یہ 2013 ء کی بات ہے ایک عجیب طرح کے درد نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔ درد کی نوعیت اگرچہ اکثر معمولی رہتی تھی لیکن مسلسل ہوتی تھی۔ خصوصاً رات کے وقت یہ میٹھا میٹھا سا درد بے چین رکھتا تھا۔ جو پیٹھ کے بالائی حصے یعنی کندھوں سے ذرا نیچے دل کے آس پاس کی پشت سے شروع ہوکر گردن اور بازو ں تک جاتا۔ جس سے بازئوں اور کندھوں کی حرکت، گردن کی حرکت اور کچھ حد تک کمر کی حرکت میں دشواری روزبروز بڑھنے لگی۔اس صورتحال میں پہلی بات جس کی جانب خیال گیا کہ کہیں خدانخواستہ دل کا تو کوئی مسئلہ لاحق نہیں ہوگیا۔
اس خیال نے دل کے ڈاکٹر کے کلینک کی راہ دکھائی۔ ڈاکٹر صا حب نے ای سی جی اور ای ٹی ٹی کی تو الحمدو للہ کوئی مسئلہ سامنے نہیں آیا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ کو کو ئی اعصابی مسئلہ لگ رہا ہے آپ کسی نیورو فزیشن کو چیک کرائیں۔ تو اگلا پڑائو ایک ماہر نیورو فزیشن کا کلینک ٹھہرا ۔ ان ڈاکٹر صاحب نے تفصیل جاننے کے بعد جسما نی ساخت،گردن اور بیٹھنے کے انداز و دیگر علامات کی بنیاد پر اعصاب پر دبائو کی نشاندہی کی اور ادویات کے ساتھ ساتھ گردن کی ایک دو ورزشیں تجویز کیں اور باڈی پوسچر کو درست رکھنے کی ہدایات دیں۔ ان کی دی گئی ادویات ، ورزش اور دیگر ہدایات پر عمل سے بہتری محسوس ہونے لگی۔ لیکن ادویات کا کورس ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعد پھر درد کی کیفیت پہلے جیسے ہونے لگی تو یہ گمان ہوا کہ شاید کام کی زیادتی کی وجہ سے تھکاوٹ کے باعث ایسا ہو رہا ہے، کچھ دن آرام کر لیا جائے۔ سو دفتر سے چھٹیاں لیں اورگھر تک محدود ہوگئے۔
لیکن درد کی کیفیت اور اعضاء کو روانی سے حرکت دینے کے حوالے سے کوئی خاص بہتری نہ آئی ۔ اتفاقاً گھر پر آرام کے دوران ایک روز ایک انگریزی میگزین کے مطالعہ کے دوران ایک آرٹیکل نظر سے گزرا۔ ڈاکٹر محمود عالم درانی کے لکھے ہوئے اس آرٹیکل میں جو جو باتیں تحریر تھیں۔ ان میں سے اکثر مجھے اپنی حالت سے مطابقت رکھتی محسوس ہوئیں ۔ دل میں ایک امید پیدا ہوئی کہ یہ ڈاکٹر صاحب میرے مسئلے کا بہتر علاج کر سکتے ہیں۔ میگزین ایڈیٹر صاحب سے رابطہ کیا اور ان سے ڈاکٹر محمود عالم درانی کا نمبر لیا ۔ رابطہ ہوا تو پتا چلا کہ ڈاکٹر صاحب تو ایک فزیو تھراپسٹ ہیں
۔ طب کے اس شعبہ کا نام تو سن رکھا تھا ۔ وہ بھی اس طرح کہ اکثر کرکٹ ، ہاکی یا فٹبال کے میچ میں جب کسی کھلاڑی کو کوئی مسئلہ ہوتا تو ایک بندہ اپنے چھوٹے سے بیگ کے ساتھ دوڑتا ہوا گرائونڈ میں آتا۔ کھلاڑی کو مختلف ایکسرسائز کراتا، اسے کچھ پینے کو دیتا اور کوئی سپرے وغیرہ کھلاڑی کے جسم کے متاثرہ حصہ پر کرتا۔ کمنٹیٹرز اس بندے کو فزیو کے نام سے پکارتے۔ اور مجھے اُس کا علاج ایک جادوئی چیز لگتا کیونکہ اُس سے کھلاڑی فوراً ٹھیک ہو جاتے تھے۔ لیکن سائنٹیفکلی یہ طریقہ علاج کس طرح کا م کرتا ہے اس بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔ ڈاکٹر محمود عالم درانی سے وقت لینے کے بعد جب ان سے چیک اپ کرایا اور اپنی جسمانی کیفیت کے بارے بتایا تو انھوں نے ایک لمبا چوڑا انٹرویو کر ڈالا کہ کیا کرتے ہیں؟ کمپیوٹر کا استعمال کتنا ہے؟ موبائل کتنا استعمال کرتے ہیں؟ واک یا ورزش کرتے ہیں؟ ٹی وی کتنا اور کیسے دیکھتے ہیں؟ جب بیٹھتے ہیں تو کس پوزیشن میں بیٹھتے ہیں؟ گردن کو کس پوزیشن میں رکھتے ہیں؟ قد کتنا ہے؟وزن کتنا ہے؟ جوڑوں میں سے اُٹھتے بیٹھتے آوازیں تو نہیں آتیں؟ سوتے وقت تکیہ کیسا لیتے ہیں؟ شوگر یا بلڈ پریشر تو نہیں؟ فیملی میں تو کسی کو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے ؟ لکھنے کا کام کتنا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ڈاکٹر صاحب نے سوالات کی ایک پٹاری کھول دی۔
جوابات کو وہ نوٹس کی صورت میں تحریر کرتے رہے۔ اور پھر چند ٹیسٹ اور ایکسرے تجویز کرنے کے بعد اگلے دن ان کے ہمراہ آنے کا کہا ۔ اگلے دن تمام مطلوبہ چیزوں کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے کلینک حاضر ہوئے تو اُنھوں نے رپورٹس اور ایکسرے دیکھ کر چند ممکنہ کیفیات کے بارے میں دریافت کیا ۔ تو وہ جن کیفیات کا پوچھ رہے تھے وہ کیفیات 99 فیصد مجھے اپنے آپ میں موجود محسوس ہوئیں۔ یوں میرے مرض کی کی جو تشخیص ہوئی اُسے طبی زبان میں سروائیکل اور عام زبان میں گردن کے مہروں کا مسئلہ کہتے ہیں۔ تشخیص تو ہو گئی اب علاج کے حوالے سے میں شش و پنچ میں مبتلا تھا کہ یہ فزیو تھراپی کس طرح کا علاج ہے اور کتنا کارگر ہے؟ کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں چند الیکٹرانک ڈیوائسز اور کچھ مشین نماآلات دیواروں پر لگے دیکھے ۔ مجھے اس سے پہلے ان چیزوں سے حقیقی طور پر آشنائی نہیں تھی۔ بس ٹی وی پر انگلش فلموں اور اردو ڈراموں میں ان الیکٹرانک ڈیوائسز سے ملتی جلتی مشینیں دیکھیں تھیں۔
جب ڈاکٹر صاحب نے الیکٹرانک ڈیوائسز اور شکنجہ نما آلات سے علاج شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہ الیکٹرانک ڈیوائسز/ مشینیں پٹھوں ،ان کی نسوں اور ہڈیو ں کو جوڑنے والی رگوں کو الیکٹرک ویوز کے ذریعے مضبوط اور فعال کرتی ہیں ۔ جبکہ وہ آلات جو دیوار پر لگے تھے ان میں سے کچھ جسم کے کسی خاص حصے کو مخصوص پوزیشن میں گرفت میں لیکر ان میں کھینچائو کی سی کیفیت پیدا کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے علاج کا دورانیہ صرف تین دن رہا کیونکہ عید کے لئے کوئٹہ اپنے آبائی شہر آنا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب نے چند احتیاطوں اور کچھ ورزشی طریقوں کے بارے میں بتایا اور گردن کو صحیح پوزیشن میں رکھنے کے لئے کالر کے استعمال کی ہدایت کی۔ یوں میں اپنے مسئلہ کے ساتھ کوئٹہ آگیا ۔
