جب کبھی ہم کسی گاؤں کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے خیالوں میں عام طور سے یہ بات آتی ہے کہ یہ گاؤں سرسبز و شاداب ہوگا، یہاں کے چھوٹے چھوٹے گھروں کے عقبی صحنوں میں مویشی بھی ہوں گے اور ان چھوٹے گھروں میں بہت سے لوگ امن، پیار اور محبت سے رہتے ہوں گے۔
دنیا کے اکثر گاؤوں کے بارے میں اسی انداز سے سوچا جاتا ہے، مگر ایسا سب کے ساتھ نہیں ہے۔ دنیا کے سبھی گاؤں پر یہ منظر نامہ پورا نہیں اترتا۔ دنیا کے کچھ ملکوں کے گاؤں ایسے بھی ہیں جہاں کے عجیب و غریب اور پراسرار لوگ اپنی روایات کے باعث آپ کے لیے شدید حیرت کا باعث ثابت ہوں گے۔ مثال کے طور پر براعظم افریقا کے ایک ملک برکینا فاسو میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جہاں کے لوگ کم و بیش چھ صدیوں سے مگرمچھوں کے ساتھ ساتھ بہت امن اور پیار سے رہتے ہیں۔
ذیل میں ہم ایسے ہی کچھ حیرت انگیز اور عجیب و غریب گاؤوں کا تذکرہ کررہے ہیں:
ایک روسی گاؤںTsovkra-1 کے تنی ہوئی رسی پر چلنے والے لوگ:
روس کے ایک گاؤں میں کسرتی جسم کے مالک اس کے مکین ایسے بھی ہیں جو بڑے آرام اور اطمینان سے تنی ہوئی رسی کے اوپر چل سکتے ہیں۔ یہ روایت کم و بیش ایک سو سال پرانی ہے، مگر کسی کو اس کے آغاز ہونے کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں ہے۔ یہ روسی گاؤں عظیم کوکس پہاڑی سلسلے میں واقع ہے اور اس گاؤں کا نام ہے:Tsovkra-1 یہ ننھا منا سا اور ساری دنیا سے الگ تھلگ گاؤںTsovkra-1اپنے اندر ایک بہت ہی خاص بات یہ رکھتا ہے کہ اس گاؤں کا ہر تن درست اور صحت مند فرد بہت آسانی سے تنی ہوئی رسی پر چل سکتا ہے۔ اس گاؤں میں یہ روایت کوئی ایک صدی بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے سے چلی آرہی ہے۔
یہ درحقیقت کس طرح اور کب شروع ہوئی، یہ تو کوئی نہیں جانتا، لیکن یہ بہت سے لوگوں کو معلوم ہے کہ تنی ہوئی رسی پر چلنے کا سلسلہ رومانی کہانیوں اور دلہنوں کی تلاش کے حوالے سے شروع ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ بہت طویل عرصہ پہلے اس گاؤں کے نوجوان اپنے لیے بیویاں یا دلہنیں تلاش کرنے دشوار گزار پہاڑی علاقوں کے سفر کرتے تھے، مگر بعد میں وہ ان مشکلات سے تنگ آگئے ، کیوں کہ انہیں اپنے لیے شریک سفر تلاش کرنے پہاڑوں میں آباد مشکل گاؤوں اور دیہات کی خاک چھاننی پڑتی تھی، چناں چہ کچھ عرصے بعد انہوں نے اس مشکل کا یہ حل نکالا کہ اپنی ایک وادی سے دوسری وادی کے سرے تک ایک موٹی اور مضبوط رسی باندھ دی اور پھر اس پر چلتے ہوئے وہ راستہ آسانی سے طے کرنے لگے۔
جس کے لیے انہیں سخت محنت کرنی پڑتی تھی۔ جلد ہی تنی ہوئی رسی پر چلنا ایک طرح کے مقابلے میں بدل گیا اور جیتنے والا اپنی مردانگی اور بہادری سے دلہن جیت کر لے جانے لگا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ sovkra-1نامی اس گاؤں میں کم و بیش 17 مرد و خواتین پیدا ہوئیں جنھوں نے بعد میں دنیا بھر کے سرکسوں میں اپنی رسی پر چلنے کی مہارت کا مظاہرہ بھی کیا اور عالمی شہرت حاصل کی۔
