غیرمنقسم ہندوستان میں کہا جاتا ہے کہ 571کے لگ بھگ ریاستیں رجواڑے تھے جن میں حیدرآباددکن، بھوپال، رام پور اور پٹیالہ یا جونا گڑھ اور کشمیر کا بہاولپور جیسی بڑی اور مالدار ریاستیں تھیں تو لوہارو، پٹودی، دوجانہ اور بیجہ جیسی چھوٹی اسٹیٹس بھی۔
کہتے ہیں آخرالذکر کا نظام ایک مکھیا اور اس کا وزیر چلاتے تھے جہاں آبادی پانچ سو سے بھی کم تھی اور انگریز سرکار معمولی سا وظیفہ یا الاؤنس انہیں گزر بسر کے لیے دیا کرتی تھی۔
اٹک سے گوڑ گاؤں تک پھیلے پنجاب میں بھی ایسی بہت سی ریاستیں تھیں جہاں کے حکم راں اپنی اپنی حدود میں خودمختارانہ زندگی گزارتے تھے اور بقول شخصے ان کا سکّہ چلتا تھا ویسے ہماری معلومات کے مطابق متحدہ ہندوستان میں صرف سلطنت آصفیہ یعنی حیدرآباددکن ہی کی اپنی ریلوے اور کرنسی تھی ان کا روپیہ ’’کلدار‘‘ کہلاتا تھا کیا ریاست اور کیا حکم راں تھے کہ ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن یعنی وظیفہ خدمت تو ملتا ہی تھا اگر نظام میر عثمان علی خان کسی سے ناراض ہوکر ملازمت سے برطرف کردیتے تھے تو اسے ’’وظیفہ عتابی‘‘ جاری کیا جاتا تھا کہ گزربسر میں مشکل نہ ہو۔ تفصیل جاننی ہو تو جوش ملیح آبادی کی یادوں کی برأت کا مطالعہ کرلیں جس میں ان کی حیدرآباد بدری اور وظیفہ عتابی کے حصول کا تذکرہ مرقوم ہے بات پنجاب کی ریاستوں کی ہورہی تھی اور پہنچ گئی دکن تک۔
دہلی کو متحدہ ہندوستان کے دارالحکومت کا درجہ ملا تو انگریزوں کو فکر لاحق ہوئی کہ اسے حملہ آوروں سے بچانے کے لیے مغلیہ عہد کی طرح تحفظ دیا جائے۔ مغلوں نے اطراف دہلی میں جھجھر، پٹودی فرخ نگر، بلبھ گڑھ، لوہارو، دوجانہ اور دادری یا بہادر گڑھ کی ریاستوں کو قائم رکھا ہوا تھا تاکہ یہ بفراسٹیٹ حملہ آوروں کو پہلے مرحلے میں رو سکیں پھر لشکر مغلیہ تہس نہس کرسکے تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کی حکومت نے ریاستوں کو ختم اور نوابوں، مہاراجوں کا اختیار ختم کردیا البتہ دکن کے میر عثمان علی خان کو دیش مکھ کا خطاب دے کر ان کی وفات تک مراعات دیں حالاں کہ 48ء کے پولیس ایکشن کے بعد جوناگڑھ کی طرح دکن کی مسلم ریاست بھی مہاسبھا کی ذہنیت کی بھینٹ چڑھ چکی تھی۔
جھجھر۔ دہلی، ملتان شاہراہ پر بہادر گڑھ اور روہتک کے مغرب میں دوجانہ سے ملحق تھی وہی دوجانہ جس کے آخری حکم راں نواب جلال الدولہ ہزہائی نس الحاج نواب محمد اقتدار علی خان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں لاہور میں انتقال کرگئے تھے متذکرہ ریاست محل وقوع کے اعتبار سے دہلی کی پڑوسی تھی۔
جھجھر کو جنگ آزادی 1857ء میں برٹش ایمپائر کے باغیوں کی علی الاعلان مدد کرنے پر ختم کردیاگیا تھا اور فرخ نگر و بلبھ گڑھ کے رئیسوں کی طرح نواب آف جھجھر نواب عبدالرحمٰن خان کو پھانسی دے دی گئی تھی اور ان کے اہلخانہ و عزیز و اقارب کو ریاست بدر کرکے پانی پت، لدھیانہ و دیگر مقامات پر آباد کیاگیا تھا خود نواب عبدالرحمٰن خان کے سپاہ سالار نواب عبدالحمد خان انگریزی غلبہ کے بعد کچھ عرصے کے لیے قصبہ گوڑیانی ضلع روہتک میں آکر پناہ گزیں ہوئے تھے۔
