پیران پاگارہ کے مرید حُر کہلاتے ہیں، اس سے تو سب آگاہ ہیں لیکن حُروں میں سالم اور فرق عقائد والی دو جماعتیں ہیں یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہے۔ نصاب میں شامل سندھ کے معروف ادیب محمد عثمان ڈیپلائی کے ناول ’’سانگھڑ‘‘ سے لفظ حُر کے اخراج کی نشان دہی کی گئی تو اخبارات کے صفحات پر اس بحث کا آغاز ہوا جو اس تحریر کا سبب بن گیا۔
میدان کربلا میں حضرت حُر نے آخری وقت پر لشکر یزید کو چھوڑ کر خیمہ گاہ سیدالشہداءؓ کا رخ کیا اور اپنی عاقبت سنوار لی۔ اس دن سے جرأت مندی کے لیے، بہادری کے لیے لفظ ’’حُر‘‘ مستعمل ہوا اور سینہ سپر حُر کہلائے۔ جب محمد بن قاسم نے عہد بنوامیہ میں سندھ کا رخ کیا اور راجا داہر کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اس کے ساتھ آنے والوں میں حضرت سید علی مکی بھی تھے اور انہوں نے دادو کے کوہستانی علاقے میں سکونت اختیار کی۔
آپ کے اخلاف میں لک علی والے شاہ صدرالدین بھی شامل ہیں جو اس علاقے کی نسبت سے لکیاری سادات کہلائے۔ ان میں مٹیاری کے شہاب حسینی اور موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے اجداد بھی شامل ہیں۔ ویسے سندھ میں شیرازی، شکر الٰہی ، سبزواری ، جیلانی، مشہدی، بخاری، بغدادی سادات بھی رہائش پذیرہیں اور اپنی ان نسبتوں پر فخر کرتے ہیں۔ خود علی مکی کا سلسلہ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم سے جا ملتا ہے جو حضرت امام جعفر صادق کے صاحبزادے اور امام زین العابدین کے پڑپوتے تھے۔
حضرت شاہ صدرالدین کی پندرہویں پشت میں سائیں محمد بقاشاہ تولد ہوئے جو پٹ دھنی کے طور پر معروف تھے اور ان کے بڑے صاحبزادے سید محمد راشد کو روزہ دھنی کہا جاتا ہے۔ ان کی وفات ہوئی تو خاندانی تبرکات تقسیم ہوئے بڑے صاحبزادے سید صبغت اﷲ شاہ اول المعروف تجر دھنی کو خاندانی دستار جس کی نسبت سرکار دو عالمﷺ سے تھی وراثت میں ملی جب کہ دوسرے بھائی کو جھنڈا، علم یا پرچم عنایت ہوا۔ آج بھی ضلع مٹیاری میں نیوسعید آباد سمیت متعدد مقامات پر جھنڈے والے راشدی پیر آباد ہیں جن کی علم پروری اور کتاب دوستی دور دور تک مشہور ہے۔
پیرصبغت اﷲ شاہ اول کی وفات پر ان کے فرزند سائیں علی گوہر شاہ اوّل عرف اصغر سائیں پیرپگارہ دوم بنے جو بنگلے دھنی کہلائے ان کے بیٹے سائیں حزب اﷲ شاہ مسکین نے تیسرے پیرپگارہ کا منصب سنبھالا، انہیں تخت دھنی پکارا جاتا تھا اور ان کی وفات ہوئی تو سلسلہ راشدیہ کے چوتھے پیر سائیں علی گوہر شاہ ثانی مقرر ہوئے جو محافے دھنی مشہور تھے۔
