’’مسلح فوجی رات میں گھروں میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ لڑکوں کو حراست میں لیتے ہیں۔ گھر کے سامان کو الٹ پلٹ دیتے ہیں۔ اناج اور غلے کو فرش پر بکھیر کر اس میں تیل ملا دیتے ہیں۔‘‘
’’شوپیاں میں چار (کشمیری)لڑکوں کو فوجی کیمپ میں طلب کیا گیا اور ان سے پوچھ گچھ (ٹارچر)کی گئی۔ ان کے قریب ایک مائیک رکھا گیا تاکہ علاقے کے لوگوں کوان کی چیخوں سے خوفزدہ کیا جا سکے۔ اس سے پورے علاقے میں خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔‘‘
’’ آخر میں کشمیر میں جو چیز دم توڑ گئی وہ بھارت کی جمہوریت ہے۔ ہر چیز کو پاکستان کی طرف نہ لے جائیں۔ ہم کشمیری صرف اس لیے خاموش نہیں رہ سکتے کہ بھارتی حکومت کے اقدامات اسے عمران خان کے مقابلے میں منفی انداز میں پیش کرتے ہیں۔‘‘
یہ ان ٹویٹس کا متن ہے جو شہلا رشید نے5 اگست 2019 کو ہندوستان کی جانب سے کشمیر کی شناخت پر کیے گئے حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے دوران کیے تھے۔ جب وادی کشمیر میں میڈیا کو رسائی نہیں تھی تو شہلا رشید کی طرف سے کشمیریوں پر تشدد کے حوالے سے یہ ٹویٹس سامنے آئے جس کے بعد کشمیر میں بھارتی فوج کے تشدد کو رپورٹ کیا گیا۔ انہی ٹویٹس کے بعد شہلا رشید کو سوشل میڈیا پر بھارتی انتہا پسندوں کی جانب سے غدار قرار دے کر ٹرول کیا جانے لگا اور پھر ان پر غداری کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ شہلا رشید کو ٹوئٹر پر ٹرول کیا جا رہا ہو یا انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو لیکن پہلی مرتبہ ان کی ٹویٹس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا گیا ہے۔ مذکورہ ٹویٹس کے بعد شہلا رشید پر غداری کا مقدمہ درج کرنا بھارت کی بوکھلاہٹ کو واضح کرتا ہے۔ بھارت کی جانب سے ایک نہتی لڑکی کو نشانہ بنانا اور اس کی آواز دبانے کیلئے ’’غداری‘‘ جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنا بھارت کے جمہوری چہرے پر سیاہ دھبہ ہے جہاں سچ بولنے کی بھی آزادی نہیں اور بالخصوص کشمیر کے حوالے سے بات کرنا بھی جرم تصور کیا جاتا ہے۔
٭شہلا رشید کون ہے؟
شہلا رشید بھارتی مقبوضہ کشمیر کے شہر سری نگر میں پیدا ہوئیں اور اب وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) دہلی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔وہ سنہ 2015 سے سنہ 2016 تک جے این یو طلبہ یونین کی نائب صدر رہیں اور اس وقت وہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم آل انڈیا سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن سے وابستہ تھیں۔
پہلی بار وہ اس وقت سامنے آئیں جب پارلیمان پر حملے کے جرم میں پھانسی پانے والے کشمیری افضل گرو کی برسی پر جے این یو میں منعقدہ پروگرام کے دوران یونین کے رہنماؤں سمیت بعض کشمیری شرکاء نے کشمیر کی آزادی اور انڈیا کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے نعرے لگائے تھے۔ پولیس نے اس سلسلے میں یونین کے صدر اورکئی افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس کے بعد یونین کے نائب صدر کی حیثیت سے شہلا رشید فعال رہیں ، کئی احتجاج ہوئے جن میں وہ نمایاں حیثیت اختیار کئے ہوئے تھیں اور ایک سیاسی شخصیت کے طور پرابھریں ۔
