قسط نمبر68
میں اور بابا اسلام آباد جانے کے لیے ویگن کے انتظار میں اسٹاپ پر کھڑے تھے۔ فقیر کو تو علامتی طور پر پابند زنجیر کیا گیا تھا، ویسے تو آزاد تھا لیکن کلائیوں، پاؤں اور گلے میں ہار بنی آہنی زنجیر اور پھر پابرہنہ سیاہ پوش گیسو دراز فقیر کو دیکھ کر کچھ لوگ حیرت زدہ تھے۔ پھر ویگن آئی اور ہم سوار ہوئے تو مسافروں نے بھی اسی حیرت سے فقیر کو دیکھا۔ صبح کا وقت تھا ہمیں سیٹ مل گئی تھی پھر بابا نے کنڈیکٹر کو کرایہ دینا چاہا تو اس نے لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا: رہنے دو سرکار! بس دعا کرنا۔ بابا نے اسے شفقت سے دیکھا اور کہا: دعا تو ہم کرتے ہی ہیں بیٹا! لیکن تم اپنا کرایہ لو۔ لیکن وہ بہ ضد تھا کہ بابا نے اسے کہا: تو چلو اگر تم کرایہ نہیں لے رہے تو ہمیں یہیں اتار دو۔ یہ سنتے ہی ڈرائیور نے اسے کرایہ لینے کا کہا۔ تھوڑی دیر بعد بابا نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا: آپ ہماری بات کا بُرا مت ماننا بیٹا! آپ اچھے انسان ہو، جبھی تو حسّاس ہو ناں کہ ہمیں مفلس سمجھتے ہوئے اپنے حق سے دست بردار ہوئے، رب تعالٰی تمہاری روزی میں برکت دے، دیکھو! ہم بھی مزدور ہیں جی، رب تعالٰی نے ہمیں بھی دینے لائق کیا ہے تو کیسے تمہارا حق مار لیں، ہمارے پاس زادراہ ہے تو تم لوگ پریشان مت ہونا۔ ہماری گفت گو سب نے سنی تھی اور خاموشی سے۔ راول پنڈی آیا تو ہم ایک ہوٹل میں جا بیٹھے، وہاں بھی فقیر ایک عجوبہ بنا رہا۔ ہم نے چائے پی اور اسلام آباد روانہ ہوئے۔
کشادہ شاہ راہ کی وہی گلی تھی جہاں میں اور بابا پہلے آچکے تھے۔ وہی وسیع حویلی جس کے درودیوار سے امارت ٹپک رہی تھی۔ فقیر اکثر سوچتا ہے کہ کتنے بھلے لوگ ہیں ناں کہ جہاں بس چند ساعت رہنا ہے اس جگہ کو کتنا خوب صورت بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اچھا کرتے ہیں انسان کو نفیس ہونا ہی چاہیے لیکن ذرا اپنے بھیتر بھی تو جھانکنا چاہیے ناں!بس چند گھڑیاں یہاں بسیرا کرنا ہے، اور کہتے ہیں کبھی آئیے ناں ہماری قیام گاہ پر! قیام گاہ ۔۔۔۔؟ اچھا جی تو یہ ہے قیام گاہ۔۔۔۔؟ واقعی! چلیے ہوگی جی ہوگی فقیر کو تو بس چلتے جانا ہے تو بابا نے صدر دروازے پر نصب گھنٹی بجا کر اپنی آمد کا اعلان کیا، چند ساعت بعد وہی ملازم ہمارے سامنے تھا، اس نے بابا سے بہت احترام سے ہاتھ ملایا اور کچھ کہے بنا ہی گھر پلٹ گیا، واپسی میں گھر کے مالک و مالکن دونوں اس کے ساتھ تھے، انہوں نے بابا کو دیکھتے ہی سر جھکا کر سلام کیا اور ہمیں اندر آنے کی دعوت دی، گداز صوفے پر بیٹھنے تک وہ دونوں کھڑے رہے۔
