’’مخالفین کو کچلنے کا بہترین ہتھیار ٹارچر ہے۔بے رحمی دوسروں میں ہمارا خوف پیدا کرتی ہے۔تب وہ ہم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔لیکن ہمیں ان کا پیار نہیں درکار،بس انھیں ہم سے خوفزدہ رہناچاہیے۔‘‘(ہائنرش ہملر،نازی جرمن خفیہ پولیس،گستاپو کا سربراہ)
٭٭
یہ 2012ء کی بات ہے، برطانیہ کے ٹی وی چینل فور سے ایک دستاویزی پروگرام ’’کشمیرز ٹارچر ٹریل‘‘ (Kashmir’s Torture Trail) نشر ہوا۔ اس کے ڈائریکٹر ایوارڈ یافتہ برطانوی صحافی، جینرہ نیومان تھے۔ اس زمانے میں بھارتی سکیورٹی فورسز حسب معمول ریاست جموں و کشمیر میں حریت پسند کشمیریوں کو بھیانک انداز میں ٹارچر کا نشانہ بنارہی تھیں۔ پروگرام نے بھارتی فوج اور حکمران طبقے کے مکروہ چہرے کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر ڈالا۔ پروگرام میں ایک ادھیڑ عمر کشمیری، قلندر ختانہ کا انٹرویو دکھایا گیا جنہیں بھارتی فوج نے خوفناک تشدد کرکے معذور کردیا تھا۔ اس مقہور کشمیری نے اپنی داستان الم کچھ یوں سنائی:
’’میں وادی کشمیر کے ایک گاؤں کا باسی ہوں۔ 1992ء میں ایک دن اچانک بھارتی کی بارڈر سکیورٹی فورس کے فوجیوں نے مجھے گرفتار کیا اور سری نگر لے گئے۔ انہوں نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں پاکستان سے آنے والے گوریلوں کا گائیڈ ہوں اور انہیں ان کے ٹھکانوں تک پہنچاتا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک کسان ہوں اور گوریلوں سے میرا کوئی لینا دینا نہیں۔ البتہ میں ان سے ہمدردی ضرور رکھتا ہوں۔ بس یہی بتانا میرا جرم بن گیا اور مجھ پر خوفناک تشدد کیا جانے لگا۔
’’بھارتی فوجیوں نے سب سے پہلے میری انگلیوں پر ڈنڈے مارے۔ تب جو شدید تکلیف ہوئی وہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی۔ آج بھی میری انگلیاں صحیح طرح حرکت نہیںکرپاتیں۔ فوجی پھر میرے اوپر چڑھ گئے اور مجھے ٹھڈوں سے مارنے لگے۔ اس سے بھی تسکین نہ ہوئی تو ایک فوجی نے لمبا چوڑا خنجر اپنے بیگ سے نکالا اور میرے دونوں پیر کاٹ ڈالے۔ میں نے اپنے سامنے دونوں پیروں کو ہلتے پھڑکتے دیکھا۔ پھر شدید درد کے مارے میں بے ہوش ہوگیا۔ میرے پیر کاٹ دینے پر بھی ان کی آتش غضب نہ بجھی۔ ایک دن انہوں نے میری رانوں کا گوشت کاٹا اور زبردستی مجھے کھانے پر مجبور کرنے لگے۔ وہ انسان نہیں انسانوں کے روپ میں بھیڑیے تھے، آدم خور حیوان !‘‘
کمانڈ کے حکم پر بھارتی فوجیوں نے خاص مقصد حاصل کرنے کی خاطر قلندر ختانہ کو بہیمانہ ٹارچر کا نشانہ بنایا تھا۔ وہ اس خوفناک واقعے سے قلندر کے علاقے میں آباد دیگر کشمیری مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے قلندر ختانہ پر ظالمانہ تشدد کرکے ان باشندوں پر آشکارا کردیا کہ اگر کسی کشمیری مسلمان نے نعرہ آزادی بلند کیا، تو اسے بھی انسانیت سوز ٹارچر سے گزرنا ہوگا۔گویا بھارتی حکومت اور فوج نے کشمیری مسلمانوں کو مطیع و فرمانبردار بنانے کے لیے خوف کو خطرناک ہتھیار بنالیا۔
تشدد کی شرمناک تاریخ