اب شہلارشید بھارت میں اقلیتوں کے لیے آواز بلند کرنے کے حوالے سے شہرت رکھتی ہیں۔ اُن کا شمار اُن چند کشمیری خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے ببانگ دہل کشمیر میں ہونے والے بھارتی فوج کے مظالم پر آواز اٹھائی اور کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال بالخصوص انڈر ٹرائل نو عمر بچوں کو انصاف دلانے کے لیے سرگرم رہی ہیں۔ وہ معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں ،بھارت اور کشمیر میں ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات پر بھی آواز اٹھاتی نظر آئی ہیں۔ جموں کے علاقے کٹھوعہ میں کمسن ’’آصفہ‘‘ کو جنسی تشدد کے بعد قتل کیا گیا تو اس پر بھی شہلا رشید کی جانب سے سخت موقف دیکھنے کو ملا تھا جس کے بعد انھیں دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔
کشمیر پر بھارت کی پالیسی کیلئے ان کا ایک جملہ ان کی شخصیت کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیںکہ’’میں کشمیر میں انڈیا کی ایک بہت پُرتشدد تصویر دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی ہوں لیکن جے این یو نے مجھے اپنے خیالات کے اظہار اور ارتقا کے لیے ایک جمہوری موقع فراہم کیا۔‘‘ گزشتہ مارچ میں انھوں نے سابق سرکاری افسر شاہ فیصل کی سیاسی جماعت جموں و کشمیر عوامی تحریک میں شمولیت اختیار کی تھی۔
٭ غداری کے مقدمات پر شہلا رشید کا موقف
غیرملکی خبررساں ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق شہلا رشید کا کہنا تھا:’’ ایسے وقت میں جب لاکھوں کشمیری خاندان آپس میں رابطہ نہیں کر پا رہے، جب کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کی جاری ہیں، عام لوگوں کے خلاف پیلٹ گن، پیپر گیس اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، وہاں کے لوگوں کو خبروں تک کسی قسم کی کوئی رسائی نہیں، ذرائع مواصلات منقطع ہیں، تو ایسے وقت میں، میرے خلاف کسی قانونی چارہ جوئی سے مجھے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ میں اپنے بارے میں بالکل نہیں سوچ رہی اور نہ ہی خود کو لے کر پریشان ہوں‘‘۔
’’ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی توجہ کشمیر پر اور جو کچھ وہاں ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے اس پر مرکوز رکھیں۔ جس طرح سے آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا گیا اور ہمارے حقوق ہم سے چھینے گئے، ہماری ساری توجہ اس پر ہونی چاہیے۔ ہزاروں افراد گرفتار کیے گئے ہیں تو ایسے افراد کے خاندان والے ہائیکورٹ میں حبسِ بے جا کی رپورٹ تک نہیں لکھوا سکتے۔ کشمیر میں ہر قسم کا قانون معطل ہے، کوئی لا اینڈ آرڈر ہی نہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے ناصرف جموں و کشمیر بلکہ وہاں سے باہر رہنے والے کشمیریوں کے بھی کوئی قانونی حقوق ہی نہیں، جیسے انڈیا کے کوئی قوانین کشمیریوں پر لاگو ہی نہیں ہوتے‘‘۔
ٹویٹر پر ٹرولز کی جانب سے ان سے تشدد کے ثبوت مانگے جانے پر ان کا کا کہنا ہے کہ’’ ایسی صورتِ حال میں جب کھیل کے قواعد ہی بدل چکے ہوں، حکومت میڈیا کو کچھ دکھانے کی اجازت نہ دے رہی ہو، مجھ سے ثبوت مانگنا بے وقوفی ہے۔‘‘۔ ابھی مجھ سے ثبوت مانگے جا رہے ہیں جبکہ حکومت نے خود ہر قسم کی معلومات پر پابندی عائد کر رکھی ہے، اگر کوئی کشمیر میں کیے جانے والے جرائم کی ویڈیو بنانے کی کوشش کر رہا ہے تو مختلف جگہوں پر انڈین فوج یا سی آر پیز (نیم فوجی دستوں)یا پپیرا ملٹری یا پولیس انھیں ڈاکیومنٹ کرنے سے روک رہے ہیں، کشمیر میں صحافیوں سے ان کے موبائل چھینے جا رہے ہیں‘‘۔
٭بھارتی فوج کے حوالے سے شہلا رشید کا موقف
شہلا رشید کہتی ہیں:’’جب بات فوج کی آئے تو یہاں قوانین کو منسوخ کرنے والے قوانین موجود ہیں۔ بات ثبوتوں کی نہیں، ماضی میں بھی ایسے جعلی مقابلے ہوتے رہے ہیں جیسے کہ پتھریبل کا واقعہ(جس کا ذکر میں نے اپنی ٹویٹ میں کیا)جس کے بارے میں کافی تعداد میں شواہد موجود تھے کہ یہ بہیمانہ قتل تھا لیکن فوج کو حاصل خصوصی اختیارات کے قوانین کے باعث سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ ’’ہاں جی !قتل ہوئے ہیں لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے، ہم تفتیش کی اجازت تک نہیں دے سکتے۔‘‘
