دوسری قسط
یہ تو تھی شاہراہِ ریشم کی کہانی، قراقرم پر ہم اپنا سفر وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے چھوڑا تھا۔ دینیور سے کچھ آگے گلگت بلتستان کا ضلع نگر شروع ہو جاتا ہے جہاں وادیٔ نگر اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ زمین کے تخت پر براجمان ہے۔ نگراصل میں ایک بہت بڑی وادی ہے جس میں چِلت، بار، نِلت، جعفرآباد، تھول، مسوت اور گلمت کی چھوٹی چھوٹی وادیاں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ تو قراقرم ہائی وے پر ہیں اور باقی اس سے ذرا ہٹ کر واقع ہیں۔ یہاں پر بھی کئی تاریخی و ثقافتی جگہیں دیکھنے کے قابل ہیں چلیں ان کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہوں۔
٭زمینی پرتوں کے ٹکراؤ کی جگہ؛
سِلک روٹ کے ٹکڑوں سے آگے چلت وادی کے قریب ہی بین البراعظمی پلیٹس کے ٹکراؤ کی جگہ ہے۔ یہ گلگت سے شمال میں 53 کلومیٹر کے فاصلے پر قراقرم ہائی وے پر واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی 5 کروڑ سال پہلے اس جگہ انڈین اور یورشین پلیٹس آپس میں ٹکرائی تھیں جس کے نتیجے میں سطحِ مُرتفع تبت اور کوہِ ہمالیہ کا سلسلہ وجود میں آیا۔ اسی طرح زمین کی پرتوں پر شدید دباؤ کے نتیجے میں قراقرم کے پہاڑوں نے سر اُٹھایا۔ یہ جگہ بھی سیاحوں کی من پسند جگہ ہے۔
٭راکاپوشی ویو پوائنٹ؛
آگے چل کر یہاں کا سب سے سحرانگیز مقام غُلمِت میں واقع ’’راکاپوشی ویو پوائنٹ ‘‘ہے جہاں سے آپ کئی زندگیاں نگلنے والے اس قاتل پہاڑ کا وحشی نظارہ کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ راکاپوشی کا قریب ترین نظارہ ہے۔ یہ جگہ وسطی قراقرم نیشنل پارک میں شامل ہے جو خطرے سے دوچار مارکوپولو شیپ، برفانی تیندوے، بھورے ریچھ اور دیگر کچھ جانوروں کا مسکن ہے۔ اس ویو پوائنٹ پر کھڑے ہو کر آپ 1950 میٹر کی بلندی پر زمین کی سب سے اونچی سالِم ڈھلوان کو دیکھ سکتے ہیں۔ راکاپوشی دنیا کا اکلوتا ایسا پہاڑ ہے جو زمین کی سطح سے سیدھا کئی کلومیٹر تک بلند پے۔ سمٹ سے لیکر بیس کیمپ تک اسکی متواتر بلندی 6000 میٹر ہے جو اسکو ہم جیسوں کے لیے ہیبت ناک اور مہم جوؤں کے لیے دل کش بنانے کے لیے کافی ہے۔
آج سے بائیس تئیس سال پہلے یہاں راکاپوشی ویو پوائنٹ کے بورڈ کے سوا کچھ نہ تھا۔ آہستہ آہستہ یہ جگہ ترقی کرتی رہی اور ایک بہت بڑے بازار کے روپ میں یہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ میری پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے۔ یہاں سیاحوں کا خوب رش ریتا ہے۔ تازہ خوبانی اور مزے دار کالی چیری یہاں وافر موجود ہے۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان کی خاص ڈِش ”چاپشورو/شارپشورو” بھی یہاں تازہ بنائی جاری ہے جسے اکثر لوگ شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ ایک قسم کا لوکل پیزا ہے جس کی تفصیل بعد میں بیان کروں گا۔ خشک خوبانی، اشکین اور دیگر جڑی بوٹیاں بھی یہاں سے آپ کو سستی مل جائیں گی۔ نوادرات، دست کاریوں اور مقامی مصنوعات کا بھی ایک بڑا سٹور یہاں موجود ہے جو میرے خیال میں مناسب قیمتوں پر سامان مہیا کر رہا ہے۔ غرض یہ جگہ اچھی اور سستی شاپنگ کے لیے ایک آئیڈیل جگہ ہے۔
