اِس وقت انتہائی حیرانی ہوتی ہے کہ جب کم قیمت کپڑوں میں ملبوس افراد مہنگے ریستورانوں میں مہنگے کھانے کھا رہے ہوتے ہیں، جب کہ انھیں یہ بھی علِم نہیں ہوتا کہ حفظان صحت کے اُصولوں کا خیال رکھا گیا ہے کہ نہیں؟
جتنا ایک وقت کے کھانے کا بِل بنتا ہے اتنی رقم سے گھر کا پندرہ دن کا راشن آسکتا ہے یا ایک اچھا سوٹ بن سکتا ہے۔ قوم کی اکثریت غذائی قلت کا شکار ہے ’’ غربت ‘‘ کی وجہ سے پھل اور متوازن خوراک استعمال نہیں کی جاتی، مگر مشروبات ، چاکلیٹ ، مصنوعی جُوسز اور اس نوع کی اشیاء کا کثرت سے استعمال ہو رہا ہے، پٹرول اور موبائل فون کے استعمال کی مَد میں سینکڑوں روپے خرچ کردئیے جاتے ہیں مگر گھر میں خالص دودھ یا پھل نہیں لائے جاتے، بے شمار غیر ضروری اخراجات سے بچا جا سکتا ہے، رقم کو بہتر استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
مگر ہماری ترجیحات ہی بدل چکی ہیں۔ سینکڑوں معاملات ہی ایسے ہیں۔ اب ہماری تمام رسومات میں بھی فضول خرچی شوبازی اور ناعاقبت اندیشی کا عنصر پیدا ہو چکا ہے، ہماری زندگیوں میں ماضی میں سکون تھا اب مکمل بے سکونی اور بے چینی ہے اس کی اصل وجہ ہم خود ہیں، قرض کی رقم کو ہوا میں اڑا دینے کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے۔
پہلے وقتوں میں گھروں میں سادہ کھانا بنانے کا رواج تھا۔ اب تو فاسٹ فوڈ پر انتہائی فضول خرچی کی جاتی ہے، برگر، شوارما، پیزا اور بیکری کی مصنوعات پر بڑی رقم خرچ کر دی جاتی ہے، خواتین گھر میں کھا نا بنانے سے کنّی کتراتی ہیں، اور بچوں کو فاسٹ فوڈ کی عادت ڈال دیتی ہیں اس میں ایک کثیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ فاسٹ فوڈ صحت بخش خوراک نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف پیسہ کا ضیاع ہے۔
لاہور کا پُرانا شادی کلچر
آج سے چالیس پچاس سال پہلے تک لاہور میں شادی بیاہ کی رسومات بڑی سادہ اور دلچسپ ہوتی تھیں، اُس زمانے میں پائپ بینڈ اتنا عام نہیں ہوتا تھا۔ براس بینڈ ہر شادی پر لازم ملزوم سمجھا جاتا تھا، براس ینڈ کے الگ الگ ریٹ تھے، اُس زمانے میں بابوبینڈ ، سوہنی بینڈ اور راجہ بینڈ وغیرہ کا بہت شہرہ تھا ۔
براس بینڈ والے دومتوازی لائنوں میں چلتے تھے، درمیان میں کلارنٹ نواز ہوتا تھا ، کلارنٹ بجانا اور اس سے مدھر تانیں نکالنا بڑی مہارت کا کام ہے، عموماً کلارنٹ نواز ہی بینڈ ماسٹر ہوتا ہے۔ سوہنی بینڈ کا ماسٹر جب ’’ جب جگ سوئے تاروں سے کریں باتیں، یہ چاندنی راتیں ‘‘ کی دُھن کلارنٹ پر بجاتا تو راہ چلتے لوگ بھی مبہوت رہ جاتے۔ دلہا کو لے کر بارات دُلہن کے گھر پہنچتی تو دُلہا کے عزیزواقارب بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیتے، اس موقع پر ایک روپے کی ’’ ویلیں ‘‘ بھی دی جاتی تھیں ۔ بارات کے پیچھے چلنے والے گلی محلے کے بچوں پر ایک اور دو پیسے کے سِکے نچھاور کئے جاتے تھے ۔