اس فن میں مظاہرہ کرنے کا زریں دور وہ دہائیاں تھیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد آئیں۔ اس دور میں سرکس بہت ہی مشہور اور مقبول تھے۔ چناں چہ اس گاؤں کے ماہر افراد نے بڑا نام کمایا۔ اس وقت بھی یہ گاؤں 400 سے کم افراد کا گھر ہے اور یہ سبھی افراد تنی ہوئی رسی پر چلنے میں مہارت رکھتے ہیں، یہاں تک کہ اس گاؤں کے بچوں کو بھی کم عمری میں ہی اسکولوں میں رسی پر چلنا سکھادیا جاتا ہے، لیکن چوں کہ اس گاؤں میں نہ تو حالات اچھے ہیں نہ ہی اچھے مستقبل کے مواقع دکھائی دیتے ہیں، اس لیے ماضی کا یہ فن اور یہ خوب صورت روایت آہستہ آہستہ مٹنے لگی ہے اور اس گاؤں کے اکثر نوجوان گاؤں سے ہجرت کرکے دوسرے بہتر مقامات پر چلے گئے تو ماضی کا یہ آرٹ بھی خطرے میں پڑگیا۔ لیکن یہ گاؤں اور اس گاؤں کے لوگ اپنے اس فن پر فخر کرتے ہیں اور اپنے ماضی کے ہیروز کا تذکرہ بڑے احترام سے کرتے ہیں۔
Hogewey ڈیمینشیا کے مریضوں کے لیے ہالینڈ کا خصوصی گاؤں:
نیدرلینڈ یا ہالینڈ میں ایک خصوصی گاؤں واقع ہے جس کا نام Hogewey ہے، یہ گاؤں ان لوگوں کے لیے ہے جو dementia یعنی فتور دماغ کے مرض میں مبتلا ہوں، کیوں کہ ان مریضوں کو اس گاؤں میں ایک نارمل زندگی رہنے کا پورا پورا موقع دیا جاتا ہے۔ اس گاؤں میں ایسے مریضوں کی نگہ داشت بھی کی جاتی ہے، مگر یہ نگہ داشت کرنے والے اپنی اصل شکل و صورت میں ان کے سامنے نہیں آتے، بلکہ بھیس بدل کر آتے ہیں، یہ ایک گاؤں بھی ہے اور ایک نرسنگ ہوم بھی یعنی اسے ہم village-cum-nursing-home کہہ سکتے ہیں، اس گاؤں کی اپنی دکانیں بھی ہیں اور ریسٹورنٹس بھی، یہاں تک کہ یہاں کے اپنے مووی تھیٹر بھی ہیں۔
Hogewey اصل میں ایمسٹرڈم کے کنارے پر واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس کی ہر چیز اپنی ہے، ہم نے اوپر بتادیا کہ اس کے پاس دکانیں، ریسٹورنٹس اور مووی تھیٹر کے ساتھ ساتھ ایک ہئیر ڈریسر کی دکان بھی ہے۔ اس گاؤں میں 23 اپارٹمنٹس ہیں جن میں کم و بیش 152 رہتے ہیں اور بڑے امن اور سکون سے زندگی گزارتے ہیں۔ ایک ایسی چیز جو اس گاؤں کو دنیا کے باقی تمام دیہات سے الگ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ جگہ درحقیقت گاؤں نہیں ہے، بلکہ یہ یعنی Hogewey ایک نرسنگ ہوم ہے جہاں کے رہنے والے ڈیمینشیا کے مریض ہوتے ہیں۔ Hogewey کسی مووی سیٹ کی طرح کی چیز ہے، جب کہ اکثر نرسنگ ہومز میں ڈاکٹرز اور نرسیں سفید یونی فارم میں پوری جگہ کا راؤنڈ لیتے ہیں۔
مگر Hogewey میں یہ لوگ شاپ کیپرز، ریسٹورنٹ مینیجرز اور یہاں تک کہ سپر مارکیٹ کے کیشیئرز تک کا کردار ادا کرتے ہیں۔ نرسیں پڑوسیوں کی طرح اپنے مریضوں کے ساتھ باتیں کرتی ہیں اور بہ حکم دواؤں کی فراہمی کے بہ جائے انہیں بڑے پیار اور دوستانہ انداز سے دوا کھلاتی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ Hogewey کے مریض یہاں ایک نارمل زندگی گزارتے ہیں، کیوں کہ یہاں ان کے ساتھ میڈیکل اسٹاف بہت اچھا اور دوستانہ سلوک کرتا ہے۔ پ