انسانی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم سے حکمران خوف کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ جب ایک فوج کسی نئے علاقے پر قبضہ کرتی، تو اس معاشرے کے بعض سرکردہ رہنماؤں کو سرعام رونگٹے کھڑے کردینے والے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ مدعا یہی ہوتا تھا کہ ان پُرتشدد مظاہروں سے مقامی آبادی کو اتنا زیادہ خوفزدہ کردیا جائے کہ وہ نفسیاتی و جسمانی طور پر فاتحین کی غلام بن جائے۔ اس خوف کے باعث عوام میں پھر مزاحمت یا بغاوت کے جذبات نہ ابھرسکیں۔
زمانہ قدیم میں مگر انسان پر وحشت، بربریت، حیوانیات کا غلبہ تھا۔ وہ اجڈ، غیر مہذب اور وحشی بنا پھرتا۔ پیغمبروں، فلسفیوں اور دانش وروں نے رفتہ رفتہ انسان کو آداب زندگی سکھلائے اور اسے امن، محبت، خیر، رحم دلی، ہمدردی، رواداری جیسی اعلیٰ آسمانی صفات کی سمت راغب کرنے لگے۔ انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی لیکن آج بھی بعض ممالک میں قدیم انسانوں کی ایسی اولاد موجود ہے جو انہی کی طرح وحشت و بربریت سے متصف ہے۔ دور جدید کے ایسے وحشی اور بے رحم انسانوں میں بھارتی حکمران طبقہ بھی شامل ہے۔ یہ حکمران طبقہ سیاست دانوں، سرکاری افسروں، جرنیلوں، ججوں اور مذہی رہنماؤں پر مشتمل ہے۔ ان میں 99 فیصد افراد ہندوؤں کی اونچی ذاتوں (برہمن و کھشتری) سے تعلق رکھتے ہیں۔
مغرب و بھارت کے غیر جانب دار مورخین کی تحقیق سے ثابت ہوچکا کہ اعلیٰ ذات کے ان ہندوؤں نے خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف مذہب کو بطور نفرت و تشدد کا ہتھیار استعمال کیا اور اپنی سازشوں کی مدد سے 1947ء میں بھارت کے حکمران بننے میں کامیاب رہے۔ پہلے برہمن بھارتی وزیراعظم، جواہر لعل نہرو بظاہر سیکولر اور انسان دوست رہنما تھے لیکن ریاست جموں و کشمیر کے معاملے میں ان پر بھی قومی و مذہبی جذبات غالب آگئے۔ وہ جانتے تھے کہ ریاست میں مسلمان اکثریت رکھتے ہیں اور عدل و انصاف کی رو سے وہ ہندو بھارت کا حصہ نہیں بن سکتی۔ لیکن ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کرنے کی خاطر نہرو جھوٹ، مکاری اور دغا بازی سے کام لیتے رہے۔ دراصل کشمیری پنڈت ہونے کے ناتے وہ اپنے اجداد کے وطن کو ہر قیمت پر بھارت کا حصہ بنانا چاہتے تھے۔ یہ ان کے نسل پرست اور معتصب ہونے کا بھی ثبوت ہے۔
غیر مسلموں کا تسلط
جموں و کشمیر میں صوفیا اور حکمرانوں کے ذریعے اسلام پھیلا۔ اٹھارہویں صدی تک علاقے کی کثیر آبادی مسلمان ہوچکی تھی۔ بدقسمتی سے مسلم حکمرانوں کی نااہلیت، کشمیری پنڈتوں کی سازشوں اور بین الاقوامی سیاست کے باعث 1820ء میں غیر مسلم سکھوں نے ریاست پر قبضہ کرلیا۔ تب پنجاب اور دیگر علاقوں میں سکھوں اور مسلمانوں کے مابین لڑائی جاری تھی۔
اسی لیے فاتح سکھ ریاستی مسلمانوں پر جذبہ انتقام سے ظلم و ستم کرنے لگے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کشمیری مسلمانوں کو خوف و دہشت کے ماحول سے دوچار ہونا پڑا۔ حملہ آوروں نے جامع مسجد سری نگر بند کردی۔ اذان دینا ممنوع قرار پایا۔ گائے کے ذبیح پر بھی پابندی لگ گئی۔ مسلمانوں پر بھاری ٹیکس عائد کردیئے گئے۔ جس کشمیری نے حکومتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی، اسے خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مثال کے طور پر سری نگر میں ایک کشمیری نے گائے ذبح کردی۔ حکومت نے اسے اہل خانہ سمیت آگ میں زندہ جلا ڈالا۔ یہ لرزہ خیز قدم اسی لیے اٹھایا گیا تاکہ مقامی مسلم آبادی میں خوف پیدا کیا جاسکے۔ مسلمانوں میں یہ جرات جنم نہ لے کہ وہ حکومتی اقدامات کو چیلنج کرسکیں۔