آپ کے وصال پر چھوٹے بھائی سائیں علی مردان شاہ اول جنہیں کوٹ دھنی کہا جاتا تھا پانچویں پیرپاگارہ کہلائے آپ کی وفات ہوئی تو پیر سید محمد صبغت اﷲ شاہ ثانی نے پگ دھنی کی عرفیت کے ساتھ منصب سنبھالا حُروں کو منظم کیا اور انگریزوں کو چیلنج ۔ جب آپ پیر پگارہ مقرر ہوئے تو آپ کی عمر محض 12برس تھی اور حیدرآباد جیل میں پھانسی کے پھندے کو چوما تو زندگی کی محض 33 بہاریں دیکھی تھیں اس جرأت مندی اور سرفروشی کے باعث آپ کو سورہیہ بادشاہ بھی پکارا جاتاہے۔ آپ کے بڑے صاحبزادے پیر سید سکندر علی شاہ عرف شاہ مردان شاہ ثانی نے چھٹ دھنی کا لقب اختیار کیا اور ساتویں پیرپگارہ کہلائے موجودہ پیر پگارہ ہشتم پیر صبغت اﷲ شاہ سوم کو راجہ سائیں پکارا جاتا ہے۔
سندھ، ہند بلکہ دنیا بھر میں پیر بوقت وفات یا اپنی زندگی ہی میں جان نشین کا تقرر کرجاتا ہے اور درگاہ کی جائیداد املاک اس کی ملکیت تصور ہوتی ہے لیکن پیران پگارہ میں ایسا نہیں ہوتا۔ پیر کا انتخاب خلفاء کی کونسل کرتی ہے اور درگاہ سے ملحقہ پراپرٹی پر بھی پیر کا تصرف نہیں ہوتا،وہ درگاہ کی ملکیت کہلاتی ہے۔
موجودہ پیر پگارہ کا انتخاب بھی پیر گوٹھ میں خلفاء نے کیا تھا اور پیر علی گوہر شہدی، پیرصدرالدین راشدی المعروف یونس سائیں اور کمسن پیر حزب اﷲ شاہ راشدی پر پیر صبغت اﷲ راشدی المعروف راجہ سائیں کو فوقیت دی تھی۔ خود مرحوم پیرپگارہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بھی نشان دہی کی تھی کہ حُر اپنے پیر کا انتخاب خود کرتے ہیں اور ان کا فیصلہ صائب ہوتا ہے۔ چناؤ کا اختیار خلفاء کے پاس ہے ہر چوکی کا نگراں خلیفہ ہوتا ہے جو مکھ کہلاتا ہے۔
یہ چوکیاں 12ہیں اور سندھ، بلوچستان اور پڑوسی صوبے پنجاب ہی نہیں ہندوستان کے جیسلمیر یعنی راجستھان میں بھی موجود ہیں اور درگاہ شریف کا انتظام بھی پورے سال ان ہی چوکیوں کے سپرد ہے جن کی تعداد اس وقت بارہ ہے اور ہر ماہ درگاہ شریف کی حفاظت و اخراجات ایک چوکی ذمہ داری ہے۔ حر جماعت میں اپنا ایک سسٹم ہے۔ ماضی میں تو جماعت کے چھوٹے بڑے فیصلے ’’دعوتی‘‘ کیا کرتے تھے۔ دعوتی سے مُراد وہ شخصیات ہیں جن کے یہاں پیرپاگارہ دوران روحانی سفر قیام کیا کرتے تھے۔ آج بھی مختلف شہروں میں وہ لانڈھیاں یا قیام گاہیں موجود ہیں جو پیران پاگارہ کی آمد پر ہی استعمال ہوتی ہیں۔
البتہ ان کی صفائی، مرمت اور تزئین و آرائش پورا سال ہوتی رہتی ہے۔ اب بھی پیر پگارہ کے خلفاء اور درگاہ کی فیصلہ کمیٹی حُروں کے معاملات نمٹاتے ہیں اور فیصلے پر عمل درآمد یقینی ہوتا ہے جماعت کی ایک اصطلاح ’’ہاتھ بند‘‘ بھی ہے یعنی تادیبی کارروائی کے طور پر یہ سزا سنائی جائے تو اس شخص سے کوئی ہاتھ نہیں ملاتا اور مصافحے کا تعلق ختم ہوجاتا ہے۔ اس گدی کی ایک خصوصیت مربوط سسٹم بھی ہے جو اسے ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہے ورنہ سندھ کے کلہوڑہ حکم راں اپنے سرائی مریدوں سے کمزور تعلق کے باعث حکومت کھو بیٹھے تھے جو تالپور فوجیوں نے ہتھیالی تھی۔
