سام راجیت کے دَور میں برطانوی سلطنت کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا اور آج صورت حال یہ ہے کہ خود اسے اپنے ’’یونین جیک‘‘ کے دفاع اور اسے برقرار رکھنے کی فکر لاحق ہے۔
تین برسوں سے برطانوی حکومت کے یورپی یونین سے علیحدگی یعنی ’’بریگزٹ‘‘ دردِسر بنا ہوا ہے۔ برطانیہ کا یورپی اخراج کا فیصلہ دو وُزرائے اعظم ڈیوڈ کیمرون اور تھریسامے کے عہدوں سے رخصتی کی وجہ بن چکا ہے، کیمرون بریگزٹ کے حق میں تھے جب کہ تھریسامے یورپ سے انخلاء چاہتی تھیں۔ نئے وزیراعظم بورس جانسن بھی بریگزٹ کے حوالے سے سخت عتاب میں ہیں۔
وہ بریگزٹ کے بھرپور حامی ہیں ان کے لیے بھی یہ معاملہ ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ 43 سال پہلے برطانیہ نے بڑی منت سماجت کرکے یورپی یونین میں جگہ پائی تھی لیکن اب عوام کی اکثریت یورپی اتحاد سے انخلاء چاہتی ہے۔ 28 ممالک کی یورپی یونین میں شامل برطانیہ واحد ملک ہے جس نے باقاعدہ ریفرنڈم کو بنیاد بنایا اور یورپ کو چھوڑ دینے کا اصولی فیصلہ کیا تھا۔
جغرافیائی سرحدوں کے لحاظ سے بھی یورپ سے تقسیم برطانیہ کبھی بھی یورپی علامتی ریاست نہیں رہا ہے اور فرانس کی سپورٹ سے اس نے یونین میں جگہ پائی اور اس کی یونین میں شمولیت سے پہلے یورپی معاشی تعاون(ECC) کی بدولت وہ آزاد تجارت اور آزاد منڈی کی صورت میں اپنے پاؤں گاڑ چکی تھی۔
جنوری 1999 ء سے یورپی کرنسی ’یورو‘ کے اجراء سے اب اتحادی یونین کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے اور وہ پاؤنڈ اور ڈالر کا مقابلہ کررہی ہے جس کی بدولت یورپ کو واحد خطّے میں بدلنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے، جو 50 کڑوڑ سے زائد آبادی کے براعظم کو سماجی، سیاسی و معاشی استحکام مہیا کررہی ہے، جس کی بہتری و خوش حالی کے لیے رکن ممالک باہم مل کر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اگرچہ 2019 ء میں برطانیہ کا یورپی یونین چھوڑنے کا معاملہ پہلے طے پاچکا ہے لیکن اب ڈرامائی طور پر ملکی پارلیمنٹ میں صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔
جنوری 2019 ء میں ہاؤس آف کامن یا ’’دارالعوام‘‘ میں وزیراعظم مے کی پے درپے تاریخی شکستوں نے بریگزٹ معاملہ کو اور زیادہ پیچیدہ بنادیا ہے۔ مارچ میں یورپی یونین سے انخلاء کے عوامی ’’ریفرنڈم‘‘ پر یہ سوال بہت زیادہ گردش میں رہا کہ بریگزٹ پر ڈیل ہوتی یا نہیں؟ دارالعوام اور دارالامراء نے ’’نوڈیل بریگزٹ‘‘ کا راستہ عملی طور پر بند کردیا ہے جب کہ نئے وزیراعظم پرزور طریقے سے کہہ رہے ہیں کہ اب کوئی معاہد ہ ہوتا ہے یا نہیں، برطانیہ 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے نکل جائے گا۔ وہ کسی ڈیل کے حامی نہیں۔ بحران کے آغاز سے حالیہ تین سالوں میں”Brexit” پر ہونے والی پیش رفت کا ایک جائزہ پیش خدمت ہے۔
2014ء کے برطانیہ کے اسکاٹ لینڈ سے جڑے رہنے یا الگ ہونے کے بڑے ریفرنڈم میں ڈیوڈکیمرون سرخرو ہوگئے تھے اور اسکاٹ لینڈ برطانیہ کے ہاتھوں سے نکل جانے سے بچ رہا تھا لیکن 2016 ء کے ’’بریگزٹ ریفرنڈم‘‘ میں وہ عوامی اکثریت کی رائے کا دفاع نہ کرسکے اور بدستور یورپی یونین کا حصّہ بنے رہنے پر اپنا رول ادا نہیں کرسکے اور اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم کے عہدے سے سبک دوش ہوگئے تھے۔
