائی حاصل کرسکے۔ عدالت نے 2009میں اسے چار سال قید رکھنے کی سزا سُنائی اور سزا پوری ہونے کے بعد اسے برطانیہ سے نکال دیا گیا۔
اپنے کرتوتوں سے ملک کا نام ’’روشن‘‘ کرکے واپس آنے والے سہیل ایاز کو یہاں خیبرپختونخوا کے گورننس اینڈپالیسی پروجیکٹ میں کنسلٹنٹ کی ملازمت مل گئی اور تنخواہ تین لاکھ روپے ماہ وار قرار پائی، باقی مراعات الگ سے۔
فرض کیجیے سہیل ایاز مشکوک سے مجرم تک کا سفر طے کرکے بچوں سے زیادتی کے الزام میں سزا پاتا ہے، پھر چند سال بعد رہا ہوجاتا ہے۔ اب اگر وہ کوئی اسکول کھولتا ہے، بچوں کے لیے کوئی تربیتی مرکز قائم کرتا ہے، یتیم خانہ بنانے کی ٹھانتا ہے، ڈے کیئر سینٹر بناتا ہے یا بچوں سے متعلق کسی تنظیم یا ادارے کا قیام عمل میں لاتا ہے تو ہمارے ملک میں کون سا قانون ہے جو اسے روک پائے؟
چلیے وہ اپنی شیطانیت کے لیے کسی ذریعۂ معاش اور خدمت خلق کا سہارا نہیں لیتا، تاہم یہ بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ سزایاب ہونے کی صورت میں (سزا نہیں ہوتی تو اپنا ماضی سامنے آنے کے باعث) وہ اس شہر میں نہیں رہے گا جہاں کتنے ہی بچوں کی زندگیاں کچل چکا ہے اور جہاں قدم قدم پر بدنامی اس کا سایہ بنی رہے گی، گویا اس کا اگلا مسکن میرا شہر بھی ہوسکتا ہے آپ کا شہر بھی، میرا محلہ بھی، آپ کا محلہ بھی، میرا پڑوس بھی آپ کا پڑوس بھی۔ اتنا ہی نہیں۔ وہ اپنی پہچان چھپاتے ہوئے ٹیوشن پڑھانے کا پیشہ اپنالے، کسی اسکول میں ملازمت کرلے یا بچوں سے متعلق کسی بھی ادارے سے وابستہ ہوجائے، کسے پتا چلے گا کہ کتنے ہی معصوم بچے ایک عفریت کے پنجوں کی دسترس میں ہیں؟
یہ ایک فرد کا معاملہ نہیں، ایسے کتنے ہی درندے ہمارے بچوں کے ارد گرد موجود ہیں جو بچوں سے زیادتی کے جرم کی سزا پاکر رہا ہوئے اور اب کسی بھی جگہ کسی بھی روپ میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن ان کے آس پاس رہتے بستے زندگی کرتے افراد میں سے کوئی ان کے پس منظر اور سزا کے بارے میں نہیں جانتا۔ بچوں سے زیادتی کا شیطانی فعل قتل، چوری، ڈاکے، راہ زنی، بدعنوانی جیسا کوئی جرم نہیں، ایسے واقعات ایک خاص ذہنی رجحان کی پیداوار ہوتے ہیں۔
قتل فوری اشتعال کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے اور انتقامی کارروائی بھی، ڈاکا، چوری اور راہ زنی کی واردات کسی مجبوری کا شاخسانہ ہوسکتی ہے، لیکن جنسی زیادتی وہ بھی بچوں سے! اس کا کوئی جواز دینا ممکن ہے؟ اس عمل کو تو درندگی کہنا بھی درندوں کی توہین ہے کیوں کہ درندے اپنی بھوک کی جبلت کے تحت کم زور جانوروں کے بچوں کو چیرپھاڑ تو دیتے ہیں لیکن کیا کبھی کسی نے سُنا یا دیکھا کہ کسی بھی جانور نے اپنی نوع کے کسی بچے سے جنسی تلذذ حاصل کرنے کی کوشش کی ہو؟ حیرت ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سزائے موت کیوں مقرر نہیں۔ سزائے موت تو رہی دور کی بات، مگر ہمارے ملک میں تو وہ سادہ سے قوانین بھی موجود نہیں جو ان بھیڑیوں سے بچوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
مختلف ممالک میں بچوں سے زیادتی کا ارتکاب کرکے سزا پانے والوں یعنی جنسی مجرم (Sex offender) کی شناخت اور ان سے بچوں کو بچائے رکھنے کے لیے ’’سیکس افینڈر رجسٹریشن‘‘ کا قانون رائج ہے، جس کے تحت جنسی مجرموں کو لمبے عرصے تک یا تاحیات کچھ پابندیوں اور قواعدوضوابط کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیکس افینڈر رجسٹریشن دراصل ایسی فہرست کا نام ہے جس میں جنسی جرائم میں ملوث افراد کے نام شامل کیے جاتے ہیں۔ رجسٹریشن کا یہ سلسلہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی موجود ہے۔
