حیرت کی بات تو اس وقت ہوتی جب امن کا نوبل انعام ایتھوپیا کے وزیراعظم ایبی احمد ایبی کے بجائے کسی اور کا نصیب بن جاتا۔ ویسے تو اس انعام کے سب سے زیادہ خواہش مند امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں اور اپنی اس خواہش کا وہ بار بار اظہار بھی کرتے رہے ہیں، لیکن اسے ان کی بدقسمتی کہا جائے یا باقی دنیا کی خوش قسمتی کہ وہ ہر بار اس انعام کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔ ٹرمپ صاحب کے بقول نوبیل امن انعام کی کمیٹی ان کے ساتھ ہر بار ناانصافی کر جاتی ہے، جب کہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ ان کے سینے پر ایسی بہت سی کام یابیوں کے تمغے ہیں جس کی بنا پر اس انعام کا ان سے بڑا حق دار اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔
لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے سینے پر سجے یہ تمغے سوائے ان کے اور کسی کو کیوں نظر نہیں آتے؟ بہرحال دل کے ارمانوں کا تو کام ہی آنسوؤں میں بہہ جانا ہوتا ہے، وہ بہہ رہے ہیں۔ لیکن یہاں ہمارا موضوعِ گفتگو ہیں ایتھوپیا کے جواں سال اور ذہین حکم راں ایبی احمد، جو اس سال نوبیل امن انعام کے حق دار ٹھہرے ہیں۔ ایتھوپیا کے نومنتخب اور باہمت وزیر اعظم ایبی احمد، اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے دن سے جو حکمتِ عملی اپنا کر چلے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑے ہی عرصے میں ایتھوپیا کی تقدیر بدلنا شروع ہوگئی۔ وہ ایتھوپیا جہاں سالوں سے خانہ جنگی کا راج تھا، قومی وسائل کا ایک بڑا حصہ اریٹیریا کے ساتھ جاری سرحدی تنازعات کی نذر ہورہا تھا، وہاں ایبی احمد کی لائی گئی اصلاحات قابلِ قدر تبدیلیوں کا باعث بننے لگیں۔ عوام کے چہروں پُرسکون اترا ۔ معیشت کے ڈولتے پہیے کو قرار آیا اور پھر مختصر وقت میں ہی ایک ایسا نظام تشکیل پانے لگا کہ دنیا بھر کی نگاہیں ایتھوپیا کی جانب مرکوز ہونے پر مجبور ہو گئیں اور ایبی احمد کو بلاشبہہ ایک جینوئین لیڈر قرار دیا جانے لگا۔
اس سال امن کے نوبیل انعام کے لیے سویڈن کی باہمت ، اور کم سن بچی گریٹا تھنبرگ کو سب سے پسندیدہ شخصیت قرار دیا جارہا تھا ۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے انفرادی سطح پر شروع ہونے والی گریٹا کی کاوشیں آج دنیا کے ہر ملک میں اپنا رنگ بکھیر رہی ہیں۔ اس بچی کی تقلید میں ہر جمعہ کو دنیا کے بیشتر ممالک کے بچے اسکول اسٹرائک کرکے سڑکوں پر آبیٹھتے ہیں اور دنیا بھر کے حکم رانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے فی الفور اقدامات کر کر اس دنیا کو ان کے اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ ترین بنایا جائے۔ اس بڑے مقصد کے حصول کے لیے گریٹا کا عزم اور حوصلہ اگرچہ مثالی اور ایک علیحدہ تفصیلی موضوع ہے لیکن میرے نزدیک ایتھوپیا کے وزیراعظم ایبی حمد کو اس بڑے انعام کے لیے منتخب کرنا اور گریٹا تھنبرگ پر ان کو فوقیت دینا ایک دانش مندانہ فیصلہ ہے۔