ڈاکٹر محمود عالم درانی کے علاج سے کچھ بہتری تو آگئی تھی لیکن طبیعت مکمل طور پر بحال نہ ہو سکی۔ عید کی تعطیلات کے بعد کوئٹہ میں فزیو تھراپی کے علاج کی سہولیات کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا شروع کیں تو یہ جان کے حیرت ہوئی کہ کوئٹہ میں بہت ہی کم تعداد میں فزیوتھراپسٹ دستیاب تھے۔ اکثریت نے علمدار روڈ پر واقع ایک سینٹر کے بارے میں بتایا کہ آپ وہاں جائیں۔ سو اپنی تمام رپورٹس، ایکسرے اور ڈاکٹر محمود عالم درانی کی بنائی ہوئی کیس ہسٹری کے ساتھ میںسینٹر پہنچا اور ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے حوالے سے عملہ سے بات کی۔ کچھ دیر بعد میری ملاقات سینٹر کے انچارج ڈاکٹر محمد رضا سے کرا دی گئی۔ تعارف کے بعد اپنی کیفیت، رپورٹس، ایکسرے اور کیس ہسٹری ڈاکٹر رضا کو دکھائی تو ڈاکٹر صاحب نے بھی کافی سوالات پوچھے اور اگلے دن سے مجھے تھراپی کے لئے ایک مخصوص وقت بتا دیا گیا ۔
میں مقررہ وقت پر آپہنچا۔ سینٹر میں الیکٹرانک ڈیوائسز کے استعمال کے ساتھ ساتھ جسم کے متاثرہ حصے کا مساج بھی کیا جاتا تھا۔ تین دن کی فزیو تھراپی کے بعد میری ٹریٹمنٹ میں جم کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔ یعنی فزیو تھراپی اور ورزش دونوں۔ ڈاکٹر محمد رضا نے مختلف مشینوں اور ورزشی سامان کے ساتھ چند ورزشیں اور ان کا تواتر بتایا جو مجھے روزانہ تھراپی ٹریٹمنٹ لینے کے بعد کرنا تھیں۔ ان ورزشوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی اور اضافہ بھی ہوتا گیا۔ اس طریقہ علاج نے اپنے اثرات جلد ہی دکھانا شروع کر دیئے اور جو کالر مجھے لگا تھا وہ اللہ پاک کے فضل و کرم سے چند روز کے اندر اندر ہی اتر گیا ۔ درد کی کیفیت بھی کم ہونا شروع ہو گئی اور جسم کے اعضاء کو حرکت دینے میں بھی آسانی پیدا ہوگئی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے آپ کو چاق و چوبند بھی محسوس کرنے لگا۔ اس طریقہ علاج کی ایک نمایاں بات یہ تھی کہ اس میں کسی بھی دوائی کا سہارا نہیں لیا گیا یعنی دونوں ڈاکٹر صاحبان کی جانب سے کوئی دوائی تجویز ہی نہیں کی گئی ہاں موسمی پھلوں اور خوراک کو سادہ اور متوازن رکھنے کے بارے میں کہا گیا۔ یوں میں ایک انجان طریقہ علاج سے روشناس ہوکر روبصحت ہوا اور آج تک اپنے جسمانی اعضاء کے مسائل کے علاج کے لئے اسی طریقہ علاج کا سہارا لے رہا ہوں ۔
یہ تمام آپ بیتی بتانے کا مقصد چند پہلوئوں کی نشاندہی کرنا ہے۔ اول ہمارے ہاں اس طریقہ علاج کے بارے میں شعور اور آگاہی کی بہت کمی ہے۔ دوم میڈیا نے آج تک فزیو تھراپی کو ایک طریقہ علاج کے طور پر کبھی پیش ہی نہیں کیا۔ سوم ہمارے اسپشلسٹ ڈاکٹرز کی اکثریت مریض کو اس طریقہ علاج کی جانب ریفر ہی نہیں کرتی۔ چہارم ملک میں فزیو تھراپسٹ کی تعداد ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ پنجم آج تک حکومتی سطح پر فزیو تھراپی کے حوالے سے کسی قومی اور صوبائی پروگرام کے آغاز کا، کسی پالیسی کے بنانے کا، نہ تو سنا ، نہ دیکھا اور نہ ہی پڑھا۔ ششم فزیو تھراپسٹ کو اکثر لوگ اور چند تنظیمیں / پلیٹ فارم ڈاکٹر ہی تسلیم نہیں کرتے۔ ہفتم ماضی قریب تک ملک میں فزیو تھراپی کے تعلیمی مواقعوں کی کمی کے ساتھ ساتھ لوگوں کو دستیاب مواقع کے بارے میں علم ہی نہیں تھا۔
فزیکل تھراپی یا فزیو تھراپی میڈیکل سائنس کی ایک شاخ اور صحت کی دیکھ بھال کے جدید نظام کا لازمی حصہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اِسے صحت کے ایک علیحدہ و خودمختار شعبہ کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ تاہم یہ دوسری میڈیکل اسپیشلیٹیز کے ساتھ بہت مضبوطی کے ساتھ منسلک ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ یہ ـ ’’ صحت یاب کرنے کی ایک سائنس اور دیکھ بھال کرنے کی آرٹ ‘‘ ہے۔ یہ طبی معائنہ، جانچ، تعین، تشخیص اور علاج پر مشتمل ہے (clinical examination, evaluation, assessment, diagnosis and treatment) ۔ جو میڈیسن کی27 میں سے 24 اسپیشلیٹیز کا احاطہ کرتا ہے۔ امریکن بورڈ آف فزیکل تھراپی اسپیشلسٹ کے مطابق فزیکل تھراپی کے چند بنیادی شعبے ہیں جن میں عضلی استخوانی خرابیاں (آرتھوپیڈک)musculoskeletal (orthopedic)، عصبیات (neurology)، دل اور پھیپھڑے (Cardiopulmonary)، کھیلوں کی فزیکل تھراپی (Sports Physical Therapy)، بچوں کی فزیو تھراپی (Pediatric Physiotherapy)، برقی عضویات (Electrophysiology)، Integumentary Physical Therapy، پانی کی تھراپی (Hydrotherapy) اور خواتین کی صحت شامل ہیں ۔
عضلی استخوانی خرابیوں سے مراد پٹھوں، ہڈیوں اور جوڑوں کی پوزیشن، نسوںاور ہڈیوں کو جوڑنے والی رگوں کا متاثر ہونا ہے۔ گردن اور کمر کا درد، جوڑوں کے امراض، گنٹھیا اور ہڈیو ں کا ٹوٹنا نمایاں عضلی استخوانی خرابیاں ہیں۔ یہ خرابیاں درد اور جسمانی اعضاء کی حرکت اور ان کی قوت میں کمی کا باعث بنتی ہیں ۔ اس کے علاوہ دماغی صحت کی تنزلی کا سبب بھی بنتی ہیں اور صحت کے دیگر دائمی مسائل لاحق ہونے کے خطرات کے امکانات میں اضافہ کا محرک بھی بنتی ہیں۔ عضلی استخوانی صحت انسانی جسم کے افعال کے لئے بہت ضروری ہے۔ نقل وحرکت کو یقینی بنانا، ہنر مندی اور کام کرنے کی صلاحیت اور زندگی کے تمام سماجی اور معاشی پہلوئوں میں فعال طور پر حصہ لینے کے لئے اس کی قدرومنزلت کہیں زیادہ ہے۔ اس کے متاثر ہونے سے فرد کی پیداواری صلاحیت میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ اور طویل عرصے تکعضلی استخوانی خرابیوں کا شکار رہنے والے افراد کی کام سے چھٹیوںکا یہ نمایاں ترین محرک ہیں۔ یہ عموماً جلد ریٹائرمنٹ کا بھی باعث بنتی ہے اور فرد کی مالیاتی سکیورٹی کو کم کر دیتی ہیں ۔ جبکہ فرد کی سماجی اور معاشی امور میں شرکت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق مسلسل درد کی حالت کا سب سے زیادہ تناسب عضلی استخوانی خرابیوں کے باعث ہے جو دنیا بھر میں معذوری کی دوسری بڑی وجہ ہے اور پیٹھ کے نچلے حصے کادرد عالمی سطح پر معذوری کا سب سے اہم سبب ہے۔ دنیا میں تین میں سے ایک اور پانچ میں سے ایک فرد درد اور عضلی استخوانی خرابیوں کے ساتھ جی رہا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا کے20 سے30 فیصد افراد درد کی حامل عضلی استخوانی خرابیوںکے ساتھ زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔امریکہ میں ہر دو میں سے ایک بالغ فرد عضلی استخوانی خرابیوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق کچھ حالتوں میں عضلی استخوانی خرابیوں کو اسپیشلٹ یا جراحی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن بہت سی خرابیوں کو بنیادی دیکھ بھال یعنی غیر ادویاتی طریقہ کار ورزش اور تھراپی سے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ ان بیماریوں کی شدت کا اندازہ ان اعدادوشمار سے بھی لگا یا جا سکتا ہے جن کے مطابق 2011 ء میں عضلی استخوانی خرابیوں نے دنیا بھر میں 213 ارب ڈالر یعنی دنیا کی جی ڈی پی کے1.4 فیصد کا نقصان پہنچایا ۔