دُلہا کو عموماً سجے سجائے گھوڑے پر بٹھایا جاتا تھا، دُلہن کے گھر کے نزدیک گھوڑے کا ڈانس کروایا جاتا تھا، جس سے دُلہا اور شہ بالا کی جان پر بن جاتی، شہ بالا تو عموماً چیخنے چلانے لگتا جب بارات دُلہن کے گھر پہنچتی تو خواتین مہمانوں کو گھر کے اندر بٹھایا جاتا اور مرد مہمانوں کوکسی اور جگہ باراتیوں کو بٹھانے کیلئے محلے داروںکے گھروں کو بھی استعمال کیا جاتا تھا ۔ نِکاح کے بعد چھوارے تقسیم کئے جاتے، موجودہ وقت کی طرح ’’بِد ‘‘ پیکٹوں کا تصور نہیں تھا، نکاح کے بعد باراتی زمین پر بچھی ہوئی دریوں اور چادروں پر آمنے سامنے بیٹھ جاتے، چھوٹی پیالیوں میں سالن دوبوٹیاں او ر دوآلو ڈال کراور ایک پلیٹ میں نان، چھوٹی پلیٹ میں زردہ ڈال کر در میان میں رکھ دیا جاتا تھا۔
آمنے سامنے بیٹھے ہوئے باراتی اکٹھے ایک ہی پلیٹ میں اپنی اپنی بوٹی اور آلو کھاتے، اگر کھانے کی ’’ انتظامیہ ‘‘ میں سے کسی باراتی کا کوئی واقف کار ہوتا تو وہ آنکھ بچا کر اپنے واقف کار باراتی کی پیالی میں ایک بوٹی اضافی ڈال دیتا،کھانا پہلے مردوںاور پھر عورتوں کو دیا جاتا تھا ۔ کھانے کے بعد خواتین کے حصے میں شادی کی دوسر ی رسومات ہوتیں۔
ان رسومات کی ادائیگی میں شام ہو جاتی،کوشش ہوتی کہ مغرب سے پہلے پہلے دُلہن کی رخصتی ہو جائے، دلہن کو گھر کے بزرگ مرد اور بھائی لکڑی کی بنی ہوئی ڈولی میں بٹھاتے، اُداس ماحول میں گھر والوں اور عزیزواقارب کی دعاؤں میں لڑکی کو رخصت کیا جاتا، ڈولی کو چار کہار مِل کر اُٹھاتے، روشنی کیلئے گیس کے ھنڈے روشن کر دئیے جاتے، بارات کے پیچھے مزدورں نے جہیز میں دیا جانیوالا سامان سروں پر اٹھا یا ہوتا تھا۔ اُس زمانے میں جہیز بہت مختصر اور سادہ ہوتا تھا جو کہ عموماً ایک پلنگ، ایک ڈریسنگ، برتنوں والی الماری اور عام استعمال کے برتنوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ والدین اپنی حیثیت کے مطابق اپنی بیٹی کو جہیز دیتے تھے۔ جہیز اور بّری کے سوٹوں میں شینل اور ساٹن کے سوٹوں کو مہنگا سمجھا جاتا تھا۔
دُلہا کا گھر نزدیک آتے ہی باجے والے عموماً ’’ اسی رج کے بھنگاں پیتیاں ‘‘ والی دُھن چھیڑتے اور لڑکے بالے اس دُھن پر خوب بھنگڑا اور دھمال ڈالتے، بعض اوقات اِس خوشی کے موقع پر گھر کی خواتین بھی شامل ہو جاتیں، خوب ہلہ گُلہ ہوتا، ساتھ ہی ساتھ گھر کے بزرگ جلد سونے کی ہدایت کرتے جاتے’’ اب سو جاؤ، صبح جلدی اُٹھنا ہے ولیمے کی تیاریاں کرنی ہیں۔‘‘ ولیمہ بھی سادہ ہی ہوتا تھا۔ ولیمہ گھر ، گلی اور محلے میں ہی کیا جاتا تھا، اور دُلہن کو گھر کی خواتین ہی تیار کرتی تھیں ۔
اُس وقت پورے خاندان اور محلے داروں کو اپنی خوشیوں میں شامل کیا جاتا تھا۔ دُور دراز کے رہنے والے رشتے داروں کو پہلے ہی دعوت دی جاتی تھی تاکہ وہ مقررہ وقت پر شادی کی خوشی میں شامل ہو سکیں، اور اگر خاندان میں کوئی کسی وجہ سے ناراض ہوتے تھے تو بزرگوں کے ساتھ مل کر اُن کی ناراضگی دُور کی جاتی تھی۔ لڑکے والے یا لڑکی والے مالی طور پر پریشان ہوتے تو خاندان اور محلے دار مل کر اُن کے مالی اور تمام معاملات میں بھرپور طریقے سے مدد کرتے، اُس وقت عموماً گھر، صحن، گلیاں اور بازار بڑے اور کھلے ہوتے۔