سندھ میں لاتعداد درگاہیں اور خانقاہیں ہیں لیکن اس درگاہ کا افتخار ہے کہ اس کے خلفاء سے جو سلسلے شروع ہوئے وہ بھی بڑی درگاہیں قائم کرگئے سید محمد راشد کے خلفاء میں سوئی شریف کے سید محمد حسن کا نام بھی ملتا ہے، جنہوں نے بھرچونڈی کے حضرت محمد صدیق کو خلافت سے نوازا اور ان سے امروٹ، بائی جی، ہالیجی و دیگر درگاہوں بشمول دین پور کا زنجیرہ پھیلا۔ اسی طرح لاڑکانہ کی درگاہ مشوری شریف کے پیر محمد قاسم مشوری کو سید امام الدین شدی نے خلافت دی تھی۔ خود پیران پاگارہ کے مرشد سراج گیلانی پنجاب میں گجرات کی درگاہ چناہ شریف کوٹ سدھانہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے مرحوم پیرپگارہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور موجودہ پیر کی دستار بندی بھی کرائی تھی اور مرحوم پیرپگارہ کی 1952 میں مسند نشینی و گدی کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
سورہیہ بادشاہ کی شہادت سے قبل حُر موومنٹ کے دوران سیکڑوں حُروں کو قیدوبند اور پھانسی کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا انہیں جنگلی کانٹوں کی باڑھ میں بنے کھلے قیدخانوں میں اس طرح بند رکھا گیا کہ اہل خانہ اندر پہرہ میں رہتے اور یہ دن بھر شہر دیہات میں مشقت کرکے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے اور رات کو ان کیمپوں میں واپس آتے کہیں فرار بھی نہ ہوسکتے تھے کہ بیوی بچے، ماں اور بہنیں اندر یرغمال تھیں۔ یہ یکم اپریل 1952ء کی رات تھی اور شہید ملت لیاقت علی خان کا عہدحکم رانی جب ان کیمپوں میں نصب گھنٹے بجاکر ان قیدخانوں کے خاتمے کا اعلان کیا گیا مگر ایک نسل ان قید خانوں میں جوان ہوچکی تھی۔ ان کا گھر تھانہ در، وہ دن بھر مشقت کے بعد بعد پھر ان قیدخانوں میں لوٹ آتے۔ آج بھی سندھ کے مختلف شہروں حُر کیمپ کے نام سے متعدد علاقے موسوم ہیں۔
بھارتی حکومت کی 1947ء میں کوشش تھی کہ جیسلمیر و نواح کے حُر کیمپوں میں مقید حُروں کے توسط سے گدی کی بحالی اور پیر کی واپسی کے سلسلہ کا آغاز کیا جائے تاکہ حُروں کی عقیدت وارادت کیش کرائی جاسکے لیکن حُروں کی اکثریت نو آزاد مسلم مملکت پاکستان کی حامی تھی۔
اس فیصلے کے بعد بھارتی علاقے میں قائم آٹھ ایسے کیمپ ختم کرکے وہاں مقید حُروں کو اسپیشل ٹرین کے ذریعے کھوکھراپار کے راستے سندھ بھیجا گیا۔ آج بھی کھوکھراپار، کارونجھر اور صحرائی علاقے میں سرحد کے دونوں اطراف حُر مرید بکثرت آباد ہیں۔ یہ صحرائی پٹی ہندوستان میں راجستھان، سندھ کے سرحدی اضلاع میں تھر، خیرپور میں نارا اور پنجاب شروع ہوتے ہی چولستان کہلاتی ہے۔ ویسے سندھ کے ضلع سانگھڑ میں اچھڑو تھر کے نام سے ایک دور افتادہ اور پس ماندہ علاقہ بھی موجود ہے جہاں بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں کا فقدان ہے یہاں بھی حُر جماعت بکثرت آباد ہے۔
65ء اور71ء کی جنگوں میں حُر مُریدوں نے لافانی کارنامے انجام دیے تھے اور بھارتی سرحد میں داخل ہوکر متعدد مقامات پر جن میں کئی قلعے بھی تھے قبضہ کیا اور پاکستانی پرچم لہرایا تھا، جس کے بعد حُر فورس تشکیل پائی اور پاک افواج کے ٹریننگ کے بعد انہیں تھر، سانگھڑ، عمر کوٹ، خیرپور کی سرحدی حدود میں تعینات کیا گیا۔
