Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

سارے رنگ

$
0
0

استاد کو بھی’گارڈ آف آنر‘دے کر رخصتکرنا چاہیے۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ط۔م

یہ وہ زمانہ ہے جب ہم دو سال کے لیے ’جامعہ اردو‘ میں ’پناہ گزین‘ ہوئے، ہمارا پڑائو ’شعبۂ اِبلاغ عامہ‘ میں تھا۔۔۔ جہاں ہمیں ایک دن خبر

ملی کہ ’بلوچستان یونیورسٹی‘ سے ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر اب یہاں آگئی ہیں۔۔۔ وہ بلوچستان میں ’اِبلاغ عامہ‘ کا ایک بہت نمایاں نام ہیں۔ ’جامعہ اردو‘ میں تحقیقی مقالے کے حوالے سے انہوں نے ہماری پہلی کلاس غالباً کمپیوٹر لیب میںلی تھی، کیوںکہ شعبے کے باقی کمرے خالی نہ تھے۔ کلاس کے روبرو ڈاکٹر توصیف احمد خاناور ڈاکٹر سیمی مشترکہ طور پر موجود تھے۔۔۔ ڈاکٹر سیمی نہایت سلیقے، ٹھیرائو اور شائستگی سے گفتگو کر رہی تھیں، یوں شیرینیٔ گفتار ’میڈم‘ کی شخصیت کا پہلا بالمشافہ حوالہبنی۔۔۔ پھر اُن کے بلند معیار تدریس وتحقیق نے ڈاکٹر سیمی سے متعلق ہمارے اندر ایک احتیاط بسا دی۔۔۔ وہ ہمارے تحقیقی مقالے کی نگراں رہیں، ہمیں ہر لمحہ یہ خیال رہتا کہ ہم جامعہ بلوچستان میں ’رئیس کلیہ فنون‘ کے عہدے پر رہنے والی سنیئر استاد کی توقعات پر پورا اتر سکیں۔۔۔ یا یوں کہیں کہ ہماری قابلیت کا کچھ بھرم ہی رہ جائے۔ یہ دھڑکا لگا رہتا کہ وہ یہ نہ سوچیں کہ دیکھو یونیورسٹی تک آگئے ہیں اور انہیں یہ بات بھی بتانا پڑ رہی ہے۔۔۔ یہ فکر فروری 2011ء میں تب تک دامن گیر رہی، جب تک معروف صحافی مظہر عباس نے ہمارے مقالے کا’وائیوا‘ نہ لے لیا، اب پتا نہیں ہم اپنی اس جستجو میں کتنا کام یاب رہے۔۔۔

ڈاکٹر سیمی نغمانہ کی ’جامعہ اردو‘ آمد ہمارے ’ایم اے‘ کے دوسرے برس کا واقعہ تھا، اسی اثنا میں جامعہ بلوچستان میں اِبلاغ عامہ کیپروفیسر ناظمہ طالب کا قتل ہوگیا۔۔۔ آج یہ واقعہ ٹٹولا تو تاریخ 27 اپریل 2010ء نکلی، یعنی پھر پورے پانچ برس بعد 2015ء میں اسی اپریل کی 29 تاریخ کو ہمارے استاد ڈاکٹر یاسر رضوی بھی کراچی میں قاتلوں کا ہدف بن گئے۔۔۔! کیا عجیب اتفاق ہے۔۔۔ پروفیسر ناظمہ طالب کے قتل پر جب ’یوم سیاہ‘ منایا گیا، تو ہم نے زندگی میں پہلی بار اپنے بازو پر سیاہ پٹی باندھی۔۔۔ پھر اسی شام ’کراچی پریس کلب‘ میں تعزیتی تقریب میں ہم نے ڈاکٹر سیمی نغمانہ کو اپنی ساتھی پروفیسر کی موت پر غم وغصے میں دیکھا۔۔۔ انہوں نے بہت سے ’ناخدائوں‘ کی بھی خوب خبر لی، جنہوں نے ناظمہ طالب کے کراچی میں تبادلے کے لیے مدد نہ کی، جب کہ پروفیسر ناظمہ بھی سیمی نغمانہ کی طرح بلوچستان کے خراب حالات کے سبب کراچی آنا چاہتی تھیں، لیکن نہ آسکیں اور وہاں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔۔۔!

