قسط نمبر65
میں اور بابا کشادہ سڑک سے شاہ راہ پر پہنچے۔ ہمیں پیدل چلتے ہوئے خاصی دیر ہوگئی تھی ، خاموشی تھی اور طویل صاف ستھری شاہ راہ جسے دونوں طرف سے گھنے سایہ دار درختوں نے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔ اک دکا گاڑیاں ہمارے پاس سے گرز رہی تھیں۔
فقیر اگلے پڑاؤ کا اور حالات کا سوچ رہا تھا کہ بابا نے کہا: کیا سوچ رہا ہے میرا بچہ ؟ بہت کچھ بابا، انہوں نے میری جانب دیکھا اور پھر بولے: ہاں انسانی دماغ بھی قدرت کا کیا شاہ کار ہے بیٹا، یہ اپنا کام جاری رکھتا ہے، کبھی تھکتا بھی نہیں ہے، انسان کی عمر بڑھتی رہتی ہے لیکن اس کی توقعات بہ جائے کم ہونے کے اور زیادہ منہ زور اور بڑھتی رہتی ہیں، نہ جانے کتنے ہی منصوبے سوچتا رہتا ہے، یہ کروں گا، وہ کروں گا، پہلی تو یہ کہ اس کی عمر طویل ہوتی چلی جائے اور دوسری اس کے مال و متاع میں اضافہ ہوتا چلا جائے، بس ایسا ہی ہے انسان بیٹا! وہ خود کو اگر اپنے رب کو سونپ دے تو سارے مسائل ہی حل ہوجائیں، لیکن نادان ہے ناں اور پھر یہ بھی کہ خود ہی کو عقل مند اور دانا بھی سمجھتا ہے۔
جی بابا! یہی حقیقت ہے، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی رفتار بڑھا دی یعنی کہ ہم پیدل ہی راول پنڈی کے لیے رواں تھے، چل سو چل اور فقیر اپنے آس پاس قدرت کی صناعی کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا ۔ یہ دنیا بُتان وہم و گماں ہی تو ہے، اور کیا ہے۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا۔ آئے بھی کیسے؟ خود فریبی سی خود فریبی ہے، پاس کے ڈھول بھی سہانے لگتے ہیں۔ ہاں جی! ایسا ہی ہے اور جب کُھلتا ہے ڈھول کا پول تب سمے بیت جاتا ہے۔ اور کیا سمے بیت جاتا ہے ۔۔۔ ؟ معلوم نہیں۔ جو واقف اسرار ہیں وہی جانتے ہیں اس بُتانِ وہم و گماں کی اصل حقیقت اور مجھ ایسے غبی، نااہل اور نادانوں کو بتاتے بھی رہتے ہیں کہ یہ کوئی نخلستان نہیں، سراب ہے، دھوکا ہے بس۔ اس کی چالوں کو اور وہی جانتے ہیں اس کی رمز بھی۔ فقیر کیا جانے اتنی استطاعت ہی کہاں ہے، فقیر تو بس ایک ڈھول کی طرح ہے جو اندر سے بالکل کھوکھلا ہوتا ہے لیکن اگر اس پر ہلکی سی بھی ضرب لگائی جائے تو چیخ اٹھتا اور اپنا ظرف بیان کردیتا ہے۔ اور سجن بیلیو!