جون 2019 ء میں ان کی جانشین وزیراعظم تھریسامے بھی بریگزٹ میں ناکامی پر مستعفی ہوچکی ہیں۔ برطانیہ کو 1945ء کے بعد سب سے بڑا معاشی بحران کا سامنا ہے جب کہ یونین کے اکثریتی ارکان چاہتے ہیں وہ بنا ڈیل کے یورپ سے باہر نکل جائے جب کہ برطانیہ کی ڈیفالٹ پوزیشن بھی یہی ہے۔ بریگزٹ نے ملکی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے اس سے نہ صرف معاشرہ تقسیم ہوا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں میں دراڑیں پڑچکی ہیں۔ اب اہم سوالات یہ سامنے ہیں کہ نئے وزیراعظم بورس جانسن بھی گھر کو لوٹیں گے یا وہ برطانیہ کی تقسیم کا موجب بنیں گے؟
کسی معاہدے کا حصّہ بن جانے سے آپ کو سو فی صدی فوائد تو کبھی حاصل نہیں ہوسکتے، آپ کو کہیں فائدہ مل رہا ہوتا ہے تو کہیں منفی اثرات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں یورپی یونین میں شمولیت کو دیکھتے ہوئے برطانوی عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ وہ اپنی آزادی کو محدود بنا چکے ہیں اور یورپی اقوام یونین کا حصہ ہونے کی بنا پر اپنے ملک میں ان سے مراعات کو شیئر کرنا پڑتا ہے، جب کہ اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ برطانیہ کے ذہین طالب علموں کے لیے یورپ میں تعلیم کے شان دار مواقع میسر آرہے ہیں اور وہ اسکالرشپ پر اعلٰی تعلیم حاصل کرتے ہی جب کہ سائنسی تحقیق کاروں کو بھی دیگر اقوام کے ساتھ سیکھنے اور مہارت کے یکساں مواقع میسر آرہے ہیں۔
اسی صورت حال کے پیش نظر عظیم آنجہانی سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ نے بریگزٹ کی سخت مخالفت کی تھی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تعلیمی وتحقیقی نقصانات سے آگاہ کردیا تھا، جب کہ برطانوی سرکار کی سوچ یہ بھی ہے کہ یونین سے الگ ہوکر آزادانہ طور پر تجارت کرسکتے ہیں اور چین کے معاشی منصوبوں میں شریک ہوکر اپنی ملکی معیشت کو زیادہ مستحکم بناسکتے ہیں۔
اسی لیے برطانیہ کے پاکستان، چین اکنامک منصوبے (CPEC) میں حصّے دار بننے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ یاد رہے کہ برطانیہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔ بریگزٹ کا معاملہ بظاہر سال رواں میں اپنے انجام کو پہنچ جاتا تھا جب باقاعدہ طور پر مارچ 2019 ء کو اسے یونین سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرنا تھی، لیکن بدلتی ڈرامائی صورت حال کے بعد بریگزٹ پر برطانیہ میں عمومی رائے خاصی تبدیل ہوچکی ہے۔ حالیہ سال کی دارالعوام میں سابق وزیراعظم تھریسا مے کو متواتر تین بار زبردست پسپائی کا سامنا کرنا پڑا تھا جب سے وزیراعظم تھریسامے نے اقتدار سنبھالا تھا ان کے لیے بریگزٹ وبال ِجان بنا رہا۔ ان کے مخالفین پارلیمانی ارکان بنا کسی ڈیل کے نکلنے کو تیار نہیں پھر برطانوی سیاست میں بھونچال تو آنا ہی تھا کہ سیدھی سمت میں جاتے ہوئے اچانک یوٹرن لیا گیا۔ برطانیہ یورپ سے نکلنے کی صورت میں 39 ارب پاؤنڈ یونین کو ادا کرنے کا پابند ہے جب کہ ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے۔