ہمسایوں کے گھر اور کھلے صحن شادی کے دنوں میں مہمانوں کو بٹھانے اور ٹھہرانے کیلئے استعمال کیے جاتے تھے، محلے دار اور دوست احباب خوشی سے تمام کام اپنے ذمہ لیتے تھے، اور اپنے گھروںسے استعمال کی ضروری اشیاء بھی لے آتے، محلے دار، لڑکے دوست، دلہن کی سہیلیاں اور بزرگ مل کر باہمی مشورے اور اپنے تجربے کے مطابق تمام کام سرانجام دیتے تھے۔ شادی سے کافی دن پہلے ہی شادی کے فنکشن بہت ہی سادگی کے ساتھ شروع ہو جاتے تھے۔
دن میں اپنے اپنے گھروںمیں روز مرہ کے کاموںسے جلدی جلدی فارغ ہوکرشادی والے گھر پہنچ جاتے اور جہیز ، بّری کی تیاری میں خوشی خوشی گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے، سب لوگ ایک خاندان کی طرح مل کر شادی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ، محلے کی شادی کو اپنے گھر کی شادی سمجھتے، اتنی سادگی سے ہونے والی یہ شادیاں عزت و احترام کے ساتھ کامیاب ہوتی تھیں۔ اگر کوئی لڑائی جھگڑے یا مسائل پیدا ہوتے بھی تو خاندان کے دانا اور محترم بزرگ آپس میں مل بیٹھ کر حل کر لیتے تھے۔
اب شادیوں پر بہت فضول خرچی کی جاتی ہے مگر پھر بھی ذہنی سکون حاصل نہیں ہے۔ رشتوں میں وہ پہلے جیسی مضبوطی اور آپس میں پیار ومحبت اور احترام نظر نہیں آتا، جھوٹی شان و شوکت اور نمود ونمائش کئی قسم کے مسائل بھی کھڑے کر دیتی ہے، بے شمار ضروری اخراجات پس پشت پر چلے جاتے ہیں۔
موجودہ شادی کلچر
تقریباً ڈیرھ سال پہلے، دسمبر 2017 ء کی ایک اتوار کا ذکر ہے۔ شادیوں کا سیزن تھا، تمام شادی ہال بُک تھے، عروسی مبلوسات تیار کرنے والے کاریگروں کے پاس تقریباً دو ماہ تک کا وقت نہ تھا کہ وہ مزید بُکنگ کرتے، کئی شادی ہالز میں ایک ہزار سے بھی زائد مہمانوںکی بکنگ کروائی گئی تھی، ان شادی ہالز کا ریٹ مینو کے حساب سے کم از کم 550 روپے اور زیادہ سے زیادہ0 400 روپے فی کس تھا۔
امراء نے شادی ہالز کی بجائے فارم ہاؤس بُک کروائے ہوئے تھے، فارم ہاؤس کے اخراجات کا سُن کر ہی ہوش اُڑ جاتے ہیں، عروسی لباس بھی لاکھوں روپے میں تیار ہو رہا تھا۔ ستر، اسی ہزار کا عروسی لباس صرف ایک رات کیلئے پہنا جاتا ہے، امراء کی بیٹیاں دس دس لاکھ روپے شادی اور ولیمے کا لباس زیب تن کرتی ہیں، میک اپ اور مہندی کے تین دن کے اخراجات بھی لاکھوں میں بن جاتے ہیں۔ آ ج سے کچھ عرصہ قبل شادی بیاہ کا کلچر بالکل مختلف تھا۔ اب ایک متوسط گھرانے کی بیٹی کی شادی کا خرچ دس لاکھ روپے سے تجاوز کرجاتا ہے، سونے کے زیورات یا جہیز کے سامان کے علاوہ ساری رقم ضائع ہوجاتی ہے۔
دسمبر کی اس اتوار کو لاہور میں سینکڑوں شادیاں تھیں ہر شادی پر دل کھول کر اسراف کیا جا رہا تھا، دُلھا یا دلہن کے گھر والوں کے اخراجات تو ایک طرف باراتیوں کے بھی کپڑوں، میک اپ اور آمدو رفت کے سلسلے میں ہزاروں کے اخراجات ہو جاتے ہیں، تحفے تحائف کے پیسے الگ خرچ ہوتے ہیں۔ شادیوں کے اس سیزن میں لاہور کی ایک غریب آبادی میں رہنے والی ایک غریب بچی کی شادی کچھ اس طرح ہوئی کہ بچی کے گھر والوں نے بڑی مشکل سے صرف بیس مہمانوں کی موجودگی میں بچی کو رخصت کیا۔ اس بچی کی عمر تقریباً بیس سال ہوگی۔
غربت کے باوجود اُس نے بی اے نمایاں نمبروں میں پاس کیا، بی اے پاس کرتے ہی اس کے غریب کمزور اور شریف والدین کو اس کی شادی کی فِکر لاحق ہوئی کہ کمزور آدمی کی جوان بچی کی عزت محفوظ نہیں رہتی، طاقتور اور بپھرے ہوئے افراد کمزور والدین کی بچی کو لُوٹ کا مال سمجھتے ہیں، لڑکی کا رشتہ انھوں نے اپنے رشتہ داروں میں کیا تھا۔ مگرلڑکا ایک فیکٹری میں معمولی تنخواہ پر ملازم تھا۔