میں واقفِ اسرار تو پہلے بھی نہیں تھا
اداسی کی گہرائی ناپے نہیں نپتی، اور گہری اور گہری ہوتی جاتی ہے۔ اور سجن پیارا ملے تو بات بنے، اور جن خوش بختوں کو ملے ہیں وہ نہیں دھنستے اس دلدل میں۔ ہاں جی! دلدل میں پاؤں پڑتے ہی واپس کھینچ لیے جاتے ہیں۔ ساری حمد ہے بس رب کے لیے۔
ہم پیر ودھائی سے ٹیکسلا جانے والی گاڑی میں سوار ہوئے اور پھر ہم ٹیکسلا میں تھے۔ اپنی کٹیا پہنچ کر بابا نے اس اجنبی کو رخصت کیا، حنیف بھائی اپنی اسی حالت میں تھے، فقیر سے ان کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی تھی اور کچھ سمجھ بھی نہیں آتا تھا کہ فقیر ان کے لیے آخر کیا کرے، بے بسی تھی اور کیا تھا تو فقیر نے بابا سے کہا تھا: دعا کیجیے ناں اﷲ جی رحم فرما دے، کرم کر دے، زخموں کو بھر دے، چین نصیب کر دے۔ کالی رات ٹلے تو جان فزا سحر آئے، اور ایسی سحر جسے اندیشۂ زوال نہ ہو۔ بچھڑے ہوؤں کو ملا دے، ملے ہوؤں کو پیوستہ رکھے۔ کوئی ماں اپنے لعل کا، کوئی بہن اپنے بھائی کا، کوئی دلہن اپنے سہاگ کا، کوئی باپ اپنے بازو کا، کوئی محبوبہ اپنے محبوب کا لاشہ نہ دیکھے۔ شانتی ہو، بہار ہو، اندیشۂ خزاں ہی نہ ہو۔ کوئی فاقہ نہ کرے، سب کے چولہے میں آگ جلتی رہے، اُن پر چڑھی ہانڈی کی خوش بُو سے صحن مہکتا رہے۔
شِکر دپہرے پپلی دے تھلے کوئی اپنی چوڑیاں کھنکھناتے ہوئے اپنے مطلوب کو بلائے اور وہ دوڑتا چلا آئے، کوئی زور زبردستی نہ ہو۔ جب رب نہیں کرتا زور زبردستی تو پھر اور کوئی کیوں کرے۔ گیت گائیں سَکھیاں اور چھیڑیں اک دُوجے کو۔ مفلس کی بیٹی کی اکھیاں بھی چمکیں اور وہ بھی اپنے خوابوں کا شاہ زادہ پائے۔ تشنگانِ علم و فن سیراب ہوں۔ کارخانوں کی مشینوں کے پہیے گھومتے رہیں۔ دھرتی ماں اپنے خزانے اگلے، بالیاں دانوں سے بھری رہیں۔ شجر پھلوں سے لدے رہیں۔ خوش بُو مہکے، دل چہکے، دریا رواں رہیں، جھیلیں بھری رہیں۔ سمندر دوست رہے، مچھیروں کی کشتیاں بھر کر آئیں۔ مزدور نہال ہوں، سرمایہ دار سخی رہیں۔
آشتی ہو، شانتی رہے اور امن کی فاختہ مسکرائے، گیت گائے۔ عالم و دانا بیدار رہیں اور راہ نما روشن ضمیر اور خدام بن جائیں۔ سچ کا بول بالا ہو اور جھوٹ کا ناس ہوجائے۔ آگ و خون کی بارش تھم جائے اور برکھا رُت کا مدھر نغمہ جاری رہے۔ بازار خریداروں سے بھرے رہیں۔ پرندوں کی طرح کوچ کوئی نہ کرے۔ کوئی خود کو نہ بیچے، سب اپنے خوابوں کو تعبیر ہوتا دیکھیں۔ بیمار شفا پائیں، طبیب، واقعی مسیحا بن جائیں، انھیں دستِ شفا کرامت ہو اور بیمار کو شِفا ملے۔ جو برادرانِ یوسف ہیں انھیں واقعی بھائی بنا دے۔ دوست نصیب کرے ایسا کہ دل کی کہہ سکیں۔ پڑوسی ایسا کہ نہال رہیں۔ سب کی خیر ہو، سب کا بھلا، سب رہیں نہال اور خوش حال۔ آباد رہیں اور شاد رہیں۔ دعا کیجیے! اﷲ جی رحم فرما دے، کرم کر دے، زخموں کو بھر دے۔
وہ میرے دل کی جانتے تھے اور یہ بھی کہ حنیف بھائی سے میرا کیسا رشتہ ہے تو فقیر کو بہت تحمل سے سُنا، وہ تو سب کی سنتے ہے۔ اور پھر میں تو اُن کا اپنا ہوں میری کیوں نہیں سنیں گے، ٹھیک ہے بہت کمّی کمین سہی، ہوں تو اُن کی نگاہ میں، نگاہِ کرم میں۔ میں نے کب کوئی کام ڈھنگ کا کیا ہے، جو اب کروں گا۔ تو میں یہ سب کچھ اپنی التجا، ان کے حضور رکھ کر سر جھکائے بیٹھ گیا۔ خاصی دیر ہوگئی۔ اور انتظار کی اک گھڑی قتل ہونے سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے ناں۔۔۔۔ اور بس ایسا ہی کچھ ہے۔
