My Thought In Solitude
The Divine Rose
مصنف:بختیار حیدر
قیمت: 1500روپے،صفحات: 506
ناشر: ماورا، شاہراہ قائد اعظم، لاہور
مشاہدہ اور تجربہ وہ بھٹی ہے جس میں پک کر انسان کندن بن جاتا ہے، یوں انسان پر عقل و دانش کے نئے در وا ہوتے ہیں، اس کی سوچ اور فکر دوسروں سے ممتاز ہو جاتی ہے، اس کی کہی ہوئی باتیں دوسروں کے لئے غور و فکر کا ذریعہ بن جاتی ہیں، وہ ان سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
ویسے بھی دانش کسی کی میراث تو ہے نہیں اللہ جسے چاہے عطا کرے، اور اللہ تعالی خود فرماتا ہے کہ جب وہ کسی کو کچھ دینا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت آڑے نہیں آسکتی اور جب وہ لینا چاہے تو تب بھی کوئی روک نہیں بن سکتا۔ بختیار حیدر کی تحریریں بھی دوسروں کو دعوت فکر دیتی ہیں اور یہی ان کی چاہت ہے کہ ان کے روشن کئے ہوئے چراغ سے اندھیرے دور ہوں، انھوں نے اپنے خیالات کا اظہار نظموں میں تو کیا ہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایسے خوبصورت فقرے بھی رقم کئے ہیں جو انسان کے قلب و نظر کو چھو لیتے ہیں۔ ان کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نئی نسل کے اندر کے انسان کو بیدار کرنا چاہتے ہیں۔
وہ انھیں اس مادیت پرستی کے دور میں احساسات کے خزانے سے روشناس کرانا چاہتے ہیں،کیونکہ احساس ہی انسان کو دوسروں کی خوشی اور غم سے آگاہی دیتا ہے ورنہ وہ مشین بن جائے، اپنی اس کوشش میں وہ کامیاب رہے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے اس سے قبل والیوم ون میں بھی ایسے ہی اپنی تحریروں کا خوبصورت گلدستہ قارئین کی خدمت میں پیش کر چکے ہیں۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے، نوجوانوں کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
۔۔۔
قربتوں میں دوریاں
مصنف: محمد اقبال فرہاد، عمارہ رزاق
قیمت:600 روپے،صفحات: 176
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور
کہتے ہیں بات وہی ہے جو دوسروں تک پہنچے اور اثر کرے، ورنہ وہ بات ہی نہیں، یا یوں کہیں گے کہ اس بات میں وہ بات نہیں۔ بات پہنچ تو جاتی ہے مگر اثر کے لئے ضروری ہے کہ بات مخاطب کی سمجھ میں آئے اور وزن رکھتی ہو، اب ضروری ٹھہرا کہ بات سمجھائی جائے وہ تب ہی ممکن ہے جب بات آسان، سادہ اور رواں ہو۔
زیر تبصرہ کتاب کی شاعری میں یہ عنصر موجود ہے، شاعر نے ناصرف اپنی فکر پیش کی ہے بلکہ یوں سمجھائی ہے کہ پڑھنے والے کو آسانی سے سمجھ میں آ جائے، اضافی خوبی یہ ہے کہ شاعری سے نابلد افراد کی مزید آسانی کے لئے اشارات بھی دیئے گئے ہیں تاکہ انھیں سمجھ آ سکے کہ شاعر کا مدعا کیا ہے۔ آخر میں نظمیں شامل کی گئیں ہیں ان کا بھی اپنا ہی الگ انداز ہے، جیسے
دل میں اب کوئی احساس نہیں
محبت کسی کو راس نہیں
سب ایک سے ہوئے کوئی خاص نہیں
محمد اقبال فرہاد کتب بینی کا شوق بڑھانے کیلئے ’’ ریڈنگ موومنٹ‘‘ چلا رہے ہیں جس میں انھوں نے اپیل کی ہے کہ کتاب کو قاری کی تلاش ہے اس تلاش میں ان کا ساتھ دیں اور اس نمبر 03344215517 پر رابطہ کریں ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