عضلی استخوانی خرابیوں کی عام علامات میں درد، کمزوری، اکڑائو، سوزش ،جوڑوں سے آوازوں کا آنا، جسمانی حرکت میں کمی اور بعض اوقات جلد کی اوپری تہہ کا سرخ ہو جانا شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان خرابیوں کی سب سے نمایاں وجہ سہل پسند طرز ِزندگی اور ورزش کا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ موبائل، کمپیوٹر، ٹی وی کا استعمال، ایسا فرنیچر جوکہ خوبصورت تو ہوتا ہے لیکن انسانی جسم کی فٹنس کے لئے موزوں نہیں ہوتا اُس کا استعمال اور طویل اوقات کے لئے کرسی کی نشست، اٹھنے ، بیٹھنے اور لیٹنے کے انداز، کسی چیز کو اٹھانے کا غیر مناسب طریقہ اورJunk فوڈ، یہ وہ وجوہات ہیں جوایسے جسمانی عوارض کا باعث بنتی ہیں جن کا شافی علاج فزیوتھراپی سے ممکن ہے۔ علاوہ ازیں ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کی تکلیف، گردن کے مہرے، جامد کندھے، فالج، پولیو،لقوہ، شٹیکا، جسمانی معذوری وغیرہ اور سرجری کے بعد مریض کو نارمل زندگی میں لانے کے لئے فزیو تھراپی کے کردار کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ پاکستان میں بھی ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جنہیں فزیو تھراپی کے علاج کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آپ کے مشاہدے میں خود یہ بات ہوگی کہ اکثر ہمارے آس پاس بہت سے ایسے لوگوں سے ہماری ملاقات رہتی ہے جو مختلف طرح کے عضلاتی درد کا شکار ہوتے ہیں ۔ کوئی کمر میں درد کا بتاتا ہے تو کوئی گھٹنوںکے درد کا شکار ہے۔ کسی کو پٹھوں میں تکلیف ہے تو کسی کو ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں درد،کوئی حادثہ کے باعث چوٹوں کا شکار ہوکر جسم کو حرکت دینے میں دشواری کا شکار ہے تو کوئی فالج، پولیو اور لقوہ جیسی بیماریوں کی گرفت میں ہے، کسی کو چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے میںمشکل ہے تو کسی کواعصابی درد کی شکایت ہے ۔
شاید آپ کے لئے یہ یقین کرنا مشکل ہو کہ آج فزیکل تھراپی میں استعمال ہونے والے چند طریقے جیسا کہ مساج (مالش)، ہائیڈرو تھراپی ( پانی کی تھراپی) اور دافع امراض کے لئے ورزشیں (therapeutic exercises) 3 ہزار سال قبل از مسیح چین میں اور 400 سال قبل از مسیح یونان اور روم میں استعمال ہوتے تھے۔ چین، جاپان، بھارت، یونان اور روم کی قدیم تہذیبوں کا تحریری اور تصویری ریکارڈ مساج اور دافع امراض کے لئے ورزشوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔ محققین کو کئی ایک ایسے ثبوت ملے ہیں کہ قبل از تاریخ گرم، سرد پانی، ورزشوں، مالش اور سورج کی روشنی کا جسمانی افزودگیوں کو دور کرنے کے لئے اکثر استعمال کیا جاتا تھا ۔ ایک ہزار سال قبل از مسیح کے لگ بھگ چینی لوگ جسمانی پوزیشننگ کو درست کرنے اور سانس کو بہتر بنانے کے لئے کنگ فو (Cong Fu) نامی ورزش کرتے تھے ۔ ہندوستانی بھی گھنٹیا کے علاج کے لئے مخصوص ورزشیں اور مساج کرتے تھے۔
پانچ سو سال قبل از مسیح قدیم یونان میں ایک یونانی معالج ہیرودیکس (Herodicus) نے ایسی ورزشوں کے بارے میں بتایا جو کہ ارس جمناسٹیکا (Ars Gymnastica ) یا فنِ جمناسٹکس کے نام سے جانی جاتی ہیں جس میں کشتی، پیدل چلنا اور وزن اٹھانے کے ذریعے کمزور حالات میں بہتری لائی جاتی تھی۔ 400 سال قبل از مسیح یونانی ماہر طب بقراط(Hippocrates) جنہیں بابائے ادویات بھی کہا جاتا ہے نے جسمانی طاقت کو بہتر بنانے کے لئے ورزش پر زور دیا تھا ۔ اسی سال یونان میں ہیکٹر (Hector) نے ہائیڈر تھراپی کا استعمال کیا ۔ اس کے علاوہ ارسطو(Aristotle) نے بھی تجویز کیا ہے کہ تیل کے ساتھ مالش تھکاوٹ کو دور کرتی ہے۔ 180 سال قبل از مسیح رومیوں نے جسمانی طاقت کو بہتر بنانے کے لئے ایک طرح کی ورزش اختیار کی جو جمناسٹک (Gymnastics) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ دوسری صدی میں ایک ماہر طب گلن(Galen) نے مجموعی طور پر جسمانی طاقت کو بہتر کرنے کے لئے جدید ورزشیں سکھائیں۔ 1894 میں برطانیہ میں ’’ چارٹرڈ سوسائٹی آف فزیو تھراپی‘‘ کے نام سے دنیا کی پہلی فزیو تھراپی کی تنظیم چار نرسوں نے قائم کی۔ 1920 میں اسے رائل چارٹر سے نوازا گیا۔ یہ برطانیہ میں اس پیشہ کی رکنیت کے حوالے سے اہم ترین تنظیم ہے۔
امریکہ میں فزیکل تھراپی کا آغاز 1914 سے1919 کے دوران ہوا ۔ اس عرصہ کو تعمیرنو کے دور سے یاد کیا جاتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم اور پولیو کی وبا نے امریکی معاشرے میں معذوری اور بیماری کو خوب پھیلا دیا جو اس سے پہلے نہ تھے۔ امریکہ میں فزیکل تھراپسٹ نے اپنی پہلی پیشہ ورانہ ایسوسی ایشن 1921 میں بنائی جسے ’’امریکن وومن فزیکل تھراپیٹک ایسوسی ایشن‘‘ کہتے تھے۔ جس کی سربراہ مری میکلین ( Mary McMillan) تھیں ۔ 1922 میں ایسوسی ایشن نے اپنا نام تبدیل کر کے ’’ امریکن فزیو تھراپی ایسو سی ایشن‘‘ رکھ لیا ۔ 1940 کے عشرے کے آخر میں ایسوسی ایشن نے اپنا نام پھر تبدیل کر کے ’’ امریکن فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن‘‘کرلیا۔اس کے علاوہ عالمی سطح پر ’’ورلڈ کنفیڈریشن فار فزیکل تھراپی‘‘1951 میں قائم کی گئی ۔ یہ بین الاقوامی سطح پر فزیکل تھراپی کی واحد آواز ہے۔ دنیا بھر سے 450000 فزیکل تھراپسٹ اس کے ممبر ہیں ۔ یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم کے طور پر کام کرتی ہے اور بر طانیہ میں ایک چیرٹی کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔
دنیا بھر میں اس شعبے میں انسانی وسائل، طریقہ علاج میں ترقی اور جدت کا عمل جاری ہے۔ اور اب فزیوتھراپسٹ کو بین الاقوامی ہنگامی ٹیموں میں لازمی شراکت دار سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ، پلاننگ اور عملدرآمد میں ایک کوالیفائیڈ