بی بی سی کی ویب سائٹ پر آنے والی کریم مغل اور دانش حُسین کی تحریر کردہ رپورٹ کے مطابق ’’برطانیہ میں 2003 میں پاس ہونے والے قانون کے تحت ’وائلنٹ اینڈ سیکس افینڈرز رجسٹر‘ رکھا جاتا ہے جس میں ہر اس شخص کا نام درج کیا جاتا ہے جو جنس سے متعلق کسی بھی نوعیت کے جرم میں سزا یافتہ ہو۔ اگر کسی شخص کو جنس سے متعلقہ جرم میں چھے ماہ یا اس سے زائد عرصے کی سزا ہوتی ہے تو اس کا نام رجسٹر میں اگلے دس برس تک کے لیے درج کرلیا جاتا ہے اور اگر سزا 30 ماہ سے زائد ہے تو ایسے مجرم کا نام غیرمعینہ مدت تک کے لیے رجسٹر میں درج رہتا ہے۔
ڈیٹا پروٹیکشن کے قوانین کے تحت عوام کو اس رجسٹر تک براہ راست رسائی نہیں ہوتی۔ تاہم معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت کوئی بھی شخص پولیس سے کسی مشتبہ شخص کے حوالے سے معلومات لے سکتا ہے کہ آیا اس کا نام رجسٹر میں موجود ہے یا نہیں۔‘‘
برطانیہ میں جنسی مجرم کے طور پر رجسٹرڈ کوئی شخص قانون، طب، تدریس اور نرسنگ کے شعبوں میں ملازمت حاصل نہیں کرسکتا۔ نہ وہ سماجی بہبود کا کوئی کام کر سکتا ہے۔ بعض اوقات برطانوی پولیس جنسی جرائم کی سزا پاکر رہا ہونے والوں پر نظر رکھنے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لیتی ہے۔ مثال کے طور پر کسی جنسی مجرم کے کمپیوٹر میں مخصوص سافٹ ویئر انسٹال کردیا جاتا ہے، جس کی مدد سے اس جنسی مجرم کی طرف سے انٹرنیٹ پر کسی غیرقانونی مواد کی تلاش یا اسے دیکھنے کی صورت میں پولیس فوری مطلع ہوجاتی ہے۔
جنسی مجرم کی رجسٹریشن اور نوٹیفکیشن سسٹم گذشتہ بیس سال سے دنیا کے مختلف ممالک میں رائج ہے۔ یہ سلسلہ 1994میں امریکا سے شروع ہوا، جسے کے بعد سے برطانیہ کے علاوہ کئی ملک جنسی مجرموں کے اندراج کا نظام اپنا چکے ہیں۔ یہ اندراج دیگر مجرموں کے کوائف جمع کرنے یعنی ’’کریمنل ہسٹری ریکارڈ انفارمیشن‘‘ کے مماثل ہوتا ہے۔
امریکا کی تمام ریاستوں میں جنسی مجرموں کی رجسٹریشن رائج ہے۔ یہ اندراج ویب سائٹس کی صورت میں عوام کے لیے قابل رسائی ہے۔ تاہم کچھ کچھ جنسی مجرموں کا ریکارڈ صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ جنسی مجرموں سے متعلق درج کی جانے والی معلومات میں نام، پتا، جائے روزگار، ان کے جسم پر موجود نشانات، ٹیٹوز، تصویر، زیرملکیت گاڑی کی تفصیلات اور فنگرپرنٹس شامل ہیں۔
اس کے ساتھ جنسی مجرموں پر مختلف نوعیت کی پابندیاں بھی عاید ہیں، جن میں کسی جگہ بلاجواز وقت گزارنے یا پائے جانے پر ممانعت، مخصوص علاقے میں رہنے اور کام کرنے پر پابندی جو بعض اوقات پورے پورے شہر بھی ہوسکتے ہیں، اور جنسی مجرموں کے لیے مختص جگہوں پر انھیں بالجبر رکھنا شامل ہیں۔ امریکا میں جنسی مجرموں کے لیے ایسی ہی مختص ایک جگہ Julia Tuttle Causeway sex offender colony ہے۔ یہ میامی شہر کی آبادی سے باہر شاہراہ پر واقع ہے۔ یہ کالونی جنسی مجرموں سے بچوں کو بچانے کے لیے کئی قوانین کے خالق رون بوک نے قائم کی تھی۔ ان قوانین کے تحت جنسی جرم کے مرتکب افراد کا اسکولوں، پارکس، بس اسٹاپس اور بے گھر افراد کی پناہ گاہوں کے نزدیک ڈھائی ہزار فٹ کی حدود میں رہنا ممنوع ہے۔