وقت آگے بڑھا اور ڈاکٹر سیمی ’جامعہ اردو‘ سے ’جامعہ کراچی‘ آگئیں۔۔۔ اور پھر کچھ برس بعد 11 اکتوبر 2019ء کو صدر شعبہ اِبلاغ عامہ کے طور پر ریٹائر ہوگئیں۔۔۔ اب ظاہر ہے، استاد صدر یا جرنیل وغیرہ تو ہوتا نہیں ناں، کہ اس کی ریٹائرمنٹ پر کوئی ’گارڈ آف آنر‘ ہو اور اخباری صفحے سے لے کر اطلاعات کے جلتے بُجھتے ’برقی پردے‘ اس کا عکس دکھائیں کہ آج ایک سنیئر استاد نے اپنی ’صدرِ شعبہ‘ کی مسند اپنے پیش رو کے سپرد کر دی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں استاد کو شایان شان طریقے سے رخصت کرنے کی رِیت ہی نہیں۔۔۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اس کی روایت ڈالیں، لیکن اس سے پہلے ہم طلبہ کو بھی اپنے اساتذہ کو ساری زندگی اپنے والدین کی طرح عزیز رکھنا چاہیے، بہت زیادہ نہ سہی، لیکن جب بھی موقع ملے، ان کی قدم بوسی ضرور کرنا چاہیے۔۔۔ اور سماج میں ہمیشہ ان کے مرتبے کے سربلندی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔۔۔

یوں تو ہماپنے تمام اساتذہ کی قدموں کی خاک کو نگاہوں کا سرمہ کرلینے والوں میں سے ہیں۔۔۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ہمارے اساتذہ کی کہکشاں میں ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر ایک درخشاں ستارے کی طرح ہیں۔۔۔ جنہوں نے ہمیں تحقیق وتدریس کی نئی سمتوں اور نئی منزلوں سے روشناس کرایا۔۔۔ اُن کی بردباری اور شخصیت کا وقار یقیناً استادکے رتبے کو بلند تر کرتا ہے۔۔۔ ہمیں یہ سوچ بھی خوشی وانبساط اور اطمینان دیتی ہے کہ ہم نے کم وقت کے لیے ہی سہی، لیکن اُن سے زانوئے تلمذ طے کیے ہیں۔۔۔ ان کی کوئٹہ سے کراچی آمد اگرچہ مجبوری کے سبب تھی، لیکن یہ ہماری اُن کی شاگردی میں آنے کا ذریعہ بن گئی۔۔۔ بس اِن گنے چُنے اور ٹوٹے پھوٹے سے لفظوں سے میں اپنی استاد ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔۔۔ اور اُن کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔

۔۔۔
’’نئی‘‘ بھینس اور مٹی کے تیل والا گھر!
مرسلہ: ظہیر انجم تبسم، خوشاب

ہمارے گائوں میں ایک صاحب بہت سیدھے سادے تھے، ایک دن ان کا بیٹا بیرون ملک سے واپس آیا، تو اس نے والد سے کہا یہ پرانی بھینس فروخت کرکے بہت اعلیٰ نسل کی بھینس لے آئو۔ وہ آدمی بالکل سیدھا سادا تھا۔ منڈی جاکر بھینس 10ہزار میں فروخت کرکے اگلے روز ایک عمدہ بھینس 12ہزار کی خرید لایا۔ جب وہ گائوں کے اندر داخل ہوا تو گائوں کے چند لوگوں نے اسے روک لیا اور نئی بھینس خریدنے کی مبارک باد دی۔ اسی خوشی میں اس کو چائے پلائی اور کہنے لگے اب اس خوشی میں ہمارے ساتھ چائے پیو پھر ہم تمھارا کے گھر جاکر نئی بھینس کی مبارک باد دیں گے۔ دوستوں نے کہا بھینس کو کھلا چھوڑ دو یہ چرتی رہے گی۔ تم ہمارے ساتھ چائے پیو۔ اس نے بھینس کو کھلا چھوڑ دیا اور تمام دوست چائے پینے لگے۔ چائے پی کر فارغ ہوئے تو میدان میں بھینس کو نہ پایا، تب اس کے دوستوں نے بتایا بھینس گم نہیں ہوئی، پہلے تمھارے گھر جاکر بھینس خریدنے کی خوشی میں مٹھائی کھاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ دوست ہنستے جاتے تھے۔ تب بابا جی نے کہا ایک تو تم نے میری بھینس گم کر دی ہے اوپر سے ہنس رہے ہو، انہوں نے کہا ہنسنے کی وجہ گھر جا کر بتائیں گے ۔ وہ گھر پہنچ گئے۔ بھینس گھر میں موجود تھی۔ تب دوستوں نے ہنسنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا۔ یہ تو وہی بھینس ہے جو کل تم منڈی میں بیچ آئے تھے۔ اس کے خریدار نے اس کو نہلا دھلا کر، مہندی لگاکر، گھنٹی گلے میں ڈال کر، ہار پہناکر خوب صورت کرکے تمھیں دو ہزار روپے زائد میں بیچ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے خود گائوں میں اپنے گھر آگئی ہے۔ اس پر وہ سیدھا سادا آدمی بہت حیران ہوا۔ یہ واقعہ آج سے 40 سال پہلے کا میرے گائوں کا سچا واقعہ ہے۔

ماہرین نفسیات کہتے ہیں جب آدمی کسی بات کا پختہ تہیہ کرلے تو اس کے ذہن سے ایسی شعاعیں خارج ہوتی ہیں، جو اس کے ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں مدد دیتی ہیں۔ ایک دن گائوں کا غریب آدمی مٹی کے تیل کا کنستر بھرکر دکان دار کو دے آیا اور اس کے بدلے راشن لے آیا۔ گائوں میں کرنسی کم چلتی ہے، جب کہ چیز کے بدلے چیز لینے کا رواج زیادہ ہوتا ہے۔ اگلے ہفتہ وہ پھر ایک کنستر مٹی کے تیل کا دکان دار کو دے آیا دکان دار نے پوچھا اتنا تیل کہاں سے لاتے ہو۔ اس نے کچھ نہ بتایا۔ اگلے ہفتہ جب وہ کنستر بھرکر لایا تو دکان دار نے اسے مجبور کیا۔ وہ کہنے لگا میں ایک شرط پر بتاتا ہوں اگر تم کسی سے ذکر نہ کرو۔ دکان دار مان گیا۔ غریب آدمی کہنے لگا۔ میں نے اپنے گھر پانی کا نلکا لگوایا، زمین سے پانی کی جگہ تیل نکل آیا۔ دکان دار اس کے ساتھ گھر گیا اور نلکا چلاکر تیل کا کنستر بھر لایا۔ اگلے روز کان دار نے گائوں کے نمبردار کو بتایا۔ اس نے غریب آدمی سے مکان خریدنے کا کہا مگر اس نے انکار کردیا۔ آخر نمبردار نے بھاری رقم کی پیش کش کی تو وہ مان گیا۔

اب نمبردار بہت خوش تھا۔ وہ روزانہ تیل کا کنستر بھرتا اور دکان دار کو دے آتا۔ غریب آدمی کافی رقم لے کر بچوں سمیت نامعلوم مقام پر منتقل ہوگیا اور بڑا اچھا مکان بنایا مگر کسی کو معلوم نہ تھا وہ کہاں گیا۔ کچھ دن بعد نمبردار نے نلکا چلایا تو اس میں تیل نہ نکلا۔ اسے فکر ہوئی اس نے کھدائی کرائی تو دیکھا نیچے زمین میں مٹی کے تیل کا بڑا ڈرم رکھا ہوا تھا جس کے اوپر نلکا لگا دیا گیا۔ نمبردار بہت پچھتایا، لیکن اب پچھتانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔

۔۔۔

صد لٖفظی کتھا
قد
رضوان طاہر مبین
’’شرطیہ قد بڑھائیں۔۔۔!‘‘
ثمر نے اشتہار دیکھا اور انہیں لے کر مطب میں داخل ہوا، بولا:
’’یہ بہت بڑا علمی نام سمجھے جاتے ہیں۔۔۔
کئی کتابیں لکھ چکے۔۔۔
بس قد تھوڑا سا کم ہے۔۔۔
اگر قد بڑھ جائے، تو ان کی شخصیت کو چار چاند لگ جائیں۔۔۔!‘‘
’’میاں، آپ انہیں یہاں سے لے جائیے۔۔۔!‘‘
معالج نے عینک کے پیچھے سے جھانکتے ہوئے کہا۔
’’کیا علاج کے لیے اِن کی عمر زیادہ ہے؟‘‘
ثمر نے پوچھا۔
’’نہیں، ہم صرف جسمانی قامت ہی بڑھا سکتے ہیں۔۔۔
ذہنی طور پر ’چھوٹے قد‘ کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں!‘‘
معالج نے جواب دیا۔

۔۔۔

پاکستان کی پہلی عید پر
قائد کا پیغام
مرسلہ:سارہ شاداب، لانڈھی،کراچی

پاکستان کی پہلی عیدالفطر18 اگست 1947ء کو قائداعظم نے اپنے پیغام میں کہا کہ ’’ہمارے وہ بھائی جو آج ہندوستان میں اقلیتوں کی حیثیت سے ہیں، یقین رکھیں کہ ہم انہیں نہ کبھی نظر انداز کریں گے اور نہ فراموش۔ ہمارے دل ان کے لیے بے قرار ہیں۔ ہم ان کی اعانت اور فلاح و بہبود کے ضمن میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے، کیوں کہ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ یہ برصغیر کے مسلم اقلیتی صوبے ہی تھے، جو حصول پاکستان کے لیے جدوجہد اور اس کی منزل مقصود کی جانب سفر میں پیش پیش تھے اور جنہوں نے اس کا پرچم سر بلند رکھا۔ میں ان کی امداد و اعانت کبھی نہیں بھول سکتا ہوں اور نہ مجھے یہ امید ہے کہ پاکستان میں اکثریتی صوبے کبھی اس بات کو سراہنا بھولیں گے کہ حصول پاکستان کی تاریخی اور غازیانہ جدوجہد میں جو آج پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے۔ اقلیتی صوبے پیش رو اور ہراوّل دستہ تھے۔

۔۔۔

’’آپ ہمیں بے وقوفبھی سمجھتے ہیں۔۔۔!‘‘
مرسلہ: اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
اردو کے ممتاز شاعر راحت اندوری کہتے ہیں کہ ہندوستان میں جب ہنگامی حالت کا نفاذ کیا گیا، تو میں نے ایک بار کہہ دیا تھا کہ ’سرکار چور ہے‘ تو دوسرے دن پولیس اسٹیشن پر مجھے بلا لیا گیا۔ افسر نے مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ نے رات کو مشاعرے میں یہ کہا کہ سرکار چور ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’جی یہ تو کہا ہے کہ سرکار چور ہے، لیکن یہ تو نہیں کہا کہ ہندوستان کی سرکار چور ہے، پاکستان کی سرکار چور ہے یا امریکا کی سرکار چور ہے یا برطانیہ کی سرکار چور ہے۔‘‘
پولیس افسر نے میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا ’’اچھا۔۔۔! اب آپ ہمیں بے وقوف بھی سمجھتے ہیں۔۔۔ کیا ہمیں معلوم نہیں سرکار کہاں کی چور ہے۔۔۔!