جب شادی کی تاریخ طے پا گئی تو لڑکے نے فیکٹری مالک سے تھوڑی سی رقم ایڈوانس میں دینے کی التجا کی مگر یہ بات سُن کر مالک کے ماتھے پر بَل پڑ گئے، غصے میں آ کر اُس نے آٹھ دن کی تنخواہ لڑ کے کے ہاتھ میں رکھی اور اُسے فیکٹری سے نکال دیا۔ اُدھر لڑکی کے گھر والوں کے پاس بھی پیسے نہ تھے۔ لڑکی کی ماں نے شادی سے پہلے بے شمار ’’مخیر حضرات ‘‘ سے رابطہ کیا سب نے وعدہ تو کر لیا مگر عین وقت پر بہانہ بنا کر معذرت کر لی، مجبوراً اس کے گھروالوں نے پُرانے کپڑوں، بغیر زیور اور میک اپ کے اُسے لڑکے کے ساتھ رخصت کردیا۔ لڑکے کے والدین وفات پا چکے تھے، وہ بھی بے سروسامانی کے عالم میں اپنے ایک بھائی اور اس کے بیوی بچوں کے ہمراہ نِکاح کیلئے پہنچا۔
دسمبر کی ایک اتوار جب لاہور میں سینکڑوں شادیاں ہو رہی تھیں اور مجموعی طور پر کروڑوں کے بے جا اخراجات کئے جا رہے تھے اُسی اتوار ایک پڑ ھی لکھی، خوبصورت اور سمجھ دار لڑکی جس بے سروسامانی کے عالم میں پیا گھر سدھاری، شائد آسمان بھی رو پڑا ہو، آج بھی وہ لڑکی اپنے بے روزگار شوہر کے ساتھ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گذار رہی ہے۔ ملکی حالات کی وجہ سے اُس کے شوہر کا دوبارہ کسی فیکٹری میں نوکری نہیں مِلی کہ پہلے ہی فیکٹری مالکان ملازمین کو نکال رہے ہیں۔
ایک بی اے پاس لڑکی کے دل میں کیا کیا خواب ہوں گے، وہ لاہور میں ہونے والی شادیوں پر ہونے والے اسراف اور فضول خرچی دیکھتی ہوگی تو اپنا آشیانہ بسانے کے کیا کیا خواب نہ بُنتی ہوگی؟ اپنی اولاد کی شادیوں پر لاکھوں روپے ضائع کرنے والے امراء نے کبھی یہ سوچا ہوگا کہ وہ تھوڑی سی فضول خرچی کم کر کے یہ رقم غریب بچیوں کی شادی پر خرچ کر دیں، اس بچی کے والدین نے اپنی بچی کی خوشیوں کیلئے جس طرح لوگوں سے بھیک مانگی، لوگو ں کے پاؤں کو ہاتھ لگایا اور جس طرح اپنی بیٹی کو رخصت کیا، اس کا اندازہ صرف اہل دل ہی لگا سکتے ہیں۔
اسراف کی وجہ سے ہمارا ملک کہاں پہنچ چکا ہے؟
عوام کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ ان کی فضول خرچیوں کے نتیجے میں ریاست کس دوراہے پر کھڑی ہے، ملک جس بحران کا شکار ہے اس کا اندازہ پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی ہے اور عسکری اداروں کو بھی ہے، مگر آفرین ہے کہ حکومت اور اداروں نے قوم کو ہیجان اور اضطراب میں گرفتار ہونے سے بچایا ہے، ایک طرف ریاست اس نہج تک پہنچ چکی ہے، دوسری طرف عوام آج بھی اپنا طرز عمل بدلنے یا معا ملات کو سمجھنے کی چنداں کوشش نہیں کر رہے۔ تمام فضول خرچیوں کواگر نظر اندازکر کے صرف شادی بیاہ اور سالگر ہ وغیرہ کی فضول رسومات کا جائزہ لیا جائے تو ان پر ہونے والے اسراف کا سُن کر ہوش ا ُڑ جاتے ہیں۔
عالم یہ شوق کا