بابا مسکرائے، دست شفقت فقیر کے سر پر رکھا اور پھر فضا ساز بنی اور ان کی مدھر شیریں اور بایقیں آواز بلند ہوئی: ’’ہاں تو تمہاری تقریر ختم ہوئی یا کچھ اور بھی کہنا ہے۔‘‘
فقیر خاموش رہا اس لیے کہ وہ جانتے ہیں میری تقریر تو کبھی ختم نہیں ہونے کی۔ بے سر و پا باتوں اور امور کی انجام دہی کے لیے بھی تو لوگ ہونے چاہییں ناں! تو یکِ از بے کار و بے مصرف میں بھی تو ہوں۔
دیکھیے! یہ اس وقت کون یاد آیا، وہ بہ وجوہ ایک یورپی ملک چلا گیا، جی عرفان ستّار
کوزہ گر بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں
اب مجھے بھی شکل دے، اس چاک پر میں بھی تو ہوں
میں دعا کروں اﷲ جی سے! تو سُن میں تو ہوں ہی سراپا دُعا، کب نہیں رہا۔ لیکن۔۔۔۔ جی جی فرمائیے! میں نے بے چین ہوکر پوچھا۔ ’’ بتا مجھے! اﷲ جی نے کب ظلم کیا ہے اہلِ زمیں پر، کب رحمت نہیں کی، کب تنہا چھوڑا۔ کب دھتکارا، کب رزق بند کردیا، بول کب رحم نہیں کیا، وہ تو ہے ہی رحیم، رحم کرنا ہے اُس کی شان، اُس نے تو اس وقت بھی ویسے ہی انسان کو زمین پر نہیں اتارا کہ جاؤ یہاں سے۔ پہلے زمین کو آراستہ کیا۔ جنّت نظیر بنایا پھر اصل جنّت سے نکالا۔ اور وہ بھی اس لیے کہ جاؤ اب دنیا میں اور ثابت کرو تم اس اصل جنّت کے لائق ہو تو واپس آجانا۔ سب کچھ تو دیا یہاں پر، دنیا کو جنت نظیر بنایا تو انسان نے کیا کیا۔ وسائل انسانی پر بہ زور قبضہ کرلیا، بم بنائے، زہریلی گیس بنائی، مہلک ہتھیار بنائے اور ماحول کو مسموم کیا۔
قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ خون سے رنگین کردیا اس جنّت کو، انسان کو غلام بنایا۔ خود خدا بن کر بیٹھ گئے۔ اب بھی الزام ہے اﷲ پر ہی۔ وہ رحم کردے، وہ تو ہے ہی رحیم، رحم کرنے والا۔ انسان نے اپنے پر خود ہی ظلم کیا۔ خود کو تباہ و برباد کیا، اب بھی تم کہتے ہو کہ اﷲ رحم فرما دے۔ جاؤ انسان سے کہو۔ خلقِ خدا پر رحم کریں۔ ورنہ اپنا انجام سوچ لیں۔ یہ تو ابھی ابتداء ہوئی ہے آگے دیکھنا۔ ڈرو اُس وقت سے جب رحیم قہار بن جائے۔ ڈرو اُس وقت سے۔ بتا کیا کہے گا اب تُو، اب کر تقریر۔‘‘
ہاں مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب بابا نے کہا تھا: ’’رب سے معافی مانگنے سے پہلے اُس سے معافی مانگ جس کا دل دکھایا، رب سے رحم کی درخواست کرنے سے پہلے اُس پر رحم کر جس پر تُونے ظلم کیا ہے۔ پہلے بندوں سے معافی مانگ پھر رب سے۔ تُونے مصوّر کی تصویروں کی، چلتی پھرتی تصویروں کی بے حرمتی کی ہے۔ مصوّر کی تصویر سے محبّت مصوّر سے محبّت ہے۔ تو اتنی سی بات نہیں سمجھ پایا اب تک۔‘‘
نہ جانے کیا کہہ رہا ہوں۔ کیا سمجھ رہا ہوں۔ کچھ سمجھ نہیں آتا مجھے۔ وہ ایک دوسرے تھے، بہت اکھڑ، ہر وقت ناک سے دھواں اور منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے۔۔۔۔ آنکھیں جیسے لال انگارہ۔۔۔۔۔ بہت سر پھرے اور دو ٹوک۔۔۔۔ کوئی رُو رعایت نہیں۔ بالکل اٹل۔۔۔۔ بُرا لگے تو لگے، وہ کہنے سے کبھی باز نہیں آئے۔