فزیوتھراپسٹ کی اِن پُٹ کو اکثر ممالک میں لازمی خیال کیا جاتا ہے۔ ورلڈ کنفیڈریشن فار فزیکل تھراپی کے مطابق اس وقت دنیا میں پریکٹس کرنے والے فزیو تھراپسٹ کی تعداد 15 لاکھ87 ہزار 6 سو سے زائد ہے۔ جو یقیناً کم ہے لیکن بعض ممالک میں آبادی کے مقابلے میں فزیوتھراپسٹ کی تعداد کافی حوصلہ افزا اور بعض میں بہت تشویشناک ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق فن لینڈ میں یہ تناسب دنیا بھر میں سب سے بہتر ہے جہاں 354 افراد کے لئے ایک فزیکل تھراپسٹ موجود ہے۔ جبکہ سب سے کم ملاوی میں 5 لاکھ 30 ہزار3 سو افراد کے لئے ایک فزیو تھراپسٹ دستیاب ہے۔ نیدر لینڈ میں 742 ، انگلینڈ میں 1344 افراد کے لئے ایک فزیو ہے۔ امریکہ میں 2 لاکھ 9 ہزار سے زائد فزیکل تھراپسٹ کو پریکٹس کے لائسنز جاری کئے جا چکے ہیں۔ جہاں تمام فزیوتھراپسٹ کو کسی معتبر تعلیمی ادارے سے ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی (DPT) ڈگری لینے کے بعد پریکٹس کے لئے قومی لائسنس کا امتحان دینا پڑتا ہے۔
اس وقت امریکہ میں200 کالجز اور یونیورسٹیز ملک بھر میں فریکل تھراپی ایجوکیشن کے250 پروگرام پیش کر رہے ہیں اور امریکہ میں کوالیفائیڈ فزیوتھراپسٹ کو اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے کی اجازت ہے تاوقتیکہ وہ اس کے ساتھ (PT ) لکھنے کا پابند ہے۔ جبکہ امریکہ میں ایک فزیو تھراپسٹ کی اوسط سالانہ آمدن85 ہزار ڈالر ہے اور فوربس نے2014 میں امریکہ جن 10 ملازمتوں کی زیادہ ڈیمانڈ تھی اُن میں سے ایک فزیو تھراپسٹ بھی تھی۔ سی این این نے2015 میں امریکہ میں 100 بہترین ملازمتوں کی درجہ بندی میں فزیکل تھراپی کو23 ویں نمبر پر رکھا ہے۔ جبکہ یو ایس اے میں 2014 سے2024 تک فزیکل تھراپسٹ کی تعداد میں 36 فیصد اضافہ کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
پاکستان میں فزیو تھراپی کا پہلا باقاعدہ ٹریننگ پروگرام 1955ء میں ملک کے تیسرے گورنر جنرل غلام محمد کی بیماری کے دوران شروع ہوا۔ فالج کے اثرات سے بحالی کے لئے اُنھیں فزیو تھراپی کا علاج تجویز کیا گیا ۔ چونکہ پاکستان میں 1955 تک کوئی کوالیفائیڈ فزیو تھراپیسٹ موجود نہیں تھا لہذا بیرونِ ملک سے ایک مشہور کوالیفائیڈ فزیو تھراپیسٹ کی خدمات حاصل کی گئیں۔1956ء میں وفاقی وزارتِ صحت ، سماجی بہبود نے عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے فزیکل تھراپی کی تعلیم کے لئے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی میں پہلا اسکول قائم کیا۔ ابتدائی طور پر اسکول نے دو سالہ ڈپلومہ کورس کا آغاز کیا جس میں داخلے کی کم ازکم تعلیمی حد میٹرک سائنس گروپ تھی۔1961 میں دوسالہ پروگرام کو 03 سالہ ڈپلومہ میں تبدیل کردیا گیا۔ بعد میں 1963 میں اس پروگرام کو 03 سالہ بی ایس سی فزیو تھراپی کی ڈگری سے بدل دیا گیا اور داخلے کے لئے مطلوبہ تعلیمی اہلیت کی حد ایف ایس سی پری میڈیکل کر دی گئی۔
اس کا الحاق کراچی یو نیورسٹی سے کر دیا گیا اور نصاب میں ضروریات کے مطابق ترامیم اور اضافہ کیا گیا۔ پنجاب میں فزیو تھراپی کی تعلیم کے لئے اسکول آف فزیو تھراپی، میو ہسپتال لاہور میں 1985 میں قائم کیا گیا۔ 1999 میں بی ایس سی فزیو تھراپی کے کورس کو 4 سالہ بی ایس فزیو تھراپی ڈگری سے تبدیل کر دیا گیا۔ 2008 میں ’’ امریکن فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن کے وژن 2020 ‘‘ کے تحت چار سالہ بی ایس فزیکل تھراپی پروگرام کو 5 سالہ ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی میںبدل دیا گیا۔2011 میں ایچ ای سی نے اس پروگرام کی باقاعدہ منظوری دی۔ 2007 تک ملک میں 7 سے8 ادارے فزیو تھراپی کی تعلیم دے رہے تھے۔ اب ان کی تعداد 95 سے زائد ہے۔ پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن کے نام سے ملک میں موجود فزیو تھراپسٹ کی نمائندہ ایسوسی ایشن جو 2008 میں بنائی گئی ورلڈ کنفیڈریشن فار فزیکل تھراپی کی ممبر ہے۔
اگرچہ یہ ہرفرد کے صحت کے انسانی حق میں شامل ہے کہ جب بھی ضرورت ہو تو اُسے ہسپتال، کلینک، ادویات اور ڈاکٹر کی معاشی طور پر قابلِ دسترس اور قابلِ بھروسہ خدمات تک رسائی اور دستیابی برابری کی بنیاد پر حاصل ہو ۔ لیکن وطن عزیز میں صحت کا یہ حق فزیکل تھراپی کے حوالے سے تو شدید تشنگی کا شکار ہے کیونکہ ملک میں فزیکل تھراپی کا پیشہ جہد مسلسل میں مصروف ہے۔
ایک تو ملک میں فزیوتھراپسٹ کی تعداد نہایت کم ہے۔ ورلڈ کنفیڈریشن فار فزیکل تھراپی کے پاکستان کے کنٹری پروفائل جو دسمبر 2017 میں جاری کیا گیا اُس کے مطابق’’ ملک میں پریکٹس کرنے والے فزیوتھراپسٹ کی تعداد صرف15 ہزار ہے اور 10 ہزار آبادی کے لئے فزیو تھراپسٹ کی تعداد ہمارے ہاں ایک سے بھی کم ہے‘‘۔ دوسرا ملک میں ابھی تک فزیوتھراپسٹ کی کوئی ریگولیٹری اتھارٹی قائم نہیں کی گئی۔ تیسرا وطنِ عزیز میں اس شعبہ کی شناخت کو ابھی تک تسلیم ہی نہیں کیا جا رہا ہے۔ چوتھا فریش گریجویٹ کے لئے ملازمت کے مواقع بہت ہی محدود ہیں اور سروس اسٹریکچر بھی موجود نہیں۔ پانچواں ملک میںDPT کی تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کا معیار اور ان میںمطلوبہ سہولیات کی کمی اور چھٹا وطن عزیز میں اس طریقہ علاج کے بارے میں عوام الناس میں شعور کی کمی جیسے کئی ایک مسائل سے نبرد آزما ہے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ اس شعبہ کو صحت کے ایک علیحدہ اور خود مختار شعبہ کے طور پر مانتے ہوئے اس کے فروغ کے لئے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔
ڈاکٹر ثمن (پی ٹی)