۔۔۔
خاکے واکے
مصنف: سجاد النبی
قیمت:400 روپے،صفحات:128
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور
خاکہ نگاری خاصا مشکل فن ہے کیونکہ اس میں آپ کسی فرد کی نظر آنے والی شخصیت کے ساتھ ساتھ نہ نظر آنے والی خصوصیات کو بھی بڑے شگفتہ انداز میں بیان کرتے ہیں وہ بھی اس طرح کہ وہ فرد جس کا خاکہ لکھا گیا ہے وہ بھی مزے لیتا ہے، جیسے کوئی بہروپیا کسی کو لوٹ کر لے جائے تو وہ بیوقوف بنائے جانے پر افسردگی کے ساتھ ساتھ مسکرا بھی رہا ہوتا ہے گویا بہروپیے کے فن کی داد دے رہا ہوتا ہے۔
سجاد النبی نے زیر تبصرہ کتاب میں اپنے دوستوں کے خاکے شامل کئے ہیں ۔ معروف ادیب اصغر ندیم سید کہتے ہیں ’’ خاکہ نگاری میں سجاد النبی نے دوستوںکی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن دوستانہ شرارت سے آگے نہیں بڑھے۔ ہمارے ہاں بہت سے کامیاب خاکہ نگاروں کا وطیرہ رہا ہے کہ اپنا ایک جملہ بچانے کے لئے دوست قربان کر دیتے ہیں ۔ مگر سجاد النبی نے دوستی کو دائو پر نہیں لگایا، احتیاط سے دامن کو حریفانہ کھینچا ہے۔‘‘ ممتاز ادیب ظفر اقبال کہتے ہیں ’’بعض خاکے اگر دشمن بنانے کے کام آتے ہیں تو بعض کے ذریعے لکھنے والا صاحب خاکہ کی کئی خوبیوں کو بھی سامنے لے آتا ہے۔
مصنف کا انداز نظر خلاف توقع خاصا مثبت رہا ہے اور ان تحریروں سے اس نے دشمن سازی کا کام نہیں لیا۔‘‘ مصنف نے خاکوں کے لئے اپنے شہر ’’ پسرور‘‘ کے دوستوں کا انتخاب کیا ہے اور بڑے شگفتہ انداز میں ان کا تعارف قاری سے کروایا ہے جیسے’’ناک نوکیلی، آنکھ نشیلی، رنگ کچا، باتوں کا فنکار، چھٹی کیلئے اکثر بیمار، ہارون ہے نام، لیکن روپے پیسے سے نہیں کلام۔‘‘ کتاب میں 39 خاکے شامل کئے گئے ہیں۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
۔۔۔
عطائے عقیدت
مصنف: جاوید القادری
نعت اپنے موضوعاتی حسن و تقدس اور ہیئتی تنوع کے اعتبار سے ادب کی جملہ اصناف میں سب سے محترم، مکرّم اور آفاقی صنفِ سخن کا درجہ رکھتی ہے۔ نعت دیگر اصناف کے مقابل انتہائی مشکل ترین اور حزم و احتیاط کی متقاضی صنف ہے، اس میں انہی موضوعات اور جذبات و خیالات کو بیان کرنا چاہئے جو شریعت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوں۔
’’نعت‘‘ صرف رسول خدا ﷺ کے لئے مخصوص ہے، لہٰذا ’’عطائے عقیدت ‘‘ میں رسول کریم ﷺکے ذاتی اوصاف، نسلی برتری، دوسرے پیغمبروں کے مقابلے میں فضیلت، رسول اللہﷺ کے آباو اجداد اور آل و اصحابؓ کی مدح کا ذکر ہے، نیز اپنے گناہوں کا احساس اور اشک ندامت، رسولﷺ سے شفاعت طلبی، اپنے غموں کے مداوا کے لئے رسول اللہ ﷺسے فریاد، مدینہ میں تدفین کی خواہش جیسے مضامین بھی اس کتاب کا موضوع ہیں‘‘۔ ’’عطائے عقیدت‘‘ جادیدالقادری کی مؤرخانہ بصیرت، اسلوب بیان کی ندرت، مثبت انداز بیان، داعیانہ شیریں بیانی، جاندار اور پر حکمت اسلوب، شستہ انداز تحریر کی بدولت اپنی نوعیت کی ایک بہت ہی منفرد تصنیف ہے۔
