تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تجارت کا پیشہ تاریخ انسانی میں ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اور ایک ایسا سیاہ دور بھی گزرا ہے جب اس دنیا میں غلاموں کی تجارت کی منڈیاں بھی موجود تھیں۔ انہیں بد نام زمانہ منڈیوں میں سے ایک بحر ہند میں واقع مشرقی افریقہ کے ساحل سے 400کلو میٹردور لمبائی کے اعتبار سے دنیا کا چوتھا بڑا جزیرہ مڈغاسکر نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں افریقہ سے لائے جانے والے غلاموں کی سب سے بڑی منڈی لگتی تھی۔
ہندوستان اور عرب سے آنے والے تاجر یہاں سے غلام خرید کر اپنے علاقوں میں لے جاتے تھے۔ اسی لئے اس جزیرے پر بڑی تعداد میں متحدہ ہندوستان کے دور سے بھارت اور پاکستان کے موجودہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہندو، مسلمان اور عرب قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ اپنی چھوٹی چھوٹی بندرگاہوں سے توجہ کا مرکز بننے والا یہ جزیرہ غلاموں کی تجارت کے علاوہ بھی تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل رہا۔ روس اور جاپان کے درمیان ہونے والی بحری جنگ کے دوران روس سے آنے والے کچھ جنگی دستوں نے مڈغاسکر میں قیام کیا۔ اس کا اہم ترین ثبوت وہ قبرستان ہے جہاں روسی ملاح اور دیگر عملے کے لوگ دفن ہیں اور ان قبروں کے کتبوں پر تحریریں روسی زبان میں ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق مڈغاسکر میں 10ہزار سال قبل انسانی زندگی کے اثرات ملتے ہیں۔
اگر وہاں کی قدیم معاشرت کی بات کی جائے تو آسٹریلیا کے لوگ 350 قبل مسیح سے 550سن عیسوی کے درمیان وہاں آ کرآباد ہوئے جن کی زندگی میں سمندر بنیادی اہمیت کا حامل رہا۔ انہوںنے مختلف اشکال اور اقسام کی کشتیاں متعارف کروائیں۔ اٹھارویں صدی سے قبل تک مڈغاسکر میں سماجی و معاشرتی ہم آہنگی کا فقدان رہا۔ انیسویں صدی کے ابتدائی دور میں بیشتر جزائر پر سلطنت مڈغاسکر کا راج رہا جس کی باگ دوڑ ’میرنہ‘ قبیلے کے معززین کے ہاتھ میں تھی۔ اس قبیلے کا تعلق مرکزی جرائز سے تھا۔
آب و ہوا اور جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ خطہ انفرادیت کا حامل رہا۔ یہاں سال میں دو موسم بدلتے ہیں مئی سے اکتوبر کے درمیان موسم سرد رہتا ہے جبکہ نومبر سے اپریل کے درمیان موسم گرم اور مرطوب رہتا ہے۔ یہاں کی ایک منفرد چیز یہاں کے گھنے جنگلات ہیں جہاں کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں۔ یہ جنگلات قدرتی حسن کا شہکار ہیں اور اپنے اندر ایک پراسراریت اور کشش سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہاں میدان‘ سطح مرتفع اور پہاڑی علاقہ، تینوں کاامتزاج جزئرے کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
مڈغاسکر کی کل آبادی دو کروڑ بارہ لاکھ نوئے ہزار (21290000) ہے۔ اس کا دارالحکومت انتنسناروو ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مڈغاسکر انتہائی پسماندہ ملک ہے۔90 فیصد سے زائد آباد ی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ بے شمار قدرتی وسائل ہونے کے باوجود صحت‘ تعلیم‘ روزگار اور غذائیت کی کمی جیسے سنگین مسائل سے دو چار ملک محض سیاحت اور زراعت کے بل بوتے پر ریاستی اخراجات پورے کرنے کی تگ و دو میں رہتا ہے۔