ڈاکٹر ثمن بلوچستان یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف فزیکل تھراپی میں لیکچرار ہیں۔ اس شعبے میں خواتین کے لئے موجود مواقع کے حوالے سے کہتی ہیں ’’ ہمارے معاشرے میں جہاں خواتین فزیو تھراپسٹ کو پریکٹس کرنے کی اتنی چھوٹ نہیں وہاں اُن کے لئے ایک مثبت نقطہ یہ بھی ہے کہ چونکہ ہماری معاشرتی اقدار کی وجہ سے خواتین اکثر کسی مرد سے علاج کروانے سے ہچکچاتی ہیں تو جو فی میل ڈاکٹر جاب کرتی ہیں اور پریکٹس کرتی ہیں اُن کا بہت سکوپ ہے ۔ فزیو تھراپی میں چونکہ مریض کے ساتھ Physical Contact بہت زیادہ ہوتا ہے اس لئے خواتین فزیو ڈاکٹرز کا خواتین مریضوں کے لئے کام کرنا کسی رحمت سے کم نہیں ۔ کیونکہ خواتین مردوں کی نسبت ہڈیوں اورجوڑوں کے امراض کا زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ اس لئے اگر آپ اپنی صلاحیتوں اور مہارت کے حوالے سے با اعتماد ہیں تو آپ اپنا پرائیویٹ کلینک کر سکتی ہیں‘‘۔ خواتین فزیو تھراپسٹ کو درپیش مسائل کے حوالے سے ڈاکٹر ثمن کا کہنا تھا کہ خواتین فزیو تھراپسٹ کے لئے نوکریوں کے مواقع بہت محدود ہیں ۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ پریکٹس کا سکوپ تو خواتین فزیو ڈاکٹرز کے لئے بہت ہے لیکن ابھی اسے وقت لگے گا معاشرے میں اپنی جگہ بنانے میں۔
عمر اشرف (طالب علم)
آپ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور میں ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی کے پانچویں سال کے طالب علم ہیں۔ فزیو تھراپی کے طلباء کو درپیش مسائل کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’ طلباء کو درپیش سب سے پہلا مسئلہ کونسل کا عدم قیام ہے۔ کونسل کسی بھی شعبے کی گورننگ باڈی ہوتی ہے جو قومی سطح پر اس شعبے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ اور اس کے بارے میں قانون سازی کرتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں فزیکل تھراپی کے بارے میں کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ 2017 ء میں پاکستان فزیکل تھراپی کونسل کا ڈرافٹ وفاقی کابینہ نے منظور کیا تھا لیکن موجودہ حکومت میں اس پر مزید پیش رفت نہ ہو سکی جس کی وجہ سے کونسل بنانے کا کام سرد خانہ کی نذر ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ ـ’’ پیڈ ہائوس جاب‘‘ کا نہ ہونا ہے ۔ فزیکل تھراپی کی پانچ سالہ تعلیم مکمل ہونے کے بعد اسی ادارے میں ایک سال کی ہائوس جاب ضروری ہوتی ہے۔
لیکن پنجاب میں ایسا کوئی ہسپتال نہیں جس میں اپنے ادارے کے گریجویٹس کو پیڈ ہائوس جاب کرائی جاتی ہو ۔ اس کے برعکس سندھ کے تعلیمی اداروں میں کچھ حد تک یہ سہولت موجود ہے۔ مزید براں پاکستان میں فزیکل تھراپی کے لئے بہت سے پرائیویٹ ادارے کھل گئے ہیں جن میں پڑھائی کی مکمل سہولیات موجود نہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی ہسپتال منسلک ہے۔ چونکہ فزیکل تھراپی کے اداروں کے چیک اینڈ بیلنس کے لئے کونسل موجود نہیں ۔ اس لئے ان اداروں میں بہت زیادہ بچوں کو داخل کیا جاتا ہے۔ یوں ہر سال پاس آئوٹ ہونے والے گریجویٹس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جبکہ اس حساب سے حکومتی سطح پر نوکریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ڈاکٹر محمود عالم درانی (پی ٹی)
ڈاکٹر صاحب فزیو تھراپی میں پی ایچ ڈی ہیں اور بطور پرنسپل اختر سعید کالج آف ری ہیبلیٹیشن سائنسز، لاہور میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔ ملک میں فزیو تھراپی کے تعلیمی مواقع کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں فزیو تھرپی کی تعلیم کے حصول میں طالب علموں کی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ تاہم جو طلبا ء عام طور پر MBBS یا BDS میں داخلہ نہیں لے پاتے وہ ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی میں داخلہ لینے کو اس لئے ترجیح دیتے ہیں کہ یہ ایک کلینکل ڈگری ہے۔ جس میں آپ مریضوں کے علاج سے وابستہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔MBBS کی طرح DPT طلباء اُن تمام مراحل سے دورانِ تعلیم گزرتے ہیں جن کے بغیر مریض کا علاج کرنا ممکن نہیں ۔ وارڈز کے اندر ٹریننگ کے مراحل کے علاوہ فائنل ائیر کا امتحان پاس کرنے کے بعد ان طلباء کو ہائوس جاب کے مرحلہ سے گزارا جاتا ہے تاکہ ماہرفزیو تھراپسٹ کی حیثیت سے مریضوں کو بہتر تھراپی کی خدمات دی جا سکیں ۔اس کے علاوہ بہت سے ادارے (یونیورسٹیز) ایم فل، ایم ایس، پی ایچ ڈی کروا رہے ہیں ۔ اور تحقیق کے حوالے سے بھی حالات کافی امید افزا ہیں ۔
تاہم مجموعی طور پر ہمارے ہاں تحقیق کا وہ معیار نہیں جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہمیں نظر آتا ہے۔اگرچہ بیرونِ ملک پی ایچ ڈی پروگرام کے لئے اسکالر شپ کی سہولت ہمارے ہاں دی جا رہی ہیں لیکن اس کا تناسب بہت کم ہے۔ تاہم یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ ایچ ای سی وقتاً فوقتاً اس حوالے سے اہم اقدامات کی طرف مائل ہے۔ فزیو تھراپی اور ایم بی بی ایس کی تعلیم میں موازنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ MBBS کا شعبہ انتہائی منظم اور مستحکم شعبہ ہے جس کے پیچھےPMDC جیسا منجھا ہوا ادارہ ہے۔ اگرDPT کی کونسل قائم ہو جائے تو اس شعبہ میں مزید بہتری پیدا کرنا ممکن ہو سکے گی ۔ تاہم تمام تر تعلیمی مراحل میں طلباء کو اُسی طرح گزارا جاتا ہے جیسے MBBS کے طلباء کو ۔ پڑ ھانے والے اساتذہ ، بنیادی تعلیمی نصاب ( اناٹومی، فزیالوجی، بائیو کمیسٹری، پیتھالوجی، فارماکا لوجی، کمیونٹی، میڈیسن، سرجری وغیرہ) اُسی Pattern پر ہے۔ پیپرز، پریکٹیکل اور viva کا وہی طریقہ ہے جو ایم بی بی ایس کا ہے۔ حتیٰ کے پنجاب میں امتحان لینے والا ادارہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز بھی ایک ہی ہے۔ تاہم یونیورسٹیوں کا اپنا خود مختار نظام ہے جو HEC کے کنٹرول میں ہے۔ کونسل کے قیام کو ضروری قرار دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس سے اس شعبہ میں عطائیت کا خاتمہ، تعلیمی اور تحقیقی معیار کی بہتری، روزگار کی فراہمی اور دوسرے مسائل سے نمٹنا فزیو تھراپسٹ کے لئے آسان ہو جائے گا ۔ اس لئے اس کا قیام ضروری ہے۔