’’عطائے عقیدت‘‘ مخزن نعت و منتخب مقامات از سیرت طیبہ منظوم مصنف کی برسہابرس کی محنت شاقہ اور عرق ریزی کا جیتا جاگتا شاہکار ہے، واقعات کی صحت کے التزام کے ساتھ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے موضوع پر بلاشبہ یہ ایک جامع منظوم تصنیف ہے۔ شاعری میں سیرت نبوی ﷺاس طرح بیان کی گئی ہے کہ اس سے اسلام کی حقانیت کے ساتھ ساتھ فقہ رسول ﷺاور احادیث رسول ﷺکی بھی تبلیغ و تر غیب ہو جائے۔ دیدہ زیب و خوش نماسرورق، عمدہ کمپوزنگ اور بہترین طباعت کے ساتھ 664 صفحات پر مشتمل اس کتاب ’’عطائے عقیدت‘‘ کے ناشر تحریک تجدید ایمان ہیں، اس کی ڈیزائننگ بریرہ مغل نے کی ہے۔
۔۔۔
دن جوگزر گئے
مصنف:محمد الیاس کھوکھر (ایڈووکیٹ)
قیمت: 500 روپے،ناشر:مکتبہ فروغ فکراقبال،970 نظام بلاک، اقبال ٹائون،لاہور
زیرنظرکتاب پر کچھ لکھنے سے پہلے آپ کو تین باتیں یاد دلانا چاہتاہوں۔
اولاً:ہر انسان کی زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس مجموعے میں کامیابیوں کا حصہ زیادہ ہوتا ہے اور ناکامیاں بہت کم۔ ممکن ہے کہ آپ اس جملے کے آخری حصے سے اتفاق کرنے کے لئے آسانی سے تیار نہ ہوں تاہم حقیقت یہی ہے۔ تنہائی کے کچھ لمحات میسر ہوں تو قلم اور کاغذ لیجئے گا اور خوب سوچ سمجھ کے زندگی کے پہلے دن سے آج تک کامیابیوں اور ناکامیوں کو علیحدہ علیحدہ حصے میں لکھتے جائیے گا۔ یقیناً میری مذکورہ بالا بات سے اتفاق کریں گے۔
ثانیاً: دنیا میں جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں، وہ دوسرے کامیاب لوگوں سے سیکھتے ہیں، ان جیسی زندگی گزارتے ہیں۔
ثالثاً :کامیابی کے راز مشہور لوگوں کی زندگی ہی میں نہیں ہوتے۔ جوتے مرمت کرنے والے، سبزی اور پھل بیچنے والے، سر پر اینٹیں اٹھانے والے، حتیٰ کہ کسی چوراہے پر بھیک مانگنے والے، ان سب کی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جن سے ہم بہت سے سبق حاصل کر سکتے ہیں، اپنا مقام و مرتبہ بلند کر سکتے ہیں۔ زیرنظرکتاب کے مصنف وکیل تو ہیں ہی، لیکن کچھ اور بھی ہیں۔ ان کی زندگی کی کئی جہتیں ہیں۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک استاد بھی ہیں۔ دنیا میں استاد واحد شخص ہوتا ہے جس کی زندگی میں کامیابی کے راز سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔
’’دن جو گزرگئے‘‘ ایک آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔ بیس ابواب پر مشتمل یہ کتاب دانش کا مجموعہ ہے، وہ دانش جو مصنف نے اپنے مطالعہ کتب سے حاصل کی، ملکوں ملکوں گھوم پھر کر مشاہدے کی صورت میں جمع کی۔ یہ کتاب آپ کو بہت کچھ سکھائے گی۔ اس لئے اپنے گھر کے کتب خانے میں اسے ضرور شامل کیجئے گا۔
۔۔۔
سرور اور فسانہ ء عجائب
مصنف: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
قیمت:500 روپے
ناشر: سنگِ میل پبلی کیشنر لاہور۔042-37220100
’’فسانہء عجائب ‘‘ رجب علی بیگ سرور کی پہلی تصنیف ہے جو انھوں نے 1825 ء میں لکھی۔ اس کتاب کو اردو داستانوں میں اہم مقام حاصل ہے، اس کے بیسیوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں، بعض جامعات میں نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ بظاہر یہ کہانی اور داستان ہے، مگر اس میں رجب علی بیگ سرور نے نوابان و شاہان اودھ کے دورِ حکومت کے سیاسی، تہذیبی، تمدنی اور ثقافتی حالات کو اس خوبی سے بیان کیا ہے کہ یہ کاوش اردو ادب میں ایک عمدہ اور معیاری داستان ہونے کے ساتھ ایک خاص عہد کی تاریخ بھی بن گئی۔