ھر یہاں انہیں بہت زیادہ دوا بھی نہیں دی جاتی اور وہ اپنے گھر کی طرح اس جگہ آرام اور سکون سے رہتے ہیں۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک Hogeweyنے الزائمر کے امریکی ماہرین کی داد اور تعریف بھی سمیٹی اور ساتھ ہی دنیا کے دوسرے ملکوں کے طبی ماہرین نے بھی اس جگہ کے اسٹاف کی مریضوں کے ساتھ اچھے سلوک کی تعریف کی۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ جس طرح Hogewey کے طبی ماہرین اپنے مریضوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں، اس سے مریض بھی جلدی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ اس جگہ کی تعمیر اور اس کے قیام میں اندازاً25 ملین امریکی ڈالرز خرچ ہوئے ہیں۔
رین بو فیملی ولیج: تائیوان کا انوکھا گاؤں:
رین بو فیملی ولیج، تائیوان کا ایک ایسا انوکھا گاؤں ہے جہاں کی ہر سطح کو رنگا رنگ اور حسین و جمیل تصویروں سے سجایا گیا ہے اور یہ تمام رنگین تصویریں یا پینٹنگز ایک 96 سالہ سابق جنگی فوجی نے پینٹ کی ہیں جن کا مقصد اس گاؤں کو منہدم ہونے سے بچانا تھا۔ ان تمام زبردست اور خوب صورت پینٹنگز کو دیکھنے جب دنیا بھر کے سیاح اس گاؤں میں آئے تو گاؤں کے میئر نے اس گاؤں کو منہدم کرنے کے بجائے اسے محفوظ رکھنے کا حکم جاری کردیا۔
چینی سول وار کے درمیان Kuomintang (KMT) nationalists کمیونسٹ پاٹیوں کے خلاف لڑے تھے، لیکن جب 1949 میں ماؤزے دنگ نے People’s Republic of China کی بنیاد رکھی تو KMT کے ارکان چین سے بھاگ کر تائیوان چلے گئے۔ تائیوان میں انہوں نے ایک ایسے گاؤں میں رہنا شروع کردیا جو فوج کا محتاج اور اسی پر انحصار کرتا تھا۔ اس وقت یہ سوچا گیا کہ اس گاؤں کے گھر ان آنے والوں کو لیے عارضی پناہ گاہیں ہوں گی، مگر ایسا نہ ہوا، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گھر ان افراد کی مستقل پناہ گاہیں بن گئے۔ ایسا ہی ایک گاؤں تائیوان کے علاقے Taichung کے نینٹن ضلع میں بھی واقع تھا۔
ہوانگ یونگ فو اسی گاؤں کے اصل رہائشیوں میں شامل تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب تعمیرات کے ماہروں یعنی ڈیولپرز نے ٹوٹی پھوٹی جائیدادیں خریدنی شروع کردیں اور ان کے مالکان کو اچھی قیمت دے کر رخصت کرنا شروع کردیا تولگ بھگ گیارہ سال پہلے حکومت نے اس گاؤں کو منہدم کرنے کی دھمکی دی، مگر اس جگہ کا پرانا رہائشی ہوانگ یونگ فو یہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا، کیوں کہ وہ اسے اپنا گھر سمجھتا تھا، چناں چہ اس نے 86 سال کی پکی عمر میں اپنے برش اور رنگ اٹھائے اور اپنے گھر کو پینٹ کرنا شروع کردیا۔ جلد ہی اس نے آس پاس کے گھروں اور گلیوں کو بھی پینٹ کرنا شروع کردیا اور کنکریٹ کے ہر سینٹی میٹر پر ڈرائنگز اور فیگرز پینٹ کرڈالیں۔
