بنگلہ دیش میں پانج جنوری کوہوئے پارلیمانی انتخابات میں آمرانہ مزاج حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کو بہ ظاہر ایوان میں دو تہائی سے بھی زیادہ کی اکثریت حاصل ہو چکی ہے۔پارلیمنٹ کی 300 نشستوں میں سے 232 پر حسینہ کی پارٹی نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ مبصرین عوامی لیگ کی اس کامیابی کو پارٹی اور مسزحسینہ کی ’’سیاسی شکست‘‘ سے تعبیر کر ر ہے ہیں، کیونکہ عوامی لیگ نے پارلیمنٹ میں دو تہائی سیٹیں جیتنے کے لیے جو قیمت ادا کی ہے اس کا خمیازہ کئی سال تک اسے بھگتنا پڑے گا۔
بنگلہ دیش کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں شیخ حسینہ واجد کی سیاسی ’’بالغ نظری‘‘ پر ایک نئی بحث بھی چھڑ چکی ہے۔ حال ہی میں اخبار’’ڈھاکہ پوسٹ‘‘ میں شائع ایک مضمون میں مسز حسینہ کے سیاسی قد کاٹھ کے بارے میں جو طرز کلام اختیار کیا گیا ہے وہ عوام میں ہونے والی بحث کا نچوڑ ہی نہیں بلکہ عوام کی آواز معلوم ہوتی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اگرچہ حسینہ واجد کو سیاست وراثت میں ملی تھی۔ اس کے والد مقتول شیخ مجیب الرحمان نے اپنی’’ہونہار‘‘ صاحبزادی کی جس انداز میں سیاسی تربیت کی تھی اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ حسینہ سلطانی جمہور کے دور میں ملک میں فرد واحد کی حکمرانی کا طرز سیاست اپنا کرملک کو کئی عشرے اور پیچھے لے جائے گی۔ لیکن حسینہ واجد کے حالیہ کچھ عرصے سے انداز سیاست سے لگ رہا ہے کہ محترمہ سیاسی گھرانے میں پلنے بڑھنے حتی کہ عمر عزیز کا بیشتر حصہ سیاسی ریگزاروں میں گذار جانے کے بعد بھی سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔ ان کا سیاسی شعور ابھی طفلانہ ہے اور مستقبل میں ان سے کسی مفید فیصلے کی توقع کم ہی کی جائے گی۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ عمر رسیدگی نے بیگم حسینہ واجد کی سوچ او ر رویے میں منفی پہلو پیدا کردیا ہو‘‘۔
پانچ جنوری کے انتخابات میں چونکہ صرف حسینہ واجد کی جماعت کے لوگ میدان میں تھے، معدودے چند آزاد امیدواروں میں جیتنے والے پنچھی بھی حسینہ واجد ہی کے گھونسلے میں جا بیٹھے ہیں۔ انتخابات سے دو ماہ قبل سے شروع ہونے والے ہنگاموں میں اب تک 300 افراد ہلاک،1200 زخمی اور کم سے کم 5000 گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالے گئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے حراست میں لیے جانے والوں میں کئی ایسے سیاسی اور سماجی کارکن بھی شامل ہیں جو ماضی میں شیخ مجیب اور حسینہ واجد کے پرزور حامی رہ چکے ہیں۔
ملک کا موجودہ مسئلہ صرف سیاسی انارکی یا انتخابات کے دوبارہ انعقاد کا نہیں رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی سیاسی زمین کی زرخیزی کو باریک بینی سے جاننے والے کہنے لگے ہیں کہ حسینہ واجد نے اپنی آمرانہ پالیسی تبدیل نہ کی تو ان کا سیاسی مستقبل تباہ ہوجائے گا، کیونکہ حسینہ واجد اور ان کی جماعت سے تواترکے ساتھ کچھ ایسے فیصلے سرزد ہوتے جا رہے ہیں جو نہ صرف جمہوری ممالک ، بڑی طاقتوں بالخصوص بنگلہ دیش کو امداد دینے والے ملکوں اور اداروں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں بلکہ خود بنگالی عوام لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آ کر یہ ثابت کر چکے ہیں ’’ایسے دستور کوصبح بے نور کو‘‘ وہ نہیں مانتے۔
سیاسی انتشار نے ملک میں بدترین معاشی بحران کو جنم دیا ہے۔ تین ماہ سے کارخانے بند اور کاروبار زندگی بری طرح مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان نفسیاتی حدوں کے کئی ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دو ماہ میں بنگالی معیشت کو دو ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ حسینہ واجد کو توقع تھی کہ پانچ جنوری کے انتخابات کے بعد حالات معمول پرآجائیں گے لیکن وہ یہ بھول گئی تھیں کہ اٹھارہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو پولیس کی طاقت سے دبایا نہیں جا سکتا ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی قیادت میں حکومت کے قیام کا امکان ہے لیکن یہ حکومت زیادہ دیر تک چلتی دکھائی نہیں دیتی۔ غیرملکی مبصرین کے مطابق اپوزیشن اتحاد کی جانب سے دباؤ برقرار رہا تو اگلے چھ ماہ میں انتخابات کا بگل دوبارہ بجے گا۔ اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاء کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد موجودہ یک جماعتی انتخابات سے کسی قیمت پر راضی نہیں ہوا ہے۔ انتخابات دوبارہ ہوتے ہیں تب بھی عوامی لیگ سیاسی غنڈہ گردی کا ارتکاب کر سکتی ہے۔ کیونکہ دوبارہ الیکشن کی صورت میںحسینہ واجد ایک زخمی ریچھ کی طرح اپنے مخالفین کو پچھاڑنے کے لیے ہرحربہ استعمال کر سکتی ہے۔