رویلو منینا کے دور حکومت میں ملک نے خاطر خواہ معاشی ترقی کی مگر تمام افراد اس کی ثمرات سے فیض یاب نہ ہو سکے۔ کھیتی باڑی ‘ ماہی گیری اور محدود پیمانے پہ نجی کاروبار ہی مڈغاسر کے شہریوں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔ بڑھتی ہوئی ضروریات زندگی اور گرتے ہوئے معیار زندگی نے مڈغاسرکے عوام کے لئے مسائل کا انبار لگا رکھا ہے جس کی وجہ سے معاشرتی تفریق بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد پست معیار زندگی سے نالاں ہیں۔ ناپختہ سڑکوں نے آمد و رفت میں دقت پیدا کررکھی ہے جس کے باعث ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا دو بھر ہو جاتا ہے۔ بجلی کے مسائل نے بھی مڈغاسکر کے باسیوں کی مشکلات میں اضافہ کر رکھا ہے۔ مڈغاسکر میں ترقی نہ ہونے اور وہاں کے عوام کی مشکلات کا سلسلہ طویل ہونے کی ایک اہم وجہ وہاں پر سیاسی عدم استحکام بھی ہے۔
مڈغاسکر میں دو سرکاری زبانیں رائج ہیں مڈغاسی اور فرانسیسی۔بہت سے قارئین اس بات پر حیران ہوں گے کہ مڈغاسکر کی سرکاری زبان فرانسسی کیسے ہو سکتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مڈغاسکر طویل عرصہ فرانس کی نو آبادی رہا ہے اور آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی یہاں کے فیصلہ سازوں نے فرانسیسی کو ہی اپنائے رکھا جیسے کہ بہت سے دیگر افریقی ممالک نے بھی کیا۔
مڈغاسکر کی ( 90) نوے فیصد آبادی اٹھارہ زیلی گروہوں میں تقسیم ہے۔ اس میں سب سے نمایاں اور معزز ’’میرنہ‘‘ تصورکیا جاتا ہے۔حال ہی میں ڈی این اے سے متعلق شائع کی جانے والی ایک تحقیق سے یہ حقائق سامنے آئے ہیںکہ مڈغاسی نسل جنوب مشرقی ایشیائی اور مشرقی افریقائی نسلوں کے ’جین‘ کا مرکب گروہ ہے۔ اس نسل میں زیادہ تر اثرات مشرقی ایشیاء اور مشرقی افریقہ کے ہیں جن میں عرب اور یورپی آباواجداد شامل ہیں۔
اس میں بڑے گروہ بیٹسمسار کا تسمھتی اور سکالرو ہیں یہاں صرف مڈغاسرکے عوام ہی نہیں بستے بلکہ یہاں اقلیتیں بھی کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ اقلیتوں میں چینی‘ انڈین اور کومرن کے ساتھ قلیل تعداد میں یورپی بھی آباد ہیں۔ مختلف لسانی ونسلی‘ علاقائی و ثقافتی اور مذہبی گرہوں کا یہ امتزاج مڈغاسکرکے جغرافیہ کو مزید حسین بناتا ہے۔مذہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو 52فیصد آبادی اپنے آباؤاجداد کے مذاہب اور عقائد کے پیرو کار ہیں۔ 41 فیصد کا تعلق عیسائیت سے ہے جبکہ 7 فیصد کا تعلق اسلام سے ہے۔
مڈغاسکر اپنی جن چھوٹی چھوٹی بندرگاہوں کی وجہ سے مشہور ہے ان میں نمایاں نوسی بے‘ نوسی بوریا‘ انتنگیابے‘ انتسرنینا بے‘ نوسی سکاتیا (Nosy sakatia) ‘ نوسی تنکیلے‘ (NOSY tANIKELY)،نوسی انکو (Nosy Ankco)اور نوسی فنھے (Nosy Fanily) ہیں۔ ہر ایک اپنے منفرد اور سحر خیز حسن سے دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہاں سیاحوں کا رش اس بات کا ثبوت ہے کہ قدرتی حسن کو تلاش کرنے والے کسی بھی مشکل سے گھبراتے نہیں۔ مڈغاسکر دریاوں‘ جھرنوں، نہری نظام‘ اور منفرد جنگلات کی وجہ سے اپنی مخصوص خصوصیت رکھتا ہے۔
جزیرے کا متنوع حیاتیاتی نظام اور منفرد جنگلی حیات بڑھتی ہوئی آباد کاری کی وجہ سے خطرات کا شکار ہیں۔ اندیشہ ہے کہ اگر وہاں آبادی اسی تسلسل سے بڑھتی رہی تو ایک روز جنگلی حیات معدوم ہو جائے گی۔ یہاں اپنی نوعیت کی منفرد کھائیاں اور غاریں ہیں جن میں جھانکنا دل گردے کی بات ہے۔