راقم کے اجداد کا تعلق گوڑیانی سے تھا جو نسلاً پٹھان تھے اور کم و بیش سات سو برس سے یہاں آباد تھے۔ جھجھر ریاست ختم کی گئی تو اس کا ایک حصہ جیند کے مہاراجہ سروپ سنگھ کے سپرد کیا جو علاقہ دادری میں واقع اور چھ سو مربع میل تھا۔ ہرگند نارنول مہاراجہ پٹیالہ کو عطا ہوا جو انگریز کے وفادار تھے۔
ایسی بندربانٹ انگریزی عہد میں ہوتی رہتی تھی۔ ریاستیں چھوٹی بڑی ہر طرح کی تھیں مثلاً پنجاب کی ایک ریاست بیجا کا رقبہ چار مربع میل تھا اور آبادی محض 981۔ سالانہ آمدنی گیارہ ہزار ہوا کرتی تھی والی کا نام ٹھاکر پران چند بیان کیا جاتا ہے اسی طرح دارکوٹی بھی پہاڑی ریاست تھی۔ مردم شماری کے مطابق 536 نفوس، سالانہ یافت 16سو روپے اور اراضی چھ مربع میل جس پر رانا رگناتھ سنگھ کا راج قائم تھا۔ ایک ریاست ڈیلاتھ بھی بیان کی جاتی ہے جس کے والی کو برٹش سرکار کی جانب سے سالانہ ڈیڑھ سو روپے اور وزیر کو تیس روپے وظیفہ عطا کیا جاتا تھا۔ یہاں تین سو بیس افراد رہا کرتے تھے۔
دیوان سنگھ مفتون نے جو پہلے اخبار رعیت سے وابستہ تھے اور پھر اپنا اخبار ریاست نکالا ایسے بہت سے والیان ریاست اور ریاستوں کا تذکرہ اپنی تحریروں میں کرتے رہے ہیں۔ ان ریاستوں کے راجوں، نوابوں اور والیان کے اختیارات لامحدود ، بعض ریاستوں کے ایک دوسرے سے تحویل مجرمان کے معاہدے بھی تھے البتہ برٹش علاقے میں ان ریاستوں کے قوانین کا اطلاق نہ ہوتا تھا دیوان سنگھ مفتون نے لکھا ہے کہ ایک بار ان سے مہاراجہ پٹیالہ ناراض ہوئے تو ایک بے بنیاد کیس بنا دیا۔ مقصد یہ تھا کہ گرفتاری ہوجائے تو پٹیالہ کی جیل میں سڑتے رہیں گے۔
دیوان سنگھ نے بچنے کے لیے قانونی طریقے اختیار کیے لیکن جب مسدود پائے تو طے کیا کہ بمبئی سے مدراس ہوتے ہوئے پانڈی چری جایا جائے جو فرانس کی حدود میں تھا اور زندگی بھر ہندوستان کی بجائے وہیں قیام رہے۔ اس دوران انہوں نے لاہور سے پٹھان کوٹ، امرتسر اور جالندھر کے راستے لکھنؤ،کانپور ہوتے ہوئے جھانسی کا سفر اختیار کیا کہ اپنی زمین، گھر ایک دوست کے نام منتقل کردی جائے وہاں ریاست دتیا کے دیوان قاضی سر عزیز الدین کی بھی کوٹھی تھی ان کے ملازم نے دیوان صاحب کو مفتون کی جھانسی میں موجودگی سے آگاہ کیا تو قاضی صاحب نے بلوایا، تفصیل پوچھی اور پیش کش کی کہ جب تک اس تنازع کا فیصلہ نہ ہو آپ دتیا میں قیام کریں کیوںکہ اس ریاست کا پٹیالہ سے ایکسٹرا ڈیشن ایکٹ کا معاہدہ نہیں اور پٹیالہ کے وارنٹوں کی تعمیل ریاستی حدود میں نہیں ہوسکتی ایسا ہی ہوا۔ شملہ میں لیجسلیٹو کونسل کے اراکین نے حکومت پر دباؤ ڈالا تو تنازعہ حل ہوا۔ ریاستوں کے والی باہم دشمنیوں اور دوستیوں کے غیرتحریری رشتوں میں بھی بندھے تھے۔ نابھ اور پٹیالہ کے راجاؤں کی چپقلش برٹش راج میں چہار دانگ عالم مشہور تھی۔