پھر تو یہ رنگ رنگ گاؤں دوسرے لوگوں اور خاص طور سے باہر سے آنے والے مسافروں اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا اور وہ سب ہی اسے دیکھنے بڑے شوق سے یہاں آنے لگے۔ جیسے جیسے اس کی شہرت بڑھی، یہ جگہ سیاحوں کے لیے ایک ’’ہاٹ اسپاٹ‘‘ بن گئی۔ آج اس گاؤں کے ہر در و دیوار پر یا تو چیتوں اور شیروں کی چھلانگیں مارتی اور غراتی ہوئی تصویریں پینٹ ہیں یا پھر بڑی بڑی آنکھوں والے پانڈاز اپنی معصوم آنکھوں سے سب کو دیکھتے نظر آتے ہیں یا پھر رنگا رنگ پروں والے مور اپنے پر پھیلائے کھڑے ہیں ، یا پھر بلیوں کے بچے شوخیاں کرتے دکھائے گئے ہیں۔
ان میں خلاؤں میں تیرتے خلاباز بھی ہیں اور ان میں رقص کرتے سمورائی بھی ہیں اور اسی طرح کے ڈھیروں ڈرائنگز بنی ہوئی ہیں۔ ان سب کے نتیجے میں دنیا کے اس انوکھے گاؤں کو “Rainbow Family Village” یعنی قوس قزح والے خاندان کے گاؤں کا نام دے دیا گیا ہے اور ہوانگ یونگ فو کو ’’رین بو گرانڈ پا‘‘ یعنی قوس قزح کے دادا جان کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ بلاشبہہ ان کی ان رنگین پینٹنگز نے اس گاؤں کو منہدم ہونے یا دنیا سے مٹنے سے بچالیا۔ اب ہر سال ایک ملین سے زیادہ سیاح اس جگہ کا دورہ کرتے ہیں اور ان بے شمار حسین و جمیل تصاویر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس ہستی سے ملنے کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں جس نے یہ سب مناظر تخلیق کیے ہیں۔
سیاٹل کا “tiny house” ولیج:
سیاٹل میں ایک چھوٹا سا گھر “tiny house” ولیج ہے جو بے گھر افراد کرائے پر لے سکتے ہیں اور وہ یہاں سو سکتے ہیں، کھاسکتے ہیں اور یہاں نہادھو سکتے ہیں۔ یہاں ایک ماہ تک رہنے کے لیے ان کرائے دار مکینوں کو 90امریکی ڈالر ادا کرنے ہوتے ہیں جن میں تمام ضروری چیزوں یا utilities کی فراہمی بھی شامل ہے۔ یہ جگہ ایسے بے گھر لوگوں کی مدد کے لیے بنائی گئی ہے اور اس کا مقصد انہیں ان کے قدموں پر کھڑا کرنا ہے۔ یہ 2016 کی بات ہے جب سیاٹل نے بے گھر افرادکی حالت بہتر بنانے کے لیے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا تھا اور اس پہلے tiny-house village کی بنیاد رکھی تھی۔
یہ گاؤں اس ضمن میں یعنی بے گھر افراد کی مدد کے لیے ایک انوکھا اور غیرمعمولی قدم تھا۔ یہ گھر سیاٹل کے وسطی ضلع کے علاقے Good Sheppard میں واقع Lutheran Church کے میدانوں میں قائم کیے گئے تھے۔ اس وقت اس کے ہر گھر کے استعمال کا کرایہ 90 ڈالر ماہانہ تھا۔ سیاٹل جیسے شہر میں جہاں کے گھروں کے کرائے آسمانوں سے باتیں کررہے ہیں، وہاں ان tiny-house villageکاقیام بے گھر افراد کے لیے ایک سستی ترین جنت تھی۔tiny-house village کے ہر گھر کی تعمیر پر 2,200 ڈالر لاگت آئی تھی اور اس کے تعمیری اخراجات زیادہ تر عطیات سے پورے کیے جاتے تھے۔ پھر ان مکانوں کی تعمیر کے لیے بھی متعدد آرگنائزیشنز کے والنئیرز نے اپنی مفت خدمات پیش کردی تھیں۔