٭علی آباد؛
غُلمِت سے آگے ’’آباد‘‘ لاحقوں والے علاقے شروع ہوجاتے ہیں جن میں ناصر آباد، مرتضیٰ آباد، حسن آباد، علی آباد وغیرہ شامل ہیں۔
علی آباد گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ نگر کا تجارتی علاقہ ہے۔ دریائے ہنزہ کے کنارے آباد یہ شہر ضلع ہنزہ۔ نگر کا صدر مقام ہے۔ ڈپٹی کمشنر اور ضلعی فاریسٹ آفیسرز سب کے دفاتر یہیں واقع ہیں۔ علی آباد کے بازار سے ذرا اوپر پہاڑ پر ایک خوب صورت گیسٹ ہاؤس ” بیگ گیسٹ ہاؤس” واقع ہے جسے گلگت بلتستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا ایک گروپ اپنے والد دیدار علی کی سربراہی میں چلا رہا ہے۔ یہ نوجوان پنجاب کی اعلیٰ یونیورسٹیوں سے تعلیمِ یافتہ ہیں اور اپنی نوکریوں کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے میں سیاحوں کو سہولت بھی پہنچا رہے ہیں۔ ان سے بات کرنے پر آپ کو پتا چلتا ہے کہ یہ اپنے علاقے، اپنے گلگت بلتستان کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ آگے چل کر میں ان سے ہوئی گفتگو کا احوال شیئر کروں گا۔ اس جگہ آپ نہ صرف قریبی برفانی چوٹیوں کا دل کش نظارہ کر سکتے ہیں بلکہ مارخور کی کھوپڑی اور سینگ بھی دیکھ سکتے ہیں جو گیسٹ ہاؤس انتظامیہ نے زینت و آرائش کے طور پر لٹکا رکھے ہیں۔
٭گنیش؛
علی آباد کے بعد وادیٔ ہنزہ کا قدیم ترین قصبہ ’’گنیش‘‘ واقع ہے جو سِلک روڈ پر بسائی گئی سب سے پہلی اور پرانی آبادی تھی۔ یہاں بہت سی قدیم نگہبان چوکیاں (واچ ٹاور)، روایتی مسجدیں اور مذہبی سینٹر قائم تھے جن میں سے کچھ آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک بڑے شکاری ٹاور کے ساتھ بنا 400 سالہ ’’علی گوہر ہاؤس‘‘ یہاں کی پہچان ہے جسے 2009 میں یونیسکوایوارڈ برائے تحفظ ثقافتی ورثہ (برائے ایشیا و بحرالکاہل کے ممالک) سے نوازا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں آسٹریلیا، چین، بھارت، کوریا، ویتنام، نیوزی لینڈ اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کا خوب صورت ثقافتی ورثہ تھا۔ یہ قدیم گھر کاشغر کے لیے میر آف ہُنزہ کے سفیر کے زیرِاستعمال تھا، جسے بعد میں آغا خان فاؤنڈیشن نے ازسرِنو بحال کیا ہے۔
٭کوئین وکٹوریہ یادگاری ٹاور؛
مقامی زبان بروشسکی میں ’’ملکہ مو شکاری‘‘ کے نام سے جانا جانے والی یہ یادگار کریم آباد میں ایک چٹان پر واقع ایک ٹاور ہے جسے ناظم خان نے بنوایا تھا۔ بلتت گاؤن سے چڑھائی چڑھ کر مختلف ندیوں، پولو گراؤنڈ، پرانے شکاری ٹاور اور ایک تنگ سے پہاڑی درے سے گزر کر تقریباً ایک گھنٹے میں اس تک پہنچا جا سکتا ہے۔