یہ راجے، مہاراجے لاکھوں میں کھیلتے تھے، محل، دو محلے، زرعی رقبے، ٹیکس میں چھوٹ، لامحدود اختیارات اور برٹش ایمپائر سے ملے اعزازات پر ان کا فخر بجا تھا لیکن تقسیم ہند کے بعد بھارت نے تو یہ تفخرات ان سے چھین لیے البتہ پاکستان میں ون یونٹ کی تشکیل اور کچھ کو ون یونٹ کی تحلیل کے وقت انضمام کے عمل سے گزرنا پڑا۔ اب ان سابق حکم رانوں کے پاس والی، نواب یا خان اور میر کا ٹائیٹل تو ہے لیکن وہ اقتدار، طاقت اور خزانے میسر نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے ملنے والے وظیفے اتنے معمولی ہیں کہ بتاتے ہوئے یہ شرمندہ ہوتے ہیں۔
غالباً 2010ء میں معروف کالم نویس رؤف کلاسرا نے تحریر کیا تھا کہ قومی اسمبلی کو بتایاگیا ہے کہ نواب آف جوناگڑھ کی بیوہ کو ماہانہ 50ہزار روپے، نواب آف جوناگڑھ کو سولہ ہزار 2سو روپے اور نواب آف مانا ودر کوسات ہزار روپے جب کہ تعلقہ دار سلطان آباد کو چھ سو روپے نیز مانگرول کے سابق حکم راں جو شیخ کہلاتے تھے چھ ہزار تین سو روپے ملتے ہیں۔
مانا ورد کے نواب غلام محی الدین خان کی رحلت کے بعد ان کی بیواؤں عابدہ بیگم اور قدسیہ بیگم میں جائیداد کا تنازعہ عدالت میں بھی گیا تھا۔ قلات خاران، لسبیلہ اور مکران کے حکم رانوں نے قیام پاکستان کے بعد نو مسلم مملکت سے الحاق کی منظوری دی تھی اور 12اپریل 1952ء کو یہ ریاستیں بلوچستان کا حصہ بنی تھیں۔ مکران کے سابق حکم رانوں کو چار ہزار پچاس روپے، خان آف قلات کو تین ہزار تین سو تراسی روپے ملتے ہیں۔ نواب آف دیر کو انیس سو روپے، چترال کے حکم راں کو جو مہتر کہلاتے تھے سات ہزار ایک سو ٹرسٹھ روپے، سوات کے سابق والی کو اسی ہزار روپے اور خیرپور کے میر کو تراسی ہزار 3 سو 33 نیز امیر آف بھاولپور کو ایک لاکھ 33 ہزار تین سو تینتیس روپے ادا کئے جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار 2010ء کی قومی اسمبلی میں پیش ہوئے تھے۔ ان شخصیات کے اجداد نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا کہ راج پاٹ ختم ہوگا اور ان کے اخلاف گزر بسر کے لیے کسی اور کی سمت دیکھیں گے۔
برٹش راج میں سب سے متمول ریاست حیدرآباد دکن تھی جس کے حکم راں نظام کہلاتے تھے آخری نظام میر عثمان علی خان تھے جو اپنی متضاد شخصیت کے باعث مشہور تھے۔ ایک طرف وہ کنجوسی کی حد تک کفایت شعار تھے تو دوسری طرف ہندو یونیورسٹی بنارس اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو ایک ایک کروڑ روپے بطور عطیہ دے دیتے تھے۔ جب لوگوں کی تنخواہ دس، بیس روپے ہوا کرتی تھی۔
گولکنڈہ کی کانوں سے نکلنے والے ہیروں سے بھرے ان گنت تھیلوں والے سیکڑوں درجنوں ٹرک ان کی حیدرآباد کوٹھی میں کھڑے تھے جن کے بوجھ سے ٹائروں کی ہوا نکل چکی تھی۔ وہ اتنے دور رس تھے کہ تقسیم ہند سے قبل ہی برطانیہ سے گوا اور پرتگال سے مرماگوا کی بندرگاہ خریدنے کے لیے سرگرم عمل تھے اور خاصی حد تک کام یابی بھی ہوچکی تھی مرما کے عوض الیگزینڈر جارج نے بطور ایجنٹ نظام دکن 27مارچ 47ء کو 7ہزار پاؤنڈ اور 26 اگست 47ء کو 10ہزار پاؤنڈ وصول کیے تھے۔ یہ بندرگاہ دکن کو مل جاتی تو نظام کا اقتدار کہیں زیادہ مستحکم ہوجاتا۔