امریکا کی ریاستوں میں اس حوالے سے مختلف قوانین رائج ہیں۔ بعض ریاستوں میں کم خطرناک جنسی مجرموں کے کوائف عوام سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔ اکثر ریاستوں میں جنسی مجرموں کو ان کے جرم کی نوعیت اور شدت کے اعتبار سے مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے، جسے سامنے رکھتے ہوئے اور رجسٹریشن اور پابندیوں کا دورانیہ دس سال سے تاعمر ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ صرف امریکا میں جنسی مجرموں کے کوائف عوام کے لیے قابل رسائی ہیں، رجسٹریشن کے قانون کے حامل دیگر ممالک میں یہ کوائف شہریوں سے پوشیدہ رکھے جاتے ہیں، لیکن اِن ممالک میں بھی نہایت خطرناک مجرموں اور وہ سزایافتہ افراد جن کے دوبارہ اس جرم کے مرتکب ہونے کا اندیشہ ہو، ان کے کوائف عوام کی پہنچ میں ہوتے ہیں۔
امریکا کے کچھ علاقوں میں ویب سائٹ کے علاوہ اخبارات اور کمیونٹی نوٹیفکیشنز کے ذریعے بھی جنسی مجرموں کی بابت عوام کو آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ جنسی مجرم کس زمرے میں آتا ہے اگر وہ امریکا کی ایک ریاست سے دوسری ریاست منتقل ہوتا ہے تو اس کی رجسٹریشن اس ریاست میں کی جاتی ہے اور اس کے کوائف تک عوام کو رسائی حاصل ہوجاتی ہے۔
رجسٹریشن کا دورانیہ ختم ہوجانے کے باوجود جنسی مجرموں کو مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے کچھ امریکی ریاستوں کے قوانین کے مطابق ایسے مجرم کسی ایسی جگہ سے مخصوص فاصلے کی دوری پر رہنے کے پابند ہیں جہاں بچے اور خاندان اکھٹے ہوتے ہیں، جیسے اسکول، عبادت گاہیں، پارک، اسٹیڈیم، ہوائی اڈے، اپارٹمنٹس، شاپنگ مال، اہم ریٹیل اسٹورز، کالجوں کے کیمپس، مخصوص محلے۔ کچھ ریاستوں میں جنسی مجرم کا ووٹ دینا بھی ممنوع ہے اور آتشیں اسلحہ نہیں رکھ سکتے۔
امریکی ریاست میسوری میں ہالووین کے تہوار کی سرگرمیوں میں رجسٹرڈ جنسی مجرم حصہ نہیں لے سکتے۔ امریکا میں منائے جانے والے تہوار ہالووین (Halloween) کے موقع پر لوگ ڈراؤنے روپ دھار کر مختلف مقامات پر مٹرگشت کرتے ہیں۔ گھر کے باہر ہیبت ناک شکلیں تراش کر ان میں موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں۔ اندھیرا پھیلنے کے ساتھ ہی بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جا کر دستک دیتی اور ’’دھمکاکر‘‘ مٹھائی طلب کرتی ہیں۔ گھر کے مکین انھیں ٹافیاں وغیرہ دے کر رخصت کردیتے ہیں۔ ریاست میسوری میں جنسی مجرموں پر اس تہوار کی کسی بھی سرگرمی میں شرکت پر پابندی ہے۔ انھیں پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی بچے سے ہالوین سے متعلق رابطہ نہیں کریں گے اور شام پانچ بجے سے رات ساڑھے دس بچے تک اپنے گھر میں رہیں گے۔ اس دوران وہ اپنے گھر کے باہر روشنیاں بند رکھیں گے اور لکھ کر لگائیں گے کہ ’’یہاں نہ مٹھائی ملے گی نہ خاطر ہوگی، اس گھر میں جنسی مجرم ہے۔‘‘