لندن کے سابق میئر اور صحافی بورس جانسن نے اپنی ہی کنزرویٹو پارٹی کی وزیراعظم کے خلاف مہم چلائی تاکہ یورپی یونین سے باہر نکلا جاسکے۔ انہوں نے حلف اٹھاتے ہی کہا تھا کہ بریگزٹ پر کسی ڈیل کے بنا ہی یورپی اتحاد کو چھوڑ دیں گے۔ وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کتنے سنجیدہ ہیں اس بات کا اندازہ ان کے حالیہ اس اقدام سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
جس میں انہوں نے اکتوبر کے مہینے میں بریگزٹ کو یقینی بنانے کے لیے پارلیمنٹ کو پانچ ہفتے کے لیے منسوخی کا حکم دیا تھا تاکہ اس دوران ان کے خلاف کوئی تحریک نہ آسکے۔ یہ سراسر غیرجمہوری روایت ہے اور ان کی پارلیمنٹ کو معطل یا منسوخ کرنے کے عمل کو برطانیہ میں نہایت تشویش اور سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اسے جمہوریت پرا یک بڑا حملہ سمجھا گیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے فیصلے کے خلاف ارکان پارلیمنٹ اور بنا کسی معاہدے کے یورپی یونین سے نکلنے ’’نو ڈیل بریگزٹ‘‘ کے مخالفین نے شدید ردعمل دکھایا ہے۔
لندن اور دوسرے شہروں میں اس کے خلاف بھرپور مظاہرے کیے گئے۔ لیبر پارٹی کے شیڈو چانسلر جان میکڈانل نے بھی اقدام پر حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’بریگزٹ کے بارے میں کوئی رائے ہو، اگر وہ وزیراعظم کو جمہوری اداروں کی آزادانہ کاروائی روکنے کی اجازت دے دیں تو پھر وہ انتہائی خطرناک راستے پر گام زن ہیں۔‘‘ دارالعوام کے اسپیکر جان بروکو بھی بظاہر اسی خیال کے حامی لگتے ہیں جنہوں نے حکومتی منصوبے کو آئین کی بے حرمتی قرار دیا ہے۔ جان بروکو پہلے ہی اپنے استعٰفی کا اعلان کرچکے ہیں۔ وہ بریگزٹ کے خلاف رہے ہیں دوسری طرف کنزرویٹو پارٹی کے ایم پی پولین لیتھم کہتے ہیں کہ انہیں اطمینان ہے کہ جانسن وہ کچھ کررہے ہیں جو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ضروری ہے، جب کہ عوامی رائے سامنے ہے۔ لیبرپارٹی کی سنیئر پارلیمنٹیرین مارگریٹ بیکٹ نے اپنے تبصرے میں کہا کہ ہماری تاریخ میں پارلیمان کے بغیر حکومتوں کی نظیر موجود ہے لیکن جب آخری بار ایسا ہوا تھا تو اس کا نتیجہ خانہ جنگی تھا۔
چناںچہ سپریم کورٹ سے کی گئی 70 ارکان پارلیمان کی اپیل پر کورٹ کے گیارہ ججوں نے پارلیمان کی منسوخی کے حکومتی آرڈر کو یکسر مسترد کردیا ہے اور ان کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ قانون شکنی کے مترادف ہے۔ کورٹ کی صدر لیڈی ہیل نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ پارلیمان کی منسوخی کی درخواست بھی اصلیت میں ایک غیرقانونی عمل تھا کیوںکہ اس سے پارلیمنٹ کے آئینی تقاضوں پر پورا اترنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اس سے پہلے اسکاٹ لینڈ کی عدالت نے بھی اسے ایک غیرقانونی عمل سے تعبیر کیا تھا۔ بورس سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بھڑک اٹھے اور سخت نالاں ہیں۔ انہوں نے نازیبا الفاظ بھی کہہ ڈالے، پارلیمنٹ کو بھی برا بھلا کہا اور اسے ڈرپوک، ہتھیار ڈالنے والی مردہ پارلیمنٹ کہا ہے اور اس کے بعد وہ پارلیمان سے چلے گئے۔ بظاہر لگتا ہے کہ وہ قانونی جنگ لڑنے پر آمادہ ہیں۔
