لاہور: مہذب ملکوں میں پولیس عوام کی ’’خدمتگار‘‘ ہوتی ہے اور لوگ بلا جھجک اور خوف کے اپنے مسائل کے حل کیلئے پولیس سے رابطہ کرتے ہیں، پولیس مکمل ذمہ داری، توجہ اور پیشہ ورانہ استعداد کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتی ہے۔
8 گھنٹے کی ڈیوٹی کا دورانیہ ختم ہونے کے بعد وہاں پولیس اہلکار سے مزید کام لینے کا تصور موجود نہیں ہے تاہم اگر کوئی بہت بڑی ایمرجنسی ہو جائے تو اضافی ڈیوٹی لی جا سکتی ہے۔ اب ذرا پاکستانی پولیس کا جائزہ لیں تو یہاں شریف آدمی پولیس کو دیکھتے ہی سہم جاتا ہے، لوگ اپنے ساتھ ہونے والی واردات یا کسی قسم کی زیادتی تو سہہ جاتے ہیں لیکن اس ڈر سے تھانے میں نہیں جاتے کہ پولیس والوں کے’’مطالبات‘‘ کیسے پورے ہوں گے۔
ہمارے پولیس اہلکار کی ظاہری حالت بھی کسی ’’خستہ حال کھنڈر‘‘کی مانند دکھائی دیتی ہے، وردی کی تبدیلی کے نام پر اسے اولیو کلر کی یونیفارم جس ڈیزائن میں پہنائی گئی ہے اس سے پولیس کا’’رعب‘‘ ہی ختم ہو گیا ہے اس سے تو کالی وردی ہی اچھی تھی کم ازکم پولیس کی انفرادیت تو معلوم ہوتی تھی، مرے کو مارے شاہ مدار کی طرح کوئی پولیس والا نئی وردی کے ساتھ جب پاوں میں بوٹ پہننے کی بجائے سینڈل پہنتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی نوکری سے ہی نہیں بلکہ اپنی زندگی سے بھی بیزار ہے۔
تھانے کی ’’ماں‘‘ کہلانے والا محرر بھی اپنی ذات میں ایک ’’ڈکٹیٹر‘‘ ہوتا ہے۔ پولیس کانسٹیبل سارا دن بنک ڈیوٹی کے بعد تھانے آکر ابھی وردی اتار رہا ہوتا ہے کہ محرر بادشاہ یہ فرمان جاری کر دیتا ہے کہ نفری کم ہے اس لئے اسے گشت پر بھی جانا ہوگا وہ بیچارہ گشت سے واپس آتا ہے تو اسے ’’چھاپہ مار ٹیم‘‘ میں شامل کردیا جاتا ہے۔ جن سپاہیوں کی محرر سے ’’لائن ‘‘ملی ہوتی ہے وہ ’’مشقت‘‘ سے محفوظ رہتے ہیں اور انہیں صرف ایسی ڈیوٹی دی جاتی ہے جس میں’’آمدن‘‘ آتی ہو۔
تھانے کی گاڑی خراب ہو جائے یا پھر ایس ایچ او یا ایس ڈی پی او کے کمرے میں اے سی یا سمارٹ ٹی وی لگوانا ہو تو نکے تھانیداروں کو’’چندہ‘‘ جمع کروانا پڑتا ہے۔ ان سب حالات کی وجہ سے پولیس اہلکار کے مزاج میں تلخ، تنخواہ کے ساتھ کرپشن اور زبان پر گالی آنا معمول بن جاتا ہے۔
جب ہم پولیس کلچر کی بات کرتے ہیں تو اس کا 90 فیصد تعلق تھانے کے سپاہی سے لیکر ایس ایچ او یا انچارج انویسٹی گیشن رینک کے ملازمین سے ہوتا ہے کیونکہ عوام کا 99 فیصد واسطہ انہی سے پڑتا ہے اور انہی کا رویہ ’’پولیس کلچر‘‘ کہلاتا ہے۔ ڈی ایس پی اور اس سے اونچے رینک کے افسروں کا عوام کے ساتھ رویہ قدرے بہتر ہوتا ہے۔کہنے کو تو پنجاب پولیس کو ایک کھرب روپے سے زائد کا سالانہ بجٹ ملتا ہے لیکن جب وسائل کی فراہمی کا جائزہ لیں تو صورتحال بہت مخدوش دکھائی دیتی ہے۔
کوئی بڑا مظاہرہ ہو یا کرکٹ میچ ہمیں اس کے اختتام پر سڑکوں پر سینکڑوں پولیس اہلکار ’’لفٹ‘‘ لینے کیلئے کھڑے دکھائی دیتے ہیں جو موٹر سائیکل یا کار سوار کو روکنے کا اشارہ کر رہے ہوتے ہیں اور لوگ انہیں ’’لفٹ‘‘دینا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ہم پولیس کے رویوں پر تو تنقید کرتے ہیں لیکن بحیثیت عوام اپنے رویے کو کسوٹی پر نہیں پرکھتے۔ پہلے تو یہ لازم ہونا چاہئے کہ پولیس فورس کے پاس ٹرانسپورٹ کا وافر انتظام ہو اس کے سپاہیوں کو سڑکوں پر کھڑے ہو کر لوگوں سے لفٹ لینے کی ضرورت ہی نہ ہو لیکن اگر کبھی کوئی باوردی اہلکار ایسا کرتا ہے تو عوام کو بھی اس اہلکار کو احترام اور عزت دینا چاہئے جو اس کے اور معاشرے کے امن و امان اور تحفظ کا فرض انجام دے رہا ہے۔