بھارت میں صرف5 ریاستوں کے حکم رانوں کو 21 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی اور حیدرآباد دکن ان میں شامل تھا۔ پولیس ایکشن کے بعد ریاست دکن وبرار پر بھارت نے قبضے کے بعد بھی نظام کو دیش مکھ کا اعزاز دے کر ان کی مراعات بحال رکھی تھیں۔ 65ء کی جنگ کے دفاعی فنڈ میں صہیب مرغوب کی روایت کے مطابق بغیر کسی تحریری معاہدے کے 5 ہزار کلو گرام سونا دہلی سرکار کو دے دیا تھا۔
نواب آف جوناگڑھ نواب مہابت خانجی کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ وائس رائے کی طرف سے انہیں پہلے سے موجود متعدد خطابات میں اضافے کی نوید سنائی گئی تو انہوں نے انکار کردیا کہ اس کے لئے انہیں جونا گڑھ سے دہلی جانا پڑتا جو انہیں گوارا نہ تھا۔ کہتے ہیں مہابت خانجی کو کتے پالنے کا شوق تھا اور معدودے چند لوگ ہی ریاست میں ایسے متمول تھے جن کا رہن سہن ان جانوروں کے معیار کا ہو جن کے کمرے بجلی سے روشن، پانی سے آراستہ اور ٹیلی فون کی سہولت کے حامل تھے اور ان کتوں کی خدمت و نگہداشت کے لیے متعدد ملازم بھی مامور تھے۔
ان کتوں میں سے ایک کتیا روشن کی شادی ایک کتے سے کی گئی تو قرب و جوار کے راجے مہاراجے مدعو کیے گئے تھے۔ نواب صاحب کی مہا رانی کو پاکستان میں ایک ملازمہ کی تشدد سے مبینہ ہلاکت پر گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ بانو نامی ملازمہ کا یہ کیس مدتوں اخبارات کی زینت بنا تھا۔
برطانوی ہندوستان کی ریاستوں کے نوابین رشتوں ناتوں کی ایک سنہری زنجیر میں بھی بندھے تھے مثلاً نظام دکن کے دو صاحبزادے تھے۔ بڑے بیٹے اعظم جاہ کی شادی آخری عثمانی ترک خلیفہ عبدالمجید کی صاحبزادی شہزادی درشہوار سے ہوئی تھی جب کہ چھوٹے بیٹے معظم جاہ کا رشتہ مناکحت پرنسز نیلوفر سے بندھا تھا جو اپنی جٹھانی کی کزن تھیں۔ نظام دکن نے 24فروری 1967ء کو وفات پائی تھی۔ پٹودی کے نواب منصور علی خان جو کرکٹ کی دنیا کا بڑا نام تھے ان کی شادی اداکارہ شرمیلا ٹیگور سے ہوئی تھی۔ ان کی والدہ نواب ساجدہ سلطان کا تعلق بھوپال سے تھا اور وہ نواب حمید اﷲ خان کی منجھلی بیٹی تھیں۔
بڑی بیٹی شہزادی عابدہ سلطان تھیں جو پاکستان آگئی تھیں اور ان کے بیٹے شہریار خان سیکریٹری خارجہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ عابدہ سلطان بڑی بیّا اور ساجدہ سلطان منجھلی بیّا کے طور پر معروف تھیں۔ بھوپال آخری ریاست تھی جس پر بھارت نے قبضہ کیا۔ نواب حمید اﷲ خان چیمبر آف پرنسز کے چانسلر بھی تھے جو تقسیم سے قبل ریاستوں کے حکم رانوں کا ایوان تھا۔ بھوپال پر بیگمات کی حکم رانی بھی رہی اور یہ اس حوالے سے بھی معروف ہے۔ بھارت میں تو ریاستوں کو ضم کرکے صوبے تشکیل دیے گئے جب کہ پاکستان میں ریاستوں کو بحال کرکے صوبے کا درجہ دینے کی تجاویز بھی زیرغور آئیں۔ ایسی ہی ایک تجویز 20ستمبر54ء کو حکومت کے زیرغور تھی جس میں خیرپور، بہاولپور کو صوبے کی حیثیت دی جانی تھی۔