٭ایگلز نیسٹ؛
اسی نام کے ہوٹل کے ساتھ پہاڑی پر واقع یہ جگہ ہُنزہ کی مشہور ترین جگہ ہے جو سورج اُگنے اور ڈوبنے کے خوب صورت و سحرانگیز مناظر کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر مشہور ہے۔ ایک پہاڑی پر واقع ایگلز نیسٹ کے ایک جانب مشہور پہاڑ ’’لیڈی فنگر پیک‘‘ اور دوسری طرف قراقرم کے پہاڑ ہیں جنہیں سورج قطرہ قطرہ اپنی روشنی سے منور کرتا ہے تو زرد روشنی میں نہائے یہ برف پوش پہاڑ، کسی سُنہری تاج والی حسین پری کے مانند لگتے ہیں۔
٭کریم آباد؛
گنیش کے ساتھ کچھ شمال میں ہُنزہ کا صدر مقام ’’کریم آباد‘‘ واقع ہے جسے اگر ہُنزہ کی شان کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ کریم آباد جس کا پرانا نام ’’بلتت‘‘ تھا، قدیم تجارتی قافلوں کے پڑاؤ کا مقام تھا جو آہستہ آہستہ ایک بڑی تجارتی منڈی بن گیا۔ کریم آباد کو ’’دی گارڈین‘‘ اخبار نے پاکستان کے پانچ بہترین سیاحتی مقامات میں شامل کیا ہے۔ اس شہر کو پرنس کریم آغا خان کے نام پر رکھا گیا ہے، جب کہ پرانے لوگ اب بھی اسے بلتت کہہ کر بلاتے ہیں۔
خوب صورت پتھروں کی چوڑی گلیوں کے اس شہر میں کئی اسکول، کالج، لائبریریاں، گراؤنڈز اور اسپتال ہیں۔ یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ اس شہر کی شرحِ خواندگی 95 فی صد کے قریب ہے جو پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔
کریم آباد کا مشہور بازار جو بلتت قلعے کے سامنے واقع ہے، ہر قسم کی دست کاریوں، نوادرات، زیورات، قیمتی پتھر، روایتی کھانوں، آرٹسٹوں کے بنائے لکڑی کے ماڈل، آلاتِ موسیقی، قالین، گرم مصالحوں، خشک میووں، پھلوں، شہد اور دیگر لوازمات سے بھرا پڑا ہے۔ یہاں سیب، خوبانی، اخروٹ، ملبیری، چیری اور صنوبر کی بہتات ہے۔ کیفے ڈی ہُنزہ اور بلتت کیفے یہاں کے مشہور ریستوران ہیں۔ بھاپ اْڑاتے ممتو اور شارپشورو سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ شہر کی اکانومی مکمل طور پر سیاحوں اور پھل سبزیوں پر ٹکی ہے۔
کریم آباد بازار سے بلتت فورٹ کی طرف جائیں تو گاؤں کے اندر سے ایک راستہ اوپر کی طرف جاتا ہے جو گاؤں ختم ہونے کے بعد ایک نالے کے ساتھ بتدریج چڑھائی کی طرف جانا شروع ہوتا ہے۔ کچھ دیر بعد سامنے پتھروں اور مٹی سے اٹھا بڑا سا گدلا گلیشیئر سامنے آجاتا ہے جو اُلتر گلیشیئر ہے۔ گلیشیئر کے بائیں کنارے پر چلتے ہوئے بلتت فورٹ سے تقریباً دو سے تین گھنٹے بعد اُلتر میڈوز کی چراگاہ کا وسیع میدان آتا ہے۔ اُلتر میڈوز کی بلندی تقریباً 2900 میٹر ہے۔ یہ کریم آباد اور ملحقہ آبادیوں کی مشترکہ چراگاہ ہے جہاں ان کے جانور چرتے ہیں۔ اُلتر میڈوز سے اُلتر پیک ون ٹو اور لیڈی فنگر کا بیس کیمپ بھی نظر آتا ہے۔
٭ التِت قلعہ؛