اس نسبت سے مرحوم پیر پگارا اپنا تعلق جی ایچ کیو سے جوڑا کرتے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ کی کسی اور درگاہ نے اس طرح اپنا کردار ادا نہ کیا جیسا مرحوم پیر پگارہ نے جنگ ستمبر65ء میں عمر کوٹ قلعہ پر اپنے مُریدوں کو طلب کرکے انہیں فوج کے ساتھ دفاع وطن کا حکم دیا تھا۔ یہ خطاب رات کی تاریکی میں پاکستان پر مسلط کی گئی بھارتی جنگ کے تیسرے روز یعنی 8ستمبر65ء کو ہوا تھا۔
سنیئر صحافی بچل لغاری بطور حُر مجاہد اس اجتماع میں موجود تھے اور مرحوم پیر صاحب کے خطاب، حُروں کے جوش و جذبہ کے واقعات جذباتی انداز میں مفصل بیان کرتے ہیں۔ راقم کو بھی اپنے قصبے شاہ پور چاکر ضلع سانگھڑ کی وہ صبح یاد ہے جب اطراف کے دیہات سے آنے والے حُر جماعت کے افراد جو خود کو ’’فقیر‘‘ کہلواتے ہیں بکثرت جمع تھے۔ سروں پر سفید پگڑیاں اور ہاتھوں میں بندوقیں لیے وہ بصورت قافلہ عمر کوٹ جارہے تھے جہاں انہیں ان کے مرشد نے طلب کیا تھا۔ مرحوم پیرپگارہ نے حُر جماعت پر لازم کیا تھا کہ وہ سندھی ٹوپی جو حقیقتاً بلوچی ٹوپی ہے نہ پہنیں اور سفید پگڑی باندھیں یا سفید ٹوپی پہنیں البتہ موجودہ پیرپگارو نے یہ پابندی ہٹالی ہے۔ مرحوم پیر صاحب کمال شخصیت تھے۔
جرأت مندانہ فیصلوں کے حوالے سے معروف۔ درگاہ شریف پر مریدوں سے روایتی خطاب میں کم عمری میں طے شادیوں کے فیصلے منسوخ کرنے کا اعلان کیا، تعلیم نسواں پر ہمیشہ زور دیا اور بے روزگاری کا شکوہ کرنے والوں کو پاک فوج میں بھرتی کی تلقین کی۔ پڑوسیوں سے اچھے سلوک اور اولاد کی بہتر پرورش ہر خطاب میں شامل کرتے۔ سخت سردی یا حالات کشیدہ ہوتے تو درگاہ شریف واقع پیرگوٹھ خیرپور نہ جاتے اور کراچی ہی میں قیام کرتے کہ عید، بقرعید اور رجبی شریف (ماہ رجب کے اجتماع) پر سندھ کے طول و عرض سے لاکھوں مرید بغرض زیارت پیر گوٹھ پہنچتے ہیں۔
سنیئر صحافی سید صفدر علی بھی پیرصاحب مرحوم کے قریبی اخبار نویسوں میں شامل تھے بتاتے ہیں کہ کسی نے پیر صاحب سے کہا آپ فوج کے خلاف کیوں نہیں بولتے، پیر صاحب کہنے لگے فوج کی کتاب میں سندھیوں کو نان مارشل لکھا گیا ہے اور سچ بھی یہ ہے کہ ہم دور سے لاٹھی دیکھ کر بچاؤ کا راستہ دیکھتے ہیں۔ جسے اپنے لیول کا نہ سمجھتے اسے نظر انداز کردیتے۔ بہ روایت صفدر بھائی ایک بار فرمانے لگے ننگے سر والے سے لڑنے کا نقصان یہ ہے کہ آپ کی اپنی دستار گرنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
بات سورہیہ بادشاہ کی ہوجائے جنہوں نے اس درگاہ کو دیگر سے ممتاز و منفرد بنا دیا وہ 33 برس زندہ رہے اور دس برس جیل میں گزارے۔ برصغیر پاک و ہند میں پہلا انتظامی مارشل لا سندھ کے علاقے سانگھڑ میں حُر موومنٹ کچلنے کے لیے لگایا گیا جس کی منظوری سندھ اسمبلی کے خفیہ اجلاس میں سندھ کے وڈیروں نے دی تھی اور حُر ایکٹ کے نفاذ کے بعد حُروں کو قیدوبند اور دارورسن کے عمل سے گزرنا پڑا تھا ایک بار کسی نے پیرپگارا مرحوم سے کہا تھا آپ سندھیوں کے لیڈر ہیں تو ان کا جواب تھا نہیں حُروں کا۔ سندھ اسمبلی نے تو ہمارے خلاف قرارداد منظور کرکے انگریز کو ظلم و ستم کی اجازت دی تھی۔