جب ڈاکٹرز، نرسز، فارمسٹس، ہومیو پیتھس اور حکما کی کونسلز موجود ہیں تو پھر فزیوتھراپسٹ کی کونسل کیوں موجود نہیں؟ ملک میں فزیو تھراپی کی تعلیم مہیا کرنے والے تعلیمی اداروں میں داخلوں کی صورتحال کے بارے میں اُنھوں نے بتایا کہ مختلف اداروں میں داخلوں کی تعداد مختلف ہے ۔ گورنمنٹ کے ادارے اپنی محدود نشستوں پر داخلے کرتے ہیں ۔ تاہم نجی یونیورسٹیوں میں یہ تعداد تشویشناک حد تک زیادہ ہے جس پر HEC کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ ان کا انفراسٹرکچر کیا اس کا متحمل ہے کہ وہ ایک سمسٹر میں 200 بچے داخل کر لیتے ہیں پھر یہ بھی دیکھنا HEC کا کام ہے کہ ان کی پریکٹیکل اور کلینیکل ٹریننگ کے لئے ہسپتال میں مطلوبہ سہولیات موجود ہیں یا نہیں۔ مارکیٹ میں ان بچوں کی کھپت کے حوالے سے ڈاکٹر محمود عالم درانی کا کہنا تھا۔کہ ابھی تو کھپت نہیں ہو رہی۔ اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں کافی آسامیاں نہیں دی جاتیں۔ حالانکہ مریضوں کا بے تحاشا رش دیکھا گیا ہے۔
چاہیئے تو یہ تھا کہBHU لیول پر بھی آسامیاں پیدا کی جائیں ۔ نتیجتاً نوجوان ڈگریاں لیکر مارے مارے پھر رہے ہیں اور اس پر ہمارے اربابِ اختیار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ فزیو تھراپی کو ایک علیحدہ اور خودمختار شعبہ کے طور پر مانے جانے کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا موقف تھا کہ یہ شعبہ تو ایک خود مختار شعبہ ہے تاہم دوسری میڈیکل اسپیشلیٹیز کے ساتھ بہت مضبوطی سے منسلک ہے۔ ایک فزیو تھراپسٹ ماہرین کی اُس ٹیم کا حصہ ہے جو مریضوں کے علاج میں اپنی ماہرانہ، پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان چونکہ خود ایک سپورٹس مین ہیں اُن سے بڑھ کر اس شعبے کی افادیت کو کون محسوس کر سکتا ہے ۔ امید ہے کہ تبدیلی کے اس موسم میں پاکستان میں فزیو تھراپسٹ کو اُن کا جائز مقام مل جائے۔ فزیو تھراپی کی کسی بھی یو نیورسٹی اور کالج میں داخلہ لینے سے پہلے والدین اور طالب علموں کو جن اُمور کا خیال رکھنا چاہیے۔
اس کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ سب سے پہلے کالج کی Affiliation کو ضرور دیکھا جائے کہ یہ ادارہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز یا کسی اور اچھی شہرت کی حامل یونیورسٹی سے الحاق شدہ ہے یا نہیں۔ جہاں طلباء کی تعداد کم ہو، انفراسٹرکچر موجود ہو، ہسپتال کی سہولت موجود ہو، فیکلٹی کا ہونا وغیرہ جیسے امور کو مدنظر رکھنا چاہیے۔گورنمنٹ کے اداروں میں تو یہ تعلیم عام آدمی کی پہنچ میں ہے۔ تاہم نجی اداروں میں یہ عام آدمی کے لحاظ سے کافی مہنگی تعلیم ہے۔ سال میں 2 سے ساڑھے تین لاکھ تک مختلف ادارے فیس کی مد میں وصول کر رہے ہیں اور اس میں شاید ابھی تک حکومت کا کوئی کردار کہیں نظر نہیں آتا ۔ پرائیویٹ اداروں میں فزیو تھراپی کی تعلیم کے خواہش مند طالب علموں کو میرٹ اور Need Base اسکالر شپ کے مواقع کے بارے میں ڈاکٹرمحمود عالم درانی کاکہنا تھا کہ چندایک اداروں میں یہ رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ جو طالب علم اچھا رزلٹ ادارے کو دیتے ہیں۔ اُنھیں فیسز کی مد میں کچھ رعایت دی جاتی ہے لیکن زیادہ تر اداروں میں اسکالر شپ / وظیفہ کا تصور موجود نہیں ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر اشفاق احمد (پی ٹی)
آپ پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرزکے چیئرمین اور ایک نجی یونیورسٹی کے فزیکل تھراپی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں۔ اِن کے مطابق اِس وقت ملک میں فزیو تھراپسٹ کی تعداد 35 ہزار سے زیادہ ہے جن میں سے 22 ہزار پریکٹس کر رہے ہیں۔ ملک میں فزیو تھراپی کی ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت اور اس کے قیام کے حوالے سے پی پی ٹی اے کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی تفصیل بتاتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ فزیو تھراپی کے شعبہ کی ریگولیشن، عطائیت کے خاتمے اور پریکٹس اسٹینڈرڈز کو بہتر بنانے کیلئے کونسل کی تشکیل ضروری ہے۔ پاکستان فزیکل تھراپی ایسوسی ایشن گزشتہ10 سال سے کونسل کی تشکیل کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے جس کے نتیجہ میں پاکستان فزیو تھراپی کونسل کی کیبنٹ ڈویژن سے Principle approval ہو چکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کونسل کے قیام میں تاخیرکی بڑی وجہ وہ حکومت کی غیر سنجیدگی اور فزیوتھراپی پروفیشن کے بارے میں معلومات کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہیلتھ ٹاسک فورس جو کہ اس وقت فزیو تھراپی کونسل کو باقی الائیڈ ہیلتھ کونسلز میں ضم کرنا چاہتی ہے۔
اس میں فزیو تھراپسٹ کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ ایسوسی ایشن نے کئی بار ہیلتھ ٹاسک فورس سے ملنے اور اپنا موقف اُن کے سامنے رکھنے کے لئے درخواست دی لیکن ہیلتھ ٹاسک فورس کی طرف سے میٹنگ کا ٹائم نہیں دیا گیا۔ ملک میں فزیو تھراپی کے شعبے میں عطائیت کی موجودگی کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں یہ تین طریقوں سے جاری ہے۔ اول ،کوالیفائیڈ فزیو تھراپسٹ کا اپنی Domain سے نکل کر جنرل پریکٹس کرنا ۔دوم، غیر کوالیفائیڈ ٹیکنیشنز کا فزیوتھراپسٹ کے طور پر اپنے آپ کو ظاہر کرنا اور فزیو تھراپی کی پریکٹس کرنا ۔ سوم،آرتھوپیڈک سرجن کا اپنی Domain سے باہر نکل کے فزیوتھراپی کی پریکٹس کرنا۔ اُن کا کہنا تھا کہ فی الحال فزیوتھراپی کونسل نہ ہونے کی وجہ سے عطائیت کے خلاف کچھ نہیں کیا جا رہا۔ ملک میں فزیو تھراپسٹ کے لئے دستیاب نوکریوں کے مواقع کے بارے میں اُنھوں نے بتایا کہ اس حوالے سے حالات کافی خراب ہیں۔ پنجاب میں پبلک سیکٹر میں صرف 400 کے قریب فزیوتھراپسٹ کام کر رہے ہیں جبکہ WHO کی گائیڈ لائن کے مطابق ہسپتال کے ہر20 بیڈز پر ایک فزیو تھراپسٹ کی تقرری ہونی چاہیئے۔ جبکہ پاکستان میں200 سے250 بستروں پر ایک فزیو تھراپسٹ موجود ہے۔ اُنھوں نے مطالبہ کیا کہ فزیوتھراپسٹ کے لئے بہتر نوکریوں کے زیادہ مواقع پیدا کئے جائیں۔ پروفیشنل ڈیویلپمنٹ کے لئے بھی مواقع مہیا کئے جائیں ۔ فزیو تھراپی کے پیشہ کی شناخت کو تسلیم کیا جائے۔ علاوہ ازیں فزیو تھراپسٹ کو ہیلتھ کئیر ٹیم کا حصہ بنایا جائے۔
ڈاکٹر حسن انجم شاہد (پی ٹی)