اب ایک نارمل شادی کا خرچ تقریباً پندرہ ، سولہ لاکھ روپے آتا ہے۔ صرف تین تولے زیورات کا سیٹ ڈھائی لاکھ روپے کا آتا ہے۔ لباس عروسی اور ولیمے کا سوٹ کم از کم ایک لاکھ میں تیار ہوتا ہے، اور یہ لباس فقط ایک دفعہ پہنا جاتا ہے بعد میں کسی کام نہیں آتا۔ تین دن کے میک اپ کا خرچ اوسطً تیس ہزار روپے سے لیکر اسی ہزار تک آتا ہے، دوسو افراد کے کھانے کے اخراجات ایک دن کے ایک لاکھ ستر ہزار، یعنی شادی اور ولیمے کے صرف دوسو افراد کے کھانے کے اخراجات ہی ساڑ ھے تین لاکھ بن جاتے ہیں۔
تیل اور مہندی کی مختلف رسومات اور کھانے کے اخراجات بھی ساٹھ ہزار سے تجاوز کر جاتے ہیں، اب جہیز اور بّری میں رکھے جانے والے کامدار کپڑوں کی مالیت دیکھی جائے تو وہ لاکھوںسے تجاوز کر جاتی ہے، اب تو بیس، پچیس ہزار روپے کا ایک اچھا سوٹ تیار ہوتا ہے جوعام طور پر پہنا ہی نہیں جا سکتا ، اس کے بعد آمدورفت کے اخراجات بھی ہزاروں میں ہوتے ہیں۔
جوتا چھپائی، دودھ پلائی، باگ پکڑائی کے علاوہ درجنوں رسموں پر ہزاروں روپے خرچ کئے جاتے ہیں، تیل مہندی کی پیڑھی دو ہزار روپے میں تیار ہوتی ہے۔ اب ساؤنڈ سسٹم ، اسٹیج کی تیاری ، پھولوں کی سجاوٹ اور کمرہ عروسی کی سجاوٹ کے اخراجات کو شمار کیا جائے تو یہ بھی لاکھوں میں بنتے ہیں۔ آتش بازی، بھانڈ، ڈھول بجانے والے، پائپ بینڈ یا براس بینڈ، بعض مقامات پر اسلحہ کی فائرنگ اس وقت ایک میگزین کی قیمت ہزاروں روپے میں ہوتی ہے، سینکڑوں راونڈز فائز کردئے جاتے ہیں، کئی ہزار روپے کی گولیاں چلائی جاتی ہیں۔
اگر ان اخراجات کو بھی جمع کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ کس قدر فضول خرچی کی جاتی ہے، اس کے علاوہ بھی درجنوں اخراجات ہوتے ہیں۔اب دُلہا کے تین دن کے میک اپ کے اخراجات بھی پچیس ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں۔ میک اپ سے بہتر ہے کہ دُلہا کا چہرہ سہرے میں ہی چھپا دیا جائے جیسا کہ پہلے وقتوں میں ہوتا تھا، اور گلے میں ’’نوٹوں ‘‘ کے ہار ڈال دئیے جائیں۔
شادی بیاہ، سالگرہ اور دوسر ے فضول قسم کے فنگشن وغیرہ کی رسومات میں شریک ہونے والے مہمان بھی میک اپ اور دوسری چیزوں پر ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔
غضب خدا کا مالی، معاشی اور اقتصادی بحران کا شکار قوم کو کیا ہوگیا ہے۔ ان تشویشناک حالات میں بھی یہ روّیہ ؟ یہ فضول خرچی؟ یہ اندازِ فکر واندازِ زندگی؟ ہم سب کو کیا ہو چکا ہے؟ ۔
دُلہا دُلہن شادی کے اخراجات کا ذمہ دار ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں
میرے سامنے شان و شوکت سے ہونے والی نا کام شادیوں کے اعدادوشمار پڑے ہیں۔ لاکھوں روپے خرچ کر دینے کے باوجود طلاق کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ایک سماجی تنظیم سوشل ایڈآرگنائزیشن (ساؤ) کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق انتہائی شان و شوکت سے ہونے والی ستر فیصد شادیاں پائیدار نہیں ہوتیں۔ جوڑے انتہائی مجبوری کے عالم میں نباہ کرتے ہیں۔ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے برابر ہوتی۔ ذہنی اور نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد فضول خرچی کا احساس ہوتا ہے اور اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔
ان خراجات کا ذمہ دار دوسرے فریق کو سمجھا جاتا ہے۔ دلہن کی آنکھوں سے شادی کا خمار اُترتا ہے تو اُسے احسا س ہوتا ہے کہ اس کا گھر بسانے کی اس کے والدین کو کیا قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ جب وہ اپنے والدین کو قرض اُتارتے دیکھتی ہے اور اپنے سسرال میں اپنی ’’ قدر‘‘ دیکھتی ہے تو اس کے دل میں اپنے سسرال کے متعلق منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں، اگر شوہر اس کے بیجا ناز نخرے برداشت نہ کرے تو اُسے شوہر بھی بُرا لگتا ہے کہ اس شخص کیلئے میرے والدین اور رشتہ داروں نے کس قدر خرچ کیا ہے، یہی بات شوہر بھی سوچتا ہے کہ اس ’’ دلہن‘‘ کو لانے میں کس قدر اخراجات ہوتے ہیں، پھر شادی میں ہونے والی’’ فضول خرچیاں‘‘ بھی یاد آتی ہیں اور اس کا ذمہ دار ’’ دلہن‘‘ کو ہی سمجھا جاتا ہے ۔ ایک دوسرے کو کوسنے اور طعنے دیئے جاتے ہیں۔ پھر زبردستی کے نباہ کی کوشش کی جاتی ہے۔
بعض اوقات نوبت طلاق تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ اگر اولاد ہو جائے تو اولاد کی خاطرایک خاموش سمجھوتا کیا جاتا ہے۔ مگر زندگی کا اصل حقیقی مزہ نہیں رہتا۔ اس تنظیم کی سروے رپورٹ کے مطابق جو شادیاں سادگی سے طے پاتی ہیں ان کا حقیقی زندگی میں کامیابی کا تناسب 95 فیصد ہے اور ان شادیوں میں باہمی احترام کی بنیاد پر رشتہ استوار کیا جاتا ہے اور نئے خاندان کی بنیاد رکھی جاتی ہے، سادگی سے شادی کرنے والے جوڑے شادیوں پر ہونے والی فضول خرچی کے پچھتاوے کا شکار نہیں ہوتے، اس تنظیم کے سروے میں بڑے دلچسپ دوسرے حقائق بھی سامنے آئے ہیںکہ ضرورت سے زیادہ ’’ شان و شوکت ‘‘ کا مظاہرہ کرنے والے اپنے ہی عزیزوں، رشتہ داروں اور دوست احباب کے مذاق کا بھی نشانہ بنتے ہیں اور حسد کا بھی، شادی کے ’’ آفٹر شاکس‘‘ میں مدتوں اس گھرانے کی’’ شو بازی‘‘ کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔
علاوہ ازیں ایسے گھرانے کو تحائف اور سلامی دینے والے بھی ہر جگہ اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں اگر کسی سے قرض لیا ہو تو وہ پورے شہر کو اپنی ’’ سخاوت اور دریا دلی ‘‘ سے آگاہ کرتا ہے ۔ قرض لے کر شادی کرنے والوں کو دہری ذلِت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس’’ گناہ بے لذت ‘‘ کا خمیازہ مدتوں بُھگتنا پڑتا ہے۔
دوسروں کے احساس ِ محرومی میں اضافہ کرنے سے کبھی خوشی نہیں مِلتی
ایک ہی کالج اور کلاس میں پڑھنے والی دوسہیلیوںکی اتفاق سے ایک ہی دن شادی کی تاریخ طے ہوئی ۔ ایک لڑکی کا تعلق اَ پر مڈل کلاس سے تھا دوسری لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی ، اپَر کلاس سے تعلق رکھنے والی لڑکی اپنی تمام کلاس فیلوز کو اپنی شادی کی تیاریوں اور اُن پر ہونے والے لاکھوں کے اخراجات سے آگاہ کرتی رہتی، اور ساتھ ہی ساتھ دوسری کلاس فیلو کے چہرے پر اُبھرتا ہوا احساس محرومی دیکھ کر دِلی تسکین اور احساس تفاخر محسوس کرتی۔