میں بابا کے ساتھ ہی بیٹھ گیا تو وہ بھی ہمارے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئے اور بابا سے ان کی خیریت معلوم کی، پھر انہوں نے میری جانب دیکھا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتے بابا نے انہیں کہا: پریشان مت ہوں آپ، یہ میرا پگلا بچہ بولتا بہت ہے ناں اورکبھی اپنی بات پر بھی اڑ جاتا ہے پگلا، تو اسے ذرا سیدھا کرنے کے لیے پابند زنجیر کیا ہے، لیکن بہت پیار سے کیا ہے جی، کچھ اثر تو ہوا ہے اس پر آگے بھی رب تعالٰی اچھا کرے گا۔ وہ دونوں بابا کی باتیں حیرت سے سن اور فقیر کو دیکھ رہے تھے پھر انہوں نے بتایا: آپ کی آمد ہمارے لیے بہت باعث برکت رہی، آپ کی دعاؤں سے ہماری بیٹی بالکل تن درست ہوگئی اور اپنے معمولات میں لگ گئی ہے، پہلے کی طرح ہنستی بولتی ہے، ہمیں تو آپ کا گھر معلوم نہیں تھا ورنہ تو ہم کب کے آپ کے پاس چلے آتے، اچھا کیا آپ تشریف لائے، بس اب دعا کیجیے کہ کوئی اچھا بَر مل جائے تو بیٹی کو بیاہ دیں۔
بابا نے ان کی باتیں غور سے سنیں، مسکرائے اور کہا: اجی! ہم فقیروں کا کوئی گھر ہوتا تب تو آپ آتے بھی ناں، ہم تو خانہ بہ دوش فقیر ہیں، رب کی ساری دھرتی ہی ہمارا گھر ہے جی، ہماری بٹیا تن درست ہوگئی تو بس شُکر مالک کا، ہم سب اُسی کے ہیں، بس وہی ہمارا مالک و مختار ہے جی، بندگی یہ ہے کہ وہ جیسے کہے مانتے چلے جاؤ، اس کی رضا میں خوش دلی سے راضی رہو، وہ جو کہے تسلیم کرو۔ اس لیے کہ ہوگا تو بس وہی جو رب تعالٰی چاہیں گے تو پھر خوش خوش اس کی رضا میں راضی رہا جائے، اور وہ جو کہے تو بس تسلیم تسلیم پکارا جائے، یہی ہے ورد وظیفہ زندگی کا کہ تیری رضا اور میری تسلیم بس۔ آپ فرما رہے تھے کہ میں دعا کروں کہ ہماری بٹیا کو بہت اچھا بَر ملے تو عرض ہے کہ آپ کی دعا مستجاب ہوگئی، دیکھیے! رب تعالٰی آپ پر کتنا مہربان ہے جی کہ آپ کو کوئی زحمت بھی نہیں ہوئی ورنہ تو اچھا بَر تلاش کرنے کے لیے ماں باپ کتنے جتن کرتے ہیں، اپنے احباب و رشتے داروں کو کہتے ہیں کہ کوئی اچھا سا لڑکا ہو تو ہمیں بتائیے اور پھر یہ بھی کہ کوئی اچھا بَر مل جائے تو واہ جی واہ اور اگر مل جائے اور بیٹی کو اس کے ساتھ بیاہ دیا جائے اور بعد میں کھلے کہ اوہو یہ تو بہت بڑی غلطی ہوئی تو پھر سارا جیون آہ ہی آہ، آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کو رب تعالٰی نے ہر زحمت سے بچایا اور اچھا بَر خود آپ کے گھر چلا آیا، آپ کو اس پر رب اعلیٰ کا شُکر ادا کرنا چاہیے۔
وہ دونوں بابا کی باتیں بہت انہماک سے سُن رہے تھے لیکن خاموش تھے۔ یہ خاموشی بھی تو ایک اسرار ہی ہے ناں جی! بابا نے وقفے کے بعد پھر اپنی گفت گُو شروع کی: دیکھیے! یہ تو جیون بھر کا ساتھ ہوتا ہے، رب تعالٰی نے عورت مرد دونوں کو اپنا یہ فیصلہ کرنے میں آزاد رکھا ہے، ایسا ہوسکتا ہے کہ ان کا فیصلہ مستقبل میں غلط ثابت ہو لیکن اس کی بھی تو کوئی ضمانت نہیں ہے ناں کہ والدین کا فیصلہ بالکل درست ہو، وہ بھی تو غلط ہوسکتا ہے، امکان تو دونوں جانب کے فیصلے میں ہوسکتا ہے جی، ہاں سوچ بچار ضرور کرنا چاہیے اور مشورہ بھی، لیکن اپنا مشورہ ان پر کسی بھی صورت مسلط نہیں کرنا چاہیے، دردمندی، ایثار، خُلوص اور شے ہے اور انا پرستی، خودغرضی اور رعونت یک سر دوسری، پہلی شرف انسانیت ہے اور دوسری ننگ، اب فقیر آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہے کہ ہمارا بیٹا حنیف ہم آپ کو دان کرنا چاہتے ہیں، ہم نے اسے ان کے والدین سے لے کر پالا ہے، بالکل ماں کی طرح! بٹیا نے اسے دیکھا ہے اور وہ دونوں اک دوجے سنگ جیون بتانا بھی چاہتے ہیں، آپ حنیف سے مل لیجیے اور بٹیا کی رضا بھی اس سے معلوم کرلیجیے اور بسم اﷲ کیجیے، رب تعالٰی اس میں خیر و برکت دے گا، فقیر آپ کو رب تعالٰی پر یقین سے کہتا ہے کہ آپ اس رشتے سے نہال رہیں گے، حنیف آپ کا حقیقی بیٹے سے زیادہ خیال رکھے گا اور سعادت مند رہے گا۔
خاموشی کا یہ وقفہ ذرا سا طویل ہوگیا تھا، وہ دونوں سر جھکائے ہوئے تھے، میں انہیں دیکھ رہا تھا اور ان کی بات سننے کا مشتاق تھا لیکن خاموشی تھی بس، اتنے میں ملازم چائے اور لوازمات سے بھری ہوئی ٹرے لیے اندر داخل ہوا۔ اس تکلّف کی قطعاً ضرورت نہیں تھی، بابا کی بات نے خاموشی کو توڑ دیا تھا۔ نہیں جی کوئی تکلف نہیں کیا ہے یہ تو عام سی بات ہے۔ ملازم نے بابا اور مجھے چائے کا کپ دیا۔ یہ بسکٹ بھی لیجیے ناں! خاتون خانہ کا اصرار بڑھا۔ چلیے آپ کی خوشی کی خاطر لیے لیتے ہیں، کہتے ہوئے بابا نے ایک بسکٹ اٹھایا۔ آپ خاموش مت رہیں جو کہنا چاہتے ہیں کہیں اور کھل کر کہیں، بابا نے انہیں مخاطب کیا۔ اب اس ماہ وش کے والد گویا ہوئے: دیکھیے! آپ کی آمد ہمارے لیے رحمت ہے، لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہماری کوئی اور اولاد نہیں ہے، بس ایک ہی بیٹی ہے ہماری، سوچنا پڑتا ہے، یہ سب کچھ جو آپ دیکھ رہے ہیں ایسے ہی نہیں بنا، میں نے زندگی میں بہت محنت کی ہے، آپ میری بات کا بُرا مت مانیے گا، ہم خاندانی لوگ ہیں، بہت سوچنا پڑتا ہے، آپ نے اپنے بیٹے کے لیے کہا ہے تو سچی بات یہ ہے کہ ہم تو آپ کو جانتے ہیں نہ ہی آپ کے بیٹے کو، پھر آپ نے فرمایا ہے کہ آپ کا کوئی گھر بھی نہیں ہے تو ایسے میں یہ فیصلہ کرنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔ ؟
ہمیں تو کوئی خاندانی اور اعلٰی تعلیم یافتہ رشتہ درکار ہے، ہم آپ کو کسی آس میں نہیں رکھنا چاہتے، آپ کا گھر ہے جب چاہیں آئیے، لیکن رشتے کے لیے ہم آپ سے معذرت چاہتے ہیں۔ اس نے اپنی بات ختم کی تو بابا نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھا: خاندانی تو ہر ایک ہوتا ہے جی، کوئی بنا خاندان کے کب ہوا ہے، ہاں یہ دوسری بات کہ انسان اپنے ہی خاندان کو اعلٰی و ارفع کہتا ہے، لیکن یہ دعویٰ ہے عبث، جو اچھا انسان ہو، چاہے کسی خاندان کا ہو تو بس وہ اچھا ہے۔ بابا خاموش ہوئے تو خاتون خانہ بولیں: جی ہے تو سچ لیکن دنیاداری کو بھی تو نبھانا پڑتا ہے۔ آپ سوچ لیجیے، حنیف سے مل لیجیے، بٹیا کی رضا معلوم کر لیجیے، ہم کسی اور دن چلے آئیں گے، بابا نے جواب دیا۔ مشکل ہے یہ ہمارے لیے، اس کے لیے آپ بالکل بھی زحمت مت کیجیے، اب وہ دونوں یک زبان تھے اور ذرا سا تلخ بھی۔