٭فوری انتخابات یا ریفرنڈم؟
برطانیہ کے لوگوں کی عمومی خواہش ہے کہ فوری الیکشن ہوں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کیوںکہ انتخابی مہم کے لیے 25 روز درکار ہوتے ہیں جو کہ اب ماہ اکتوبر کے بعد ہی ہوسکتے ہیں۔ 14 اکتوبر کو ملکہ برطانیہ اپنا روایتی خطاب کریں گی، جو ان سطور کی اشاعت تک ہوچکا ہوگا۔ ملکہ کا خطاب ہر پارلیمانی سال سے شروع ہوتا ہے جو کہ سولھویں صدی کی روایت ہے۔ ملکہ نے 2017 ء سے یہ خطا ب نہیں کیا ہے۔ ملکہ کے خطاب کے بعد ہوسکتا ہے کہ دارالعوام کو کہا جائے کہ وہ انتخابات جلد کروانے کے متعلق حکومت کی حمایت کرے۔ اس کے لیے دارالعوام کی دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، جب کہ ابھی تک ممبران پارلیمنٹ اس کے موڈ میں نہیں دکھائی دیتے، جب کہ ایک دوسرا راستہ یہ ہے کہ حکومت نیا قانون پاس کردے جس میں جلد انتخابات کی تاریخ ہو اس کے لیے محض سادہ اکثریت کی ضرورت ہوگی۔ تیسرا متبادل راستہ ’’عدم اعتماد کا ووٹ‘‘ ہوسکتا ہے، لیکن یہاں عدم اعتماد کے ووٹ کا حزب اختلاف سے کوئی تعلق نہیں۔ وزیراعظم خود ہی اپنی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی اپیل کرسکتے ہیں۔
اگر زیادہ ممبران پارلیمنٹ عدم اعتماد کے حق میں ووٹ ڈالیں تو پھر 14 دنوں میں موجودہ حکومت یا پھر اس کی متبادل حکومت کسی نئے وزیراعظم کے ساتھ اعتماد کا ووٹ حاصل کرے، اگر کوئی بھی ایسا نہ کرپائے تو پھر عام انتخابات ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ وزیراعظم بورس دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ اگر بریگزٹ پر تاخیر کے لیے حکومت کو مجبور کیا گیا تو قبل ازوقت انتخابات ہوں گے۔ دوسری جانب وزیراعظم ہاؤس ’’10 ڈاؤننگ اسٹریٹ‘‘ کے حکام نے متنبہ کیا ہے کہ بریگزٹ کی ناکامی کی صورت میں وزیراعظم 14 اکتوبر کو عام انتخابات کا فیصلہ کرلیں گے۔ اگر بات پھر ریفرنڈم پر چلی گئی تو ریفرنڈم کے لیے شرائط ایک قانون میں وضع کردی گئی ہیں۔ اسے ’’پارٹیز، الیکشنز اور ریفرنڈم ایکٹ 2000 ء ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس قانون میں بھی نئی قانون سازی کا معاملہ وقت طلب ہے۔
٭بیک اسٹاپ مسئلہ:
بظاہر چھوٹا نظر آنے والا معاملہ اصل میں ایک بڑا مسئلہ اسے مختصراً ’’بیک اسٹاپ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ شمالی آئرلینڈ اور آئرلینڈ کی سرحدوں سے جڑا ہوا ہے۔ بریگزٹ کے بعد وہ برطانیہ سے زیادہ یورپی اتحاد سے جڑا رہے گا۔ دونوں آئرلینڈوں کے مابین بارڈر پوسٹس اور چیک پوائنٹس رہیں گے یا ہٹادیے جائیں گے؟ سابق وزیراعظم مے بارڈر پوسٹس کے خلاف تھیں۔ ان کے مطابق کسی برطانوی وزیراعظم کے لیے یہ ناقابل قبول ہے۔ برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین معاہدہ جو کہ شائع شدہ 585 صفحات پر مشتمل ہے، مذاکرات کو انجام کار تک پہنچانے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے کی سخت شرائط کے تحت کہا گیا ہے کہ آئرلینڈ والوں کے ساتھ جبر والی سرحدی پابندیوں سے بچا جائے۔