ایک کی شادی انتہائی دھوم دھام سے ہوئی، دوسری کی انتہائی سادگی کے ساتھ، کلاس فیلوز کی اکثریت خوشحال لڑکی کی شادی میں شریک ہوئی جبکہ دوسری لڑکی کی شادی میں صرف اکا دُکا کلاس فیلوز شریک ہوئیں۔ سب معاملات اپنی جگہ مگر کچھ عرصہ بعد خوشحال (اپَر کلاس) لڑکی کو طلاق ہوگئی اور دوسری (لوئر کلاس) لڑکی کو سسرال اور شوہر کا انتہائی سکھ اور پیار نصیب ہوا۔ اس کے شوہر کو اسپین میں نوکری مل گئی،اب یہ خاندان خاصا خوشحال ہو چکا ہے مگر اس کُنبے میں آج تک کسی قسم کا احساس تفاخر پیدا نہیں ہوا بلکہ ان کی عاجری میں اضافہ ہو چکا ہے۔
…
سادگی سے نِکاح کرنے کی برکت
اسی شہر لاہور میں رہنے والے ایک صاحب کا شاہ عالمی مارکیٹ میں بجلی کے سامان کا کاروبار ہے ۔ اپنی بیٹی کی شادی کیلئے پیسہ پیسہ جوڑ کر رقم اکٹھی کی۔ جب شادی کی تاریخ طے پاگئی اور کارڈوغیرہ چھپ گئے تو ان کے علِم میں آیا کہ اسی محلے میں رہنے والے ایک سفید پوش خاندان کی بچی کا رشتہ بھی طے ہو چکا ہے، لڑکا باہر سے آیا ہوا ہے اور اُس نے پند رہ دن بعد پردیس واپس جانا ہے، اگر اب شادی نہ ہوئی تو رشہ ٹوٹ جائے گا۔ انھوں نے تھوڑے سے پیسے رکھ کر تمام رقم اُس سفید پوش خاندان کو دیدی، اس بات کا ذکر انھو ں نے لڑکے والوں سے کیا، انھوں نے ان کے اس ایثار اور جذبہ قربانی کی بڑی تعریف کی۔ اس بچی کا نکاح نہایت سادگی سے ہوا، مگر اب ان کی بیٹی اتنی خوش و خرم ہے کہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
پانچ سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے تین انتہائی خوبصورت بیٹوں سے نوازا ہے ، اس کے شوہر کو غیر متوقع طور پر ترقی مِل گئی، اور اس کے باپ کو کاروبار میں غیر معمولی منافع ہوا، اس نے اپنی بیٹی کی ضرورت کی ہر چیز خرید کر اُسے جہیز کے طور پر دیدی، وہ سب کو کہتے ہیں کہ مجھے تو فوراً ہی دس گنا زیادہ دنیا میں ہی مل گیا ۔
رشوت کے فروغ کی بڑی وجہ بچوں کی شادیوں کے اخراجات
سماجی تنظیم (ساؤ) کے سروے اور تجزیئے کے مطابق ملک میں رشوت کے فروغ کی بڑی وجہ اپنے ذاتی مکان کے حصول کی خواہش اور بچوں کی شاہانہ شادیاں کرنے کی تمنا ہے۔ باقی ضروریات زندگی کیلئے تنخواہ اور تھوڑی بہت رشوت سے گزارہ ہوجاتا ہے، ذاتی گھر اور بچوں کی شادی کے اخراجات کیلئے رشوت کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ کوئی یہ بھی سوچتا ہے ،کہ حرام کمائی سے بنے ہوئے عالیشان گھر میں ان کی نمازیں اور دوسری عبادات قبول ہوتی ہونگی؟ یا اس گھر میں رہنا گناہ کا سبب تو نہیں ہوگا، اس طرح رشوت یا حرام کمائی سے بچوں کی شادیاں کرنے سے ان کے اپنے ازدواجی رشتوں میں بے برکتی تو شامل نہیں ہو جائے گی؟
جھوٹی شان و شوکت
نارووال کے نزدیکی گاؤں سے ایک خاندان ذریعہ معاش کی تلاش میں لاہور آیا ، دونوں بیٹوں نے گاڑیوںکو پنکچر لگانے کا کام سیکھ لیا، پھر قسمت نے یاوری کی اور انھیں ایک پٹرول پمپ میں پنکچر شاپ ٹھیکے پر مِل گئی، کام بڑھا اور گھر کے حالات بہتر ہوگئے، کچھ عرصہ بعد رشتہ داروں میں بڑے بیٹے کی شادی طے پا گئی۔ شادی کیلئے لڑکے کے باپ نے سوچ کر قرضہ لے لیا کہ ’’ سلامیوں ‘‘ سے خاصی رقم اکٹھی ہو جائے گی اور ولیمے سے اگلے دن قرضہ واپس کر دیا جائے گا۔ شادی کے موقع پر دل کھول کر اخراجات کئے گئے، اہل خانہ نے مہنگے مبلوسات خریدے، باپ نے کلف والا سوٹ پہنا، سر پر پگڑی رکھی اور انتہائی ’’ باوقار ‘‘ انداز اپنایا، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بڑے ’’ رکھ رکھاؤ‘‘ کے ساتھ صرف ضروری باتیں کیں ۔