یہاں بے شمار ایسے مقامات ملتے ہیں جن کی سیر کرنا کسی بھی سیاح کی دلی خواہش ہو گی۔ چند قابل ذکر نام یہ ہیں۔
Andasibe- Mantadia ,Lsalo, National Park, Avenue of the Baobabs, Ranomafara, National Park, Tsingy de Bemasha ,National Park یہ وہ مقامات ہیں جہاں منفرد چٹانی گذرگاہوں کے درمیان ہائیکنگ کی جا سکتی ہے۔
(Ankara Resrue) عجیب و غریب بندر نما جانور لیمر، لاکھوں چمگادڑوں سے بھرے غاروں اور گھنے جنگلات کے لئے مشور ہے
(Ambohimanga) قدیم کھنڈرات اور نوادرات کے لئے ممتاز ہے۔
(Tsarabongira) ساحل کنارے نئے جوڑوں کا ہنی مون منانے کا پسندیدہ مقام ہے ۔
Nary sakatia کچھوؤں‘ غوطہ خوری ‘ Snorkdin ( ایسا طریقہ جس سے آب روز کافی عرصہ تک زیر آب رہ سکتی ہے) اور ساحل کے لئے مشہور علاقہ۔
Andagiavaratra Palace تاریخی نمائش گاہ کے ساتھ محل کے اندر واقع میوزیم۔
Nosy Lranga بین الاقومی سیاہوں کی پسندیدہ منزل ہے۔
قدرتی وسائل کی بات کی جائے تو یہاں متنوع زرعی اور معدنی ذخائر موجود ہیں مڈغاسکر دنیا بھر میں وئینیلا کی درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ کھانوں کی خوشبو اور لذت میں اضافہ کرنیوالا لونگ بھی مڈغاسکر میں وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ کافی ‘ لیچی اور جھینگر بھی اس کی پہچان ہیں۔ Cananga نام کا درخت یہاں عام ہے جو اس ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس درخت کے پھول نہایت خوشبودار ہوتے ہیں جو ’یلانگ یلانگ‘ کہلاتے ہیں۔ دنیا میں تیار ہونے والا کو بھی پرفیوم اس کے بغیر نہیں بنایا جا سکتا۔ اس میں خوشبو کو دیر تک برقرار رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ اسے خوشبو سے علاج کرنے کی طب میں استعمال کیا جاتاہے۔ اس درخت کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ اس کے پھولوں کی ساخت بھی پتوں جیسی ہوتی ہے مگر ان کی اچھوتی خوشبو انہیں پتوںسے ممتاز کرتی ہے۔ خواتین اپنی کمر پر تھیلا باندھ کر ان پھولوں کوشاخوں سے جدا کرکے چُن لیتی ہیں۔ بعدازاں انہیں عرق نکالنے کے لئے فیکٹری میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں ایک طویل عمل سے گزرنے کے بعد اس میں سے عرق نکال کر برآمد کرنے کی غرض سے شیشے کی بوتلوں میں بھردیا جاتا ہے۔
یہ جزیرہ معدنی وسائل کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔ یہاں بڑے پیمانے پر قیمتی پتھر نکالنے کا کام ہوتا ہے، نکل(Nickel) کے وسیع ذخائر موجود ہیں جو سٹین لیس سٹیل کے برتن اور اشیاء بنانے میں کام آتا ہے۔ نکل کو سمندری پانی کو پینے کے قابل بنانے کے پلانٹوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، کوبالٹ(Cobalt) بھی یہاں کی معدنیات میں شامل ہے جس کو بیٹریاں اور بجلی کی دیگر آلات بنانے میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ پٹرولیم وسائل بھی کثیر مقدار میں پائے جاتے ہیں، یہ تمام وسائل کسی بھی ملک کی معاشی و معاشرتی زندگی کی ترقی و خوشحالی کے لئے اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن مڈغاسکر ان سے مکمل استفادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پایا۔
مڈغاسکر کی 90 فیصد جنگلی حیات اور کہیں نہیں ملتی