ہم لوگوں کی بے رخی کا یہ عالم ہے کہ عید کی نماز پڑھ کر جب ہم باہر نکلتے ہیں تو انجان بندوں کے گلے ملکر عید مبارک تو کہہ دیں گے لیکن جو سپاہی کئی گھنٹوں سے ہاتھ میں بندوق تھامے مسجد اور نمازیوں کی حفاظت کر رہا ہے اسے گلے نہیں لگاتے اور وہ اہلکار مسجد کے ایک کنارے کھڑا لوگوں کو عید ملتے دیکھتا رہتا ہے۔
عمران خان برطانوی نظام حکومت سے بہت متاثر ہیں اور انہوں نے ہمیشہ اپنی تقاریر میں اسی نظام کا حوالہ دیا ہے۔ عمران خان نے بھی پولیس کلچر تبدیل کرنے کے بہت دعوے کر رکھے ہیں اور ابھی تک یہ صرف ’’دعوے‘‘ ہی ہیں لیکن کپتان کو معلوم ہونا چاہئے کہ صرف پولیس اصلاحات سے پولیس کلچر تبدیل نہیں ہوگا ایک جانب ہمیں پولیس کو وسائل، تربیت اور پرسکون طرز ملازمت دینا ہوگا تو دوسری جانب عوام اور پولیس میں موجود نفرت اور بے اعتباری کی دیوار بھی مسمار کرنا ہو گی، دونوں فریقین کو ایکدوسرے کاا حترام کرنا چاہئے۔
پولیس کے تربیتی سکولوں میں ایسے کورس بھی شامل کرنا چاہئیں جو پولیس کی گفتار اور کردار میں بہتری لائیں ۔ صرف پولیس غلط نہیں ہے عوام بھی غلط ہے اور جب تک دونوں اپنی اپنی غلطیاں درست نہیں کرتے پولیس کا نظام ٹھیک نہیں ہو سکتا چاہئے کتنے مرضی قانون بنا لیں یا پولیس اصلاحات لے آئیں۔ پولیس میں سیاسی مداخلت کو روکنا سیاستدانوں کے بس میں دکھائی نہیں دیتا اگر ایسا ممکن ہوتا تو ’’تبدیلی سرکار‘‘ کے اس دور حکومت میں پولیس کسی حد تک پاک صاف ہو چکی ہوتی لیکن یہاںتو سفارشی کلچر مزید مضبوط ہو گیا ہے۔گزشتہ دنوں آئی جی پنجاب پولیس کا ایک بیان دکھائی دیا۔
جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پولیس میں ہونے والے تمام تقرر وتبادلوں میں ان کی رائے شامل ہوتی ہے اور پولیس میں سیاسی مداخلت نہیں ہے۔کیپٹن (ر) عارف نواز انفرادی حیثیت میں اچھے انسان ہیں لیکن وہ کامیاب فورس کمانڈر ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ ان کا یہ بیان شاید اپنا متوقع تبادلہ روکنے کی ایک کوشش ہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ان کی ماتحت فورس بھی ان کی کمانڈ سے مطمئن نہیں ہے۔ صرف ہدایت نامے جاری کر دینا کمانڈر کی کارکردگی کا پیمانہ نہیں ہوتا، وہ ڈھائی لاکھ نفری پر مشتمل ملک کی سب سے بڑی پولیس فورس کے سربراہ ہیں انہیں اپنے ادارے کی بنیادوں کو درست کرنے کی کوشش کرنا چاہئے تھی لیکن اس وقت تو یہ عالم ہے کہ پولیس اصلاحات کے نام پر سول اور پولیس بیوروکریسی دست وگریباں ہیں۔
پچھلے کئی روز سے ٹی وی چینلز پر پولیس اصلاحات کے معاملے پر ہونے والے ٹاک شوز میں متعدد سابق آئی جیز بہت جذباتی گفتگو کر رہے ہیں اور پولیس میں احتساب کیلئے تجاویز بھی دے رہے ہیں لیکن کوئی ان سے یہ سوال کیوں نہیں کرتا کہ آپ لوگوں نے اپنے 35 یا37 سالہ سروس کیریئر میں بالخصوص اپنی آئی جی شپ میں ان تجاویز کو لاگو کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ پاکستان دہشت گردی کا شکار ملک ہے۔
ہم نے ہزاروں جانیں قربان کی ہیں، کھربوں روپے کا نقصان اٹھایا ہے، افواج پاکستان نے بہت ہمت و استقامت کے ساتھ سرحدوں کو محفوظ بنایا ہے اور اندرون ملک بھی عسکری خفیہ ایجنسیاں بھرپور کام کر رہی ہیں لیکن ملک کے اندر امن وامان کو برقرار رکھنا اور عوام کے جان ومال کی حفاظت کرنا پولیس کی ذمہ داری ہے۔ پولیس کلچر اور پولیس کارکردگی کی ’’تبدیلی‘‘ اس دن ثابت ہو گی جب ہمیں کرکٹ میچ کے دوران سکیورٹی کیلئے رینجرز کی مدد درکار نہیں ہوگی اور ہمارا اپنی پولیس پر یہ اعتماد قائم ہو جائے گا کہ وہ اس قابل ہے کہ سکیورٹی کے فرائض تنہا انجام دے سکتی ہے، فی الوقت تو کرکٹ ٹیموں اور سٹیڈیم کی حفاظت کیلئے رینجرز کی تعیناتی پولیس کی پیشہ ورانہ استعداد اور کارکردگی پر حکومت کا’’عدم اعتماد‘‘ ہے۔
The post پولیس کلچر کی تبدیلی کیلئے عوامی رویہ تبدیل ہونا بھی ضروری ہے appeared first on ایکسپریس اردو.