ہمارا ساتھ تو مُریدوں نے دیا تھا۔ اس طرح جب مشرف دور میں کھوکھراپار کے راستے تھر ایکسپریس شروع ہوئی تو اس کی مخالفت کرنے والوں کو ان کا جواب تھا کہ جئسلمیر، باڑھ میر سے حُروں کو سندھ آنے میں سہولت ملے گی۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور کراچی کی علیحدہ حیثیت پر بھی وہ سندھی قوم پرستوں سے یکسر مختلف نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ ایک اخباری انٹرویو میں انہوں نے کھل کر کہا تھا کہ ون یونٹ کی تحلیل کے وقت کراچی کی سندھ میں شمولیت کا فیصلہ غلط تھا۔ وہ کراچی صوبے کے مخالف البتہ وفاق کے تحت چیف کمشنر کے زیر انتظام لانے کے حامی تھے۔
سندھ میں پیران پاگارہ نے برسوں فرنگی اقتدار کو چیلنج کیا سانگھڑ میں بچو بادشاہ اور پیرو وزیر نے خودمختار حکومت بھی قائم کی جسے سانگھڑ سرکار کا نام دیا گیا۔ یہ پہلی حُر چھاپہ مار جدوجہد تھی جو 1880ء کی دہائی میں شروع ہوئی بچو بادشاہ اور اس کے نائب عیسیٰ کو سانگھڑ میں پھانسی دی گئی تھی۔ اس کی تدفین بھی سورہیہ بادشاہ کی طرف خفیہ طور پر نامعلوم مقدم پر کی گئی۔
سرائڈ منڈکاکس بارٹ کے جو ایس ایس پی حیدرآباد اور ڈی آئی جی سندھ بھی رہا اپنی کتاب پولیس لینڈ کرائم ان انڈیا میں قلم طراز ہے کہ ان کی علی الاعلان تدفین ہوتی تو یہ مقام حُروں کے لیے زیارت گاہ بن جاتا۔ ڈاکٹر غلام علی الانا اور ڈاکٹر لائق زرداری نے انگریزوں کے خلاف سندھ میں حُروں کی پہلی جدوجہد کا سال 1896ء بیان کیا ہے جب سانگھڑ کے مکھی بیلے میں حُروں نے ’’سانگھڑ سرکار‘‘ قائم کی۔ اسی بغاوت کو کچلنے کے لیے انگریزوں نے علاقے میں بگٹی اور مری قبائل کو آباد کیا تھا۔
انہیں اراضی دی اور اختیارات بھی ویسے پنجاب سے بھی آبادکار یہاں لاکر بسائے گئے تھے لیکن انہوں نے حُروں سے بناکر رکھی تھی۔ سانگھڑ کے سنیئر صحافی عبدالقادر ڈاہری اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ حُروں کو بگٹی اور مری قبائل نے انگریزوں کی شہ پر ہراساں کیا اور مخبریاں بھی کیں۔ قیام پاکستان کے بعد آنے والے اردو اسپیکنگ بھی، قیام پاکستان سے قبل کے آباد پنجابی بولنے والوں کی طرح پیرپگارا کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔
کھڈرو کے عبدالحمید پٹھان کی مثال دی جاتی ہے جنہوں نے مرحوم پیر صاحب سے عقیدت و ارادت کا رشتہ برقرار رکھا۔ ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار رہے مالی نقصان اٹھائے اور دھمکیاں بھی سہیں۔ پیر شاہ مردان شاہ ثانی اور قرب و جوار کے حُر ان کا حددرجہ احترام کرتے تھے اور انہیں ’’جماعتی‘‘ تسلیم کیا جاتا تھا۔ ویسے اب ان علاقوں میں آباد اردو اور پنجابی و پشتو اسپیکنگ بھی مقامی سندھی اور بلوچی بولنے والوں کی طرح مخدومین ہالا، پیران نینگ شریف، درگاہ غوثیہ ملتان، خانقاہ لواری، پیر صاحبان رانی پور و کامارو شریف کے مرید ہیں کچھ کی تو عقیدت و ارادت کا سلسلہ سن کے سائیں جی ایم سید اور اب ان کے متعلقین سے بھی قائم ہے۔
حُر تحریک میں خواتین نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ وہ مردوں کی طرح انگریزوں کے سر کا درد بن چکی تھیں۔ سائیں عمر چنڈ کی انگریزی تصنیف اور اس کا سندھی ترجمہ جو استاد نظامانی نے کیا ہے پڑھیں تو بہت سے نئے پہلو آشکار ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون مائی رانی ٹھکر کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو مختلف بھیس بدل کر گوریلا جنگ اڑنے والے حُروں کو ہتھیار پہنچایا کرتی تھی۔
اﷲ بچاؤ راہو کڑو کے مضمون اور عثمان راہو کڑو کی تصنیف ’’سونے جیسی خواتین‘‘ میں ایسی لاتعداد خواتین کا ذکر ہے۔ حُر موومنٹ کے اہم کردار رحیم ہنگورو کی بیوی بھاگھلی جس نے اسے حیدرآباد جیل سے آزاد کرانے کا کام یاب منصوبہ بندی کی تھی لیکن آخری وقت پر وہ ناکام رہا تھا۔ اسی طرح رانی ٹھکر کا تعلق باڑھ میر کے راجستھانی علاقے سے تھا۔ وہ ہندو تھی اور پیر شاہ مردان شاہ اول کی آمد پر جھڈو میں اسلام قبول کیا تھا۔ وہ بھکاری اور گائیکہ کے طور پر انگریزوں اور ان کے حواریوں کے یہاں جاتی اور ملنے والی اطلاعات سے سورہیہ بادشاہ کے ساتھیوں کو مطلع کرتی تھی۔
حُروں میں فرق اور سالم جماعتوں کی تقسیم کو مرحوم پیر پگارا سکندر علی شاہ المعروف شاہ مردان شاہ ثانی نے قیام پاکستان کے بعد گدی سنبھالنے اور دستار بندی کے بعد ختم کیا، ورنہ تو اس سے قبل حُر جماعت کے خلفاء کی کونسل بتایا جاتا تھا کہ 15ارکان پر مشتمل ہے جن میں 12سالم اور 3 فرق والے ہیں۔
چیف خلیفہ فقیر قادر بخش ولد عبداﷲفقیرمنگریو ہیں۔ ان کے والد بھی چیف خلیفہ تھے کہتے ہیں کہ جب حُر جماعت انگریزوں سے صف آراء تھی تو سرکاری گماشتے گاؤں گوٹھوں میں آکر حُروں کو تلاش کرتے اور اہل علاقہ کو ہراساں کرتے اس زمانے میں سرکاری حکام نے حُر کا مطلب منفی معنی میں رکھا ہوا تھا تو بعض افراد جان چھڑانے کے لیے خود کو سالم یعنی سلامتی والے کہتے تھے ’’کہ بھئی ہمارا جھگڑے والوں سے واسطہ نہیں ہم تو امن والے ہیں۔‘‘
یہ روش کچھ افراد اور خلفاء کو پسند نہ آئی اور انہوں نے اپنے آپ کو دیگر جماعت سے علیحدہ رکھنے کے لیے ’’فرق‘‘ کی اصطلاح استعمال کی کہ ہم میں اور دیگر میں فرق ہے موجودہ فرقی خلفاء میں خلیفہ سومر فقیر، فقیر علی غلام نظامانی، فقیر وریام خاصخیلی کے نام آتے ہیں جب کہ ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ پیر سید حزب اﷲ شاہ مسکین المعروف تخت دھنی مسند سجادگی