آپ ینگ فزیو تھراپسٹ ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر، ایچ ای سی کی نیشنل کریکلم ریویژن کمیٹی برائے فزیو تھراپی کے ممبر اور پاکستان فزیو تھراپی ایسوسی ایشن کی کیبنٹ ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ آپ ایک نجی جامعہ میں فزیو تھراپی کے ھیڈ آف ڈیپارٹمنٹ بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت سوشل سکیورٹی ہسپتال شاہدرہ لاہور میں بطور فزیو تھراپسٹ کام کر رہے ہیں ۔ نوجوانوں میں فزیو تھراپی کے پروفیشن کی مقبولیت کے تناظر میں مختلف پہلوئوں پر ان سے بات چیت ہوئی۔ ملک میں فزیو تھراپی کی تعلیم مہیا کرنے والے اداروں اور طلباء کی تعداد کے بارے میں بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا ’’قیام پاکستان کے بعد 1985 تک ہمارے ملک میں صرف 02 ادارے فزیو تھراپی کی تعلیم مہیا کر رہے تھے جس میں ایک جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی تھا اور دوسرا سکول آف فزیو تھراپی میو ہسپتال تھا۔آہستہ آہستہ لوگوں کا رجحان فزیو تھراپی کی تعلیم کی طرف ہوا اور پرائیویٹ کالجوں اور جامعات میں اس کی تعلیم دی جانے لگی ۔
سب سے پہلے رفا یونیورسٹی نے2007 میں ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی کی ڈگری کا آغاز کیا۔ پبلک سیکٹر میں 2010 میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی نےDPT شروع کی اور اب لگ بھگ 95 کے قریب چارٹرڈ جامعات، ان کے محلقہ ادارے اور ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوٹس یہ ڈگری آفر کر رہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں اِن تمام کالجوں/ یونیورسٹیوں میں 9 سے10 ہزار کے قریب طالب علم فزیو تھراپی کے کورس میں داخلہ لیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ چھوڑ کر دوسرے دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں تعلیم حاصل کرنے لگ جاتے ہیں۔ جبکہ ہر سال فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں کی تعداد6 سے7 ہزار تک ہوتی ہے ۔ ملک میں جتنے بچے فزیو تھراپی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔‘‘ کیا مارکیٹ میں ان کی کھپت ہو جائے گئی ؟ اس سوال کے جواب میں اُن کہنا تھا کہ جب سے یہ کورس پانچ سالہ پروگرامDPT میں تبدیل ہوا ہے۔ لوگوں کا رجحان اس کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔
دوسری وجہ تمام میڈیکل سائنس میں ترقی یعنی اسپیشلٹی کا پہلو بھی ہے۔ اب لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ اس وجہ سے بھی میڈیکل کے اس شعبے میں لوگ آرہے ہیں ۔ لیکن حکومتی سطح پر ہر سال 6 سے7 ہزار پاس آوٹ ہونے والے فزیو تھراپسٹ کی کھپت کے لئے کوئی انتظام نہیں۔ حالانکہ ہر اُس مریض کو جو ہسپتال میں داخل ہوتا ہے اُسے فزیو تھراپسٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائینز کے مطابق ہر ایک مریض کو35 سے45 منٹ دورانیہ تک کی ٹریٹمنٹ درکار ہوتی ہے یوں اگر کوئی فزیو ڈاکٹر کسی ہسپتال میں 8 گھنٹے روزانہ ڈیوٹی کرتا ہے تو وہ یومیہ 10 مریضوں تک کی انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق ٹریٹمنٹ کر سکتا ہے۔ اس لئے ہسپتال میں ہر10مریضوں کے لئے ایک فزیو تھراپیسٹ ہونا چاہیئے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں گورنمنٹ ہسپتالوں میں فزیوتھراپیسٹ بہت ہی کم تعداد میں موجود ہیں جو کہ مریضوں اور فارغ التحصیل ہونے والے پروفیشلز کے لئے ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ فزیو تھراپی کی تعلیم کے حوالے سے طالب علموں کودرپیش مسائل کے بارے میں اُنھوں نے بتایاکہ ہمارے ملک میں تعلیم کے حوالے سےAccreditation کا سب سے بڑا ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ہے۔
اُس کے جاری کردہ نصاب اور سفارشات کے مطابق کوئی بھی ادارہ اُس وقت تک فزیو تھراپی کی تعلیم نہیں دے سکتا جب تک اُس کے پاس 200 بستروں کا ہسپتال موجود نہ ہو اور طالب علموں اور اساتذہ کا تناسب بھی1:20 ہونا چاہیے۔ جبکہ ہمارے ملک میں اکثر ادارے اس سہولیات سے قاصر ہیں۔ اور طلبہ / طالبات کے لئے عملی اور تکنیکی لیبارٹریز کی بھی بہت سخت کمی ہے جس کی وجہ سے تعلیمی معیار گرتا جا رہا ہے۔ اور بین الاقوامی اسکالر شپ کی بہت کمی ہے بلکہ ہیں ہی نہیں۔ فریش گریجویٹس کو پریکٹس کے حوالے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُس کی تفصیل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا۔ ہمارے فریش گریجویٹس کو فزیو تھراپی کی پریکٹس کرنے میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ جن میں سب سے بڑا مسئلہ Statuary Body کا نہ ہونا ہے۔ کسی بھی ہیلتھ پروفیشن میں کونسل بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جو کسی بھی پروفیشنل کی پریکٹس میں چیک اینڈ بیلنس رکھتی ہے ۔ اور کام کا طریقہ کار اور اصول و ضوابط کو متعین کرتی ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے کوالیفائیڈ، کونسل نہ ہونے کی وجہ سے مختلف مسائل کا سامنا کرتے ہیں جس میں سب سے اہم مسئلہ اُن کی آزادانہ پریکٹس ہے۔ پوری دنیا میں فزیو تھراپسٹ اب Independent Practitioner کے طور پر کام کر رہے ہیں اور پرائمری ہیلتھ پریکٹیشنر کے طور پر اُبھر رہے ہیں ۔ امید ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ایسی ہی تبدیلی آئے گی ۔ ملک میں فزیو تھراپی کے شعبہ میں ملازمتوں کی اور سروس اسٹرکچر کی کیا صورتحال ہے کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں ریگولر فزیو تھراپسٹ کی تعداد 175 سے زیادہ نہیں ۔ اس کے علاوہ جو فزیو تھراپسٹ گورنمنٹ جابز میں ہیں ان کو بھی اپنے ہم عصر سکیل کے ڈاکٹرز سے آدھی تنخواہ ملتی ہے ۔ کئی الائونسز انھیں نہیں دیئے جاتے اور ڈاکٹرز ایک ایک سکیل میں 10 سے 15 سال گزار دیتے ہیں۔ ملک میں فزیو تھراپسٹ کے سروس اسٹرکچر اور Health professional Allowance سمیت Health Risk Allowance پر کام ہونے والا ہے۔ ہمارے ملک میں فزیو تھراپسٹ جتنا پڑھے لکھے ہیں۔ سرکاری سطح پر ویسی جابز نہیں ہیں۔