مڈغاسکر کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہاں موجود جنگلی حیات اور نباتات میں سے 90 فیصد صرف انہی جزائر سے مخصوص ہے اور دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی۔ لیمر(Lemur) لمبی پونچھ والا بندر نما ایک جانور ہے، جس کو8 خاندانوں میں تقسیم کیا گیا ہے، اس کی 100 سے زائد انواع ہیں۔ لیمر صرف مڈغاسکر میں ہی پائے جاتے ہیں۔ لمبی تھوتھنی، بڑی آنکھیں اور لمبی پوچھ انھیں منفرد بناتی ہیں۔ لیمر شاہانہ انداز میں پیڑوں پردندناتے پھرتے ہیں خصوصاً رات کے وقت۔دو سو سال قبل جب تک انسان نے مڈغاسکر کی زمین پر قدم نہیں رکھا تھا تو یہاں بڑے گوریلے کا قد کاٹھ رکھنے والے لیمر پائے جاتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا حجم کم ہوتا گیا جو اب ڈیڑھ سے دو فٹ کے درمیان تک رہ گیا ہے۔ یہ معاشرت پسند لیمر گروہوں میں رہنا پسند کرتے ہیں اور ان کے گروہ مختلف اقسام کے ہوتے ہیں، کچھ میں نر لیمر کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور کچھ میں مادہ کی۔ لیمرز کے درمیان سماجی ربط کی زبان آوازوں، روشنی اور اشاروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کی چند اقسام میں سے نمایاں یہ ہیں۔Aye aye لمبی انگلیوں، تیز کترنے والے دانتوں اور اپنی مخصوص پتلی درمیانی انگلی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔
رنگ ٹیلڈ لیمر، فوسا )بلی نما جانور(، اندی، میڈمی برتھی ماوس لیمر،Verreaux’s sifaka ، بلیک اینڈ وائٹ ریفرڈ لیمر، کومن برائون لیمر، Diamond syalca، Red ruffed lemur،Black lemur،Grey Mouse lemurاور Northern Sportive lemurہیں۔
دنیا میں پائے جانے والی گرگٹ کی اقسام میں سے دو تہائی صرف مڈغاسکر میں موجود ہیں۔ دنیا کا سب سے چھوٹا گرگٹ بھی مڈغاسکر میں پایا جاتا ہے۔Panther Chamele نامی ست رنگی گرگٹ جو کہ مشرقی اور مغربی علاقوں میں پایا جاتا ہے انوکھے رنگوںکی وجہ سے بے حد مشہور ہے۔ Brookesia ،Furcifer اورCalummaبھی گرگٹ کی نمایاں اقسام ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کاRadiated Tortoiseدنیا کے طویل العمرکچھووں می سے ایک ہے جو کہ اوسطً 188 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔
۔۔۔
بچوں کی پسندیدہ فلم
کیا آپ جانتے ہیں کہ بچوں کی پسندیدہ مڈغاسکر فلم بھی دراصل مڈغاسکرکے جنگلوںاور جانوروں سے متاثر ہوکر بنائی گئی ہے۔ 2005ء میں بننے والی اینی میٹڈ فلم مڈغاسکر طنزومزاح سے بھرپور ہونے کے ساتھ بچوں میں اتنی مقبولیت پا گئی کہ اس کے بعد اس فلم کے مزید دو سیکوئل بنائے گئے جن کی نمائش 2008ء اور 2012ء میں ہوئی۔ Dream Works Animation کی جانب سے تیار کردہ اس فلم کی ہدایات Eric DarnallاورTom McGrath دیں۔ فلم کی کہانی 4 جانوروں کے گرد گھومتی ہے جو کہ Central Park Zoo سے غائب ہو کر اچانک اپنے آپ کو مڈغاسکر جزیرے میں پاتے ہیں اور وہاں دلچسپ شرارتیں کرتے ہیں۔ فلم میں مڈغاسکر کے مقامی جانوروں کو جہاں بطور کردار پیش کرکے انہیں متعارف کروایا گیا وہیں دلچسپ مناظر شائقین کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ فلم نے باکس آفس پہ$532.7 million کا بزنس کیا۔تنقید کے باوجود بھی فلم شائقین کی توجہ کا مرکز رہی اوردس بہترین فلموں میں شامل کی گئی۔
The post مڈغاسکر۔۔۔اچھوتی جنگلی حیات اور روشن ساحلوں کی حیرت انگیز دنیا appeared first on ایکسپریس اردو.