اردو ادب کے قارئین آج تک اس کے سحر سے نہیں نکل پائے۔ ’’فسانہء عجائب‘‘ پر چند ایک مضامین ضرور لکھے گئے اور داستانِ تنقید کی بعض کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے مگر اس تاریخی داستان پر کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی گئی۔ اس لحاظ سے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زیرِ نظر کتاب بہت مستحسن ہے ۔ انھوں نے یہ کتاب 1971ء میں لکھی تھی اب نظرِ ثانی اور اضافوں کے ساتھ اسے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ نظرِ ثانی میں یہ بالکل نئی کتاب ہو گئی ہے ۔
اس مطالعے میں ہاشمی صاحب نے موضوع سے متعلق جملہ تنقیدی کام کو پیشِ نظر رکھا۔ سروری شاہ کار داستان کی کہانی ، کرداروں ، اسلوب ، مرقع نگاری اور لکھنوی تہذیب و ثقافت پر بڑی بالغ نظری سے تنقید کی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ فسانہ ء عجائب کی ادبی اہمیت ناقابلِ تردید اور مسلم ہے۔کتاب کوخوب صورت سرِ ورق اور اعلیٰ معیار کے ساتھ شائع کیا گیا ہے،200 صفحات کی کتاب بھی مناسب ہے۔
۔۔۔
شاہداحمد دہلوی کے شاہکار خاکے
مرتب: حکیم اعجازحسین چانڈیو
قیمت: 480 روپے،ناشر: بک کارنر، جہلم پاکستان
شاہد احمد دہلوی محسن ادب ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے تھے، میاں بشیر احمدکی دوسری بیوی کے بیٹے، ’’ساقی ‘‘ جیسے پروقار جریدے کے مدیر اور دلی ٹکسالی زبان کے سفیر تھے۔ علی سردار جعفری لکھتے ہیں:’’ شاہداحمد دہلوی کے ساتھ دلی کی ایک روایت ختم ہوگئی۔ ایک دور قبر میں اترگیا۔ شاہداحمد دہلوی کی زندگی ادب اور موسیقی سے عبارت تھی۔ ’’ساقی‘‘ کا شمار ان رسالوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے عہد میں ادیبوں کی ایک پوری نسل کی تربیت کی۔ کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، اختر حسین رائے پوری اور بہت سے ادیب اس افق سے طلوع ہوئے۔
جن ادیبوں کی شخصیت اور تحریروں سے عصمت چغتائی متاثر ہوئی ہیں ان میں شاہداحمد دہلوی بھی ہیں۔‘‘ زیرنظرکتاب میں ا نھوں نے مولوی نذیراحمد ہلوی، میر ناصرعلی، استادبیخود دہلوی، خواجہ حسن نظامی، بشیرالدین احمد دہلوی، مولانا عنایت اللہ، مرزا عظیم بیگ چغتائی، میراجی، منٹو، جگرمرادآبادی،ایم اسلم، جوش ملیح آبادی، جمیل جالبی اور مرزاحیرت دہلوی سمیت بہت سی شخصیات کی مکمل عکاسی کی ہے۔
اس کتاب میں شاہد احمد دہلوی نے اپنا خاکہ بھی لکھاہے، چھ برس کے تھے کہ ممتا سے محروم ہوئے، والد اچھی مالی حیثیت کے حامل تھے، جب ان کا انتقال ہوا تو شاہد احمد دہلوی کے حصے میں پچاس ہزار روپے نقد آئے جبکہ ایک جائیداد جس کا کرایہ 200 روپے ماہانہ تھا۔ شاید یہ 1925ء کی بات ہے لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہی شاہد احمد ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ بننے پر مجبور ہوئے، انھیں صرف ساڑھے چارسو روپے ماہوار ملتا تھا۔ پھر یہ بھی وقت آیا کہ دونوں ملکوں کا یہ صاحب طرز انشاپرداز، واحدزباں داںگوشہ نشینی پر مجبور ہوگیا۔’بک کارنر‘ نے ان خاکوں کو انتہائی خوبصورت اندازمیں شائع کرکے مضبوط جلد میں قارئین کے لئے اس اندازمیں پیش کیا جو شاہد احمد دہلوی کے خاکوں کے شایان شان تھا۔