’’دی ایشیا فاؤنڈیشن‘‘ کے ایک تازہ سروے اور بنگلہ دیش کی سیاست پر جاری تازہ مفصل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 80 فی صد بنگالی عوام حسینہ واجد کی پالیسیوں کے مخالف ہیں۔ سروے میں جن پندرہ فی صد لوگوں نے عوامی لیگ کی سیاست کی حمایت کی ہے وہ شیخ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ کے جیالے ہیں۔ اُنہیں ملک کو درپیش مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں حالانکہ سیاسی انارکی کے بعد حسینہ واجد کی پالیسیوں سے معیشت کی تباہی اور جماعت اسلامی کے خلاف انتقامی پالیسی اور اس کے رد عمل میں اٹھنے والے عوامی جذبات ملک کے بڑے مسائل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حسینہ واجد کی منشاء کے تحت ہوئے پارلیمانی انتخابات کو عالمی برادری نے قبول نہیں کیا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ بنگلہ دیش کی سیاست پر باریک بینی سے نگاہ رکھنے والے یہ خبر دے رہے ہیں کہ سیاسی بھونچال جلد ختم ہونے والا نہیں ہے بلکہ حسینہ واجد نے نہ صرف اپوزیشن جماعتوں میں نفرت کی آگ بھڑکا دی ہے بلکہ عوام کو مشتعل کرکے اپنے سیاسی مستقبل پرایک نیا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ وقت کا دھارا بہت تیز ہے اور حسینہ واجد نے اپنے لیے جو فصل بو دی ہے جلد اسے کاٹنا بھی پڑے گی۔
’’جنیوا2‘‘ اور یرموک کیمپ کا انسانی المیہ
شام میں جاری عوامی بغاوت کی تحریک اور صدر بشارالاسد کے مستقبل کے تعین کے لیے کئی ماہ کی مساعی کے بعد بالآخر اقوام متحدہ نے 22 جنوری کو دوسرے جنیوا اجلاس کا اعلان کیا۔ شام کی تہہ در تہہ پیچیدہ صور ت حال سے یہ کہنا مشکل ہے کہ عالمی سفارت کاری کی یہ کوشش ثمر آور ثابت ہوگی یا نہیں۔ مبصرین پہلے ہی یہ پیش گوئی کرچکے ہیں کہ جس طرح عالمی جرگہ داروں کے درمیان جنیوا اجلاس کی انعقاد کے ضمن میں اختلافات رہے اور شامی باغیوں کی جانب سے اجلاس میں شرکت اور عدم شرکت کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات نے پہلے ہی یہ اشارہ دے دیا تھا کہ ’’جنیوا 2‘‘ بھی مسئلے کے جلد او ر دیر پا حل میں کوئی اہم سنگ میل ثابت نہیں ہو سکے گا۔
مبصرین یہ عندیہ اس لیے بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ کیونکہ دو سال قبل پہلے جنیوا اجلاس میں جتنے بھی اہم نکات منظور کیے گئے تھے۔ بشارالاسد اور باغیوں دونوں نے ان میں سے کسی ایک نقطے پرعمل درآمد نہیں کیا ہے۔ نئی سفارتی اور سیاسی کوشش بھی وہی ’’دوستان شام‘‘ کر رہے ہیں جو’’جنیوا1‘‘ کے خاکہ ساز تھے۔ ’’العربیہ ‘‘ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ’’جنیوا2‘‘کی کامیابی فریقین کی سنجیدگی پر منحصر ہے۔
دوسری اہم طاقت امریکا، سعودی عرب، ایران اور روس ہیں۔ یہ چاروں خارجی قوتیں چاہیں تو شام کی خانہ جنگی کودنوں میں نہیں کم از کم ہفتوں اور مہینوں میں ضرور ختم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ بحران کو طول دینے اور اسے ختم کرنے میں ان ممالک کا کلیدی کردار سمجھا جاتا ہے۔شام کا دوسرا بڑا مسئلہ اندرون ملک جاری خانہ جنگی کی وجہ سے سنگین انسانی صورت حال ہے۔ جنیوا جلاس اگر شامی پناہ گزینوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کاباعث نہیں بن سکتا تو اس کے بعد شامی عوام کا عالمی برادری سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ سب سے زیادہ تباہ کن حالت دمشق کے جنوب میں قائم فلسطینی پناہ گزین کیمپ کی ہے۔
