(قسط نمبر3)
وقت کرتا ہے پرورش برسوں ۔۔ حادثہ یک بیک نہیں ہوتا
یہ شعر سانحہ مشرقی پاکستان 16دسمبر1971ء پر پوری طرح صادق آتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ پہلے مختصر مگر جامع انداز میں پورے بنگال کے علاقے کے تاریخی سماجی اور جغرافیائی پس منظر کا جائزہ لیا جائے۔
یہ پورا خطہ صدیوں بلکہ ہزاروں برس سے بنگال ہے۔ اِس وقت بھارتی مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کا مجموعی رقبہ 236322 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی 25 کروڑ سے زیاد ہ ہے، بنگال جیو پولیٹیکل، ثقافتی اور تاریخی خطہ ہے، یہ جنوبی ایشیا اور خصوصاً مشرقی برصغیر کا وہ حصہ ہے جو خلیج بنگال میں برہما پتر اور گنگا ڈیلٹا سسٹم ہے اور جغرافیائی اور موسمیاتی تشکیل کے اعتبار سے دنیا کا سب سے وسیع ڈیلٹائی خطہ ہے۔
شمال اور مشرق کی طرف یہاں للترا میں دنیا کے سب سے بڑے منگروز یعنی تمر کے جنگلات ہیں،کاکسک بازار میں دنیا کی 125 کلومیٹر سب سے لمبی ییچ ہے، یہاں سندر بند کے جنگلات اہم ہیں جہاں دیگر جنگلی حیات کے علاوہ بنگال ٹائیگر بہت مشہور ہے۔ انگر یزوں کے زمانے میں یہا ں اِن شیروں کا بے دریغ شکار کیا گیا مگر اب یہاں بھارت کی سرکاراپنے علاقے میں اور بنگلہ دیشی حکومت اپنے علاقے میں اِن شیروں کی بہت حفاظت کر رہی ہے۔
بنگال کے علاقے میں اِس وقت اِن بنگال ٹائیگرز کی تعداد مجموعی طور پر ڈھائی سو کے قریب ہے جن میں تقریباً اسی بھارتی علاقے میں ہیں، باقی بنگلہ دیشی جنگلات میں ہیں۔ بنگال سے باہر جھا ڑ کھنڈ، انڈو مان کے جزائر، نیکو بار کے جزائر میں بنگالی آبادی زیادہ ہے، جہاں تک خلیجِ بنگال کے موسمیاتی نظام کا تعلق ہے تو یہ ایشیا میں بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان سر ی لنکا، بھوٹان، مالدیپ تک سالانہ مون سون سسٹم کے تحت بارشوں کا سبب بنتا ہے بلکہ بعض اوقات تو سعودی عرب کے جزیز ے میسر تک مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں، ہمالیائی شمالی پہاڑی علاقہ جس میں ہمالیائی ریاستیں نیپال، بھوٹان مشرق کی طرف میانمار ہے۔
آج سیا سی اور آئینی خود مختاری کے سبب بنگال ، مغربی بھارتی بنگال اور بنگلہ دیش میں تقسیم ہے۔ بنگلہ دیش کل رقبے کا دو تہائی یعنی 147570مربع کلومیٹر اور آبادی 16 کروڑ سے زیادہ ہے اور مغربی بھارتی بنگال کا رقبہ 88752 مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً 9 کروڑ ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ریاست تری پورا،آسام ، اور وادی ِباراک ہیں جہاں نسلی قومی لسانی اعتبار سے بنگالیوں کی تعداد زیادہ ہے اُس کو بھی بنگالیوں کا خطہ کہا جاتا ہے۔
جہاں تک بنگلہ دیش کا تعلق ہے تو اس کا بیشتر رقبہ سمندر کی سطح سے صرف 10 میٹر بلند ہے اور کہا جاتا ہے کہ آئند ہ دس پندرہ برسوں میں گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے علاقے میں مالدیپ جیسا ملک جوآدھا سمندر میں ڈوب چکا ہے، مکمل طور پر سمندر میں ڈوب جائے گا تو بنگلہ دیش کا بھی تقریباً 10% رقبہ سمندر برد ہو جائے گا، اِس وقت دیگر ماحولیاتی مسائل میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں زیرِزمین پانی میں Arsenic آرسینک کی مقدار عالمی سطح پر انسانی صحت کے لحاظ سے طے شدہ مقدارسے خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔
یہ صورتحال بھارتی مغربی بنگال کے 9 اضلاع میں اور بنگلہ دیش کے 42 اضلاع میں کہیں زیادہ ہے، جہاں یہ پورا علاقہ دنیا کا انسانی آبادی کا گنجان ترین علاقہ ہے وہاں یہ دنیا میں اپنی خاص جغرافیائی، تاریخی اہمیت بھی رکھتا ہے۔ یہاں ہزاروں سال سے انسانی تہذیب اپنے ارتقائی عمل سے گزرتی آگے بڑھتی رہی، ساتھ ہی یہاں تاریخ کی سب سے زیادہ قدرتی اور غیرقدرتی آفات آتی رہی ہیں۔
قدرتی آفات میں ایسے بدترین قحط کہ ہر قحط میں بھوک سے ہلاک ہو نے والوں کی تعداد لاکھوں سے ایک کروڑ تک پہنچی، یہاں طاعون کی وبا بھی آئی اور سیلابوں اور سمندری طوفانوں سے بھی لاکھوں کروڑوں افراد ہلاک ہوتے رہے، پھر چونکہ یہ خطہ زرعی، معدنی دولت سے مالا مال رہا اس لئے غیر قدرتی آفات کی صورت میں تاریخی اعتبار سے جہاں چین کی قدیم شاہراہ ریشم سے اور بنگال کی اہم بندر گاہوں کے وجہ سے تجارتی اور اقتصادی سرگرمیاں رہیں وہاں ہر دور میں اس کی دولت کو لو ٹنے کے لیے عالمی اور علاقائی طاقتوں نے یہاں انسانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے، پھر یہ بھی ہے کہ بنگالی قوم تہذیبی، ثقافتی بنیاد پر دنیا میں موسیقی، ادب خصوصاً شاعری، مصوری میں بھی منفرد مقام رکھتی ہے۔
یہاں ٹیگور کو یہ اعزاز حاصل ہو اکہ انہوں نے خطے میں سب سے پہلے اور دنیا کے لٹریچر میں بنگالی ادب کی بنیاد پر نوبل انعام حاصل کیا تھا، اِن کے علاوہ نذرالسلام اوردیگرکئی بڑے شاعر اور ادیب پیدا ہوئے، یہی صورت موسیقی میں رہی۔ جہاں تک تعلق تاریخ کا ہے تو بنگا ل کا خطہ انسانی تہذیب کے اعتبار سے قبل از تاریخ کے زمانوں سے جڑا ہوا ہے، یہاں مہاتما بدھ کو نروان بھی ہوا اور پھر ہندو مت کو عروج بھی حاصل ہوا۔ ساتویں صدی سے یہاں بدور حکمران رہے، نویں صدی میں یہاںسے بنگال میں سینا سلطنت کا دور رہا، پھر پالا دور سے پہلے یہاں مسلمان تاجر آنے لگے اور رفتہ رفتہ یہاں کے مقامی لوگو ں نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا کہ جلد یہاں مسلمانوں کی اتنی تعداد ہو گئی کہ وہ پہچانے جانے لگے۔ بغد اد کے عباسی دور میں زیادہ تعداد میں مسلمان تاجر یہاں آئے جب کہ 1204ء میں یہاں مسلم حکمرانی قائم ہونے لگی۔