ہنزہ کی شاہانہ وجاہت کا عکاس ’’التِت فورٹ‘‘، دریائے ہُنزہ کے کنارے بالائی کریم آباد میں واقع ہے۔ التِت قلعے کو ’’میر آف ہنزہ‘‘ نے ہمسایہ ریاست نگر کے ’’میر‘‘ پر اپنی طاقت اور عظمت کی دھاک بٹھانے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ اور تقریباً 11 ویں صدی سے یہ اسی طرح ’’قراقرم‘‘ کے پہاڑوں پہ شان و شوکت سے براجمان ہے۔
اس قلعے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس نے نہ صرف کئی بیرونی حملوں کا مقابلہ کیا بلکہ یہ زلزلوں میں بھی اپنی جگہ سے ایک انچ نہ سرکا۔ التیت قلعہ اور خاص طور پر قلعے کا ”شکاری ٹاور” تقریبا 900 سال پرانی جگہیں ہیں، یوں یہ گلگت بلتستان میں سب سے قدیم یادگار ہے۔ پاکستان کے دوسرے قلعوں کی طرح التِت فورٹ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا لیکن حال ہی میں ’’آغا خان ٹرسٹ برائے تاریخ و ثقافت‘‘ نے اسے حکومت ناروے کی مدد سے بحال کیا ہے۔
500 کا ٹکٹ لے کر اندر جائیں تو سرسبز ’’شاہی باغ‘‘ آپ کا استقبال کرتا ہے جس میں نارنجی پکی ہوئی خوبانی سے جُھکے درخت اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ اس باغ کے ساتھ ایک خوب صورت پگڈنڈی آپ کو التیت فورٹ تک لے جائے گی جس کا شکاری ٹاور دور سے ہی نظر آ جاتا ہے۔ یہ دریائے ہُنزہ سے 1000 فٹ کی بلندی پر ہے جو جنگی حالات میں تمام علاقے پر نظر رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس زمانے میں وادیٔ ہُنزہ روس اور چین کی طرف سے حملوں کے خطرے میں گھری رہتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی بنی ایک جگہ سے قیدیوں اور باغیوں کو نیچے دریائے ہُنزہ میں سزا کے طور پر پھینکا جاتا تھا جہاں سے ان کی لاش بھی نہ ملتی تھی۔
التیت قلعے کی تعمیر کے قریباً 400 سال بعد ہُنزہ کے شاہی خاندان میں پھوٹ پڑ گئی اور پرنس شاہ عباس اور پرنس علی خان نے ایک دوسرے پر حملے کیے اور ہمارے گائیڈ کے مطابق پرنس عباس نے علی خان کو ایک ستون کے اندر زندہ چُنوا دیا جو آج بھی ٹاور کے اندر ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مختلف کمروں میں شاہی خاندان کے قدیم برتن اور بکس رکھے گئے ہیں۔ لکڑی کے چھوٹے دروازوں، سیڑھیوں اور کھڑکیوں خوب صورت کشیدہ کاری کی گئی ہے جس کے ڈیزائن دیکھ کر میں مبہوت رہ گیا۔ پرانے زمانے کے نقش و نگار تو نئے زمانے کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔
قلعے کا مرکزی ہال بیک وقت عبادت، کھانا پکانے اور مختلف مجالس کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہاں ایک صدیوں پرانا کھانا پکانے کا برتن اور لکڑی کا پرانا بکس رکھا ہے جس پر’’سواستیکا‘‘ کے کئی نشان بنے ہیں۔ گائیڈ کے مطابق سواستیکا کا نشان آریائی زمانے میں چار بنیادی عناصر ہوا، آگ، پانی اور مٹی کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اسی سواستیکا کو ہٹلر نے اپنا نشان بنایا اور جرمنی کی فوج کو بھی پہنا دیا۔ یہ بکس آٹا رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد کچھ شاہی کمرے دکھائے گئے جہاں پرنس اور شاہی خاندان کے دیگر افراد رہتے تھے۔ ان کمروں کی کھڑکیوں سے نیلے رنگ کے دریائے ہُنزہ کا شان دار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایک ناگن سی بل کھاتی کالی لکیر بھی ہے جو شاہراہِ قراقرم ہے۔ اس سے آگے شاہی مہمان خانوں کے سامنے ایک خوب صورت گیلری سے ہُنزہ گاؤں کا خوب صورت نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ساتھ بنے چھوٹے چھوٹے گھر، ان میں سے اُٹھتا دھواں اور پسِ منظر میں برف پوش پہاڑ، التیت قلعے کو ایسے ہی نہیں ہُنزہ کی شان کہتے۔ قلعے کے اندر شاہی مہمان خانوں کو ایک چھوٹے سے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس میں شاہی خاندان اور ہُنزہ سے متعلق نادر تصاویر رکھی گئی ہیں۔ اوپر چھت پر شکاری ٹاور، لکڑی کی ایک کھڑکی اور ایک چھوٹا کمرہ بنا ہوا ہے جس کے چھوٹے سے دروازے پر لکڑی کا خوب صورت کام کیا گیا ہے۔ قلعے کے باہر سبز پانی کا خوب صورت تالاب، ہینڈی کرافٹ شاپس، کیفے اور خوب صورت گھر بنے ہیں جن کے سامنے بیٹھے ہُنزہ کے آرٹسٹ رباب پر قسم قسم کی دھنیں بجا کر سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
جاپان نے یہاں پرانے گاؤں اور ارد گرد کی ترقی اور تزئین و آرائش میں اہم کردار ادا کیا ہے. التیت قلعہ 2007 سے عوام کے لیے کھلا ہے۔
٭بلتِت فورٹ؛
اب رُخ کرتے ہیں بلتِت فورٹ کا۔ یونیسکو کی عارضی ثقافتی ورثے کی لسٹ میں شامل بلتِت کا قلعہ، پریوں کی کہانیوں مں موجود کسی خوب صورت پری کا گھر لگتا ہے۔ پہاڑ کے اوپر واقع یہ قلعہ کوئی 650 سال پہلے تب بنایا گیا جب ہُنزہ کے شاہی خاندان میں پھوٹ پڑی اور پھر پایہ تخت التِیت سے بلتِت قلعے میں منتقل ہو گیا جسے وقت کے ساتھ ساتھ مرمت کیا گیا۔ 16 ویں صدی میں جب یہاں کے شہزادے نے بلتستان کی شہزادی سے شادی کی تو وہ بلتی ہنرمندوں اور کاری گروں کو اپنے ساتھ لائی تاکہ وہ اس قلعے کی تزئین و آرائش کر سکیں اور اس قلعے کی موجودہ شکل تب کے بلتی کاری گروں کی ہی عنایت شدہ ہے۔
1945 میں میرِہنزہ نے اس قلعے کو چھوڑ کر پہاڑ سے نیچے ایک اور قلعہ نما گھر بنایا اور وہاں منتقل ہوگئے جس کے بعد یہ قلعہ ایک ویران اور دہشت زدہ جگہ کا روپ دھار گیا۔ لوگوں نے یہاں کا رُخ کرنا چھوڑ دیا اور قلعے سے قیمتی سامان چوری ہونا شروع ہو گیا جو آج تک نہیں مل سکا۔ رفتہ رفتہ اِس قلعے کی حالت خراب ہونا شروع ہو گئی اور اس کے منہدم ہونے کے خدشات بڑھ گئے۔ ہماری بے پرواہی نے اسے یونیسکو کی ’’خطرے میں موجود عمارتوں‘‘ کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ پھر اس علاقے کی ثقافت کے لیے شہہ رگ کی سی حیثیت رکھنے والا آغا خان ٹرسٹ اور لندن کی ’’رائل جیوگرافیکل سوسائٹی‘‘ کے اشتراک سے اس کی مرمت کا کام شروع کیا گیا جو 1996 میں ختم ہوا اور اس قلعے کو ایک عجائب گھر کی شکل دے دی گئی جسے بلتت ٹرسٹ چلا رہا ہے۔
