اب تک تو یوں تھا کہ ’’وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘، اگرچہ جس پر بہار آنا تھی وہ شجر ہی نظر نہیں آرہا تھا، پھر بھی امید بہار رکھی گئی۔
آس تھی کہ وہ شجر جس پر بہار آنا ہے ’’بلین ٹِری منصوبے‘‘ کے تحت زمین سے نمودار ہوگا، اور ایک دن جب ہم پاکستانی اپنے اپنے گھر سے باہر آکر دیکھیں گے تو اس پر بہار آچکی ہوگی، شاخوں سے پھل ٹپاٹپ گر رہے ہوں گے، اور لوگ ان ثمرات سے اپنی جھولیاں بھر رہے ہوں گے، لیکن ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ (امیدوں کا) آشیانہ تھا، مزیدبرآں جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔
ہم نے یہ جو بَک بَک کی ہے اس کی آسان زبان میں تشریح وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری صاحب کا یہ بیان ہے کہ عوام نوکریوں کے لیے حکومت کی جانب نہ دیکھیں۔ انھوں نے یہ خوش خبری بھی سنائی ہے کہ حکومت 400 محکمے بند کررہی ہے۔ فرماتے ہیں،’’نوکریاں حکومت نہیں نجی سیکٹر دیتا ہے یہ نہیں کہ ہر شخص سرکاری نوکری ڈھونڈے۔‘‘
فوادچوہدری سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر ہیں، اور حکومتی امور کا تعین پولٹیکل سائنس کا موضوع، چناں چہ ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے سائنس داں فواد چوہدری نے دریافت کیا کہ ملازمت فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری نہیں۔ اب پتا نہیں کہ یہ دریافت ’’آپی آپ‘‘ ہوگئی یا نیوٹن کی طرح ان کے سر پر بھی کوئی پھل آ بجا تھا۔ نیوٹن کا دماغ تو سیب کی دھمک سے روشن ہوا تھا، لیکن جتنی بڑی دریافت چوہدری صاحب نے کی ہے اس اعتبار سے لگتا ہے ان کے سر پر کم ازکم تربوز یا پیٹھا آ گرا ہوگا۔ ممکن ہے اس دریافت پر لوگ انھیں ’’نیو ٹُن‘‘ کہنے لگیں۔
کوئی کچھ کہے، ہم تو کہتے ہیں فوادچوہدری نے بالکل ٹھیک کہا۔ حکومت کا کام نوکری دینا نہیں۔ یوں بھی خود اس حکومت کو بڑی مشکل سے ’’نوکری‘‘ ملی ہے۔ پھر حکومت آخر کس کس کو نوکری دے۔ عثمان بزدار، فردوس عاشق اعوان، فوادچوہدری، فیاض چوہان، مرادسعید، فیصل واوڈا، شہریارآفریدی، زلفی بخاری، علی امین گنڈاپور، علی زیدی، اعظم سواتی، شیخ رشید، سمیت جانے ’’عوام‘‘ میں سے کتنے افراد کو نوکری یا ’’چاکری‘‘ دی جاچکی ہے، سو نوکری کے باب میں حکومت کا عوام سے یہ کہنا بنتا ہے کہ ’’تیرے‘‘ حصے میں کچھ بچا ہی نہیں۔
اب آپ وہی گھسی پِٹی باتیں کریں گے کہ ’’پھر عمران خان نے انتخابات کے دوران دس ملین ملازمتیں دینے کا وعدہ کیوں کیا تھا۔ اور آبی وسائل کے وزیر فیصل واوڈا نے کیوں دعویٰ کیا تھا کہ ملک میں نوکریاں زیادہ ہوجائیں گی لوگ کم پڑجائیں گے، اگر ایسا نہ ہو تو میری تکہ بوٹی کردی جائے۔‘‘
بھئی بات یہ ہے کہ اس وقت تک خان صاحب بہت سے حقائق سے لاعلم تھے، جیسے انھیں پتا نہیں تھا کہ۔۔۔۔ پاکستانی عوام بڑے بے صبرے ہیں، خزانہ خالی ہے، آئی ایم ایف کے پاس جانے سے خودکشی واجب نہیں ہوتی، پیٹرول کے منہگے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وزیراعظم چور ہے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔اسی طرح ہمارے خیال میں وہ ’’احتساب‘‘ میں کتنے ہی اچھے ہوں حساب میں کم زور ہیں، یہی وجہ ہے کہ ارکان کو گنے بغیر ہی اپنی کابینہ کو مختصر سمجھتے ہیں۔