پھر 1352 میں سلطنت دہلی کو استحکام حاصل ہوا تو میں یہاں اسلام کو مزید فروغ حاصل ہوا، اس زمانے تک بنگال ایک ایسا زبردست پیداواری علاقہ بن چکا تھا جہاں نہ صرف زرعی پیداوار زیادہ تھی بلکہ یہاں کاٹن اور ریشم سے بنائے جانے والے کپڑوں کی صنعت بھی دنیا بھر میں تسلیم کی جاتی تھی، مغلیہ سلطنت کے دور میں بنگال میں صنعت و تجارت اپنے عروج پر اس اعتبار سے بہت زیادہ اہم تھی کہ یہاں کی مقامی آبادی جو اُس وقت بھی کروڑوں میں تھی اس کی اکثریت بھی، یہاں کی صنعتی اقتصادی تجارتی ترقی سے مستفید ہو رہی تھی یعنی یہ معاشرہ خوشحال تھا اور یہاں مسلمان کو اکثریت حاصل ہو رہی تھی۔
اس کے با وجود نہ صرف یہاں امن وامان کی صورتحا ل مثالی تھی بلکہ بنگال کی مجموعی اقتصادیات، صنعت اور تجارت میں یہاں کے مقا می ہندوں کو مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ تھا۔ بابر نے 1526 میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان میں حکومت قائم کی اس کے بعد اس کا بیٹا ہمایوں تخت نشین ہوا، اُسے بہت سے مسائل کا سامنا تھا۔ بنگال کی جاگیر سراسرم کے حکمران کا شہزادہ شیر شاہ سوری تھا، اُس نے ان حالات میں ہمایوں کو شکست دی اور ہندوستان کا شہنشاہ بن گیا۔ اگرچہ شیر شاہ نے ہندوستان پر صرف پانچ سال حکومت کی لیکن بنگال سے خیبر پختونخوا تک ہندوستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے بہت کا م کئے۔
جس میں اُن کا نمایاں کارنامہ بنگال کے شہر ڈھاکہ سے پشاور تک سڑک کی تعمیر ہے جسے جرنیلی سڑک کہا جاتا ہے۔ شیر شاہ سور ی کے انتقال کے کچھ عرصے بعد ہمایوں نے ایران کے بادشاہ کی مدد سے دوبارہ ہندوستان کی حکومت حاصل کر لی ا ور، اورنگ زیب عالمگیر تک مغلیہ دور آب و تاب سے جاری رہا لیکن اورنگ زیب کی وفات کے بعد جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت زوال آمادہ تھی توساتھ ہی یورپی اقوام اپنی تجارتی کمپنیو ں کے ساتھ یہاں سمندر کے راستے آنے لگی تھیں اور اِن میں ڈچ اور برطانیہ زیادہ نمایاں تھے۔
مغلوں کے زوال کے دور میں بھی بنگال میں اُس وقت کی دنیا کی 12فیصد دولت تھی اور یہ علاقہ اُس وقت دنیا کا دولت مند خطہ مانا جاتا تھا، ریاست بنگال کے چین سے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور پھر یورپ سے تجارتی تعلقا ت تھے۔ برطانیہ نے رفتہ رفتہ یہاں قوت حاصل کی اور1757ء میں بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لارڈ کلائیو نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کو پلاسی کی دوسری جنگ میں اُس کے وزیر میر جعفر کی غداری کی وجہ سے شکست دی، واضح رہے کہ پلاسی کی پہلی جنگ میں جب نواب سراج الدولہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لارڈ کلائیو کو شکست دی تھی تو لندن کی اسٹاک ایکسچینج میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے شیئر ز گر گئے تھے، مگر جب لارڈ کلائیو نے پلا سی کی دوسری جنگ میں سراج الدولہ کو حتمی شکست دی اور اُسے شہید کر دیا تو لندن کی اسٹاک ایکسچینج مارکیٹ میںایسٹ انڈیا کمپنی کے شیئرز کئی گنا بڑھ گئے۔
اُس وقت ہندوستان میں نہ تو لوگ اسٹاک ایکسچینج کے تصور سے آگاہ تھے اور نہ ہی اُنہیں برطانیہ سمیت عالمی بنکنگ نظام کا پتہ تھا۔ نواب سراج الد ولہ کے زمانے تک بنگال میں مقامی سطح پر پیداوار پر 10 فیصد حکومتی ٹیکس عائد تھا، یوں بنگال میں اپنے خام مال معدنیا ت، زرعی پیداوار اور صنعت و حرفت کی وجہ سے بہت خوشحالی تھی، غربت نہ ہونے کے برابر تھی اور درمیانہ طبقہ تو برطانیہ کے سرمایہ داروں سے بھی زیادہ مزے میں تھا۔ نواب سراج الدولہ سے پہلے مغلیہ دور میں بھی اور اس کے بعد بھی یہاں بڑے بڑے جاگیردار تھے جو یورپ کے کئی بادشاہوں سے کچھ زیادہ حیثیت کے مالک تھے لیکن لارڈ کلائیو نے کمپنی کے
نفع میں اضافے اور جنگوں پر اٹھنے والے اخراجات کو فوری طور پر پورا کرنے کے لیے سرکاری ٹیکسوں میں 50% سے زیادہ اضافہ کر دیا، اس سے ایک جانب تو کمپنی کو بہت سرمایہ ملا تو دوسری جانب بنگال میں جہاں انگریزکو میر جعفر جیسے غداروں کی صورت میں یہاں کے جاگیرداروں کی ضرورت تھی، وہاں ہندوستان میں آ بادی میں روایتی طور پر ہزاروں برسوںسے برہمن ،کھشتری، ویش اور شودر کی بنیاد پر معاشرے میں طبقاتی تقسیم تھی۔
برہمن سب سے اعلیٰ ذات ہے ،جس کی ذمہ داری مذہبی فرائض کو پورا کرنے کی ہوتی ہے یہ معاشرے کا مقدس طبقہ ہے اور اس کے بعد کھشتری جو حکمرانی بھی کرتے ہیں اور فوجی ہوتے ہیں یعنی حکمرانی اور ملکی دفاع کی ذمہ داری کھشتری کی تھی، تیسرا طبقہ ویش کا ہے جو تجارت کرتا تھا اور شروع ہی سے سود کا کام کرتا تھا، ایسٹ انڈیا کمپنی کے آنے کے بعد بنگال میں اس طبقے یعنی بنگال کے مقامی تاجر طبقہ نے انگریز سے تعاون کیا اور شودر جو ہمیشہ سے اکثریت میں رہے ہیں اور باقی تینو ں بالا طبقات کی خدمت کرتے،کسان بھی یہی ہو تے تھے، جہاں تک تعلق ویش طبقے کا تھا تو وہ سرمایہ کی طاقت رکھتا تھا مگر معاشرے میں خصوصاً برہمن اور کھشتری طبقات میں عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا اور اِن کو بنیا ہی کہتے تھے۔
انگریزوں کے عہد میں ویش طبقے کے تعاون سے جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کو جی بھر کے لُوٹا تو مقامی سطح پر یہ ویش طبقہ بنگال کے معاشرے میں بالا دست ہونے لگا۔1757 ء میں فتح کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں ٹیکسوں کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 50% کر دی تھی اور اس کی وصولی میں بھی اسی ویش طبقے نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ان ظا لمانہ ٹیکسوں کی وجہ سے صورت یہ ہو ئی کہ صرف تیرا سال بعد 1770 میں ایسا خوفناک قحط آیا کہ اس سے اُس وقت ایک کروڑ کے قریب لوگ ہلاک ہو گئے، اب یعنی انگریزوں کے دور حکومت میں معاشرے میںجہاں عوام پر معاشی اقتصادی ظلم روا رکھا گیا وہاں اس سے جو تبدیلیاں شروع ہوئیں وہ اس طرح تھیں کہ معاشرے میں ویش اب بنگال میں انگریز کا شراکت دار تھا۔