اس وقت صرف افریقا کے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے بیشتر ممالک کسی نہ کسی تنازعے، خانہ جنگی یا انتشار کی لپیٹ میں ہیں۔ ان ممالک میں جو حکم راں بھی اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتا ہے وہ گذشتہ حکومتوں کی بُری کارکردگی کا رونا روتے روتے ہی اپنا دورِ اقتدار اور بچا کھچا اثاثہ ہڑپ کر کے عوام کو الوداع کہہ کر رخصت ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ مزید انتشار، بد امنی، بے چینی اور معاشی زبوں حالی کی صورت میں متعلقہ ممالک کا مقدر بن جاتا ہے۔
ایبی احمد کا مختصر دورِحکومت ان گنت مسائل میں گھرے، ان بے شمار ممالک کے لیے ایک زندہ مثال اور اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ ہمت اور ارادے سے انسان بد سے بدترین صورت حال پر بھی قابو پالیتا ہے۔ ایبی احمد کو دیا جانے والا امن کا نوبیل انعام پاکستان سمیت ان تمام ممالک کے لیے ایک چیلنج ہے جن کا ایمان ہے کہ سالوں کا بگاڑ دنوں اور مہینوں میں دور نہیں کیا جاسکتا۔ گو یا یہ ایک اعلان ہے کہ انسان جو چاہتا ہے وہ بالآخر حاصل کر ہی لیتا ہے۔
ایتھوپیا سو ملین باشندوں کی سرزمین اور نائیجیریا کے بعد براعظم افریقا میں آبادی کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے، لیکن اس کی معیشت کی ترقی کی رفتار اس وقت خطے میں سب سے زیادہ تیز ہے، جس کا سہرا بلاشبہ نئے وزیراعظم کے سر جاتا ہے۔ ان کی اصلاحات دیکھ کر بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف ایتھوپیا ہی نہیںبلکہ افریقا کی تاریخ میں ایبی احمد جیسا ریفارمر پہلے کبھی نہیں آیا۔ ایبی احمد نہایت قابل اور تعلیم یافتہ وزیراعظم ہیں، جن کا سب سے بڑا مقصد ایتھوپیا کو نسلی گروہوں کی باہمی چپقلش سے نجات دلا کر پُرامن اور متحد ملک کی حیثیت سے ابھارنا ہے۔
اپنے منصب پر فائز ہوتے ہی انھوں نے ہزاروں سیاسی قیدیوں کی جیل سے رہائی کا حکم نامہ جاری کیا۔ حکومتی سطح پر خواتین کو زیادہ نمائندگی دی اور خواتین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کم بدعنوان ہوتی ہیں، اس لیے وہ ملک میں امن اور استحکام لانے میں زیادہ سے زیادہ مدد گار ثابت ہوں گی۔ حتٰی کہ وزیردفاع جیسے حساس منصب پر بھی ایک خاتون کو فائز کیا گیا۔ یوں ایتھوپیا روانڈا کے بعد افریقا کا وہ دوسرا ملک بن گیا، جہاں وزراء کی کل تعداد کا نصف خواتین پر مشتمل ہے۔ چودہ سال قبل اس وقت کی ایتھوپین حکومت نے، اٹھارہ ماہ کی جیل کاٹنے کے بعد، اپوزیشن لیڈر کو امریکا جلاوطن کردیا تھا۔ ایبی احمد نے نہ صرف اس کو ملک واپس بلایا بلکہ قومی الیکشن بورڈ کے سربراہ کی حیثیت سے تعینات کر کے دنیا کو مزید حیرت زدہ کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ اریٹیریا کے ساتھ سالوں سے جاری کشیدگی ختم کرنے اور مشترکہ سرحد دوبارہ کھولنے میں بھی ایبی احمد کا کردار سراہے جانے کے قابل ہے۔
اریٹیریا ایتھوپیا کا بدترین دشمن ملک تھا۔1991میں اس نے ایتھوپیا سے آزادی حاصل کی۔ اس کے بعد بھی دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ خون خرابے کا باعث بنا رہا، یہاں تک کہ مختصر عرصے میں ستر ہزار لوگ اس تنازعے میں جان سے گزر گئے ، جس کے بعد سن 2000 میں دونوں ممالک کے درمیان ایک امن معاہدہ بھی ہوا لیکن یہ معاہدہ محض کاغذات تک محدود رہا اور مکمل امن عملی طور پر خطے کا مقدر بن نہ سکا۔