۔۔۔
نظر ِ ستم
شاعر: ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی
صفحات: 224، قیمت: د رج نہیں
ناشر : عظمٰی پبلی کیشنز، اچھرہ ، لاہور
ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اردو کے پہلے عرب شاعر ہیں۔ وہ عربی النسل ہونے کے باوجود اردو نہ صرف روانی سے بولتے اور لکھتے ہیں بلکہ شاعری بھی کرتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ نظر ِ ستم ‘‘ ان کا تازہ شعری مجموعہ ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’سر کوہسار‘‘ 1985ء میں منظر ِ عام پر آیا تھا اور پھر اس کے بعد صرف 34 برسوں میں ان کا 68 واں شعری مجموعہ سامنے آگیا ہے۔
گویا ہر چھ ماہ میں ایک کتاب یا ہر سال میں دو کتابیں۔ ایک غیر اردو دان کی اس قدر زود نویسی کی اردو شعر و ادب کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ڈاکٹر زبیر فاروق پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ ایم بی بی ایس کی ڈگری انہوں نے ڈاو کالج سندھ سے حاصل کی اور یہیں پر انہوں نے اردو زبان پر دسترس حاصل کی۔ ڈاکٹر زبیر فاروق کی شاعری سیدھی، رواں دواں، سلیس اور سادہ ہے۔ مضامین ہجرو وصال، عشق و محبت کے ہیں۔
۔۔۔
غالب از غالب (تین جلدیں)
ترتیب و تدوین: میاں شہباز علی
ناشر: شیخ مبارک علی، 62 مزنگ روڈ، صفاں والا چوک، لاہور
مرزا غالب پر یہ اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے۔ خطوط میں جناب غالب نے اپنی زندگی کا جو احوال بیان کیا، میاں شہباز علی نے اسے زمانی ترتیب (Chronological order) دے دی ہے۔ اس طرح غالب کے اپنے الفاظ میں ان کی کہانی سننے کا لطف آتا ہے۔ ممتاز فکشن نگار اکرام اللہ کے بقول، ’’کتاب دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ غالب نے اپنی خودنوشت سوانح حیات لکھ کر کہیں سنبھال کر رکھ دی تھی، اب کہیں اس پر کسی کی نظر پڑی تو اس نے طباعت سے آراستہ کر کے ایک تحفے کے طور پر غالب کے سخن فہموں کی خدمت میں پیش کر دی ہے۔‘‘
تین دیدہ زیب جلدوں میں شائع ہونے والی غالب کی اس منفرد سوانح عمری کو 34 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب آبائو اجداد سے متعلق ہے، جبکہ دوسرے باب میں وہ اپنے سفر کلکتہ کی داستان سناتے ہیں۔ تیسرے باب میں پنشن کے قضیے کا بیان ہے، جس میں غالب عمر بھر الجھے رہے۔ چند دوسرے ابواب کے نام اس طرح ہیں: ’’شوق گنجفہ و اسیری‘‘ ، ’’دیوان ریختہ غالب‘‘ ، ’’دربار ظفر‘‘ ، ’’دلی جو ایک شہر تھا‘‘ ، ’’خط و کتابت‘‘ ، ’’مذہب و مسلک من‘‘ ، ’’لطائف و ظرائف غالب‘‘ ، ’’پیری و صد عیب‘‘۔ 1497 صفحات پر مشتمل اس مجموعے (تین جلدیں) کی قیمت سات ہزار روپے درج ہے۔ کتاب میں پروف کی غلطیاں موجود ہیں، امید ہے اگلے ایڈیشن میں انہیں درست کر لیا جائے گا۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.