1820ء سے لے کر اب تک ریاست جموں و کشمیر کے مسلمان غیر مسلم حکمرانوں کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے چلے آرہے ہیں۔ مارچ 1948ء سے جون 2018ء تک ریاست میں مسلمان وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ حکومت کرتے رہے۔ ان کے دور حکومت میں مسلمانوں کو آخر غیر مسلموں کے ظلم و ستم سے نجات ملی لیکن بیشتر کشمیری باشندوں کا معیار زندگی بلند نہیں ہوسکا۔ وہ بدستور غربت اور جہالت کا شکار رہے۔ البتہ بھارتی کانگریسی جماعت کا حلیف مٹھی بھر بااثر کشمیری طبقہ امیر کبیر بننے میں ضرورکامیاب رہا۔
اہل کشمیر پہ ظلم وستم
برطانوی اور ہندوستانی مورخین نے اپنی کتب میں ان مظالم کی سنسنی خیز داستانیں رقم کی ہیں جو غیر مسلم خصوصاً ہندو ڈوگرا حکمران کشمیری مسلمانوں پر ڈھاتے رہے۔ ان ڈوگرا حکمرانوں کو انگریزوں نے ریاست جموں و کشمیر 1846ء میں فروخت کردی تھی۔ انھوں نے پھر ریاستی مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے میں سکھوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اس ظالمانہ اور وحشیانہ پالیسی کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ اکثریتی مسلمانوں میں اتنا زیادہ خوف و ڈر پیدا کردیا جائے کہ وہ اقلیتی ہندوؤں کی حکومت کے خلاف آواز تک بلند نہ کرسکے۔ جبرو تشدد کے اسی ماحول نے کشمیری مسلمانوں کو اپنے خول میں سمٹ جانے پر مجبور کر ڈالا۔
ڈوگرا حکمران حکومت سنبھالتے ہی ریاست کو ’’ہندو راشٹریہ‘‘ میں بدلنے کی کوشش کرنے لگے۔ کئی مورخین مثلاً مریدو رائے (کتابHindu Rulers and Muslim Subjects ) ، جوزف کوربل (Danger in Kashmir)، پریم ناتھ بزاز (The History of Struggle for Freedom in Kashmir)، ملک فضل حسین (Kashmir Aur Dograh Raj)، ٹائن ڈیل بسکو (The Missionary and the Maharajas) وغیرہ نے ان کوششوں کی تفصیل بیان کی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ حکومت سنبھالنے کے صرف چار سال بعد مہاراجا گلاب سنگھ نے فیصلہ کر لیا کہ تمام ریاستی مسلمانوں کو اپنے اجداد کا مذہب (بت پرستی المعروف بہ ہندومت) اختیار کرلینا چاہیے۔ چناں چہ وہ مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر تیار کرنے لگا۔ تاہم بنارس اور متھرا کے بعض اہم پنڈتوں نے اس اقدام کی مخالفت کر دی۔انھیں خطرہ تھا کہ اس اقدام سے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمان ہندوؤں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
اس طرح پورے ہندوستان میں اشاعت اسلام کا آغاز ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے، گلاب سنگھ اپنے شیطانی اور ظالمانہ پلان کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔نفرت اور انتقام کے منفی جذبات سے بھرے گلاب سنگھ نے پھر ریاستی مسلمانوں کی زمینیں سرکاری ملکیت میں لے لیں۔ صرف حکومت کے کٹر حامی غدار مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ نہیں کیا گیا۔ گویا اب مسلمان مالک مزارع بن کر اپنی ہی زمینوں اور باغات پر کھیتی باڑی کرنے لگے۔ حکومت نے ان پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا۔ ریشم، زعفران، کاغذ، تمباکو، گندم ،نمک شال بافی،کپڑا سازی،غرض ہر شے پہ ٹیکس لگا دیا۔ریاست میں تمام صنعتوں میں کام کرنے والے مسلمانوں پر بھاری ٹیکس ٹھونس دیئے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ مسلم عوام کو معاشی طور پر کمزور کردیا جائے۔ وہ روٹی کمانے کے چکر میں پھنس کر حکومت کے خلاف اقدامات نہ کرسکیں۔