حتٰی کہ 2018میں اقتدار ایبی احمد کے ہاتھوں میں منتقل ہوگیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ دونوں ممالک کے لوگوں کو سکھ کا سانس نصیب ہوا۔ ایبی احمد کا یہ کارنامہ اس قدر بڑا تھا کہ ان کو اس بنیاد پر امن کے نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایبی حمد نے کینیا اور صومالیہ اور سوڈان اور جنوبی سوڈان کے درمیان سالوں سے جاری تنازعات کے حل میں بھی ثالثی کی اور ان ممالک کو مذاکرات کی میز پر لابٹھایا۔ ساتھ ہی انھوں نے ملکی معیشت کو ریاستی گرفت سے آزاد کر کے پنکھ پھیلانے کے جو مواقع فراہم کیے، اس کے لیے ایتھوپیا کی سرزمین ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔
ارومو قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایبی احمد نے جب وزارتِ عظمی کا منصب سنبھالا تو عوام سے ایک ہی وعدہ لیا کہ وہ ’’زخم بھرنے کے لیے‘‘ ان کا ساتھ دیں گے۔ زخم بھرنے کی اس اپیل کا ایتھوپیا میں خیرمقدم کیا گیا اور ایبی احمد نے بھی اس وعدے کو کسی قدم پر فراموش نہیں کیا۔ نہایت کم وقت میں انھوں نے ایتھوپیا کی قسمت بدلنے کے لیے جو سنجیدہ اور موثر اقدامات کیے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ان کا نام اس سال کے ٹائم میگزین میں سال کی سو بااثر ترین شخصیات کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ بلاشبہہ ایبی احمد کی سمجھ داری ان کی عمر سے کہیں زیادہ ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں تبدیلی کی خواہش کی قیمت ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں نے اپنا خون بہا کے ادا کی ہے۔ اَسّی سے زیادہ نسلی گروہوں اور خانہ جنگی کے حامل ملک، ایتھوپیا میں ایبی احمد نے اپریل2018 میں اقتدار سنبھالا تو ان کے ذہن میں ’’حقیقی‘‘ تبدیلی کا پورا نقشہ موجود تھا۔ شرپسند عناصر نے ان کے نیک ارادے بھانپتے ہوئے کئی بار ان کے قتل کی منصوبہ بندی کی لیکن ایبی احمد ایتھوپیا کی قسمت بدلنے کے لیے زندہ بچ گئے۔
مسلمان باپ اور عیسائی ماں کے بطن سے جنم لینے والے ایبی احمد جاپان کی طرز پر ہتھیاروں کے بجائے دماغ کے استعمال پر زور دیتے ہیں۔ انھوں نے 2010 میں اپنا سیاسی کیریئر شروع کیا اور کم وقت میں ہی دلوں میں گھر کر لیا۔ ملک کے سربراہ کی حیثیت سے وہ پُرامید بھی ہیں اور فکرمند بھی۔ ایک طرف امید ان کا حوصلہ بڑھاتی ہے تو دوسری طرف فکر انھیں تھک کر گرنے نہیں دیتی۔
ایبی کی تمام اصلاحات اور منصوبوں کے باوجود یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ ایتھوپیا میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ کرپشن کی جڑیں اندر تک پھیل چکی ہیں۔ خانہ جنگی کے باعث ذہین اور باصلاحیت باشندوں کی ایک بڑی تعداد ملک چھوڑکر جا چکی ہے۔ نسلی تنازعات اب بھی ایک بڑے خطرے کی صورت ایتھوپیا پر منڈلا رہے ہیں، لیکن وہ ان سب چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پُرعزم ہیں۔