آج بھی بہاولپور صوبے کی تحریک تو موثر ہے البتہ دیگر ریاستوں کے سابق حکم راں اور عوام اسے قابل عمل نہیں گردانتے۔ نواب ساجدہ سلطان کی شادی نواب افتخار علی خان پٹودی سے ہوئی تھی اور اب بھوپال کے شاہی خان سے رشتے ناتے کے باعث بھوپال میں اوقاف شاہی کی نگرانی نواب منصور پٹودی کی بیٹی صہبا علی خان کرتی ہیں جو فلمی اداکارہ سوہا علی خان اور سیف علی خان کی ہمشیرہ ہیں۔ چوں کہ نواب حمیداﷲ خان کی رحلت کے بعد حکم رانی کا تاج شہزادی ساجدہ سلطان کے سرپر سجا تھا۔ اسی طرح بلوچستان کی ریاست لسبیلہ کے حکم راں جام کہلاتے تھے۔
موجودہ جام کمال وزیراعلیٰ بلوچستان ہیں ان کے والد جام یوسف مرحوم اور نواب آف خاران امیر عبدالرحمٰن شیروانی رشتے میں خان آف قلات میر احمد یار خان، احمد زئی کے داماد تھے۔ ریاست پٹودی موجودہ بھارتی صوبہ ہریانہ کے ضلع گوڑگاؤں کا حصہ ہے۔ اس ریاست کا پٹودی پیلس یا پٹودی محل جسے ابراہیم کوٹھی بھی کہا جاتا ہے خوابوں سے بھی زیادہ حسین منظر کا حامل ہے۔
گوڑ گاؤں سے 26کلو میٹر دور واقع یہ محل 150کمروں کا حامل ہے جب کہ 7ڈریسنگ روم، 7بیڈروم، 7بلیئرڈ روم، اور ایک وسیع ڈرائنگ روم پر مشتمل ہے جس کی صفائی ستھرائی کے لیے نوابی عہد میں 100ملازم مامور تھے۔ حیدرآباد دکن میں بھی فلک نما، کنگ کوٹھی اور دیگر متعدد محل اور شاہی عمارتیں اپنی مثال آپ تھیں۔ ریاست سوات کے والی میاں گل عبدالودود نے بھی1941ء میں سفید محل تعمیر کرایا تھا جو مرغزار میں واقع ہے یہ ریاست کا گرما دارالحکومت تھا۔ منگورہ سے 12کلو میٹر دور واقع سفید محل کی خوب صورتی اپنی مثال آپ ہے۔ ماضی میں اسے موتی محل بھی کہتے تھے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس سفید ماربل سے تاج محل تعمیر ہوا تھا وہی اس کی تعمیر میں استعمال ہوا۔ ویسے ریاست سوات کا دارالحکومت سیدوشریف میں تھا اور تعمیر کے لئے سنگ مرمر بھوپال سے لایا گیا تھا۔ کہتے ہیں جوناگڑھ میں بھی جس کے نواب کو گیارہ توپوں کی سلامی کا اعزاز حاصل تھا۔
سمر پیلس، سٹی راج محل، دربار گڑھ پیلس جیسی عالی شان عمارات موجود تھیں۔ ریاست کا رقبہ 3 ہزار 337 مربع میل اور آبادی سات لاکھ تھی، جب کہ 84 میل طویل ساحلی پٹی پر چھوٹی بڑی 16بندرگاہیں تھیں جن میں سے ویراول سال کے بارہ مہینے استعمال ہوتی تھی۔ ریاست کا اپنا نظام ڈاک اور 2 سو تیس میل طویل ریلوے نظام تھا اور 47ء تک محصولات کی مد میں ڈیڑھ کروڑ روپے سالانہ وصول ہوا کرتے تھے۔ جوناگڑھ کے ماتحت رجواڑوں میں ماناودر، مانگرول مشہور ہیں۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کی ریاست خیرپور میں بھی تالپور حکم رانوں نے فیض محل تعمیر کرایا جب کہ سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی کا تالپور ہاؤس اور کراچی چڑیا گھر میں جانوروں کے پنجرے جو عطیات ریاست سے تعمیر ہوئے حکم رانوں کی یاد دلاتے ہیں۔