ڈوگرا شاہی نے مسلمانوں کی کئی مساجد اور خانقاہوں پر قبضہ کرلیا۔ بعض مندروں میں تبدیل کردی گئیں۔ دیگر گودام خانے بنادیئے گئے ۔وہاں اجناس یا اسلحہ ذخیرہ کیا جاتا۔ ریاست میں اشاعت اسلام روکنے کی خاطر حکومت نے یہ قانون بنا دیا کہ اگر کوئی بت پرست (ہندو) مسلمان ہوجاتا تو وہ باپ دادا کی جائیداد سے وراثت میں کچھ نہ لے پاتا۔ لیکن کوئی مسلمان بت پرستی اختیار کرلیتا، تو اسے وراثت میں جائیداد پانے کا حق مل جاتا۔ اس قانون کے باوجود کوئی بھی ریاستی مسلمان اپنے دین سے مال و دولت کی خاطر تائب نہیں ہوا۔
ریاست کی انتظامیہ میں مسلمان نہ ہونے کے برابر تھے۔ کسی مسلمان کو بھرتی کیا جاتا، تو اسے معمولی ملازمت ہی ملتی۔ معمولی جرائم پر مسلمانوں کو جیل میں ٹھونس دیا جاتا۔ حتیٰ کہ عدالتوں سے بھی انہیں انصاف نہ ملتا۔ 1920ء کے عشرے تک ریاست میں یہ قانون موجود تھا کہ جو مسلمان گائے ذبح کرتا، اسے سزائے موت دی جاتی۔ بعدازاں سزا کم کرکے سات برس کردی گئی۔
ہندو حکمرانوں نے مسلم رعایا کی حالت زار تبدیل اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے پر کوئی توجہ نہ دی۔ انگریز حکومت نے 1941ء میں پورے ہندوستان میں مردم شماری کرائی تھی۔ اس کی رپورٹ میں درج ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں ’’93.4 فیصد‘‘ آبادی ناخواندہ ہے۔1940ء تک ریاست کے ہر چھیاسٹھ مربع مل علاقے میں لڑکوں کا صرف ایک سکول تھا۔ چار سو سڑسٹھ مربع میل علاقے میں لڑکیوں کا صرف ایک سکول بنایا گیا جبکہ پوری ریاست میں صرف ایک کالج قائم تھا۔ ڈوگرا حکومت نے جان بوجھ کر ریاست میں علم و تعلیم دشمن ماحول بنائے رکھا تاکہ مسلم آبادی جہالت کی زنجیروں میں جکڑی رہے اور ترقی نہ کرسکے۔
برطانیہ کا مشہور مورخ الیسٹر لیمب اپنی کتاب ’’Kashmir: A Disputed Legacy 1846-1990‘‘ میں لکھتا ہے ’’ریاست جموں و کشمیر کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں مسلم اکثریت سے تعصب برتا جاتا حتیٰ کہ ایسے قوانین تشکیل دیئے گئے جن سے واضح طور پر ہندو فائدے میں رہتے۔ ریاستی انتظامیہ کے ہر شعبے میں برہمن پنڈت چھائے ہوئے تھے جو کرپٹ اور لالچی تھے۔ ریاست میں اسلحے کا لائسنس صرف ہندو حاصل کرسکتے تھے۔ کوئی مسلمان ریاستی فوج میں بھرتی نہ کیا جہاں اعلیٰ عہدے صرف برہمن اور کھشتری ذاتوں کو ملتے تھے۔‘‘
الیسٹر لیمب مزید لکھتا ہے ’’1927ء میں بنگالی برہمن سرکاری افسر، البیون راج کمار بینرجی کو وزیراعظم جموں و کشمیر بنایا گیا۔ یہ ڈوگرا راج کی تاریخ میں واحد وزیراعظم ہے جس نے حکومتی مظالم کے خلاف بطور احتجاج 1929ء میں استعفیٰ دے دیا۔ اس نے استعفیٰ دیتے ہوئے لکھا ’’حکومت نے دانستہ ریاست میں مسلمان قوم کو ناخواندہ اور غریب رکھا ہے۔ ریاستی انتظامیہ ان سے بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کرتی ہے۔ مسلمان غربت کے بوجھ تلے سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت اور عوام کے مابین کوئی رابطہ نہیں۔‘‘