اس کو استعمال کرتے ہوئے یہاں پہلے صنعتی انقلاب کے سب سے زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے، یہاں پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں نئے انداز کے جدید کارخانے لگا ئے گئے، یہاں کلکتہ جیسا دنیا کا بڑا شہر تعمیر ہوا، یہ بندر گاہ بہت بڑی تجارتی بندر گاہ بن گئی، کلکتہ کا شہر بھی ٹیکسائل کا مرکز بنا اس سے ہندو یہاں ویش یعنی ہندو بنیے کی تجارت کے سبب طاقتور ہوئے تو دوسری جانب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ جو پہلے بھی تھا اس کی رفتار بڑھ گئی، اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ یہاں شودر آبادی میں اسلام قبول کرنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوا جب کہ جاگیرداروں یعنی نوابین میں مسلمان بھی شامل تھے اور جاگیردارانہ نظام کی بنیاد پر اپنی مقامی آبادی پر اثر اور طاقت کی وجہ سے انگریز کے وفادار بھی تھے مگر یہ شاہا نہ طور طریقوں کی وجہ سے مالی طور پر کمزور ہو رہے تھے۔
اِن کے مقابلے میں ہندو بنیا کے سرمائے اور معاشرتی قوت میں اضافہ ہو رہا تھا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بنگال میں ہمیشہ سے سیلابوں اور سمندری طوفانوں کا زور رہا ہے، یو ں ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے بعد انگریز سرکار کے دور میں بھی لاکھوں افراد سیلابوں اور سمندری طوفانوں کے سبب ہلاک ہوتے رہے جس سال سیلاب یا سمندری طوفان آتے اُس سال زرعی پیداوار تباہ ہو جاتی اس سے جہاں کسان متاثر ہوتا وہاں جاگیردار کو بھی مالی نقصان ہوتا تھا۔
اُس زمانے میں آج کی طرح حکومت ایسی قدرتی آفت کی صورت میں کسانوں، جاگیر داروں اور زمینداروں کی مدد نہیں کرتی تھی۔1757 سے1857 تک انگریزی دور حکومت میں معاشرہ اتنا بدلا کہ جب انگریزوں نے 1846 تک پنجاب میں سکھوں کے خلا ف کاروائی کی تو اُن کو اپنے جدید ہتھیاروں کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں جو فو ج میسر تھی اس کی اکثر یت بنگالیوں پر مشتمل تھی جو بنگال کے جاگیرداروں کی مرضی ہی سے انگریز فوج میں شامل تھی۔ انگریزوں نے رنجیت سنگھ کے جانشینوں کو شکست دی اور پنجاب آج کا خیبر پختونخوا اور مقبوضہ و آزاد کشمیر لداخ سب فتح کر لیا اور پھر جنگی اخراجات اور تا وان جنگ میں ادائیگی کی جوکمی سکھوں کی طرف سے ہو رہی تھی اس کے لیے ڈوگر راجہ گلاب سنگھ کو کشمیر فروخت کر دیا۔
پھر تاریخ نے یہ تماشا دیکھا کہ پنجاب کے جاگیردار انگر یز کے وفادار ہو گئے اور جب 1857ء کی جنگ آزادی لڑی گئی تو اُس کو ناکام بنانے اور حریت پسندوں کو مارنے کے لیے وہ فوج بھیجی گئی جس میں پنجا ب کے جاگیر داروں کی مرضی بلکہ اُن کے حکم سے بھرتی ہونے والے سپاہی ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں دہلی اورہندوستان کے دوسرے علا قوں میں پہنچے اور آزادی کے متوالے مجاہدین کو شکست دے کر جنگ آزادی کو ناکام بنادیا۔
انگریز نے اسے غدر کا نام دیا، یعنی مشترکہ غداری اور اگست 1947 تک یہی لفظ استعمال ہوتا رہا۔ 1757 کی جنگ پلاسی سے جنگ آزادی1857 تک پوری ایک صدی میں بنگال میںاجتماعی طور پر ہندو مسلم تفریق کے بغیر انگریزوں اور غدار بنگالی جاگیرداروں کے مظالم اور ہندو بنیے کے اقتصادی جبر کے خلاف، علم و ادب ، فن و موسیقی اور شاعری سے مزین اس معا شرے کے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے عالمی، قومی اور مقامی تینوں سطح پر بنگال اور بنگالیوں کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں اور جبر کے خلاف عوام کو بیدار کیا۔
جنگ آزادی 1857 میںکلکتہ ،ڈھاکہ ،چٹاگانگ، سلہٹ میں انگریزوں کے خلاف بنگالیوں نے ہتھیا ر اٹھائے، یعنی اجتماعی معاشرتی شعور بنگال میں انگر یزوں کے خلاف یوں بھی برصغیر کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ بیدار ہوا کہ ایک تو انگریزوں کا پہلا پڑائو بنگال تھا جہاں اُن کی بنیادی دلچسپی صنعت و تجارت کی بنیاد پر دولت کا حصول تھا، یہاں بھی انگریزوں کی تعداد بنگالیوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر تھی مگر انگریز اپنے وفادارجاگیرداروں، نوابین ،راجوں اور مہا راجوں کے ساتھ اِن پر حکومت کر رہے تھے۔ انگریزوں نے یہاں اپنی آمد کے بعد عرصے تک کلکتہ کو اپنا مرکز رکھا اور یہاں صنعت و تجارت کو ترقی دی۔ یوں یہاں پر ان کو مختلف شعبوں میں ہنرمند، ٹیکنیکل اور ایسی تعلیم یافتہ افرادی قوت کی ضرورت تھی جو اُن کے کاروبار میں معاون ومددگار ہوں اور سب سے پہلے ایسی افرادی قوت انہوں نے اپنی ضرورت کے مطابق یہاں بنائی جو صنعت و تجارت کے بڑھنے سے لاکھوں تک جا پہنچی، جس طرح یورپ کے دیگر صنعتی شہروں میں اشتراکی نظریات کو مزدروں نے اپنایا، یہی صورت خصوصاً کلکتہ میں رہی۔
دوسری جانب یہاں بنگالی شعرو ادب کا معیار بھی بلند تھا اور کروڑوں افراد پر مشتمل بنگالی قوم تھی اس لیے شروع ہی سے لسانی بنیاد پر یہاں دانشوروں کا ایک بڑاگروہ قوم پرست رہا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں اسلام کو ہندوں کی اعلیٰ ذاتوں کی جانب سے نظراندا ز کئے جانے والی وسیع آبادی یعنی شودروں نے اس لیے قبول کیا کہ اسلام ذات پات کی تقسیم کو نہیں مانتا اور پھر انیسویں صدی کے آخر تک تو بنگال میں مسلمان آبادی مجموعی طور پر قدرے اکثریت میں اور مشرقی بنگال جو اب بنگلہ دیش ہے اس میں بہت واضح اکثریت میں مسلمان آبادی آگئی۔