لکھنؤ میں بھی جسے عمارات کا شہر کہتے ہیں نواب آصف الدولہ نے لاتعداد عمارات، محل ، امام بارگاہیں اور باغ تعمیر کرائے، واجد علی شاہ کے عہد تک کا لکھنؤ ایک حسین خواب سے کم نہ تھا نوابین کے عہد میں لکھنؤ میں تعلقہ داریاں قائم ہوئیں۔ محمود آباد، باہرہ، سیدن پور سمیت متعدد تعلقے تھے۔ راجا صاحب محمود آباد امیر حیدرخان نے 36ء میں اقتدار سنبھالا تو بارہ بنکی، لکھنؤ، لکھم پور اور کھیری کے پانچ سو مواضعات کے مالک تھے اور سالانہ آمدنی 25 لاکھ روپے تھی۔ خیبرپختوخوا کی ریاست دیر میں نواب کا سفید گنبدوں والا محل آج تک اپنی دیدہ زیبی برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ کوہ لواری اور چکدرہ سے ملحقہ دیر کی سابق ریاست سے کچھ فاصلے پر افغانستان کی سرحد شروع ہوجاتی ہے۔ دیر کا رقبہ 3 ہزار مربع میل تھا اب اسے اپر اور لوئر اضلاع میں تقسیم کردیا گیا ہے۔
ریاست کے نواب کی رشتہ داری مہترچترال اور نواب مردان سے بھی ہے جب تک ریاست کا الحاق پاکستان سے تھا اور وہ ضم نہیں ہوئی تھی۔ انہیں ایک لاکھ روپے سالانہ اس مد میں معاوضہ ملتا تھا کہ ان کے علاقے سے گزرنے والی سڑک وفاق کے زیر استعمال تھی ۔ انگریز انہیں اس کا نصف دیا کرتے تھے۔ بہاولپور کی ریاست کے عباسی نوابوں کی رشتہ داریاں بھی دیگر ریاستوں کے نوابین یا جاگیرداروں سے ہیں۔ قلعہ دراوڑ ، صادق گڑھ پیلس اور متعدد خوب صورت محلات ریاست کی شناخت ہیں۔ ریاست کے حکم رانوں کو 17توپوں کی سلامی کا حق حاصل تھا۔ پاکستان میں صحافت اور شعر و ادب کے حوالے سے جمیل الدین عالی کا نام محتاج تعارف نہیں۔ وہ ریاست لوہارو کے حکم راں خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
جہاں راج باری پیلس، اجایانتا پیلس سمیت متعدد شاہی عمارتیں موجود ہیں۔ لوہارو کے نواب خاندان کی رشتہ داری قصور کے نواب محمد احمد خان کی فیملی سے تھی جس کے احمد رضا قصوری سیاسی طور پر معروف ہیں۔ پاکستان میں تو سابق ریاستوں اور ان کے حکمران خاندانوں کا ریاستی جائیدادوں پر تصرف رہا لیکن ہندوستان میں ایسا بہت کم ہوا بالخصوص مسلمان ریاستوں کے والی تو شکایات ہی کرتے رہے۔ کہتے ہیں تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان منتقل ہونے والوں کی املاک کو ضبط کیے جانے کا ایک قانون موجود ہے۔ البتہ 65ء اور 71ء کی جنگوں کے بعد مزید قوانین کے ذریعے دشمن کی جائیداد کو حاصل کرنے کی قانون سازی کی گئی اور انیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت 21 سو سے زائد اثاثے ضبط کیے گئے۔
انگریزوں نے 1843ء میں حیدرآباد کی چویاری سلطنت ختم کرکے سندھ پر قبضہ کیا تو صرف خیرپور کو بطور ریاست برقرار رکھا۔ حیدرآباد کے تالپور حکم رانوں کے لیے الاؤنس منظور کیے گئے۔ ان میں سے کچھ جلا وطن کیے گئے۔ سندھ میں برٹش نمائندے گورڈن نے گورنر بمبئی کو 23جون 1843ء کو مکتوب تحریر کیا کہ حکم راں فیملی کے 13ارکان اور عملے کے 98 افراد کے لیے کم سے کم 8000 روپے ماہوار الاؤنس منظور کیا جائے جب کہ ملازموں کی تنخواہ کے لئے ماہانہ 3 ہزار روپے، ملبوسات کے لیے 15سو روپے، گھوڑا گاڑیوں کے لیے25 سو روپے دیے جائیں۔