پریم ناتھ بزاز اپنی کتاب ’’Inside Kashmir ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’وادی کشمیر کے باشندے ڈوگرا راجا کو اجنبی سمجھتے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ ڈوگرا کشمیر کو مفتوحہ علاقے قرار دیتے ۔ جموں ان کا حقیقی دیس تھا۔ اسی لیے نے ریاست میں ایسا انتظامیہ ڈھانچا کھڑا کیا جس میں وہ آقا بن گئے جبکہ کشمیری باشندے غلام۔ خاص طور پر مسلمان عوام کی حالت دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کشمیریوں کی اکثریت چیتھڑوں میں ملبوس نظر آتی ہے۔ اکثر کا لباس صحیح طرح ستربھی ڈھک نہیں پاتا۔ وہ حلیے سے سرکاری خزانہ بھرنے والے کسان یا مزدور نہیں کوئی فقیر دکھائی دیتے۔ کشمیری کسان موسم گرما کے چھ ماہ کھیتوں اور باغات میں محنت مشقت کرتا ہے تاکہ حکومت کو ٹیکس، سرکاری افسروں کو رشوت اور سود خور کو سود دے سکے۔ کسانوں کی اکثریت زمین داروں کی غلام ہے۔ محنت مشقت کے بدلے انہیں جو فصل ملتی ہے، وہ تین ماہ بہ مشکل چلتی ہے۔ پھر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے انہیں کوئی اور کام کرکے کمائی کرنا پڑتی ہے۔ تمام کشمیری مسلمان کرپٹ اور ظالم حکومت کی جلائی آگ میں جھلس رہے ہیں۔‘‘
جموں کا قتل عام
1947 میں تقسیم ہند کے وقت جموں میں بھی ’’61 فیصد‘‘ آبادی مسلمانوں کی تھی۔ گویا ریاست میں جموں کا علاقہ بھی مسلم اکثریتی تھا۔ جلد ہی مہاراجا اور ہندو انتہا پسند جماعت، آر ایس ایس کے لیڈروں نے ملی بھگت سے جموں میں مسلمانوں کی نسل کشی شروع کرادی۔ ریاستی پولیس اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے نہتے، غریب اور بے بس مسلمان پر پے در پے حملے کیے۔ اس قتل عام کا صرف ایک مقصد تھا… یہ کہ جموں میں مسلم اکثریت ختم کردی جائے تاکہ وہ قانوناً پاکستان میں شامل نہیں ہوسکے۔
16 جنوری 1948ء کو مشہور طیوریات اور لکھاری، ہوریس الیگزینڈر نے برطانوی ہفتہ وار میگزین’’ اسپیکٹر‘‘ (The Spectator) میں ایک مضمون لکھا۔ ہوریس الیگزنڈر پرندوں کا مطالعہ کرنے ریاست جموں و کشمیر جاتا رہتا تھا۔ وہاں مسلمانان جموں کے قتل عام نے اسے حواس باختہ کردیا۔ ہوریس نے اپنے مضمون میں لکھا کہ جموں میں دو لاکھ مسلمان مار دیئے گئے۔ 10 اگست 1948ء کو برطانوی اخبار دی ٹائمز نے جموں میں قتل عام پر ایک خصوصی رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ ایک سابق ریاستی آئی سی ایس (انڈین سول سروس) افسر نے تیار کی تھی۔ اس کے مطابق جموں میں نہایت منظم طریقے سے دو لاکھ سینتیس ہزار مسلمان شہید کردیئے گئے۔ بہت سے مسلمان پاکستان ہجرت کرگئے۔ چناں چہ دسمبر 1947ء تک جموں میں مسلمانوں کی تعداد صرف ’’38 فیصد‘‘ رہ گئی اور وہ اکثریت میں نہیں رہے۔