اپنی کرنے پر آتے تو کوئی بھی نہیں ٹھہر سکتا تھا اُن کے سامنے۔ جلال ہی جلال اور ایسا ویسا نہیں جلال باکمال۔ کوئی بات کرنا ہو، کوئی مسئلہ درپیش ہو، کوئی الجھن ہو جس کی سُلجھن درکار ہو۔ بہت سوچنا پڑتا تھا کہ کیسے بات کریں! ہاں فقیر ہی پھنستا تھا اکثر۔ سب مجھے کہتے تم پوچھو۔ اور میں ہر بات اُن کے سامنے رکھ دیتا۔ بہت غصہ سہا میں نے اُن کا۔ لیکن مجھے اس کا بھی اقرار ہے کہ میں کم عمر اور نادان ہونے کے باوجود اُن چند لوگوں میں سے تھا جو ان کی محبّت اور شفقت کے سائے میں رہے اور ہیں۔ اکثر کہتے: میرے سامنے سب بیٹھتے ہیں تو خود کیوں نہیں پوچھتے۔ ہر ایک کا سوال تُو کیوں کرتا ہے؟ کیا جواب تھا اس کا میرے پاس! سو خموشی۔۔۔۔ اور پھر میں سنتا: ہاں بول کیا مسئلہ ہے۔
بولنے پر آتے تو پھر آپ سنتے رہیے۔ بہتا دریا۔۔۔۔ خاموش ہوتے تو صحرا کا سکوت، ہُو کا عالم۔۔۔۔ بہت گہرے، کوئی ان کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ رات کے آخری پہر تو یوں لگتا جیسے معصوم بچے ہوں، سر جھکائے ہوئے۔ کبھی یوں لگتا کسی عدالت میں کھڑے ہوں چُپ چاپ۔۔۔۔ بس سسکیوں میں بسی ہوئی آہ و بکا۔ بہت عجیب، بہت ہی پراسرار، مست ملنگ۔
ایک دن فقیر نے پوچھا: یہ تو بتائیے کہ انسان کیسے جیتا ہے ۔۔۔ ؟ مسکرائے۔ میں سمجھا ابھی کہیں گے: پانی پی کر، کھانا کھاکر، مرغ کھا کر، آکسیجن سے۔ لیکن بہت مایوسی ہوئی فقیر کو جب انہوں نے کہا: ’’امید پر زندہ رہتا ہے انسان۔ لیکن تُو یہ کیوں پوچھ رہا ہے ؟‘‘ میں نے کہا: بس ویسے ہی۔ اگلے ہی لمحے میرا دوسرا سوال اُن کے سامنے تھا: اور مرتا کب ہے انسان؟ تو کھلکھلا کر ہنس دیے۔ ایسے مواقع بہت کم، بہت ہی کم آتے تھے جب وہ ہنس رہے ہوں۔ پھر مجھے بہت پیار اور شفقت بھری نگاہ سے دیکھا اور بولے: ’’جب انسان مایوس ہوجائے تب وہ مر جاتا ہے۔‘‘
بہت دیر تک میں ان سے باتیں کرتا رہا۔ کچھ باتیں تو سمجھ میں آئیں اور کچھ بہت عرصے بعد میں سمجھ سکا۔ بہت ساری اب بھی نہیں سمجھا۔ خُلد آشیاں حافظ طاہر درویش نے فقیر کو فارسی کا پہلا جملہ سکھایا تھا: ’’دنیا بر امید قائم است‘‘ میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔ ہاں ایسا ہی ہے۔ امید، امید اور امید۔۔۔۔ فقیر کے عارضی گھر کے سامنے ایک مکان زیر تعمیر ہے۔ کل ایک معمار اس پر پھول پتّیاں بنا رہا تھا۔ تب فقیر نے سوچا یہ بھی تو امید ہی ہے۔ بیمار، مسیحا کے پاس ایک امید لے کر جاتا ہے کہ وہ صحت یاب ہوجائے گا۔ حالاں کہ وہ بہت پرہیز بتاتا ہے اسے، اور وہ خوشی خوشی چھوڑ دیتا ہے بہت سی چیزوں کو۔ ایک ماں اپنے بچے کو پالتی پوستی ہے۔ امید پر ناں! ایک باپ اپنے بیٹے کو دیکھ کر خواب دیکھتا ہے امید پر۔ یہ ساری کائنات امید ہے۔ خواب امید ہے اور تعبیر بھی۔ امید سے خوشی ملتی ہے اور مشکلیں ٹلتی رہتی ہیں۔ امید اکساتی ہے انسان کو جدوجہد پر۔ اور ہاں امید ہی تو مزاحمت بھی سکھاتی ہے۔