ایبی احمد نہایت تعلیم یافتہ وزیر اعظم ہیں۔ انہوں نے عدیس ابابا یونی ورسٹی سے امن اور سیکیورٹی کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اپنی نوجوانی میں انہوں نے الدرغوی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد بھی کی اور اس کا دور ختم ہونے کے بعد فوجی تربیت حاصل کی اور تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے لیفٹینینٹ کرنل بن گئے ۔ 1995میں وہ اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ بن کر روانڈا میں تعینات ہوگئے۔ روانڈا اس وقت بدترین نسل کشی کے دور سے گزر رہا تھا۔ وہاں صرف سو دنوں میں آٹھ لاکھ افراد قتل ہو چکے تھے۔
2010 میں ایبی احمد نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور روموپیپلز ڈیموکریٹک آرگنائزیشن کے رکن بن گئے۔ اس وقت وہ افریقا کے سب سے کم عمر حکم راں ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جس وقت ایبی احمد نے ایتھوپیا کا اقتدار سنبھالا اسی سال چند ماہ کے وقفے سے پاکستان میں بھی تبدیلی کے بلند بانگ دعووں اور وعدوں کے ساتھ عمران خان نے اقتدار سنبھالا۔ دونوں کا وزارتِ عظمٰی کے لیے یہ تجربہ پہلا تھا۔ ایبی احمد عمران خان سے عمر میں کم ہو کر بھی سمجھ داری میں بازی لے گئے اور اس بات کو بہ خوبی سمجھ کر میدان میں آئے کہ مملکتیں ذاتی تجربوں کی بھینٹ چڑھنے کے رسک کی متحمل نہیں ہوا کرتیں۔ کسی بھی ملک کے عوام اپنا ووٹ، حکم رانوں کی شکل و صورت دیکھ کر نہیں بلکہ ان کا وہ عزم، حوصلہ، ہمت، جنون، جذبہ اور اخلاص دیکھ کر دیا کرتے ہیں، جو کسی بھی معاشرے کو پستی سے اٹھا کر اوپر لے جانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ احمد ایبی ان صفات سے مالامال ہیں، ان کی صورت میں ایتھوپیا کو مسیحا مل گیا ہے، جو ان کے رِستے زخموں کو تیزی سے بھر رہا ہے لیکن ہم بہ حیثیت قوم اب تک کسی مسیحا کے انتظار میں ہی ہیں۔
ایتھوپیا کی تاریخ کا مہنگا ترین عشائیہ
یہ دنیا کا سب سے منفرد جب کہ ایتھوپیا کی تاریخ کا سب سے مہنگا ڈنر تھا۔ ایتھوپیا کے جواں سال اور پُرجوش وزیراعظم ایبی احمد ایک ایک مہمان کا خود استقبال کر رہے تھے۔ ڈنر کے دوران کسی مخصوص کرسی پر براجمان ہونے کے بجائے وہ ٹیبل کے گرد گھومتے ہوئے مہمانوں کو ٹھیک طرح سے کھانے کی پیشکش کرتے رہے۔ یہ ڈنر اس اعتبار سے بالکل منفرد تھا کہ دو سو سرمایہ داروں اور مختلف قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے اس میں شرکت کے لیے فی کس، ایک لاکھ تہتر ہزار ڈالر کی بھاری رقم ادا کی تھی۔
فنڈ ریزنگ ڈنر رواں سال فروری کے مہینے میں ایتھوپیا کے دارالحکومت عدیس ابابا میں منعقد کیا گیا۔ یہ ایبی احمد کے ان اچھوتے اقدامات میں سے ایک تھا، جو وہ ایتھوپیا کو شدید بحران سے نکالنے کے لیے اب تک کرتے آئے ہیں۔ اس ڈنر سے انھوں نے خطے میں انفرااسٹرکچر کی بحالی کے لیے ایک بلین ڈالر کی بڑی رقم جمع کی ، جس کے لیے ان کا عزم تھا کہ یہ رقم تین سالہ منصوبے کی تکمیل پر لگائی جائے گی، جس میں دریاؤں کی صفائی، دارالحکومت میں خوب صورت عمارتوں کی تعمیر اور تفریحی پارکوں کا قیام شامل ہے۔ اس اچھوتے اور تاریخی ڈنر کے بعد شریک مہمانوں کا یہ کہنا تھا کہ ڈنر تو ایک بہانہ ہے، اصل میں تو ہم ایتھوپیا کے لیے امید کی کرن دیکھ کر بہت مطمئن ہوئے۔
The post ایبی احمدامن کے نوبیل انعام کے صحیح حق دار appeared first on ایکسپریس اردو.