5 مارچ 1948ء کو شیخ عبداللہ ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم بن گئے۔ یہ 1820ء کے بعد پہلا موقع تھا کہ کسی اعلیٰ ریاستی عہدے پر ایک مسلمان کو تعینات کیا گیا۔ اگرچہ ہری سنگھ اور پھر اس کا بیٹا، کرن سنگھ مہاراجا کی حیثیت سے برقرار رہے لیکن اب حکومت میں مسلمان بھی شریک کار بن گئے۔ اس تبدیلی کا پہلا فائدہ یہ ہوا کہ اب ہندو انتظامیہ کھل کر مسلم عوام پر ظلم و ستم نہیں کرسکتی تھی۔ شیخ عبداللہ حکومت رفتہ رفتہ آبادی میں تناسب کے لحاظ سے کشمیری مسلمانوں کو ملازمتیں دینے لگی۔ زمینوں کے مالکانہ حقوق مسلم کسانوں کو مل گئے۔ اس سے مسلم علاقوں میں خوف و ہراس کم ہوا اور کشمیری مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کے سفر کا آغاز ہوگیا۔
شیخ عبداللہ ریاست کو آزاد و خودمختار مملکت بنانا چاہتے تھے۔ اس اقدام سے ان کے سدا وزیراعظم رہنے کا خواب بھی پورا ہوجاتا۔ تاہم بھارتی حکمران طبقہ اب جموں و کشمیر چھوڑنے کو ہرگز تیار نہیں تھا۔ چناں چہ اگست 1953ء میں شیخ عبداللہ کو باغی قرار دے کر گرفتار کرلیا گیا۔ اب ریاست پر قبضہ کرنے کی خاطر بھارتی حکمران رفتہ رفتہ قوانین نافذ کرنے لگے۔ مقصد یہ تھاکہ ریاست کو آئینی و قانونی طور پر بھارت کے دائرکار میں شامل کردیا جائے۔
ریاست کا الیکشن 1987ء
بھارتی حکومت کے مسلمان کشمیری ایجنٹ ریاست جموں و کشمیر پر حکمرانی کرنے لگے۔ ان کی ذمے داری تھی کہ وہ بھارتی حکومت کے احکامات خاموشی سے بجا لاتے رہیں۔ تاہم مسلم اکثریتی علاقوں کے خصوصاً شہروں میں تعلیم عام ہونے سے کشمیریوں میں اس شعور نے جنم لیا کہ ہندو بھارتی حکمران ان پر حکومت کررہے ہیں اور وہ کشمیری مسلمانوں کے نہیں اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں۔ چناں چہ ریاست کو بھارتی حکمران طبقے کے بالادست اثر آزاد کرانے کی سوچ نے جنم لیا۔ اسی سوچ نے 1987ء کے ریاستی الیکشن میں عملی جامہ پہن ڈالا۔
اس الیکشن میں بھارتی حکمران طبقے کی مخالف مذہبی و سیاسی جماعتوں نے مل کر ایک اتحاد ’’ مسلم یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ تشکیل دیا۔ اس اتحاد کے مقاصد یہ تھے کہ فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور کانگریس مل کر مسلم علاقوں میں جو لادینیت اور فحاشی پھیلا رہے ہیں ،اسے روکا جائے۔مدعا یہ تھا کہ کشمیر کی تہذیب و ثقافت کو تحفظ دیا جائے۔ یہ اتحاد برسراقتدار آکر ریاستی حکومت سے کرپشن کا خاتمہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ کم از کم وادی کشمیرمیں شریعت نافذ کرنے کا بھی متمنی تھا۔
مسلم یونائیٹڈ فرنٹ نے ریاستی اسمبلی کی 76 نشستوں میں سے 43 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے۔ جلد ہی پوری ریاست میں یہ تاثر پھیل گیا کہ مسلم فرنٹ ساری نشستیں جیت جائے گا۔ مسلم علاقوں میں فرنٹ کی مقبولیت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ اس صورت حال نے بھارتی حکمران طبقے میں کھلبلی مچادی۔ مسلم فرنٹ علی الاعلان بھارت کا مخالف تھا۔ بھارتی حکمرانوں کو احساس ہوا کہ اگر فرنٹ کے سارے امیدوار جیت گئے تو ریاستی اسمبلی میں انہیں اکثریت حاصل ہوجاتی۔ وہ پھر ریاست جموں و کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا بل بھی اسمبلی میں منظور کراسکتے تھے۔یوں اس امکان نے جنم لیاکہ مسلم فرنٹ کی کامیابی سے ریاست بھارت کے ہاتھوں سے نکل سکتی ہے۔