ناامیدی ہنستے کھیلتے انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ خوشی کو غم میں بدلتی ہے۔ اور امید غم کو بھی خوشی کا جامہ پہناتی ہے۔ ناامیدی بے قرار کرتی ہے اور امید سکون دیتی ہے۔ قرار پہنچاتی ہے۔ ناامیدی فرار اور امید قیام کرنا سکھاتی ہے۔ ایسا ہی ہے۔ دنیا کیا تھی، کیا ہوگئی۔ غلط کہہ گیا، کیا بنادی گئی۔ اور یہ کس نے اس جنّت نظیر کو جہنم زار بنایا ؟ پھر کریں گے اس پر بات۔ جہنم کے شعلوں میں گھر گئی ہے دنیا۔ بارود کی بارش میں موت کا رقص جاری ہے۔ ہر ظالم، ہر جابر، مخلوقِ خدا کی گردنوں کو اپنے خونیں پنجوں میں دبوچے ہوئے ہے۔ دنیا بھر کے مظلوم تہہ خاک ہو رہے ہیں۔ فضا ان کے سرخ لہو کا پیراہن بنی ہوئی ہے۔
فلک ماتم کناں، زمیں آتش فشاں بنی ہوئی ہے۔ انسان مارے جا رہے ہیں۔ کبھی کس نام پر، کبھی کس نام پر۔۔۔۔۔ ہر طرف رقص ابلیس اور مظلوم مخلوقِ خدا۔۔۔۔۔ لیکن ایسے میں بھی امید دم نہیں توڑتی۔ قائم رہتی ہے۔ اور یہی امید، یہی آس زندگی ہے۔ ہاں آپ دیکھتے ہیں ناں، مظلوم زمینی جبّارین کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ مزاحمت ہی مزاحمت۔۔۔۔۔ وہ زندگی کا حسن ہیں جو موت کے سامنے کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ کتنے مارو گے، یہاں تو سروں کی قطار ہے۔ دیوانے اور سر پھرے لوگ۔ اصل میں یہ پا گئے ہیں زندگی کا راز۔۔۔۔۔ نارِ نمرود میں بے خطر کود جانے والے عاشق رب کائنات کے آسرے پر، جس نے نارِ نمرود کو گلستان میں بدلا، ہاں ایسا ہی ہوتا آیا ہے، ایسا ہی ہوگا۔
ہمارے چاروں طرف جو آگ بھڑک رہی ہے، جس کا ایندھن انسان بن رہے ہیں، یہی آگ گلستان بنے گی۔ ضرور بنے گی۔ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ آگ ہی رہے۔ ہمیں تو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔ اپنے رب پر توکل روشنی ہے، ایسی روشنی جس سے اندھیرے شکست کھاتے ہیں۔ ہاں اندھیروں کا مقدر شکست ہے، فتح و کام رانی ہمیشہ روشنی کی میراث ہے اور رہے گی۔
یہ شیاطینِ ارض لاکھ سر جوڑ کر بیٹھ جائیں، لاکھ منصوبے بنائیں، لاکھ چالیں چلیں، مہرے بدلیں، ساز و سامان کا انبار لگا دیں، میرے رب کی چال کو نہیں پہنچ سکتے۔ اسی کی کبریائی تھی، ہے اور رہے گی۔
میرا رب سب کچھ درگزر کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے ہم انسان ہیں، غلطیاں کرتے ہیں، کرتے رہیں گے۔۔۔۔۔ لیکن ہم رب کے باغی تو نہیں ہیں ناں۔ وہ اپنے باغیوں کو کبھی برداشت نہیں کرتا۔ دیکھیے! امید قائم رکھیے۔ میرا رب مایوسی کو کبھی معاف نہیں کرتا۔ اس لیے کہ مایوسی ابلیس بناتی ہے۔ امید اطاعت سکھاتی ہے۔ بندگی سکھاتی ہے۔ جینا سکھاتی ہے۔ مژدۂ جاں فزا ہے امید۔۔۔۔ اسے سینے سے لگائے رکھیے۔ دیکھنے والی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ ظلم جب حد سے گزر جائے تو مٹ جاتا ہے۔ آخری معرکہ سمجھ کر میدان میں رہنے والے ہمیشہ سرخ رُو رہتے ہیں۔ بس اپنے رب پر توکل رکھیے۔ طاغوت مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ نہیں۔ قوی تو صرف اور صرف میرا رب ہے۔
اور پھر وہ رات، سہانی رات بھی آئی، جب حنیف بھائی نے بابا اور فقیر کے ساتھ رقص بسمل بپا کیا، سنّاٹا اور رقص بسمل، واہ جی واہ اور واہ جی واہ، چیخے، چلاّئے، روئے، گائے، آسماں سر پر اٹھالیا پھر مسکرائے اور واپس چلے آئے۔
ملے بغیر کبھی رَد ہمیں نہیں کرنا
کئی حجاب بغل گیر ہوکے کُھلتے ہیں
The post جہاں گشت appeared first on ایکسپریس اردو.