٭آرٹیکل 50 اور بریگزٹ کی منسوخی:
بریگزٹ کی منسوخی کے لیے قانونی صورت حال یہ ہے کہ آرٹیکل 50 کو منسوخ کردیا جائے، یہ آرٹیکل 2007 ء میں یورپی یونین کے ممبرممالک کے درمیان ہونے والے لزبن معاہدے کا ایک حصّہ ہے جس میں باور کرایا گیا ہے کہ جب بھی کوئی ممبر یورپی یونین چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر کیا ہونا چاہیے؟ اسے وزیراعظم نے خود لاگو کیا تھا جس کی منسوخی کے لیے فروری میں ایک آن لائن پٹیشن پر 60 لاکھ لوگوں نے دستخط کیے تھے، لیکن تھریسامے کا موقف تھا کہ وہ اسے منسوخ نہیں کریں گی۔ اصل میں اس کی منسوخی اتنا آسان کام بھی نہیں ہے۔
یورپی کورٹ آف جسٹس نے پچھلے سال کہہ دیا تھا کہ برطانیہ خود ہی آرٹیکل 50 منسوخ یا خارج کرسکتا ہے، اس کے لئے اسے 27 دیگر ممبر ممالک سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ البتہ یورپی کونسل کو ایک خط لکھنا ہوگا جو کہ یورپی یونین کے ممبر ممالک کے سربراہوں پر مشتمل ہے۔ آرٹیکل 50 قانونی طور پر بالکل واضح ہے اور غیرمشروط ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ برطانیہ زیادہ وقت حاصل کرنے کے لیے آرٹیکل 50 کو منسوخ کردے اور کچھ عرصے بعد اسے دوبارہ لاگو کرلے۔
٭ کیا برطانیہ ٹوٹ جائے گا؟
برطانیہ کو آئرلینڈ کے ساتھ سخت مزاحمت کا سامنا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی اسکاٹ لینڈ کی آزادی کا سوال ایک بار پھر سر اٹھا سکتا ہے، کیوںکہ وہ بھی یورپی یونین کا رکن ہے۔ برطانیہ سے علیحدگی کی صورت میں اسے بھی دوبارہ اپنی شناخت منواکر یونین میں جگہ بنانا ہوگی۔ بی بی سی کی اسکاٹ لینڈ کی ایڈیٹر سارا اسمتھ نے بریگزٹ پر اپنے تبصرے میں برطانیہ کی تقسیم کا عندیہ دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اسکاٹ لینڈ میں روتھ ڈیوڈسن کی نئی توانا قیادت میں اسکاٹش کنزرویٹو پارٹی کو حالیہ سالوں میں اچھا سہارا ملا ہے اور پارٹی میں نئی جان آگئی ہے۔
پارٹی کے مخالفین اس بات پر قائل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بورس جانسن کے وزیراعظم بننے سے یہ عمل رک جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے اسکاٹ لینڈ اور برطانیہ کا اتحاد خطرے میں پڑجائے اور بات علیحدگی تک جاپہنچے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ جانسن ایک صاف گو، سادہ مزاج اور منکسر المزاج شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ برطانیہ میں یونین میں رہنے کے حامی روتھ ڈیوسن اس سے زیادہ مختلف ہوسکتے تھے دونوں ماضی میں ایک دوسرے کی شدید مخالفت کرچکے ہیں۔ اسکاٹ لینڈ یورپی اتحاد میں رہنا چاہتا ہے۔ جتنا سخت اور مشکل قسم کا بریگزٹ بورس لیں پائیں گے اتنا ہی اسکاٹ لینڈ کی اسکاٹش پارٹی کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ اسکاٹ لینڈ والے سوچنے پر مجبور ہوسکتے ہیں کہ اب مزید برطانیہ کا حصّہ بنے رہنا ان کے بہترین مفاد میں نہیں رہا ہے۔ کچھ حالیہ عوامی سروے اس بات کی نشان دہی کررہے ہیں کہ یورپین یونین سے بنا کسی معاہدے کت علیحدگی کی صورت میں اسکاٹ لینڈ میں 60 فی صد رائے دہندگان برطانیہ سے آزادی کے حق میں رائے دے سکتے ہیں۔ اسکاٹ لینڈ میں لوگوں کی امنگیں اور خواہشات برطانیہ کے دیگر علاقوں میں رہنے والوں سے مختلف ہیں۔ انہیں یورپی یونین سے ہم آہنگ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یورپی اتحاد نے بریگزٹ کی ممکنہ تاریخ 29 مارچ 2019 ء میں تاخیر کا فیصلہ کیا تھا، لیکن برطانوی کی طرف سے ایک ہفتے میں معاہدہ طے نہ پانے کی صورت میں 12 اپریل تک تاخیر مہلت دی گئی اور اب یہ تاریخ 31 اکتوبر ہے۔ بنا کسی معاہدے کے یورپ چھوڑنے کے عمل کو روکنے کے لیے بل منظور کرواکر حزب اختلاف حکومت کو پہلے ہی شکست دے دی ہے۔ بل کے حق میں 301 جب کہ مخالفت میں 328 ووٹ ڈالے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ ایسا بل نہیں پیش کرسکتے، جس سے برطانیہ کے یورپ سے باہر نکلنے میں تاخیر ہوسکے۔ اپوزیشن لیڈر جیرمنی کوربن کہتے ہیں کہ بل انتخابات سے پہلے منظور ہوجانا چاہیے۔ حکومتی شکست میں حکم راں جماعت سے سابق کابینہ کے وزراء سمیت 21 ارکان پارلیمنٹ نے اپوزیشن کے ہاتھ مضبوط کیے ۔ بل وزیراعظم کو پابند کردے گا کہ وہ یونین سے تاریخ بڑھوانے کے لیے درخواست کریں۔
اس صورت حال سے بچنے کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ 19 اکتوبر سے پہلے کسی معاہدے کے بنا برطانیہ کی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دے دیں یا وہ کوئی نیا فیصلہ منظور کرالیں۔ 31 اکتوبر سے پہلے اگر بورس یورپی اتحاد سے کوئی معاہدہ کرتے ہیں اور ممبران پارلیمنٹ اس کی حمایت کرتے ہیں تو معاملہ بالکل صاف اور واضع ہے کہ بریگزٹ ڈیڈ لائن میں کوئی توسیع نہیں چاہیے۔ اگر کوئی معاہد ہ نہیں ہوتا تب 31 اکتوبر، رات گیارہ بج کر 30 منٹ پر برطانیہ اصولی طور پر اتحاد سے باہر ہوجائے گا۔
اگر وزیر اعظم ڈیڈلائن میں وقت چاہیں اور اس کے لیے درخواست کریں تب بھی یہ یونین پر منحصر ہے کہ وہ مانے یا انکار کردے۔ فوری طور پر برطانیہ یونین کی کسٹمریونین اور سنگل مارکیٹ سے آؤٹ سمجھا جائے گا جو تجارتی آسانیاں پیدا کرتی ہیں۔ یہ ملکی معیشت کے لیے بڑا نقصان دہ ہے۔ پاؤنڈ تین سالوں میں ڈالر کے مقابلے میں اپنی کم تر قیمتی سطح پر آگیا ہے۔ ڈالر1.20 جب کہ یورو10 . 1 پر ہے۔ نو ڈیل بریگزٹ سے ملک میں مہنگائی بڑھ سکتی ہے اور خوراک اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یورپی باشندے ریکارڈ تعداد میں برطانیہ چھوڑ رہے ہیں۔
ان میں طالب علم بھی شامل ہیں۔ بی بی سی کے گگن سیہر وال کے مطابق ترک وطن کرنے والے طالب علموں میںسخت تشویش پائی جاتی ہے۔ اس طرح مختلف نسلوں کے لوگوں کو پیغام مل رہا ہے کہ ان کا اس ملک سے کچھ لینا دینا نہیں رہا۔ جہاں تک یورپین یونین کا تعلق ہے اسے برطانیہ کے یونین میں شامل رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا، نقصان بہرحال برطانیہ کے کھاتے میں جائے گا اور اسے معاشی، تعلیمی وسائنسی تحقیقی میدان میں ملنے والی مراعات سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
The post بریگزٹ؛ اب کیا ہونے والا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.