شام کی سرکاری فوج نے فلسطینیوں کے سب سے بڑے پناہ گزین کیمپ’’یرموک‘‘ کا پچھلے سات ماہ سے مسلسل محاصرہ کر رکھا ہے۔ صدر بشارالاسد کے خلاف جاری عوامی بغاوت کی تحریک کے دوران یرموک کیمپ میں بعض فلسطینی تنظیموں اور مقامی شامی آبادی پر بھی باغیوں کی حمایت کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ کیمپ میں فوجی کریک ڈاؤن میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق شام میں بشارالاسد کی فوج کے ہاتھوں کم سے کم 1921 فلسطینی مارے جا چکے ہیں، ان میں سے بیشتر یرموک کیمپ میں کریک ڈاؤن میں مارے گئے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے محصورین یرموک کی مدد کے کئی بار وعدے اور یقین دہانیاں کی گئی ہیں مگرمفلوک الحال عوام کی عملی مدد نہیں کی جا سکی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں بالخصوص ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ رواں موسم سرما میں یرموک کیمپ میں پچاس افراد بھوک سے مر چکے ہیں۔ ہزاروں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔موت کے اس خوفناک سائے میں عالمی طاقتیں دوسرے جنیوا اجلاس کی تیاری کر رہی ہیں۔ کیا جنیوا اجلاس میں مفلوک الحال لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کا کوئی انتظام ہو سکے گا۔
نوری المالکی نے عراق کو عوام کا ’’مقتل‘‘ بنا دیا
عراق کے سنی اکثریتی صوبہ الانبار میں ایک ماہ سے شورش نے صوبے کو بدترین تباہی اور عوام کو سنگین مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے ۔ وزیراعظم نوری المالکی کی غلط پالیسیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ایک ماہ سے جاری لڑائی کے دوران رمادی فلوجہ اور ابو غریب شہر سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔ تا دم تحریر چار سو افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق پندر ہ سے بیس ہزار افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
المالکی کی حکومت کے خلاف صوبہ الانبار کے شہر رمادی میں احتجاج اس وقت شروع ہوا تھا کہ جب مقامی قبائل نے امن وامان کے قیام میں فوج اور سیکیورٹی اداروں کے منفی کردار کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا۔ حکومت نے مظاہرین کے جائز مطالبات پر کان دھرنے کے بجائے اُنہیں طاقت کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی۔ دھرنا دینے والے ایک رُکن پارلیمنٹ احمد العلوانی کو وحشیانہ انداز میں گرفتا ر کرنے اور اس کے ایک بھائی کو گولیاں مار کر قتل کرنے کے واقعے نے حالات مزید کشیدہ کیے۔
حکومت اور شہریوں کے درمیان تناؤ کا فائدہ تیسرے فریق یعنی القاعدہ اور اس کی حامی تنظیموں بالخصوص’’دولت اسلامیہ عراق و شام‘‘ (داعش)کو ہوا۔ چنانچہ جنگجوؤں نے صرف ایک ہفتے کی لڑائی میں رمادی اور فلوجہ میں سرکاری فوج، پولیس اور مقامی قبائل کو شکست دے کر اہم تنصیبات پرقبضہ کر لیا۔ سنہ 2003ء کو امریکا کے عراق پر یلغار کے بعد اتنے کم وقت میں دو اہم شہروں پر القاعدہ کی یہ سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ نوری المالکی کی حامی فوجوں نے طاقت کا بھرپور استعمال کر کے باغیوں اور القاعدہ کے جنگجوؤں کو پسپا کیا ہے مگر رمادی اور فلوجہ کا مکمل کنٹرول اب بھی عراقی فورسز کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
؎مبصرین اس لڑائی میں وزیراعظم نوری المالکی کو سب سے بڑا قصور وار قرار دیتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ نوری المالکی دانستہ طور پر شیعہ سنی فسادات کو ہوا دے کر آئندہ پارلیمانی انتخابات میں اہل تشیع مسلک کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے مخالف مسلک کے لوگوں کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صدام حسین کی آمریت ختم کرکے جمہوریت قائم کرنے والے عالمی امن کے ٹھیکیدار اور ان کے کٹھ پتلی حکمرانوں نے عراق کو تباہی اور بربادی کے دھانے پہ لا کھڑا کیا ہے۔ عرب میڈیا میں اب یہ سوال اٹھائے جا رہے کہ کیا عراق پوری عرب دنیا میں فرقہ واریت پھیلانے کا باعث بنے گا ۔ اگربغداد سرکار نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو عراق میں جاری دہشت گردی، فرقہ واریت اور انتہا پسندی دوسرے عرب اور اسلامی ملکوں تک پھیلے گی۔ شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث پہلے ہی شیعہ ، سنی تنازع شدت اختیا رکرتا جا رہا ہے۔