ہر گھر میں تمام ضروری سہولیات موجود ہیں جیسے بجلی اور مقفل ہونے والے دروازے۔ ان میں ایک مرکزی بلڈنگ بھی ہے جس میں فلشنگ ٹوائلٹس لگے ہیں اور نہانے کے لیے بھی شاورز لگائے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ان کی چوبیس گھنٹے سیکیورٹی کا بھی انتظام ہے۔ چوں کہ سیاٹل میں موسم سرما میں پارہ نقطۂ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے تو ان گھروں میں رہنے والے مکینوں کو معمولی معاوضے کے بدلے گرم ماحول فراہم کیا جاتا ہے جہاں وہ پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ اس حرارت بخش ماحول میں وقت گزارتے ہیں۔
انڈیا کا ایک گاؤں Marottichal جہاں کے لوگ شطرنج کے ماہر ہیں:
انڈیا میں Marottichal نامی ایک گاؤں ہے جہاں کے لوگ کسی زمانے میں اپنے علاقے میں الکوحل بہت زیادہ استعمال کرتے تھے، مگر بعد میں جب یہاں الکوحل پر پابندی عائد کی گئی تو اس گاؤں کے لوگوں نے اپنا دل بہلانے اور اپنا غم غلط کرنے کے لیے شطرنج کھیلنی شروع کردی تو ان کا گاؤں ’’شطرنج کا گاؤں‘‘ کہلایا اور پھر یہ لوگ رفتہ رفتہ اس کھیل میں مہارت بھی حاصل کرتے چلے گئے۔ اس کی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اس گاؤں کے لوگ شطرنج کے کھیل میں بڑی مہارت رکھتے ہیں اور بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شطرنج کی تعلیم میں ان لوگوں کی شرح کا تناسب سو فی صد ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لگ بھگ نصف صدی پہلے تک Marottichal نامی یہ گاؤں شمالی کیرالہ کے دوسرے گاؤں کی طرح تھا۔ اس کے رہنے والے الکوحل کے رسیا تھے۔ یہاں کی چھوٹی سی آبادی بھی ناجائز اور غیرقانونی جوئے کی عادی تھی۔ اسی دوران اس گاؤں کے رہنے والوں میں سے ایک جس کا نام اونی کرشنن تھا، وہ کسی قریبی قصبے میں رہنے گیا تو وہاں سے شطرنج سیکھ کر آگیا اور پھر اسے دیکھ کر یہاں کے سبھی لوگ اس کھیل کی طرف راغب ہونے لگے۔اونی کرشنن جب اپنے گاؤں واپس آیا تو اس نے گاؤں میں چائے کی ایک دکان کھول لی اور ساتھ ہی اس نے گاؤں کے لوگوں کو شطرنج کا کھیل بھی سکھانا شروع کردیا۔
پھر تو اس کھیل کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی اور جلد ہی لگ بھگ ہر فرد شطرنج کے سحر میں جکڑ گیا۔ جیسے جیسے یہاں شطرنج کا کھیل مقبولیت حاصل کرتا رہا ویسے ویسے شراب نوشی اور جوئے کی عادتیں بھی کم ہوتی چلی گئیں۔ آج Marottichal نامی یہ گاؤں پوری دنیا میں اس گاؤں کے شطرنج کے دیوانوں کے حوالے سے مشہور ہے، یہاں تک کہ اس گاؤں کے بچے بھی شطرنج کا کھیل بڑے شوق اور اہتمام سے کھیلتے ہیں۔ اس کھیل کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی چیس ایسوسی ایشن نے اپنے اسکولوں سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ شطرنج کے کھیل کو اپنے نصاب میں شامل کرلیں۔
مزید یہ کہ امریکا اور جرمنی کے مسافر اور سیاح بھی اس گاؤں کا دورہ کرتے ہیں تو وہ یہاں کے اس کھیل کو بھی دیکھتے ہیں اور گاؤں والوں کے کھیل کی مہارت کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
The post انوکھے گاؤں appeared first on ایکسپریس اردو.