چناں چہ یہ نہ جان پائے کہ ایک ملین میں کتنے ہندسے ہوتے ہیں، اور ملین کو درجن سمجھ کر وعدہ کر بیٹھے۔ کون نہیں جانتا کہ ان کے قول وعمل کا عنوان کرکٹ کی اصطلاحات بنتی ہیں، تو یہاں بھی ٹیم کے گیارہ اور بارہویں کھلاڑی کو ملاکر درجن کا لفظ ہی ان کے ذہن میں ہوگا۔ اب اگر ان کی نیت دیکھی جائے تو وفاق، پنجاب اور خیبرپختون خوا کے وزیروں، مشیروں، ترجمانوں، معاونین خصوصی اور چیئرمین کرکٹ بورڈ احسان مانی کو ملاکر تعداد دس درجن سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہے۔ لہٰذا یہ وعدہ تو پورا ہوگیا۔
رہی بات فیصل واوڈا کے وعدے کی تو انھیں یقین تھا کہ منہگائی، غربت اور حالات کے باعث لوگ اتنے کم پڑجائیں گے کہ پارٹی کے جلسوں اور وزیراعظم کے بیرونی دوروں سے واپسی پر استقبال کے لیے بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو زحمت دینا ہوگی یا پردیس سے کرائے پر اچھی تالی بجانے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کرائے پر لانا ہوں گے، بس یہی سوچ کر انھوں نے یہ دعویٰ کردیا۔
اب بے چارے واوڈا صاحب کو کیا معلوم کہ پاکستانی جتنے بے صبرے ہیں اتنے ہی ڈھیٹ ہیں۔ ورنہ ان کے حساب سے اب تک لوگ ’’کم پڑجانے‘‘ چاہیے تھے۔ رہا معاملہ تکہ بوٹی کرنے کا تو ان کے بارے میں یہ بدگمانی ٹھیک نہیں کہ وہ عوام کو آدم خور بنانا چاہتے ہیں، بھلا وہ کیوں چاہیں گے کہ حکومت کے فرائض میں عوام شریک کرلیے جائیں!
فوادچوہدری نے اتنا ہی کہا ہے کہ عوام نوکری کے لیے حکومت کی طرف نہ دیکھیں، ہم تو دو قدم، بلکہ ڈھائی اور ساڑھے تین قدم آگے بڑھ کر کہیں گے کہ عوام سرے سے حکومت کی طرف نہ دیکھیں۔ وہ کیا ہے کہ حکومت کو لاج آتی ہے، اور وہ اٹھلا کر کہتی ہے۔۔۔’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو! غیروں پہ کُھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا۔‘‘ عوام تاجروں صنعت کاروں کو دیکھیں، جنھوں نے حکومت کی طرف دیکھنا چھوڑ کر کسی اور طرف امید بھری نظروں سے دیکھا، اور جب پیغام ملا کہ حکومت کی طرف دیکھ مگر پیار سے، تو نظر مایوس پلٹ آئی، اب لگتا ہے کہ وہ اپنے سرمائے سمیت ہوائی اڈے کا راستہ دیکھ رہے ہیں۔
عوام کو حکومت کی طرف دیکھنا ہی ہے تو اس کے کچھ طریقے ہیں، مثلاً ’’دیکھنا بھی تو اُسے دور سے دیکھا کرنا‘‘ یعنی بیرون ملک جاکر مقیم ہوں اور پھر اس حکومت کو دیکھیں تو یہ بہت اچھی لگے گی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سرکاری عینک حاصل کریں اور وہ لگاکر دیکھیں تو سب اچھا لگے گا۔ یہ عینک حالات پر صبروشکر کرتے ’’صابرشاکر‘‘ لوگوں کے پاس ہے، ان سے عاریتاً حاصل کرکے بہ طور تجربہ کچھ دیر استعمال کی جاسکتی ہے۔ تب تک عینک اُدھار دینے والے اپنی آنکھیں بند رکھیں گے۔
چوہدری صاحب کا یہ بیان ہمارے لیے انکشاف تھا کہ لوگ نوکری کے لیے حکومت کی طرف دیکھتے ہیں، عجیب لوگ ہو تُسی، حکومت مختلف ممالک میں مصالحت کا فریضہ ادا کرتی پھرے، دھرنے روکے، سوشل میڈیا پر مخالفین کی دُھلائی اور اپنا دفاع کرے یا نوکری دینے جیسے فضول کاموں میں پڑ جائے! ارے جب صحت، تعلیم، ایمرجینسی، قدرتی آفات، صاف پانی، بجلی، ہر ہر سہولت کے لیے نجی شعبے کی طرف دیکھتے ہو تو نوکری کے لیے بھی اسی طرف دیکھو ناں، چلو نظریں ہٹاؤ حکومت پر سے، تمھارے مسلسل تاڑنے کی وجہ سے وہ بے چاری نروس ہوگئی ہے کچھ کر نہیں پارہی۔
The post حکومت کی طرف مت دیکھو۔۔۔ اُسے لاج آتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.