مگر بنگال میں ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے مقابلے ہندو مسلمان کی بنیاد پر انگریز کے عہد میں بھی لڑائی جھگڑے کے واقعات نہ ہونے کے برابر رہے اور جب مسٹر ہیوم نے 1885ء میں آل انڈیا کانگریس کی بنیاد رکھی تو سر سید احمد خان کے منع کرنے کے باوجود بہت سے مسلمان کانگریس میں شامل ہوئے اور ان میں بنگالی مسلمانوں کی تعداد نمایاں تھی مگر جب ہندوستان میں انگریزوں کی جانب سے پارلیمانی جمہوریت کو مراحل میں اور رفتہ رفتہ متعارف کر نے کا سلسلہ شروع ہوا تو ساتھ ہی عالمی سطح پر نو آبادیاتی نظام کو بڑے چیلنج درپیش ہوئے اِن میں ایک جانب دنیا بھر کے غلام ملکوں ’’نو آبادیات‘‘ کے عوام کی آزادی اور خودمختاری کا فطری جذبہ تھا تو دوسری جانب صنعتی اقتصادی شعبے میں سرمایہ دارانہ نظام کا جبر تھا۔
ان دونوں حوالوں سے ’’بنگال کا خطہ ‘‘ ہند وستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں اہم رہا،آل انڈ یا کانگریس اپنے قیام کے بیس برس بعد نہ صرف ہندوستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت بن گئی بلکہ اس جماعت میں برصغیر کے اعلیٰ تعلیم یا فتہ افراد بڑی تعداد میں شامل تھے۔
اکثریت قانون کے شعبے سے تعلق رکھتے تھی اور وہ برطانیہ جا کر پارلیمانی نظام کا مطالعہ و مشاہد ہ کرچکے تھے، وہ اس اعتبار سے ریاست کے تین ستونوں مقننہ،عدلیہ اور انتطامیہ کے آئینی اختیار سے واقف تھے اور اِن کے الگ الگ دائر کار کو سمجھتے تھے، وہ یہ بھی جانتے تھے کہ چونکہ ہندوستان انگریز کی نو آبادیات تھا۔
اس لیے یہاںمقننہ کو اختیار نہیں دیا تھا بلکہ اس کی تشکیل بھی نہیں ہوئی تھی البتہ مشاورت کی حد تک ہندوستان کی مقامی لیڈ ر شب سے رابطے رہتے تھے، عدلیہ بظاہر آزاد اور قانون کے تابع تھی لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ انگریزوں کے پورے دورِ اقتدار میں ہزاروں لاکھو ں ہندوستانیوں کو اس عدالتی نظام اور قانون کے تحت سزائے موت دی گئی مگر ایک بھی انگریز کو پھانسی نہیں ہوئی۔ یہاں یہ درست ہے کہ انگر یز کی کو شش ہوتی تھی کہ ہندوستانیوں کے درمیان مسئلہ ہو تو قانون کے مطابق انصاف کیا جائے اور اس کے سبب انگریز دور کا انصا ف مشہور تھا۔
1905ء میں وسیع رقبے کے صوبے بنگال کی آبادی 7 کروڑ 85 لاکھ تھی جو اُس وقت کے ہندوستان کی کل آبادی 24 کروڑ کا تقریباً 34 فیصد تھی تو انگر یز وائسرائے لارڈ کرزن نے یہ محسو س کیا کہ بطور وسیع رقبے اور بڑی آبادی کے صوبہ کا انتظام چلانا بہت مشکل ہو گیا ہے اس لیے بنگال کو19 جولائی 1905 کو مشرقی اور مغربی بنگال کے دو صوبوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کر دیا، مشرقی بنگال جو 1947 سے1971 تک مشرقی پاکستان رہا اور اب بنگلہ دیش کہلا تا ہے۔
یہاں مسلم آبادی 80 فیصد تھی اور مغربی بنگال میں بھی مسلم آبادی 45 فیصد کے قریب تھی۔ بنگال کی تقسیم سے مشرقی بنگال کے لو گوں کو فائدہ تھا اور یہ بھی حقیقت تھی کہ اس سے بنگال جیسے صوبے کے عوام کو انتظامی لحاظ سے بھی فائد ہ ہو رہا تھا مگر اس پر بطور سیاسی جماعت کانگریس نے شدید احتجاج کیا اور پہلی مرتبہ واضح طورپر مسلمانوں نے محسوس کیا کہ کانگریس ہندو اکثریت کے مفادات کی نگران ہے اس کے ردعمل میں ہی1906 میں ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا، اور شائد انگریز اپنا فیصلہ 1911 میں تبدیل نہ کرتے اگر عالمی سطح پر جنگ کے آثار نمودار نہ ہوتے اور جب 1911 میں دوبارہ بنگال کو ایک صوبہ بنا دیا گیا تو مشرقی بنگال کے لوگوں کو تنسیخِ بنگال کے فیصلے سے نقصان ہوا اور مسلمانوں نے یہ محسوس کر لیا کہ ہندو پہلے ہندو ہے اور پھر بنگال میں بنگالی ہے۔
1901 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی آبادی 23 کروڑ 85 لاکھ تھی جو اُس وقت دنیا کی کل آبادی کے 20% سے زیادہ تھی اس میں بھی تقسیم بنگال اور تنسیخ ِ بنگال کے اثرات سیاسی اعتبار سے ہوئے، اور یہ ایک بڑی سیاسی، سماجی تبدیلی تھی جس سے بنگال کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور پورے برصغیر کے مسلمانوں پر بھی اثرات مرتب ہوئے مگر جب جنگ عظیم اوّل 1914میں شروع ہوئی تو اُس وقت دنیا کی صورت یہ تھی کہ اپنے رقبے کے لحاظ سے آج کی طرح دنیا کا سب سے بڑا ملک روس ہی تھا، ترکی کی خلافت عثمانیہ تھی، برطانیہ اپنی نو آبادیات سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور خصوصاً بحری قوت کے اعتبار سے اُ س وقت دنیا کی سپر قوت تھا اور امریکہ دنیا کی نئی سپر پاور بن رہا تھا۔
ترکی اور جرمنی کی روس، برطانیہ سمیت یورپی ممالک سے جنگ ہوئی جس کے آخر میں امریکہ بھی ترکی اور جرمنی کے خلا ف اتحاد میں شامل ہو گیا، 1916 میں عالمی جنگ اوّ ل عروج پر تھی تو قائد اعظم اور گانگریس کے رہنمائوں نے بہت درست اندازے قائم کئے کہ اس جنگ کے بعد برطانیہ اور دیگر عالمی نو آبادیات اگر فتح یاب بھی ہوئیں تو کمزور ہو جائیں گی اور ایسی صورت میں متحدہ ہندوستان کی مکمل آزادی کے لیے اگر ہندو اور مسلمان متحد ہو کر انگریزوں کے خلا ف جد وجہد کریں تو ایک لاکھ انگر یز تقریباً 25 کروڑ آ باد ی کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا، یوں1916 میں قائد اعظم کی جانب سے متحدہ ہندوستان میں مستحکم اور پائیدار ہندو مسلم اتحاد کے لیے ہندوستان کے ہندو مسلم دو قوموں کی قوی شناخت کی مستقل ضمانت کے لیے ایک ایسا فارمولہ دیا جس کی بنیاد پر یہ دونوں قومیںاُس وقت متحد ہو گئیں، اس معاہدے کو اُس وقت میثاقِ لکھنو کا نام دیا گیا۔