بلتت کا قلعہ بھی کچھ کچھ التیت قلعہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس کے دروازے کھڑکیاں اچھوتے اور خوب صورت ڈیزائنوں سے مزین ہیں۔ سیڑھیوں سے اوپر جائیں تو ایک ہال ہے جس میں سیڑھیوں سمیت تین کمروں کے دروازے کھلتے ہیں۔ ایک کمرے میں برتن اور خوب صورت لال قالین رکھا گیا ہے جب کہ دوسرا کچن ہے جہاں ہر قسم کے برتن اور ایک انوکھی چیز رکھی ہے جو سمجھ نہیں آتی، غور کرنے پر پتا چلا کہ یہ ’’چوہے دان‘‘ ہے۔ پہاڑی بکروں کی کھال اور پرندوں کے پر بھی رکھے گئے ہیں۔ غرض یہ وادیٔ ہُنزہ کی ثقافت کا بھر پور عکاس ہے۔
اوپر جائیں تو ایک شان دار منظر آپ کو ملتا ہے۔ لکڑی کے کام سے مُزین ایک جھروکے میں ریاست ہُنزہ کے امیران کا خوب صورت تخت بچھا ہے جہاں بیٹھ کر وہ اپنی رعایا سے خطاب کرتے تھے۔ اس کے ساتھ لکڑی کی دیوار پر مارخور کا ڈھانچا اور سینگ نمائش کے لیے لگائے گئے ہیں۔ اس قلعے کے لکڑی سے بنے دالانوں سے سورج غروب ہونے کا منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
اوپر کے تمام کمرے میوزیم کا حِصہ ہیں جہاں پہلے کمرے میں ہنزہ کے والیان کی تصاویر، پوشاکیں، ہُنزہ کا جھنڈا، ڈھالیں اور تلواریں رکھی گئی ہیں۔ اس سے آگے کا کمرہ خوب صورت کشمیری اسٹائل کی چھت سے مزین ہے اور وہاں میر محمد کلیم خان کے دور کا کشمیری قالین ، تانبے کے برتن اور ریاست ہْنزہ اور چین کے درمیان ہونے والے تجارتی معاہدات کی نقول رکھی گئی ہیں جو چینی اور شینا زبان میں قلم بند ہیں۔ اگلا کمرہ میرانِ ہنزہ کی خاندانی تصاویر، آرام کرسی، گھڑیال اور پرانے ٹیلی فون پر مشتمل چیزوں سے سجا ہے۔ اس سے آگے کچن ہے جہاں بڑے چھوٹے برتن اور ایک بچے کا خوب صورت پنگھوڑا رکھا ہے۔
سب سے آخری کمرے میں علاقے کی ثقافت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک طرف دیوار پر ڈھول، رُباب اور طمبق جیسے علاقائی سازوں سے سجا یہ کمرہ دوسری جانب لال، پیلے، نیلے، ہرے شیشوں کی کھڑکیوں سے مْزین ہے۔ یہاں 1920 کے دور کے پرانے چینی نوٹ بھی رکھے گئے ہیں، جب کہ ایک اور دیوار پر 1900 کے زمانے کا سنکیانگ (چین) کا قالین لٹک رہا ہے۔ یہاں سے باہر سیڑھیاں آپ کو نیچے اس جگہ لے جاتی ہیں جہاں ہُنزہ کی مشہور ’’زلزلہ‘‘ توپ رکھی گئی ہے۔ اس توپ کے لیے اہلِ ہُنزہ نے تانبے کے برتن اور کوئلہ مہیا کیا اور یہ 1891 میں انگریزوں کے خلاف استعمال کی گئی۔ انگریز فوج نے گلگت اور ہُنزہ کی ریاستوں کو فتح کرنے کے بعد یہ توپ گلگت ایجنسی کے انگریز پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر کے باہر رکھ دی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہ وہیں رہی جب کہ جون 1999 میں اسے بلتت فورٹ ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا۔ یہاں میرے دورے کے دوران بھی مرمتی کام جاری تھا اور اس کی آؤٹ لُک کو درست کیا جا رہا تھا۔ بلاشبہ بلتِت کا قلعہ پاکستان کے لیے ایک بیش قیمت اثاثے سے کم نہیں ہے۔ اس قلعے کے باہر کریم آباد بازار ہے جو ہر قسم کی دست کاریوں، نوادرات، زیورات، قیمتی پتھر، روایتی کھانوں، آرٹسٹوں کے بنائے لکڑی کے ماڈل، آلاتِ موسیقی، قالین، گرم مصالحوں، خشک میووں، شہد اور دیگر لوازمات سے بھرا پڑا ہے۔ کیفے ڈی ہُنزہ اور بلتت کیفے یہاں کے مشہور ریستوراں ہیں۔ بھاپ اْڑاتے ممتو اور شارپشورو سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
٭ عطا آباد جھیل؛
کریم آباد سے آگے احمد آباد اور سلمان آباد کے بعد آتی ہے نیلے پانی کی وہ خوب صورت جھیل جو ویسے تو ایک قدرتی آفت کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی لیکن اب کسی نعمت سے کم نہیں۔ یہ وادی ہُنزہ کا بیش قیمت اثاثہ ’’عطا آباد جھیل‘‘ ہے۔
ہر پل مختلف رنگ بدلنے والی یہ جھیل پہاڑ کے ایک حصے کے سرکنے یعنی لینڈ سلائیڈ کے نتیجے میں 2010ء میں وجود میں آئی۔ یہ جھیل عطا آباد نامی گاؤں کے نزدیک ہے جو کریم آباد سے 22 کلومیٹر اوپر کی جانب واقع ہے۔
عجیب رنگ بدلتی ہے اس کی نگری بھی
ہر اک نہر کو دیکھا فرات ہونے تک
یہ واقعہ 4 جنوری 2010ء میں پیش آیا جب زمین سرکنے سے کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے اور شاہراہ قراقرم کا کچھ حصہ اس میں دب گیا اور دریائے ہنزہ کا بہاؤ 5 ماہ کے لیے رک گیا۔ جھیل کے بننے اور اس کی سطح بلند ہونے سے کم از کم 6000 افراد بے گھر ہوئے جب کہ 25000 مزید افراد متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ شاہرائے قراقرم کا 19 کلومیٹر طویل حصہ بھی اس جھیل میں ڈوب گیا۔ جون 2010ء کے پہلے ہفتے میں اس جھیل کی لمبائی 21 کلومیٹر جبکہ گہرائی 100 میٹر سے زیادہ ہو چکی تھی۔ اس وقت پانی زمین کے سرکنے سے بننے والے عارضی بند کے اوپر سے ہو کر بہنے لگا۔ تاہم اس وقت تک ششکٹ کا نچلا حصہ اور گلمت کے کچھ حصے زیرآب آ چکے تھے۔ گوجال کا سب ڈویژن سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 170 سے زیادہ گھر اور 120 سے زیادہ دکانیں سیلاب کا شکار ہوئیں۔ شاہراہِ قراقرم کے بند ہونے سے خوراک اور دیگر ضروری سازوسامان کی قلت پیدا ہو گئی۔ 4 جون کو جھیل سے نکلنے والے پانی کی مقدار 3700 مکعب فٹ فی سیکنڈ ہو چکی تھی۔
شاہراہِ قراقرم کے 24 کلومیٹر ٹکڑے کے ڈوبنے کے بعد یہاں پانچ طویل سُرنگیں بنائی گئیں جن کی مجموعی لمبائی 7 کلومیٹر تک ہے اور قراقرم ہائی وے کو وہاں سے گزارا گیا۔ یہ منصوبہ تعمیراتی تاریخ میں ایک ماسٹر پیس کی سی حیثیت رکھتا ہے جسے پاکستانی و چینی انجنیئرز نے سرانجام دیا۔
(جاری ہے)
The post شاہراہِ قراقرم کے عجائبات appeared first on ایکسپریس اردو.