اچھا جی! تو اب جانا ہی ہوگا فقیر کو، بابا نے سر جھکائے ہوئے کہا اور پھر اچانک ان کا رنگ بدل گیا، اچھا تو آپ خاندانی ہیں جی! بہت محنت کی ہے آپ نے، ٹھیک ہے اب تو آپ نے آنے سے منع کردیا ہے تو جانے سے پہلے ایک کہانی آپ کو سنائے دیتے ہیں۔ وہ ایک گاؤں تھا جس میں ایک مزدور رہتا تھا اور ایک زمین دار کے پاس اس کے کھیتوں میں کام کرتا تھا، اس کے مویشی چراتا تھا بس ایسے ہی کام، ایسے کارآمد انسان کو بے درد دنیادار تحقیر سے کمّی پکارتے ہیں اور جیسا مزدوروں کا حال ہے جی اب تک، ان کی محنت پر کوئی جائز اجر نہیں دیتا، بس استحصال ہوتا رہتا ہے اور وہ نادار خاموشی سے سر جھکائے یہ سب ظلم و جبر سہتے رہتے ہیں، مفلسی ہے ان کا جیون تو، وہ بھی بس ایسا ہی مزدور تھا، خدا نے اسے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نواز دیا تو گزر بسر اور مشکل ہوگئی، لیکن ان تین بیٹوں میں سے ایک ذہین تھا اور مفلسی نے اسے چالاک بھی بنا ڈالا تھا۔
اب یہ ضروری نہیں کہ ہر ظالم سب کے لیے ہی بُرا ہو، کسی کے لیے وہ خیر بھی بن جاتا ہے جی، تو جس زمین دار کے پاس اس لڑکے کا باپ کام کرتا تھا، اس نے اس کے ذہین بیٹے کو اسکول میں داخل کرادیا اور اس کے تعلیمی اخراجات بھی اٹھائے، کرنا خدا کہ وہ ذہین لڑکا آٹھویں پاس کرکے شہر آگیا اور ایک اور اچھے اور بھلے خدا ترس انسان نے اسے اپنے پاس ملازم رکھ لیا لیکن اسے تعلیم حاصل کرنے کی تلقین کی، اب وہ ذہین لڑکا اسکول جاتا اور واپسی میں اس کے گھر کے کام کردیا کرتا، سمے گزرتا چلا گیا، وہ تو کسی کے روکے رکتا نہیں اور پھر وہ دن بھی آیا جب اس ذہین لڑکے نے اپنی تعلیم مکمل کرلی، پھر ایک اور انسان سامنے آیا اور اس کی مدد سے وہ سرکاری ملازم ہوگیا اور ایسے محکمے میں جہاں رشوت کا بازار گرم تھا۔ بس اس کے بعد کہانی بدل گئی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ذہین لڑکا اپنے والدین اور دیگر بھائیوں اور اکلوتی بہن کا خیال رکھتا اور انہیں بھی آسانیاں فراہم کرتا، لیکن ہُوا بالکل اس کے الٹ، وہ دولت کمانے میں اتنا منہمک ہوا کہ اسے اور کسی کی کوئی پروا ہی نہیں رہی، یہ دولت بھی کیسا نشہ ہے ناں کہ ماں باپ مرگئے لیکن اسے خبر ہی نہ ہوئی اور جب ہوئی تو اس بات کو عرصہ گزر چکا تھا، اس نے خیال کیا کہ اچھا ہے کوئی اس سے سروکار ہی نہ رکھے، اپنے تلخ ماضی سے اکثر نادان لوگ فرار چاہتے ہیں ناں جی۔ پھر جس نے اسے ملازمت دلائی تھی اس نے اس سے اپنی بیٹی بیاہ دی اس لیے کہ وہ خود بھی تو اسی طرح سے دولت مند ہوا تھا ناں، سچ ہے کہ انسان کو اپنے جیسے ہی اچھے لگتے ہیں، تو بس زندگی گزرتی چلی گئی اور اسے کون روک سکا ہے جی۔
اس ذہین لیکن چالاک انسان نے سب سے اپنے رشتے ناتے ختم کرلیے اور اپنے جیسوں کو اپنا ہم نوا بنایا اور اسی کو اپنا خاندان سمجھا۔ انسان بھی کیسا عجیب ہے ناں کہ اگر اس کا ماضی تاب ناک ہو تو اسے سب کے سامنے دہراتا رہتا ہے، اس کا تذکرہ کرتا رہتا ہے، اس پر نازاں رہتا ہے اور اگر اس کا ماضی افلاس سے پُر ہو تو ہمیشہ اسے چُھپاتا ہے، کبھی اس کا ذکر بھی نہیں کرتا اور اگر کبھی اسے وہ یاد آجائے تو اپنے آپ سے ہی الجھ جاتا ہے، لیکن اصیل وہ ہے جو اپنے ماضی اور حال کو یاد رکھے اپنے آپ میں رہے، اس سے سبق سیکھے، لیکن نہیں جی وہ تو بس کچھ سوچے سمجھے بنا ہی اڑتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے وہ ہمیشہ ہی بلند پرواز رہے گا، لیکن پھر ایک دن ایسا ضرور آتا ہے جب وہ کٹی پتنگ کی طرح آسمان سے ڈولتا ہوا زمین پر آکر نابود ہوجاتا ہے، ہاں تو فقیر آپ کو کہانی سنا رہا تھا جی تو پھر ایسا ہوا کہ اس ذہین آدمی کو بھی رب تعالٰی نے ایک بیٹی سے نواز دیا۔
جتن تو بہت کیے اس نے کہ اس کے ہاں بھی اولاد نرینہ ہو لیکن رب کے بھید تو رب ہی جانتا ہے جی، بس وہی۔ دھن دولت سے اس نے ایک حویلی کھڑی کرلی، کاروبار میں وہ دھنستا چلا گیا، روپے پیسے کی فراوانی بھی انسان کی ہر خواہش کو کبھی آسودہ نہیں کرسکتی، کر ہی نہیں سکتی، تو بس جی زندگی کے ایک موڑ پر جب انسان کے اعضاء بھی اس کا ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں اسے اپنی بیٹی کے لیے ایسے لڑکے کی تلاش ہوئی جو ان کا داماد ہونے کے ساتھ ان کا بیٹا بنے، ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے، لیکن ایسے آدمی کو بھی اپنے جیسے ہی پسند آتے ہیں ناں تو جی بس وہ اپنی خواہش کا اسیر ہوگیا، بیٹی سے پیار کا دعویٰ کرتا ہے وہ اور ہے مطلب پرست، بیٹی کی خواہش کے بہ جائے اسے اپنی خواہش جو معلوم نہیں پوری بھی ہو، نہ ہو لیکن اپنی اس بیٹی جسے وہ کہتا ہے کہ وہ میرا سب کچھ ہے، اسے اپنی بے ہودہ خواہش کی سولی پر مصلوب کردینا چاہتا ہے۔
نہ جانے اس کا کیا حشر ہوگا، ہوگا تو وہی جو رب نے لکھا ہے، فقیر دعا کرتا ہے کہ وہ اپنی خواہش کے بہ جائے رب تعالٰی کے احکامات پر عمل کرے، کسی کے حقوق غصب نہ کرے جیسا اس نے پہلے کیے ہیں، اسے عقل سلیم عطا ہو، اسے توفیق ملے کہ وہ اپنی پچھلی غلطیوں کو سدھار سکے، سب کے حقوق کو ادا کرے، اور مرنے سے پہلے اپنے گناہوں سے مکت ہوجائے، جانا تو ہے اصل ٹھکانے تو سرخ رو ہوکر جائے، فقیر تو بس دعا کرسکتا ہے جی۔ آپ نے بہت مہربانی فرمائی کہ فقیر کی کہانی سنی، اب پتا نہیں آپ کو کیوں سنائی، شاید آپ کے لیے اس میں کوئی بھلائی ہو۔ فقیر تو پکارتے رہتے ہیں جی! سب کا بھلا، سب کی خیر، سب شاد رہیں، آباد رہیں، دل دار رہیں۔
ہاں یہ جو آپ کے گھر کی چائے پی ہے یہ فقیر پر قرض ہے رب تعالٰی کی مہربانی سے ادا کردے گا، کہتے ہوئے بابا نے میرا ہاتھ پکڑا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ فقیر احمق کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر بابا نے انہیں یہ کہانی کیوں سنائی، اور کیا یہ ضروری ہے کہ فقیر کو سب کچھ سمجھ میں بھی آجائے لیکن فقیر اس ماہ وش کے والدین کے سفید پڑتے ہوئے چہروں کو دیکھ رہا تھا، ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ چلتے پھرتے انسان نہ ہوں ، کسی میوزیم میں رکھا ہوا کوئی مجسمہ ہوں۔
dildargah62@gmail.com
The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.