قائداعظم اور کانگریس کے اہم رہنما سبھی بارایٹ لا یا ایل یل بی کے ساتھ قانونی اور آئینی امور پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ قائد اعظم کا موقف یہ تھا کہ بر طانیہ جو دنیا میں جمہوریت کی ماں کہلاتا ہے، وہاں نوے فیصد سے زیا دہ افراد ایک ہی قوم ، نسل ، زبان، مذہب اور ثقافت سے وابستہ ہیں ، اس لیے وہاں کے آئین میں اِن بنیادوںپر کسی گروہ یا قوم کو تحفظ کی ضرورت نہیں مگر ہندوستان میں ہندو اور مسلم دو الگ الگ قومیں کروڑوں کی تعداد میں ہیں، اس لیے یہاں ہندوستان کے مخصوص سماج اور وسیع ملک میں ایک ایسے آئین کی ضرورت ہو گی۔
جس میں مسلمان جو ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت ہیں اُنہیں اُن کی شناخت کی آئینی ضمانت کی ضرورت ہو، اس لیے جدا گانہ انتخاب کے ساتھ مسلم ہندو تناسب کے اعتبار سے ہی اَن کے درمیان ملازمتوں اور پارلیمنٹ کی نشستوں کا تناسب ہو اور سب سے اہم یہ تھا اگر مقننہ کو ئی ایسا قانون لانا چاہتی ہو جس سے کسی مذہب کے ماننے والوں کے عقائد اور عقائد کے اعتبار سے زندگی، طرز معاشرت متاثر ہوتی ہو تو ایسی قانون سازی کے لیے یہ ہو گا کہ اُس مذہب کے ماننے والوں کی جو تعداد پارلیمنٹ میں ہو گی اُس کی دو تہائی اکثریت جب تک اس قانونی مسودے کے حق میں ووٹ نہیں دے گی اُس وقت تک وہ قانون مقننہ منظور نہ کر سکے گی۔
ان تمام نکا ت پر میثاقِ لکھنو میںاتفاق ہو گیا اور اس کی کامیابی کا سہرا قائد اعظم کے سر گیا اور اُنہیں ہند و مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب دیا گیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ فیصلہ مسلمانوں اور مسلم لیگ کی فراخدلی کا ثبوت تھا حالانکہ میثاقِ لکھنوسے صرف تین برس پہلے ہی کانگریس کے شدید احتجاج اور سیاسی دبائو کے نتیجے میں1911 کو انگریزوں نے تنسیخ بنگال کا اعلان کیا تھا یعنی دوبارہ بنگال کو ایک صوبہ بنا دیا گیا تھا۔
یہ بات راقم پہلے بھی کہہ چکا ہے کہ اگرچہ کانگریس نے سیکولرازم کی بنیاد پر بھارت کے آئین کی بنیاد رکھی اور اس اعتبار سے مغل بادشاہ اکبر اعظم کی پالیسیوں کو سراہا مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ جب کبھی ہندو اکثریت کا مفاد سامنے آیا تو اس کے قائدیں نے ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت یعنی مسلمانوں کو نظر انداز ہی نہیں کیا بلکہ اِن کے سیاسی،اقتصادی، سماجی حقوق کو پامال کیا،کانگریس نے پہلی عالمی جنگ سے دو برس قبل میثاق لکھنو اس لیے کر لیا تھا کہ ا گر جنگ میں ترکی کی سلطنتِ عثمانیہ اور جرمنی جیت گئے تو اِس سے کا نگریس اور ہندو اکثریت کو فائد ہ ہوگا اس کے علاوہ کانگریس اُس وقت مسلم لیگ سے تمام تر اختلافات میثاق لکھنو پر اتحادکی بنیاد پر انگریزوں کو دبائو میں لے آئی تھی۔
کیونکہ وہ دبائو ہی کی وجہ سے تنسیخ بنگال کرانے میں کامیاب ہوئی تھی اور پھر جلد تاریخ نے ثابت کر دیا کہ جب 1918 کو پہلی عالمی جنگ میں ترکی اور جرمنی کو شکست ہوئی تو اس کے بعد کانگریس نے انگریز سرکار سے ہندو مسلم اتحاد کے دبائو کے ساتھ سیاسی قربت بڑھائی، تحریک خلافت میں ساتھ دینے کے کچھ عرصے بعد مسلمانوں کو انگریز سرکار کے سامنے تنہا رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور پھر1928 میں مسلم لیگ سے بغیر کسی مشاورت کے یک طرفہ طور پر کانگریس کے رہنما موتی لال نہرو نے اپنی مشہور ِ زمانہ نہرو رپورٹ جاری کر دی جس میں میثاقِ لکھنو کو از خود مکمل طور پر مسترد کردیا۔
جس پر قائداعظم نے ہند و مسلم اتحاد کو بچانے کے لیے 1929 میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کئے مگر کانگریس ہندو اکثریت کے گھمنڈ پر اپنا راستہ جدا کر چکی تھی۔ 1930 کے مسلم لیگ کے جلسہ الہ آباد میں علامہ اقبال نے اپنے صدارتی خطبے میں قیام پاکستان کا بہت واضح تصور پیش کر دیا، یہ وہ دور تھا جب انگریز ہندوستان میںایک قانون ’’آئین ‘‘ نافذ کر کے انتخابات کی بنیاد پر مقامی سیاسی لیڈر شپ کو محدود حکومتی اختیارات دیکر اقتدار میں کسی حد تک شریک کر نا چاہتا تھا تاکہ عوامی لیڈروں کے تعاون سے کروڑوں افراد پر حکمرانی کو وقت کے تقاضو ں سے مصنوعی انداز میں ہم آہنگ کرتے ہوئے پرسکون ماحول جاری رکھ سکے جب کہ دوسری جانب مسلم لیگ اور کا نگریس یہ چاہتے تھے کہ جو بھی قانون آئے اُن میں ان کے مطالبات اور تجاویز کو زیادہ شامل کیا جائے، یوں مشاورت کا عمل شروع ہوا جو آخر لند ن کی تین گول میز کانفرنسوں کے کچھ عرصے بعد ختم ہوا۔
1932-33 تک جب یہ گول میز کانفرنسیں ختم ہوئیں تو اسی دور میں عظیم عالمی کساد بازاری آئی جس سے پوری دنیا کی معیشتیں متاثر ہوئیں، دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں اور یہی وہ زمانہ تھا جب جرمنی میں ہٹلر نے اپنے اقتدار کو مضبوط اقتصادی، سیاسی نظام کی بنیاد پر مستحکم کیا تھا اور اب بر طانیہ، فرانس اور دیگر اتحادی ملکوں کے لیے چیلنج بن رہا تھا۔
انگریزوں نے 1935 ء قانون ہند نافذ کر دیا اور اس کے تحت جنگ دوسری عالمی جنگ سے دو سال قبل 1937 میں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں صوبائی انتخابات کروائے، اِن انتخابات میں باوجود تقسیمِ بنگال اور تنسیخ بنگال، نہرو رپورٹ اور تحریکِ خلا فت میں کانگریس کی جانب سے دھوکوں اور بد نیتی کے ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت نے کانگریس کو ووٹ دیئے اور کانگریس نے نو صوبوں میں سنگل پارٹی کی بنیاد پر اور باقی دو صوبوں میں مسلم لیگ کی بجائے دیگر مقامی جماعتوں کے ساتھ مخلو ط صوبائی حکومتیں بنائیں اور مسلم لیگ کو چند صوبائی وزارتوں کی پیش کش کے ساتھ یہ کہا گیا کہ وہ خود کو کانگریس میں ضم کر دے۔