پر بیٹھے تو کم عمری کے باعث ان کے بعض قریبی عزیز بھی درگاہ اور مریدین کے معاملات میں دخل اندازی کرنے لگے جس پر خلیفہ فقیر غلام نبی لغاری نے ’’فرق‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ان کا کہنا تھا کہ اﷲ، رسول، کتاب اور دین کی طرح مرشد بھی ایک ہی ہوتا ہے جو صاحب دستار اور مسند نشین ہے ان کے حکم پر ہم جان دے دیں گے، لیکن باقی لوگ پیر کا رتبہ نہیں پاسکتے۔ ان کے مددگار سید سلیمان شاہ بھی تھے وہ اور ان کے ساتھی فرقی کہلاتے تھے۔ حُر مریدوں کی ایک اور شناخت بھیج پاگارہ کا وہ نعرہ بھی ہے جس کا مطلب ہے کہ ’’پاگارہ ہماری مدد کرو۔‘‘
حُر تحریک پر عثمان ڈیپلائی کے ناول سانگھڑ میں مذکور ہے کہ جب سورہیہ بادشاہ نے غازی تحریک قائم کی اور انگریزوں کو چیلنج کیا تو کچھ لوگ سالم یا سلامتی والے کہلائے ان کا موقف تھا کہ ہم کسی ہنگامہ آرائی یا شرانگیزی میں شامل نہیں ہوں گے۔
اس کا سبب یہ بھی تھا کہ فرق عقائد والے حُر مرید تک کا جھوٹا پانی پینا یا کھانا کھانا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ انگریز حکام سچے حُروں کی شناخت اسی طرح کرتے تھے کہ انہیں ایک مٹکے پر پانی کا گلاس رکھ کر سب کو اسی کا پانی پینے کا کہتے جو نہ پیتا اسے فرق عقیدہ والا شناخت کرکے گولی مار دیتے ایسے متعدد واقعات بوڑھے حُر بیان کرتے ہیں عبدالقادر ڈاہری کہتے ہیں کہ سالم اور فرق کا عقیدہ اتنا پختہ تھا کہ ایک ’’فرق‘‘ اپنی ہمشیرہ کے گھر گیا اس نے پانی اور کھانا پیش کیا تو اس نے کہا ہمیں غیرفرقی کا کھانا پینا جائز نہیں جس پر بہن نے دہی لاکر دیا کہ یہ کھالو یہ نہ پانی ہے نہ اناج۔ سورہیہ بادشاہ کی محبت میں حُروں نے خود کو وار دیا غازی تحریک کی بنیاد رکھی گئی ۔
پیر صاحب انٹرویو کے بعد غازی کا لقب دیتے، تمباکو نوشی اور ولایتی کپڑے پہننے کی ممانعت تھی۔ حلف کے بعد زندگی ہی میں نماز جنازہ پڑھائی جاتی کہ موت یا سرفروشی کی تمنا لازم تھی۔ غازی جماعت میں پہلا طبقہ فرق تھا۔ دوسرا ترک (تحریک کے لیے سب کچھ چھوڑنے کا عزم) اسی طرح غزا یعنی حق کے لیے مرنے مارنے کا جذبہ اور اطاعت امیر لازم تھی۔
زمانے کے سردوگرم اور بہار و خزاں نے فرق اور سالم کے عقیدے کو ختم کردیا ہے لیکن آج بھی حُر بستیوں کی اوطاقوں میں سورہیہ بادشاہ کی دی گئی نشانیاں سنبھالے عمر رسیدہ مرید ان دنوں کا تذکرہ کرتے ہیں جب مکھی کے جنگلات سے خیرپور کے ریگزار نارا تک انگریزوں اور اس کے حواری کلہاڑیوں اور ہلکی بندوقوں والے غازیوں سے خوف زدہ رہتے لیکن بہت سی باتیں وہ بتانے سے انکار کرتے ہیں کہ پیر صاحب شہید نے رازداری کا عہد لیا تھا۔ سورہیہ بادشاہ کی شہادت کے 76 برس بعد بھی وہ عہد کی پاس داری کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔
The post حُر؛ اہل تصوف کی دیگر خانقاہوں سے مختلف ایک منفرد تحریک appeared first on ایکسپریس اردو.