میجر گوگوئی والے واقعے ( جس میں میجر لیٹول گوگوئی نے مبینہ طور پر اپنے کارواں کو سنگ باروں سے بچانے کے لیے ایک مقامی کشمیری کو جیپ سے باندھا تھا)کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں:’’ تب ثبوت ساری دنیا کے سامنے موجود تھے لیکن حکومت نے کیا کر لیا؟ میجر گوگوئی کو کوئی سزا دینے کے بجائے انھیں ملک کے فوجی سربراہ کی جانب سے اعزاز سے نوازا گیا۔فوج اگر اس وعدے کے ساتھ غیر جانب دارانہ تحقیقات کا آغاز کرے کہ جنھیں الزامات کا سامنا ہے ، اگر وہ ثابت ہو گئے تو ان افراد کا کورٹ مارشل کیا جائے گا تو میں بہ خوشی فوج کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہوں‘‘۔
٭شہلارشید سے مخالف کیوں چڑتے ہیں؟
ہندوستانی ویپ پورٹل دی وائر پر لکھے گئے مضمون ’’شہلا رشید کے مخالف ان سے اتنا چڑتے کیوں ہیں؟‘‘ میں سدھارتھ بھاٹیا لکھتے ہیں کہ ’’غداری کا سنگین الزام یہ بتاتا ہے کہ حکومت ٹرولس سے متفق ہے اور یہ مانتی ہے کہ شہلا رشید ایک خطرناک انسان ہیں۔شہلا رشید نوجوان، اسمارٹ ، تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ اپنی بات کہنے کاہنررکھنے والی اور عوامی مسائل سے بھرپور واسطہ رکھتی ہیں۔ کوئی اور وقت ہوتا تو ان کا ذکر رسالوں کی پسندیدہ ینگ انڈینس ٹولک فار 30 یاانڈر 30جیسی فہرستوں میں ہوتالیکن آج وہ غداری کے الزامات کا سامنا کر رہی ہیں اور ہندوستان کی آن لائن(اور یقینی طور پر آف لائن)آبادی کا ایک بڑا بولڈحصہ ان سے نفرت کرتا ہے اور انھیںگالیاں دیتا ہے، انھیں غدار بتاکر ٹرول کیا جاتا ہے اور ان کے سیکڑوں قسم کے نازیبا میمز بنائے اور شیئر کئے جاتے ہیں۔‘‘
مضمون نگار کے مطابق ’’غداری کے سنگین الزام میں ان کو کورٹ سے عبوری ضمانت مل گئی ہے لیکن وہ لمبے وقت کے لئے جیل بھی جاسکتی ہیں۔‘‘مضمون میں مزید لکھا گیا کہ ’’کشمیری ، جو ہندوتوا حمایتوں کی نظر میں تب تک دہشت گرد ہیں، جب تک کہ اس کے الٹ ثابت نہ ہو جائے، زبان پر تالا لگاکر رکھنا چاہیے لیکن شہلارشید نہ صرف بولتی ہیں بلکہ بلند آواز میں، وضاحت اور پورے دم خم کے ساتھ بولتی ہیں۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ وہ کبھی غصہ نہیں ہوتیں،ان کی آواز ہمیشہ نرم ہوتی ہے اور وہ سوچ سمجھ کر بولتی ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ اپنا نظریہ صاف رکھتی ہیں۔ وہ ان بڑے نام والوں جیسی نہیں ہیںجواپنے خیالات کو چھپا لیتے ہیں اور غیرجانبداری دکھانے کے لئے جھوٹی مساوات کی ریاکاری کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔
ہندوتوا اور حکومت کے حامیوں کی جانب سے شہلا رشیدپر غداری کا الزام لگایا جا رہا ہے تاہم اس پورے معاملے کا تکلیف دہ حصہ یہ ہے کہ شہلا کے خلاف غداری کے الزامات کی بڑے پیمانے پر مذمت دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ ہندوستانی حقوق انسانی کی تنظیم کو خاموش کرا دیا گیا ہے اس کے ساتھ اہم لوگوں کی خاموشی بھی شور کر رہی ہے اور اہم لوگوں کی بھی اس مسئلے پر خاموشی حیران کرنے والی ہے حالانکہ خود شہلا رشید فطری طور پر بہادر اور بولڈ نظر آئی ہیں اور اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو گھٹیا، سیاست سے ترغیب شدہ کہہ کر انھیں خاموش کرانے کی کوشش کی ہے۔ یہی بات انھیں دوسروں سے الگ کرتی ہے اور یہی وہ وجہ ہے کہ ان کے مخالف ان سے نفرت کرتے ہیں۔‘‘
The post ایک نہتی لڑکی جس سے ہندوستان خوفزدہ ہے appeared first on ایکسپریس اردو.