واضح رہے اُس وقت تک مسلم لیگ کا دوقومی نظریہ اور پاکستان کا مطالبہ ہندوستان کے مسلمانوں میں مقبول نہیں ہوا تھا، انہیں اب بھی کانگریس پر بھروسہ تھا مگر جب گانگریس کو وزارتیں ملیں تو جو سلوک کانگریس نے مسلمانوں کے ساتھ کیا اُس سے مسلما نوں کے اوسان خطا ہوگئے،کانگریس نے اپنی سیاست کی وجہ سے مسلم دشمنی یا اپنی تنگ نظری کی وجہ سے ہندوستا ن میں مسلمانوںکی شناخت کو ختم کرنے کے لیے اپنی پالیسیوں کے تحت ہندوستان میں انگریز کے اقتدار کو طول دیا جس سے نہ صرف ہندوستان کے کروڑوں افراد کو نقصان ہوا بلکہ پوری دنیا میں ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی آزادیاں نہ صرف تاخیر کا شکار ہوئیں بلکہ اب تک ادھوری رہی ہیں۔ 1939 میں جب دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو انگریزوں نے یہ عندیہ دینا شروع کر دیا تھا کی وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہندوستان کو آزادی اور خود مختاری دے کر رخصت ہو جائیں گے۔ اِ س موقع پر کانگریس نے ہندوستان
کی دوسری بڑی اکثریت یعنی مسلمانوں کے بارے میں اپنی مقبولیت اور کارکر دگی کے لحاظ سے غلط اندازے قائم کئے اور جنگ کے آغاز پر انگریز وں پر واضح کر دیا کہ انگریز اُ ن سے یہ عہد کرے کہ اس جنگ کے خاتمے پر وہ اقتدار کانگریس کو سپرد کر کے رخصت ہو جائیں گے اور پھر اُنہوں نے انگریز سرکار پر روز بروز دبائو بڑھانا شروع کیا اور آخر 1939 میں جنگ کے آغاز پر وزارتوں سے استعفیٰ دے کر انگریز سرکار کے خلاف تحریک شروع کردی اور یہ تحریک مسلح اور پُر تشدد ہو گئی ، اس موقع پر قائد اعظم نے مسلمانوں کو یہ ہدایت کی کہ وہ کانگریس کا ساتھ نہ دیں اور کانگریس کے استعفیٰ پر یوم نجات منایا۔
اب ہندوستان میں مسلم آبادی کانگریس کے ساتھ نہیں تھی تو دوسری جانب انگریز کو اسی ہندوستان میں540 سے زیادہ ریاستوں کے نوابین، راجائوں، مہا راجائوں اور ہزاروں بڑے زمینداروں کی مکمل حمایت حاصل تھی مگر بنگال میں صورتحال یو ں مختلف تھی کہ یہاں کلکتہ، ڈھاکہ جیسے بڑے صنعتی شہروں کی بنیاد پر مزدورں،کلرکوں، طالب علموں اور عام شہریوں میں سیاسی ، سماجی شعور کی سطح اس لیے بلند تھی کہ ایک تو یہاں1757 سے جبر بھی جاری تھا اور صنعتی، اقتصادی ترقی بھی تھی، دوسری جانب یہاں انگریزوں کے خلاف شدید مزاحمت بھی رہی اور آزادی کے راستے میں ہزاروں، لاکھوں افراد شہید ہوئے جن میں نواب سراج الدولہ کے بعد سید میر ناصر علی تیتو میر تھے۔
جنہوں نے انگر یز وں کے خلا ف مسلح جدوجہد کی اور زخمی حالت میں 19 نومبر1831 کو وفات پائی، اِن کے بعد بھی بہت سے جانباز، حریت پسندوں نے جد وجہدجاری رکھی، یوں بنگال میں اگرچہ یکم اپریل1937 سے29 مارچ 1943 تک شیر بنگال ابو قاسم فضل حق وزیر اعظم بنگال رہے اور اِن پر انتظامی اعتبار سے ناکامی کے الزامات عائد ہوئے کہ 1942 کے قحط میں تاجروں نے ذخیرہ اندوزی کی جس کی وجہ سے لاکھوں افراد بھوک سے ہلاک ہو گئے تھے اور ان کے بعد سر خواجہ ناظم الدین بنگال کے وزیر اعظم ہو ئے جو 1943 سے 1945 تک وزیر اعظم بنگال رہے اور ان کے بعد یعنی 1945 سے 14 اگست 1947 تک حسین شہید سہروردی مشترکہ بنگال کے وزیر اعظم رہے۔
1937 کے بعد 23 مارچ 1940 میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی 1941 ء میں مشترکہ ہندوستان کی آخری مردم شماری ہوئی جس کے مطابق ہندوستان کی 540 سے زیادہ چھوٹی بڑی ریاستوں کی کل آبادی 88167852 تھی جس میں مسلم آبادی 12533063 تھی اور جس میں کشمیر کی کل آبادی4021616 تھی جس میں مسلم آبادی76.43% یعنی 3735400 تھی جب کہ برٹش انڈیا کی کل آبادی292164791 تھی جس میں سے مسلم آبادی79055078 تھی جو کل برٹش انڈیا کی آبادی کا27.06% تھی جس میں خیبر پختونخوا میں مسلم آبادی کا تناسب91.80% ، برٹش بلو چستان میں87.50% ، سندھ میں 70.75% اور مشترکہ یعنی غیر تقسیم شدہ پنجا ب میں کل آبادی28418819 تھی جس میں سے مسلم آبادی16217242 یعنی کل آبادی کا 57.07% تھا اور اسی طرح غیر تقسیم شدہ بنگال کی کل آبادی60306525 تھی۔
جس میں کل مسلم آبادی 33005434 یعنی کل آبادی کا54.73% تھی اگر اس آبادی میں برٹش انڈیا کے علاوہ پنجاب اور بنگال کی ریاستوں کی آبادیوں کو لیا جائے تو بنگال کی ریا ستوں کی کل آبادی1941 کی مردم شماری کے مطابق 2144829 تھی جس میں مسلمانوںکی آبادی 372113 یعنی17.35% تھی اسی طرح پنجاب کی ریاستوں کی کل آبادی 5503554 تھی جس میں مسلم آبادی2251459 تھی، مسلم آبادی کا تناسب40.91% تھا یعنی ریا ستوں کی آبادیاں لاکھوں اور صوبوںکی آبادیاں کروڑوں میں تھیں، یوں غیر تقسیم شد بنگال میں مسلم اکثریت تھی جس کا تنا سب بشمول ریا ستوں کی آبادی کے54.50 فیصد سے زیادہ تھا اور غیر تقسیم شدہ پنجاب میںبھی اکثریت مسلم آبادی کی تھی جس کا تناسب بشمول ریاستوں کی آبادی کے تقریباً 57 فیصد تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران جس طرح ہمارے ہاں خاکسار تحریک کے علامہ مشرقی عنایت اللہ نے یہ کوشش کی تھی کہ مسلح جدوجہد کر کے آزادی حاصل کی جائے اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے موسی لینی اور ہٹلر سے ملاقاتیں بھی کی تھیں اسی طرح بنگال کے گوریلا لیڈرسباس چندر بوس نے جاپان کی مدد سے کوشش کی تھی کہ برما کی جانب سے بنگال میں انگریز کے خلاف مسلح جدوجہد کی جائے۔
اُن کی یہ تحریک کافی مقبول بھی ہوئی مگر 1942 کے بعد جنگ میں جاپان اور جرمنی پسپا ہونے لگے اور امریکہ بھی جنگ میں شامل ہو گیا پھر سباس چندر بوس لاپتہ ہو گیا، یوں دیکھا جائے تو بنگال میں بنگالی قوم پرستی،کمیونزم،کے اثرات کے اعتبار سے مجموعی آبادی یعنی مسلمان اور ہندو کی تفریق کے بغیر تقربیاً نصف سے کچھ زیادہ تھا اورمذہب کی بنیاد پر 54.50 فیصد مسلمان تھے۔ یہ سماجی بنت 1757 سے 1947 تک کیسے سماجی، تاریخی اور سیاسی اعتبار سے زاویے بدلتی آگے بڑھی یہاںسیاسی انجنیئرنگ کو بھی بڑا دخل ہے اور ایسی ہی سیاسی انجنیئرنگ پنجاب میں بھی ہوئی لیکن دونوں صوبوں میں انگریز وں اور کانگریس کی ملی بھگت سے تکنیک مختلف تھی۔