مسلم فرنٹ کی کامیابی روکنے کے لیے فیصلہ ہوا کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے بیشتر امدواروں کو ہر جائز و ناجائز طریقوں سے کامیاب کرایا جائے گا۔ چناں چہ 23 مارچ 1987ء کو الیکشن ہوا تو اس دن ریاستی انتظامیہ اور الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کئی حلقوں میںمسلم فرنٹ کے امیدوار ہزارہا ووٹوں سے جیت رہے تھے مگر شام کو نیشنل کانفرنس کے امیدوار کی جیت کا اعلان کردیا گیا۔ حکومتی سرپرستی میں کیے جانے والے ایسے کھلم کھلا فراڈ کی مثال نہیں ملتی۔ یوں بھارتی حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر کشمیری مسلمانوں کی تمناؤں کا خون کر ڈالا۔
ریاستی اسمبلی کی چھیتر میں سے تقریباً 55 نشستیں مسلم اکثریتی علاقوں میں تھیں۔ ان میں سے 40 نیشنل کانفرنس کی جھولی میں ڈال دی گئیں۔ گیارہ پر بھارتی حکمران طبقے کی جماعت، کانگریس نے قبضہ کرلیا جبکہ مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کو صرف چار نشستیں دی گئیں۔فرنٹ کی جماعتیں بھارتی حکمرانوں کی جانب سے ہوئی شرم ناک دھاندلی کے خلاف بجا طور پر احتجاجی مظاہرے لگیں۔ ریاستی حکومت نے بھارتی حکومت کی ایما پر فرنٹ کے رہنماؤں اور کارکنوں کو وسیع پیمانے پر گرفتار کرلیا۔
مسلح تحریک آزادی کا آٓغاز
کشمیر کی جدید تاریخ میں الیکشن 1987ء اہم باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھارتی حکومت نے جب زور زبردستی سے کشمیری مسلمانوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے سے روکا تو وہ بھی گولی کا جواب گولی سے دینے پر مجبور ہوگئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اہل کشمیر پُر امن طریقے سے اور جمہوری انداز میں اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب طاقت کے نشے میں بدمست بھارتی حکمران آمر بن گئے اور انہوں نے کشمیری مسلمانوں کی تمناؤں کو فوجی بوٹ تلے کچل ڈالا، تو کشمیریوں نے بھی بندوق سنبھال لی۔ یوں ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی حکمرانوں کی آمریت اور استبدادیت کے خلاف اہل کشمیر کی مسلح تحریک کا آغاز ہوگیا۔
بھارت کے حکمران خود کو جمہوری اور انسانی حقوق کا محافظ کہتے ہیں۔اگر یہ حقیقت ہوتی تو اہل کشمیر کے جذبات و احساسات کا احترام کرتے ہوئے بھارتی حکمران انہیں آزادی و خود مختاری دے دیتے۔ لیکن بھارتی حکمرانوں نے ماضی کے جابر و ظالم بادشاہوں کا روپ دھار لیا۔ انہوں نے ریاست میں لاکھوں فوجی بھجوائے اور ہر پانچ چھ میل بعد ایک ٹارچر کیمپ بنادیا گیا۔ ارضی جنت کہلائی جانے والی پہاڑوں اور حسین مناظر کی بستی ظلم و درندگی کے استعارہ بن جانے والے کیمپوں سے داغدار ہوگئی۔
اب جو بھی حریت پسند کشمیری گرفتار ہوتے، انہیں ٹارچر کیمپوں میں لایا جانے لگا۔ تشدد کے مختلف طریقے اپنا کر ان کی ایسی بری حالت کردی جاتی کہ انہیں دیکھ کر ہر ذی حس انسان تھرا اٹھتا۔ مقصد یہی تھا کہ کشمیری مسلمانوں کو اتنا زیادہ خوف و دہشت میں مبتلا کردیا جائے کہ وہ بھارت کے خلاف احتجاج نہ کرسکیں۔ ڈوگرا بادشاہوں کا ظالمانہ وتیرہ بھارتی حکمرانوں نے بھی اختیار کرلیا تاکہ کشمیری مسلمانوں کو بدستور اپنا مطیع بنا کر رکھا جائے۔
ٹارچر کے طریقے