غریب رشتہ دار بھی خاصے مرغوب نظر آ رہے تھے، شادی ختم ہوگئی اور سلا میوں کی رقم گنی گئی تو یہ رقم بہت ہی معمولی نِکلی، قرض کی ادائیگی وقت پر نہ ہوسکی، نتیجہ یہ نکلا کہ قرض دینے والے نے ایک دن اُس کے باپ کو گریبان سے پکڑ لیا اور خوب گالم گلوچ کی، یہ تماشا دیکھنے والا ایک شخص دُکھ کے ساتھ کہنے لگا کہ ہماری پوری قوم ہی اس روّیے کی عادی ہو چکی ہے۔ ہم اپنی جھوٹی شان وشوکت کیلئے ’’ قرض‘‘ لے لیتے ہیں پھر پوری دنیا سے ذلیل ہوتے ہیں، قومی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی؟
دوسروں کی آرزؤں پر بنائے جانے والے ناپائیدار محلات
سیالکوٹ میں رہائش پذیر ایک خاندان کے بیٹوں نے غربت اور بے روزگاری سے تنگ آ کر میچوں میں جُوا ء کروانے کا کام شروع کردیا، یہ کام انھیں بہت راس آیا اور وہ چند سالوں میں کروڑ پتی ہوگئے، وہ لاہور میں شفٹ ہوگئے اور ڈیفنس لاہور میں عالیشان کوٹھی خریدلی۔ چھوٹے بیٹے کا ولیمہ لاہور ائیر پورٹ کے نزدیک بنے ہوئے ایک فارم ہاؤس میں منعقد کیا گیا تھا۔ اس فارم ہاؤس میں ون ڈیش کی پابندی نہیں تھی ۔ کم از کم بیس قسم کے کھانے مہمانوں کو پیش کئے گئے، کھانے کا بِل تقریباً پندرہ لاکھ روپے اداکیا گیا۔ شادی کے چھ ماہ بعد میاں بیوی کے مابین لڑائی جھگڑ ے شروع ہوگئے معاملہ طلاق تک جا پہنچا، اس شادی پر کم از کم پچاس لاکھ روپے خرچ کئے گئے اور شادی چھ ماہ بھی نہ چلی، اگر یہ شادی سادگی سے کی جاتی اور یہ رقم غریب بچیوں کی شادی پر خرچ کی جاتی تو شائد شان و شوکت سے کی جانے وا لی شادی کا یہ انجام نہ ہوتا، سچ ہے کہ خواہشوں کے محلات غریبوں کی آرزؤں پر کھڑے کئے جاتے ہیں بہت ہی ناپائیدار ہوتے ہیں ۔
شادی کے انتظار میں بیٹھی لاکھوں لڑکیاں
وطن عزیز میں لاکھوں بچیوںکی شادی کی عمر ڈھلتی جا رہی ہے اس کی بڑی وجہ صرف غربت اور جہیز کا نہ ہونا ہے، کسی کا گھر بسانا بڑے ثواب کا کام ہے، مگر ہماری اجتماعی سوچ ہی ختم ہوتی جا رہی ہے ، صرف نفسا نفسی کا دُور ہے۔ بے شمار فضول اور فرسودہ رسومات میں جکڑا ہمارا معاشرہ قرض اور دیگر مسائل کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے، ان فرسودہ رسم ورواج کیلئے حرام کمائی کا سہارا لیکر عاقبت بھی برباد کی جا رہی ہے، ذہنی الجھنوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ قرضدار ریاست کے قر ضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، مگر مہنگے ترین موبائل فون ، مہنگے ترین پرفیوم خریدے جا رہے ہیں۔ مختلف چینلز دیکھ کر پیکٹوںمیں پیک مہنگے مصالحے خرید کر کھانے بنائے جاتے ہیں، اس قسم کے درجنوں فضول کام کئے جا رہے ہیں کہ جن کے بغیر بخوبی گزارہ ہو سکتا ہے ۔ جب تک ہم احمقانہ قسم کی فضول خرچیاں ختم نہیں کریں گے، انہی مسائل کاشکار رہیں گے ۔ ذلت بھی مقدر بنی رہے گی اور مہنگائی کا سارا ملبہ ہر حکومت پر ڈالتے رہیں گے؟
The post فرسودہ رسم و رواج معاشرے پر بوجھ appeared first on ایکسپریس اردو.