1937 کے انتخابات کے بعد مشترکہ ہندوستان کے آخری انتخابات دسمبر1945 سے جنوری1946 میں ہوئے، تعریف کی بات یہ ہے کہ 1937 سے 14 اگست1947 تک بنگال اور پنجاب میں مسلمان وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ رہے، غیر تقسیم شدہ بنگال میں1937 سے 1943 تک شیرِ بنگال فضل حق وزیراعظم بنگال رہے اس کے بعد 1943 سے1945 تک خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم رہے پھر1946 سے 14 اگست1947 تک حسین شہید سہروردی مشترکہ بنگال کے وزیر اعظم رہے اور پنجاب میں1937 سے1942 تک سکندر حیات خان اس کے بعد ملک خضر حیات پہلے 1942 سے1945 تک اور پھر 5 فروری1945 سے21 مارچ 1947 تک پنجا ب کے وزیر اعلیٰ رہے۔
قیام پاکستان پر ان دونوں صوبوں کے لیے یہ طے ہوا کہ بنگال میں مغربی بنگال میں ہندو بنگالی قدرے اکثریت میں تھے اور مشرقی بنگال میں مسلمانوں کا تناسب75 فیصد تھا۔ واضح رہے کہ اُس وقت بنگال کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی بنگال کی تقسیم کے حق میں نہیں تھے مگر خواجہ ناظم الدین اور دیگر مسلم لیگی لیڈر تقسیم کے حامی تھے اور خود گانگریس بھی یہی چاہتی تھی حالانکہ یہی کانگریس تھی جو 1905 میں صوبہ بنگال کی تقسیم پر چھ سال مسلسل احتجا ج کرتی رہی، اب مسئلہ یہ تھا کہ تقسیم بنگال کانگریس اور انگریز سرکار چاہتی تھی اور اب مشترکہ کی آبادی سات کروڑ سے زیادہ ہو چکی تھی۔ مشرقی پاکستان کے علاقے میں تقریبا ًساڑھے چارکروڑ اور مغربی بنگال میں آبادی ڈھائی کروڑ تھی۔
جنوری 1947 میں نواکھلی میں ہندو مسلم فسادات کے چند واقعات ہوئے تو اگر یہ خون ریزی پنجاب کی طرح بڑھ جاتی تو مشرقی پاکستان کی پوری25 فیصد ہندو آبادی بھارتی مغربی بنگال ہجرت کر جاتی اور مغربی بنگال کی مسلم آبادی مشرقی پاکستان آجاتی اور نیشنل ازم کی جگہ مذہب ہمیشہ کے لیے دونوں جانب سے غالب آجاتا اس کو روکنا ضروری تھا اور اس موقع پر وزیر اعظم بنگال سہروردی اور گاندھی نے اہم کردار ادا کیا گاندھی نے یہاں مرن بھرتھ یعنی بھوک ہڑتاک تادم مرگ کردی اور اُن کی حالت انتہائی خراب ہو گئی اور یوں سہروردی اور گاندھی کی اپیل سے ہندو مسلم فسادات یہاں رک گئے حالانکہ بنگال میں آبادی پنجاب کے مقابلے میں تین گنا سے زیادہ تھی مگر پنجاب میں پہلے تو ریڈ کلف ایوارڈ میں بددیانتی کی گئی اور مسلم اکثریت کے مشرقی پنجاب کے علاقے گورداسپور، فیروز پور اور زیرا بھارت کو دے دیے گئے اور اس کے بعد اس وقت کی عبوری حکومت کے وزیر داخلہ سردار ولب بھائی پاٹیل اور ماسٹر تارا سنگھ نے مسلح جتھوں کے ذریعے اس بڑی مسلم آبادی کو مغربی پنجاب میں دھکیل دیا جہاں مسلم اکثریت ہے۔
ظا ہر ہے کہ اس کا ردعمل بھی ہوا، بنگال میں آبادی دونوں جانب بنگالی نسل کی تھی جو ہندو اور مسلم میں تقسیم تھی، پنجاب میں آبادی کی پہلی اکثریت مسلمان دوسری اکثریت ہندوکی بجائے سکھ تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود زبان، موسیقی، ادب ایک سا تھا، نفرت کی خلیج ان کے درمیان حائل کر دی گئی اور اس مقصد کے لیے سکھوں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا،اس سے کشمیر پر قبضہ کرنے کے منصوبے میں انہیں فائدہ تھا، اب جہا ں تک تعلق بنگال کی تقسیم کا تھا تو قیا م پاکستان کے بعد پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی جس کے مطابق ملک کی کل آبادی 7 کروڑ 50 لاکھ تھی جس میں سے مشرقی پاکستان کی آبادی4 کروڑ20 لاکھ تھی اور مغربی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ کے قریب تھی۔
مغربی پاکستا ن سے 45 لاکھ سکھ اور ہندو بھارت ہجرت کر گئے جن میں80% سکھ تھے اور اس کے بدلے 65 لاکھ مسلمان بھارت سے پاکستان آئے جن میں اکثریت مشرقی پنجاب سے تھی، تقسیم کے بعد مغربی پاکستان میں ہندو اور سکھ دو سے ڈھائی فیصد رہ گئے اور پنجاب میں تو وہ برائے نام ہی تھے جب کہ اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان میں ہندو آبادی کا تناسب 22 فیصد کے قریب تھا یعنی 1951 میں مشرقی پاکستان میں ہندو بنگالی ایک کروڑ کے قریب تھے اور ہر چوتھا فرد ہندو تھا پھر یہاں ہندو مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یافتہ دولت مند اور اعلیٰ عہدوں اور خصوصاً اکثریت یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھاتے تھے۔
1961 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 9 کروڑ 32 لاکھ تھی جس میں مشرقی پاکستان کی آبادی 5 کروڑ 2 لاکھ اور مغربی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 28 لاکھ تھی جب کہ مشرقی پاکستان کا رقبہ 147570 مربع کلومیٹر تھااور مغربی پاکستا ن اورآج کے پاکستان کا رقبہ 881913 مربع کلومیٹر ہے۔ 1947 سے 1958 تک خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل اور محمد علی بوگرا وزیر اعظم اور بعد میں 1962 تک وزیر خارجہ ، حسین شہید سہروردی وزیر اعظم اور سکندر مرزا 1958 تک پہلے گورنر جنرل اور پھر صدر رہے۔ یہ تمام بنگالی تھے اور مشرقی پاکستان سے تھے۔ مگر آزادی کے فوراً بعد ہی نفرت کی پہلی چنگاری اردو کے قومی زبان قرار دینے پر اٹھی، قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی، وہ جانتے تھے کہ پاکستان کی مضبوطی کی پہلی بنیاد اسلام ہے اور دوسری اردو زبان مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ دوسری پاکستانی زبانوں کے خلاف تھے۔