مثال کے طور پر میڈیسن کے ڈاکٹرز اگر ایف سی پی ایس / ایم ایس کر لیں تو اُن کو اسپیشلسٹ کی جاب ملتی ہے۔ جبکہ ہمارے پروفیشن میں ایسا سروس اسٹرکچر نہیں کہ لوگ ایم فل، ایم ایس، پی ایچ ڈی کرکے بھی گریڈ 17 میں آتے ہیں ۔ وہ بھی اگر جاب آئے تو ۔ نوجوانوں کو فزیو تھراپی کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے حوالے سے میسر سہولیات کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ فزیو تھراپی میں اسکالر شپس کی بہت کمی ہے۔ کوئی فارن اسکالر شپس نہیں ہیں ۔ لوگ اپنے پیسے لگا کر باہر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آتے ہیں۔اور جب وہ پاکستان آتے ہیں تو ان کو ان کے معیار کے مطابق جاب نہیں ملتی ۔ پھر وہ مایوس ہوکر باہر کے ممالک کا رخ کرتے ہیں ۔ اس طرح Brain Drain ہو رہا ہے۔ صحت کے شعبہ کے دیگر ڈاکٹرز کا فزیو تھراپی کے ڈاکٹرز کے ساتھ رویہ اور صحت کی پالسیوں کے بنانے میں مشاورت کی صورتحال کے تناظر میں ڈاکٹر حسن انجم شاہد کا کہنا تھا کہ بیسویں صدی کے آخر تک ہمارے ملک میں فزیو تھراپی میں صرف ڈپلومہ ہوا کرتا تھا اور میڈیکل کے دوسرے ڈاکٹرز فزیو تھراپی کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ جبکہ اکیسویں صدی میں فزیو تھراپی کی اعلیٰ تعلیم میں بہت سی نئی جہتیں آئی ہیں ۔ اور تعلیمی معیار بھی بہت بہتر ہوا ہے۔
اب ڈاکٹرز بھی ان کو زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ملٹی ڈسپلنری ٹیم کا اہم رکن سمجھتے ہیں۔ جن میڈیکل ڈاکٹرز کا بین الاقوامی ایکسپوزر ہے اُن کو زیادہ بہتر اندازہ ہے کہ فزیو تھراپسٹ میڈیکل ٹیم کاکس قدر اہم رکن ہے۔ آگاہی اور شعور سے اب ہر پروفیشن کو عزت اور اُس کا اصل مقام مل رہا ہے ۔ لیکن اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو چاہئیے کہ پالیسی بناتے وقت متعلقہ فیلڈ کے ایکسپرٹ کو اور اُن کی رائے کو مقدم جانے اور اُن سے ضرور مشاورت کرے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ابھی بھی صرفMBBS کرنے والے کو ڈاکٹر سمجھا جاتا ہے۔
اور میڈیکل کے تمام فیصلے اور صحت کے متعلق تمام پالیسیز بناتے وقت دیگر شعبہ ہائے صحت کے ڈاکٹرز سے رائے نہیں لی جاتی جس سے صحت کا معیار ابھی اتنا بہتر نہیں ہوا۔ ایک بات اور امریکن بورڈ آف فزیو تھراپی اسپیشلسٹ کے مطابق فزیو تھراپی کی09 بڑی برانچیں ہیں۔ جن میں وہ لائسنس امتحان لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں صرف دو سے تین اسپیشلیٹیز میں ماسٹر ہو رہا ہے۔ وہ بھی طالب علم اپنے پیسے لگا کر پرائیویٹ کالجوں سے کرتے ہیں۔ حکومتی سطح پر ایسا کوئی رجحان نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ فکلٹی ڈیولپمنٹ کے نام پر پروفیشنل کو باہر بھیجے اور ان کیSkills کی بڑھوتری کے لئے فنڈ دے۔ تاکہ وہ لوگ واپس آکر اپنے ملک کے طلبہ اور طالبات کو تربیت دیں جو آخر کار مریضوں کے فائدے کا باعث بنے گا۔
ہوپس فزیکل تھراپی اینڈ مرکزبحالی جسمانی معذوراں، کوئٹہ
یہ ایک غیر سرکاری، غیر منافع بخش، فلاحی سنٹر ہے جو حکومت پاکستان کے سوشل ویلفیئر ایکٹ 1961 کے تحت رجسٹرڈ اور کوئٹہ میں علمدار روڈ پر واقع ہے ۔ سنٹر کی عمارت دو حصوںپر مشتمل ہے۔ ایک حصہ مکمل طور پر خواتین کے لئے مختص ہے جہاں خواتین اسٹاف کام کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ مردوں کے لئے ہے۔ مردوں کے حصے کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک حصہ انتظار گاہ، دوسرے حصے میں جدید اور روایتی ورزشی سامان پر مشتمل جم جبکہ تیسرے حصے میں مریضوں کی تھراپی کی جاتی ہے ۔ (خواتین کے حصے میں بھی ایسی ہی تقسیم اور سہولیات موجودہیں) یہاں فزیو تھراپی میں استعمال ہونے والی الیکٹرک مشینوں کی وسیع اقسام کے استعمال کے ساتھ ساتھ مینول ٹریٹمنٹ بھی کی جاتی ہے۔ یعنی الیکٹرانک ڈیوائسز کے استعمال کے ساتھ ساتھ جسم کے متاثرہ حصے پر مساج بھی کیا جاتا ہے۔ فزیو تھراپی ٹریٹمنٹ کے ہمراہ سینٹر میں موجود جم میں مریضوں کو مختلف ورزشیں بھی کرائی جاتی ہیں۔ یعنی فزیو تھراپی اور ورزش دونوں کاا ستعمال کیا جاتا ہے۔ سنٹر میں 2006 سے2018 تک 2 لاکھ 13 ہزار8 سو10 مریضوں کی فزیو تھراپی کی جا چکی ہے۔
گزشتہ سال سینٹر نے 28 ہزار پانچ سو 84 مریضوں کو فزیو تھراپی / ایکسرسائز کی سہولیات فراہم کیں یعنی ہفتہ وار تعطیل نکال کر روزانہ پانچ گھنٹوں کے دورانِ کار میں اوسطً 95 مریضوں کو خدمات فراہم کی گئیں۔ اس سنٹر کے انچارج ڈاکٹر محمد رضا سے جب دریافت کیا کہ کیا دیگر ڈاکٹرز کی جانب سے مریض فزیو تھراپسٹ کو ریفر کئے جاتے ہیں تو انھوں نے بتا یا کہ کئے تو جاتے ہیں لیکن ان کا تناسب بہت کم ہوتا ہے تقریباً دس مریضوں میں سے دوکو فزیو تھراپسٹ کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ فزیوتھراپی میں ڈائریکٹ کنسلٹیشن کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس 80 فیصد مریض ڈائریکٹ آتے ہیں ۔ فزیو تھراپی کے علاج کی کامیابی کے تناسب کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ اگر کوالیفائیڈ فزیو تھراپسٹ سے علاج کرایا جائے تو 80 سے85 فیصد تک کامیابی کا امکان ہوتا ہے۔ فزیو تھراپی میں کوالٹی کنٹرول کی صورتحال کے حوالے سے ڈاکٹر محمد رضا کا کہنا تھا کہ فزیو تھراپی میں کوالٹی کنٹرول کو بہتر کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام ڈاکٹر (فزیوتھراپسٹ) صاحبان اخلاص کو مدِنظر رکھیں ۔
پاکستان میں فزیو تھراپی پریکٹس کے لئے لائسنس کے حصول کو ضروری قرار دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ میں آپ کوفزیو تھراپی کی پریکٹس کے لئے علیحدہ سے امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ فزیو تھراپی پروفیشن کے حوالے سے اُن کا موقف تھا کہ یہ ایک ہنر ہے جس میں آپکو سرکاری جاب نہیں بھی ملتی تب بھی آپ اپنی پریکٹس کر سکتے ہے۔ ہمارے ہاں فزیو تھراپسٹ اپنے آپ کو اس شعبہ میں ہونے والی پیش رفت سے کتنا اپ ڈیٹ رکھتے ہیں اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے صورتحال کو زیادہ حوصلہ افزا قرار نہیں دیا۔ ڈاکٹر محمد رضا نے یہ تجویز دی کہ ہر علاقے کے BHU میں ایک فزیوتھراپسٹ ہونا چاہیئے تاکہ لوگوںکا دوائیوں کی بجائے ورزشوں اور غذائوں کے ذریعے علاج کیا جا سکے اس کے علاوہ ڈاکٹرز اور فزیوتھراپسٹ کی ایک ٹیم ہونی چاہیئے جو بیماریوں کے بارے میں ایک دوسرے سے صلاح و مشورہ کر سکیں۔
The post صحت یاب کرنے کی سائنس، دیکھ بھال کا فن appeared first on ایکسپریس اردو.