حیدرآباد کے میر نصیر تالپور کے لیے 25 سو روپے، خیرپور کے رستم تالپور کے لیے بھی 25 سو روپے، میرصوبدار کے لیے بھی 25 سو روپے نیز میر حسین علی کے لیے 14سو، میر محمد خان تالپور کے لیے چھ سو روپے کی رقم تجویز کی گئی تھی۔ بعد میں برٹش ایمپائر نے کمی بیشی کے ساتھ وظائف منظور بھی کیے تھے اسی طرح سینیٹ کی مجلس قائمہ نے 2017ء میں فروری کی 20 تاریخ کو اپنے ایک اجلاس میں ان ریاستوں کے حکم رانوں کے لیے سالانہ وظائف کی رقم 25 ہزار سے بڑھاکر 5لاکھ روپے کرنے کی سفارش کی تھی جنہوں نے اپنے زیرنگیں علاقوں کا پاکستان سے الحاق کیا تھا۔ وزارت سفیران نے اضافہ 200 فیصد کرنے کی تجویز دی تھی۔ قائمہ کمیٹی خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ یہ بہت افسوس ناک ہے کہ جن لوگوں نے اپنی جائیدادیں اور ریاستیں پاکستان میں شامل کردیں انہیں سالانہ 25 ہزار روپے وظیفہ دیا جاتا ہے۔
ان ریاستوں کے حکم راں اور خاندان کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ اجلاس میں پاکستان میں ضم ہونے والی ریاستوں کے حکم رانوں کو مراعات کے خاتمے کے (ترمیمی) بل پر تفصیل سے غور کیا گیا۔ وزارت سفیران کی جانب سے الاؤنس میں 200فیصد اضافہ کی تجویز دی گئی تھی جسے کمیٹی نے بڑھا کر 5 لاکھ روپے کرنے کی سفارش کی، سیکریٹری سفیران ارباب شہزاد نے کمیٹی کو بتایا کہ 2007میں وفاقی کابینہ نے سابق ریاستوں کے حکم رانوں کے الاؤنس میں 200فیصد اضافہ کی منظوری دی تھی لیکن 2008ء میں نئی حکومت آنے کے بعد اس پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا گیا، سیکریٹری سفیران نے کہا کہ ان میں سے اکثر افراد اچھی کپڑے بھی افورڈ نہیں کرسکتے ہیں۔ پہلے کی حکومتوں نے ان کے لئے کچھ بھی نہیں کیا۔
البتہ 2013ء میں مارچ کی 2 تاریخ کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ایسا ہی معاملہ پیش ہوا تو عوامی نیشنل پارٹی کے سنیئر حاجی عدیل کا موقف تھا کہ سابق والیان ریاست کو کوئی الاؤنس نہیں ملنا چاہیے۔ انہوں نے اپنے محلوں کو ہوٹلوں میں تبدیل کردیا ہے کچھ حکم راں سیاست میں آگئے ہیں لیکن کمیٹی نے گزارہ الاؤنس ماہانہ 2لاکھ فی کس مقرر کرنے اور ہر تین برس بعد 15فیصد اضافے کی کثرت رائے سے سفارش کی تھی۔
برصغیر پاک و ہند میں صبح بنارس، شام اودھ اور شب مالوہ مشہور ہے۔ جہاں مناظر دیدنی ہوتے ہیں۔ یہ شاہی ریاستیں ، ان کے حکم راں دادودہش کی داستانیں اور بے جا اختیارات کے استعمال سے افتادگان خاک پر ٹوٹنے والے مظالم کتابوں میں مرقوم اور محفوظ ہیں اور دیکھو انہیں جو دیدہ عبرت نگاہ ہو کی عملی تفسیر ہیں۔ لکھنؤ کو وہاں کے باشندے رشک روضہ رضواں سے تعبیر کرتے تھے تو حیدرآباد دکن والے صدق جائسی کے الفاظ میں شاہی محافل کو دربار دربار بتاتے تھے یہی کیفیت رام پور، بھوپال، جونا گڑھ ، بھاولپور، قلات کی تھی عظمت رفتہ کی یادگاروں کا اب صرف تذکرہ باقی ہے۔ وہ بھی کب تک؟ کہ تیزی سے بدلتے منظر نامے میں سب منظر عقبی شیشے میں دھندلا رہے کہ سفر تیزی سے جاری ہے اور سب کی نگاہ ونڈ اسکرین پر ہے۔
The post برٹش راج کی دیسی ریاستیں appeared first on ایکسپریس اردو.