اُس وقت بھی سندھ میں سندھی زبان تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی تھی، مگر بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کے لیے باتیں کی گئیں، اسی طرح مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم کے مسائل کو اٹھایا گیا اور یہ اعداد و شمار آج تک ریکارڈ پر ہیں، جیسے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستا ن میں کئے گئے اخراجات کا پنجسالہ موازانہ جس میں 1950-55 کے حوالے سے بتایا گیا کہ مغربی پا کستان پر 1125 کروڑ روپے خرچ کئے گئے جو کل اخراجا ت کا 63.31% تھے، اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان پر کل اخراجا ت کا 31.69% یعنی 524 کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔
1955-60 کے دوران مغربی پا کستان پر1655 کروڑ روپے خرچ ہوئے جو کل اخرجا ت کا 75.93% تھے جب کہ اسی دوران مشرقی پاکستان پر 524 کروڑ ہی خرچ ہوئے جو ان پانچ پرس کی مدت کی بنیاد پر 24.05% تھے۔ 1960-65 کے دوران مغربی پاکستان مغربی پر 3355 کروڑ روپے خرچ ہو ئے جو کل اخراجات کا70.5% تھے اورمشرقی پاکستان پر 1404 کروڑ روپے خرچ ہو ئے جو کل اخراجات کا29.5% تھے اور1965-70 میں مغربی پاکستان پر5195 کروڑ روپے خرچ ہوئے جوکل خراجات کا70.82% تھے اور اسی دوران مشرقی پاکستان پر 2141 کروڑ روپے خرچ کئے گئے جو کل اخراجات کا 29.18% تھے اور ان بیس برسوں میں مجموعی طور پر مغربی پاکستان پر11334 کروڑ روپے خرچ کئے گئے جو بیس سالہ کل اخراجات کا71.16% تھے اور اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان پر کل 3593 کروڑ روپے خرچ ہوئے جو کل اخراجات کا 28.84% ہوتا ہے اور اسی طرح 1960-65میں مغربی پاکستان میں جی ڈی پی4.4% اور مشرقی پاکستان میں 2.6 فیصد تھا، 1960ء میں70 فیصد برآمدات مشرقی پاکستان سے تھیں، 1970 میں60% برآمدات مشرقی پاکستان سے تھی۔
اُس وقت مشرقی پاکستان میں چائے اور پٹ سن کی پیداوار مثالی تھی جب کہ مغربی پاکستان کاٹن اور چاول کی پیداور میں آگے تھا،اَن اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اُس وقت مشرقی پا کستان میں آبادی کا تناسب55% اور مغربی پاکستان میں45% تھا اس تناظر میں کسی حد تک مشرقی پاکستان سے نا انصافی ہوئی مگر اس کو بھارت کے ہم نوائوں نے کہیں زیادہ شدت سے بھارت کے حق میں استعمال کیا اور اس سے بھارت کو یہ فائد ہوا کہ کشمیر کے مسئلے کو دو قومی نظریے کے تناطر میں مشرقی بازو کے احتجاج کی بنیاد پر پس پشت ڈال دیا گیا اور یہ عمل 1951 میں لیا قت علی خان کی شہادت کے بعد تیز کر دیا گیا کیونکہ اس کے درپردہ اُس وقت کے دو بڑ ے بیورو کریٹ ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا تھے۔
پھر سیاسی اعتبار سے مغربی پاکستان کی سماجی ساخت مشرقی پاکستان کے مقابلے میں مختلف تھی، مشرقی پاکستان میںکم رقبے پر یہ دنیا کا گنجان آبادی کا علاقہ تھا جہاں بڑے جاگیرداروںاور زمینداروں کی بجائے متوسط طبقے اورغریب طبقے کا سائز بڑا تھا، سیلاب اور طوفان جیسی قدرتی آفات اس کو وقفے وقفے سے متاثر کرتی ہیں۔
مغربی پاکستان کا رقبہ مشرقی پاکستان کے مقابلے میںتقریباً پانچ گنا زیادہ تھا، یہاں ایشیا کے بڑے جاگیردار اور زمیندار آج بھی طاقتورہیں، مشرقی پاکستان میں 23% ہندو آبادی کے ساتھ خواندگی کی شرح مغربی پا کستان کے مقابلے میں تقریباً تین فیصد زیادہ تھی سب سے زیادہ بدقسمتی یہ رہی کہ پاکستان میں آئین 1956 میں نوسال بعد نافذ العمل ہوا اور جب اس کے تحت انتخابات ہونے والے تھے تو یہ آئین ہی منسوخ کردیا گیا۔
جمہور ی عمل میں مسائل اس طرح دور ہو تے ہیں جیسے بہتا پانی شفاف ہو جاتا ہے، مثلًا اگر 1951 میں مقررہ وقت پر ملک کے پہلے انتخابات کے بعد تسلسل جاری رہتا تو پارلیمنٹ میں بہت سے مسائل بحث سے اصل حقائق کے ساتھ واضح ہو جاتے ، جیسے 1973 کے آئین اور اس میں ہو نے والی جمہوری ادوار کی ترامیم سے ہوتی رہیں، بھٹو نے آئین میں این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاق اور صوبوں میں اور پھر صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کا نظام رکھا، جس سے چند سال پہلے بلوچستان ، سندھ اور خیبر پختونخوا کے دیرینہ مطالبات کو کافی حد تک تسلیم کیا گیا، بلوچستان کو وسیع رقبے اور پسماندگی کی بنیاد پر اُس کے حصے میں اضافہ کیا گیا، اسی طرح اُس وقت بھی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جا سکتا تھا۔
رقبے میں پانچ گنا بڑا مغربی پاکستان تھا، مشرقی پاکستان کے مقابلے میں زیادہ ملکوں سے سرحدیں ملتیں اور زیادہ طویل ہیں، ان بنیادوں پر افواج پاکستان کے ہیڈ کوارٹر یہاں تھے اور دفاعی اخراجات بھی تھے، جہاں تک تعلق بوگرا فار مولے کا تھا تو اُس میں مشرقی اور مغربی پا کستان دو حصے تو ضرور ہوتے لیکن اگر 1947 سے1955 تک کی طرح مغربی پا کستان کے صوبے بحال رہتے تو پنجا ب کے خلاف یہاں دوسرے صوبوں کی رنجشیں نہ بڑھتی، مگر مفاد پرستوں نے بروقت مسائل کے تدارک کے لیے جمہوری بنیادوں اور جمہور کے لیے کام نہیں کیا،اور پھر یہ لاوا پک رہا تھا کہ جنگ 1965 کی شکست نے بھارت کو برانگیختہ اور سوویت یونین اور امریکہ کو پریشان کر دیا اور اس کے چھ سال کے اندر ساری اندرونی و بیر ونی سازشیں مکمل ہو گئیں، 1969 میں صدرایوب رخصت ہوئے تو جنرل یٰحی خان نے مارشل لا نافذ کرکے 1962 کا صدارتی آئین منسوخ کردیا اور اپنی جانب سے ایل ایف او لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔
(جاری ہے)
The post سقوط ڈھاکہ کا تاریخی اور سیاسی پس منظر appeared first on ایکسپریس اردو.