۔۔۔

پنگھٹ سے فلٹر پلانٹ تک
امجد محمود چشتی، میاںچنوں

ایک دور تھا کہ جب گائوں کی گوریاں مٹی کے مٹکے اٹھا ئے کنووں یا آبادی سے ہٹ کر واقع پنگھٹ سے پانی بھرنے جاتی تھیں۔ وقت کا پہیا چلتا رہا اور بتدریج ہر گھر میں پانی میسر ہونے لگا اور باہر سے پانی بھر کر لانے کی ضرورت جاتی رہی۔ پنگھٹ اور گوری ماضی کا حصہ بن گئیں۔ پھر یوں ہوا کہ گھر کے نلکوں یا پمپ کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا، اس لیے شہروں اور قصبوں میں جگہ جگہ واٹر پلانٹ نصب ہوگئے۔ یوں پھر سے لوگ شہر کے فلٹروں سے پانی بھرنے جاتے اور آتے نظر آنے لگے ہیں، مگر دورِِ رفتہ کے پنگھٹ اور آج کے پنگھٹ میں کافی فرق موجود ہے۔ ماضی میں سکھیوں سہیلیوں کے قافلے خوبصورت منقش مٹکے اٹھائے رواں دواں نظر آتے تھے۔ اُن پنگھٹوں کے ڈگر بڑے کٹھن ہوتے تھے۔ جن پہ کبھی کبھی چال اور رفتار میں بدنظمیاں بھی دیکھنے میں آتی تھیں۔ دل پھینک عشاق ان لمحات کی تاک میں رہتے تھے۔ کہیں راہوں میں آنکھیں بچھتی تھیں، تو کہیں کسی سے نگاہیں چار ہونے کے امکانات رہتے۔ وہ ہاتھوں سے دل تھامے جاتے ، تو دوسری طرف بھی دل میں لڈو پھوٹا کرتے۔مٹی کے برتنوں کو کنکر بھی لگا کرتے اور بہت سے نند لال پنگھٹ پہ چھیڑ خوانی کی غرض سے براجمان ہوا کرتے۔ ان حالات میں اُن مٹکوں اور عصمتوں کا تحفظ جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔

مگر آج فلٹر والے پنگھٹ پر ایسا کوئی منظر دکھائی نہیں دیتا، کیوں کہ آج پانی بھرنے کے لیے وہ نازک اندام گوریوں کے بہ جائے سخت اور کرخت صورتوں اور مزاجوں کے حامل مرد حضرات دکھائی دیتے ہیں، وہ بھی مٹکوں کے بہ جائے پلاسٹک کی بوتلیں اور کین وغیرہ لیے ہوئے۔ ان کے راستوں میں کوئی کہکشاں نہیں ہوتی۔ ان بے چاروں کی خاطر کوئی گوریمنتظر نہیں ہوتی، بلکہ انہیں بادلِ نخواستہ اپنی ہی گھر والی اور دیگر اہل خانہ کے لیے فلٹر سے پانی لانے کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ سائیکلوں، اسکوٹروں رکشوں اور دیگر گاڑیوں پر پانی بھرنے آتے ہیں، لیکن یہ کہنا بجا ہوگا کہ لوگ مجبوراً ہی سہی، لیکن پھر سے پانی بھر کر لانے کی روایت کی طرفلوٹ رہے ہیں۔

آج صاف پینے کے پانی کی کم یابی اتنا بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ لگتا ہے کہ ’’جوئے شیر لانے‘‘ کا محاورہ’’جوئے آب لانے‘‘ میں تبدیل ہو جائے گا اور مستقبل میں شرم سے پانی پانی ہونے اور دودھ میں ملانے کے لیے بھی صاف پانی مہیانہ ہو۔ہمارے پچھلوں کے لیے پانی کی فراہمی پنگھٹوں کی مرہونِ منت تھی اور آج ہم فلٹروں سے تشنگی دور کرتے ہیں۔ یہ تھا ایک سے دوسرے پنگھٹ (فلٹر) تک کا قصہ۔

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>