پچھلے تیس برس میں کئی ٹارچر کیمپ بدنام زمانہ حیثیت حاصل کرچکے۔ ان کیمپوں میں ہری نواس، پاپا دوم، کارگو، کواسا ہاؤس، ریڈ 16، بادامی باغ کنٹونمنٹ، شریف آباد کیمپ، پاپا اول وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کیمپوں میں لاکھوں مجاہدین آزادی کشمیر کو اذیت ناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بھارتی فوج نے ٹارچر کے ایسے نادر و نایاب طریقے ایجاد کیے کہ انہیں دیکھ کے ظالم و جابر حکمران بھی ششدر رہ گئے ہوں گے۔
ریاست جموں و کشمیر میں دو سماجی تنظیمیں، Association of Parents of Disappeared Persons اور Jammu Kashmir Coalition of Civil Society سرگرم عمل ہیں۔ان تنظیموں نے پچھلے دو سال کے دوران ایسے سیکڑوں کشمیریوں سے انٹرویو کے جنہیں ٹارچر کیمپوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔اس تحقیق پر مبنی رپورٹ ’’ Torture: Indian State’s Instrument of Control in Indian-administered Jammu and Kashmir ‘‘ حال ہی میں شائع ہوئی۔اس میں محقیقن نے ٹارچر کے ان لرزہ خیز طریقوں کو بیان کیا ہے جو بھارتی سیکورٹی فورسز کشمیری مجاہدین آزادی پر آزماتی ہیں:
٭برہنہ کرنا٭ڈنڈوں،فولادی سریوں یا چمڑے کی بیلٹوں سے مارنا٭رولر پھیرنا۔تشدد کے اس طریقے میں بھاری چوبی یا فولادی شہتیر مجاہد کی ٹانگوں پر چلایا جاتا ہے۔اکثر ظالم فوجی اس شہتیر پر بیٹھ جاتے ہیں٭پانی میں زبردستی سر ڈالے رکھنا جس میں مرچیں ملی ہوتی ہیں٭زخموں پر نمک چھڑکنا٭بجلی کے جھٹکے دینا٭چھت سے الٹا لٹکا دینا٭گرم سلاخوں سے جسم داغنا٭بدن پہ گرم پانی ڈالنا٭جلتی سگریٹ جسم پہ لگانا٭تنہائی میں قید رکھنا٭سونے نہ دینا٭جنسی اذیت کا نشانہ بنانا۔
آج کی مہذب ،تہذیب یافتہ،انسانی حقوق کی چیمین جدید دنیا میں صرف تین ممالک کی حکومتوں نے ماضی کے وحشیانہ ،انسانیت سوز اور حیوانی ادوار کی بھیانک یادیں تازہ کرتے ہوئے انسانوں پہ ٹارچر کی غیر انسانی روایت وسیع پیمانے پر برقرار رکھی ہے۔اول امریکی حکومت جس نے پوری دنیا میں ٹارچر سیل بنا رکھے ہیں۔دوم بھارتی حکومت جس نے پورے بھارت خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں ٹارچر کیمپ کھول رکھے ہیں۔سوم اسرائیلی حکومت جس کے ٹارچر کیمپوں میں فلسطینی مجاہدین پہ ظلم وستم کیا جاتا ہے۔ان تینوں حکومتوں کا نشانہ عموماً مسلمان بنتے ہیں۔طرفہ تماشا یہ کہ میڈیا میں ان تینوں حکومتوں کے بجائے مسلمان ہی دہشت گرد اور فسادی قرار پاتے ہیں…خرد کا نام جنوں پڑ گیا،جنوں کا خرد،جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے!
بھارتی فوج کا لرزہ خیز ٹارچر اہل کشمیر کو عارضی طور پہ خوفزدہ کر سکتا ہے مگر یہ خوفناک پالیسی ہمیشہ کامیاب ثابت نہیں ہوتی۔5 اگست 2019ء کے بعد اہل کشمیر پہ ظلم وتشدد کے نئے دور کا آغاز ہو چکا۔مگروہ دن قریب ہے جب ظلم حد سے بڑھنے پر کشمیری جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے پوری قوت سے بھارتی غاصبوں سے نبردآزما ہوں گے۔تب بھارتی حکمرانوں کو اپنے ظلم وستم کی بھاری قیمت چکانا ہو گی۔انھیں اپنے ’’مہاتما‘‘گاندھی کا یہ قول یاد رکھنا چاہیے:
’’مجھے زنجیروں میں جکڑ دو، ٹارچر کا نشانہ بناؤ، میرے بدن کو چیرپھاڑ دو مگر تم میری سوچ کو قید میں نہیں رکھ سکتے۔‘‘
The post ٹارچر…اہل کشمیر کی آواز دبانے کا بھارتی ہتھیار appeared first on ایکسپریس اردو.