جنسی مجرموں کی رجسٹریشن اور ان پابندیوں کے قوانین اس حقیقت کے پیش نظر بنائے گئے ہیں کہ ان کا جرم محض جرم نہیں بلکہ ایک خاص شیطانی رجحان اور مکروہ فطرت کے تحت کیا جانے والا عمل ہے، جسے وہ باربار دہراتے ہیں یا دہرا سکتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ معصوم بچوں کی شخصیت قتل کردینے والے ان موذی افراد کے لیے سزائے موت مقرر ہو، لیکن کم ازکم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ بچوں کا بچپن اور معصومیت کچلے جانے سے بچانے کی خاطر ضروری قوانین بنائے جائیں۔ پاکستان میں معاشرے، حکومتی اداروں اور قانون ساز اداروں میں بچوں کے مسائل پر سوچنا بچکانہ عمل تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قصور کا خوف ناک اسکینڈل سامنے آنے اور (اعدادوشمار) بچوں سے ہر سال زیادتی کے واقعات کے باوجود ہمارے ہاں جنسی مجرموں کی رجسٹریشن اور ان پر ضروری پابندیاں عائد کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا گیا۔
دوسری طرف کوئی ایسا نظام کار بھی موجود نہیں جس سے پتا چل سکے کہ کسی ریاست سے ملک بدر ہوکر واپس آنے والے پاکستانی کو کس بنا پر نکالا گیا؟ سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ سہیل ایاز کے جیسے معاملے میں ایف آئی اے (فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی) کے پاس کوئی طریقہ نہیں کہ وہ کسی (ڈیپورٹ کیے جانے والے) شخص کے جرائم کی بابت جان سکے۔ پاکستان اور برطانیہ ہوں یا دنیا کے کوئی بھی دیگر دو ممالک، کیا بچوں اور خواتین سے زیادتی اور اس عمل کی تصاویر اور وڈیوز فحش سائٹس پر لانے کا دھندا دہشت گردی سے کم سنگین جرائم ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کی معلومات کے باہمی تبادلے کی ضرورت محسوس نہ کی جائے؟ خاص طور پر اس وقت جب ایسا کوئی مجرم میزبان ملک سے اپنے آبائی وطن بھیجا جارہا ہو۔ دہشت گرد معصوم لوگوں کی زندگیوں سے ایک بار کھیلتے ہیں لیکن جنسی مجرم تو پھول سے بچوں کی زندگیوں میں ہمیشہ کے لیے اذیت، تذلیل اور کرب بھر دیتے ہیں۔ ایسی تکلیف کہ وہ روز جیتے روز مرتے ہیں۔
اگر پاکستان اور برطانیہ کے درمیان جنسی مجرموں کے بارے میں معلومات کے تبادلے کا نظام موجود ہوتا اور پاکستان میں ایسے مجرموں کی رجسٹریشن یا کم ازکم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ان کے کوائف کی موجودگی کا انتظام ہوتا تو سہیل ایاز جیسے شیطان کو مبینہ طور پر تیس بچوں کی زندگیاں جہنم بنانے سے روکا جاسکتا تھا۔ بچوں سے زیادتی کا معاملہ اب سادہ نہیں رہا، حقائق نے منکشف کردیا ہے کہ یہ سلسلہ ڈارک ویب سائٹس، پورنوگرافی، غلیظ مشغلے اور معصوم فرشتوں کے پر نوچ کر بیچنے جیسے کالے دھندے تک دراز ہے۔
کیا اب بھی ہمیں ہوش نہیں آئے گا؟ جب تک جنسی مجرموں کی رجسٹریشن اور ان پر پابندیوں کے لیے قانون سازی نہیں ہوتی اور ان قوانین کا مؤثر اطلاق نہیں ہوتا یہ درندے جانے کس کس مقام پر ہمارے بچوں کے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔ اگر رجسٹریشن اور پابندیوں کے بارے میں کسی کا خیال ہے کہ یہ ’’بنیادی انسانی حقوق‘‘ کی خلاف ورزی ہے، تو وہ اس تحریر کے شروع میں سہیل ایاز سے برآمد ہونے والی تصاویر سے متعلق سطریں پھر پڑھ لے۔۔۔اور بتائے کیا یہ دو ٹانگوں والی مخلوق انسان تو کیا جانور کہلانے کے بھی لائق ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہو تو پھر آئیے پاگل کُتوں، آدم خور بھیڑیوں اور زہر نسوں میں بھرتے سانپوں کو ضرر پہنچانے کے ہر عمل کو بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دلوانے کی جدوجہد کریں۔
The post اگر ’’سہیل ایاز‘‘ کل اسکول کھول لے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.