قسط نمبر 51
آپ نے کرامت کا دریافت کیا تو فقیر نے اسے بیان کرنے کی اپنی بساط بھر کوشش کی، اب یہ دوسری بات کہ آپ کے سوالات اس سے آسودہ ہوئے اور قرار بھی پائے کہ نہیں۔ اب کچھ قارئین نے صاحب دعا کا معلوم کیا تو فقیر کیا کہے یہ تو آپ کو کسی اہل علم و فضل اور صاحب شریعت و طریقت سے معلوم کرنا چاہیے تھا ناں، یہی تو ہمارے سادہ دل لوگوں کا روگ ہے کہ وہ اصل لوگوں کو چھوڑ کر مجھ ایسے بے عقل و فہم، گم راہ اور بہروپیوں سے اپنا علاج کرانا چاہتے ہیں، مالک انہیں سمجھ دے اور ان کے روگ کو سُکھ و شانتی میں بدلنے کی راہیں آسان فرمائے۔ اب جب کہ آپ نے فقیر سے صاحب دعا کا معلوم کیا ہی ہے تو کوشش ہے کہ اس پر بات کی جائے۔
دیکھیے صاحبِ دعا تو آپ بھی ہوسکتے ہیں، نہ جانے آپ یہ کیوں سوچ بیٹھے ہیں کہ اس کے لیے کسی مخصوص لباس اور حلیے کی ضرورت ہے، اصل کو تو اس ظاہر سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا۔ فقیر کو تو جو بتایا گیا ہے وہ بیان کیے دیتا ہے۔ رب سے قُرب کے لیے سب سے اہم اور بنیادی شرط ہی حصول رزق حلال ہے تو بس یہ طے ہوا کہ کہ رزق حلال ہی سے اس مبارک سفر کی ابتداء ہوسکتی ہے، اور جب کوئی بندہ اپنے شکم کو رزق حلال سے آسودہ کرے تو وہ مقربِ الہی بن جاتا ہے۔ فقیر نے آپ سے عرض کیا تو تھا کہ رب تعالٰی تو کسی کی بھی دعا کو رد نہیں کرتا، کسی کی بھی، چاہے وہ منکر رب جلیل ہی کیوں نہ ہو، تو پھر آپ کی دعا کیوں کر رد کرے گا، بس مشکل یہ ہے کہ ہماری خواہش ہوتی ہے جیسے ہی دعا کی جائے وہ مجسم قبولیت بنی سامنے آن کھڑی ہو تو ایسا تو بس خواہش ہی ہوسکتا ہے ناں۔ حلال کا لقمہ اپنے شکم میں اتاریے اور پھر دعا کیجیے تو سمجھیے کہ قبول ہوئی اب ذرا صبر کو اختیار کیجیے تو آپ اپنی دعا کو ثمربار پائیں گے۔
اب میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں شاید آپ صاحب دعا کو پہچان پائیں، یہ کئی برس پہلے فقیر کے ساتھ پیش آیا تھا، تو آئیے فقیر کے سنگ۔ وہ بہت خوب صورت انسان ہے … بہت ہی خوب صورت۔ معلوم ہے آپ کو وہ اتنا خوب صورت کیوں ہے؟ بتاتا ہوں۔ اس لیے کہ وہ اندر باہر سے ایک جیسا ہے۔ جیسا نظر آتا ہے ایسا ہی۔ کوئی بناوٹ نہیں، کوئی تصنع نہیں، کوئی کھوٹ نہیں … سَچّا اور سُچّا آدم۔ بہت ہی ہنس مکھ، بے باک، بے خوف، ہوا کے دوش پر قہقہے بکھیرنے والا، ہنسنے اور ہنسانے والا۔ کئی برس پہلے وہ مجھے ملا تھا۔ ہُوا یوں کہ ہمارے ایک محلے دار نے مکتب کھول لیا تھا تو سالانہ امتحانات کے نتائج کی تقریب کی تیاری شروع ہوئی، میں صرف نگرانی کررہا تھا کہ اس نے مجھ سے کہا: اسکول کا مالی آئے گا، گھاس بڑھ گئی ہے، یہ پودے اور ڈم ڈم کی ٹہنیاں بس آپ دیکھتے رہیے گا، میں اسے ہر کام سمجھا چکا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ تھوڑی دیر گزری تھی، میں فرش پر بیٹھا تھا کہ مالی صاحب آگئے، غور سے دیکھا اور بولے: صاحب کہاں ہیں؟ وہ تو چلے گئے، میں نے کہا۔ اچھا تو تم کون ہو؟ ابھی میں جواب دینے لگا تھا کہ مالی صاحب بولے: صبح تو اسکول میں دوسرا چوکی دار تھا، کیا تم رات کے چوکی دار ہو چلو اچھا ہوا، تم مل گئے، میں کام بھی کروں گا اور باتیں بھی۔
اس طرح بات شروع ہوئی، خوب صورت انسان کی سادگی میں رچی بس باتیں … دل کو موہ لینے والی باتیں … اور پھر تو باتوں کا سیلاب امڈ آیا۔ درمیان میں وہ قہقہہ برساتا اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیر ہی شروع ہوجاتا۔ یار تمہارا نام کیا ہے؟ مجھ سے اس نے پوچھا۔ عبداللطیف نام ہے میرا۔ تو کہنے لگا: اچھا تو لطیف بھائی آج سے تم میرے دوست ہو، تم چوکی دار میں مالی، لیکن ایک بات بتاؤں۔ میں نے کہا ضرور بتاؤ۔ تو اس نے نصیحت کی کہ دیکھو چوکی داری کوئی ہنر نہیں ہے، بس خالی خولی بیٹھنا اور بس، مجھے دیکھو، میں مالی ہوں۔ یہ معمولی ہنر نہیں ہے، سمجھے! یہ کام میں نے ایسے ہی نہیں سیکھ لیا، جان مارنا پڑتی ہے اس میں، تم تو بس بیٹھے رہتے ہو، میرا کہا مانو چھوڑو چوکی داری کو، مجھ سے یہ ہنر سیکھ لو، بہت فائدے میں رہوگے، میں تمہیں جلد ہی سب کچھ سکھا دوں گا، اچھی طرح سوچ لو، اب بھی موقع ہے اور تم یہ بتاؤ یہ تم نے کیا حلیہ بنایا ہوا ہے اپنا، تمہارے پاس بال کٹوانے کے پیسے نہیں ہیں تو مجھ سے لے لو، میں نے تمہیں دوست کہا ہے۔
دوستوں سے کیا پردہ، صبح میرے ساتھ چلنا، ایک نائی میرے گاؤں کا ہے، تمہیں بابو بنادے گا۔ لطیف بھائی یہ تو بتاؤ، تم کچھ پڑھے لکھے ہو یا چٹے ان پڑھ ! دیکھو میں مالی ہوں اور چار جماعت پاس ہوں، اب میری تمہاری دوستی ہوگئی ہے، تم بالکل فکر نہ کرو، سمجھے! چلو چائے منگا کر پیتے ہیں۔ پھر ہم چائے پینے لگے تو کہنے لگا: یار لطیف تُو ایک بات تو بتا، تُو اتنا اداس اداس کیوں ہے؟ کچھ بولتا ہی نہیں، بس میں ہی بولتا جارہا ہوں، یار تُو بھی تو کچھ بول ناں۔ اچھا کیا بولوں؟ میں نے پوچھا۔ جو چاہے بول شرم نہ کر، دوستوں سے کیا پردہ، بول دے آج سب کچھ اعتبار کر مجھ پر یار، کیوں نہیں بولتا تو فکر نہ کر، اب رمضان مالی تیرا دوست ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا لطیف یار! تو یہ بتا تُو ساری رات کیا کرتا رہتا ہے اور اسکول میں ہے ہی کیا جو کوئی چوری کرنے آئے گا! بہت کچھ ہے اسکول میں کمپیوٹر ہیں اور … میں نے اسے بتایا۔ تو کہنے لگا: بس، بس کمپیوٹر کو کسی نے کیا کرنا ہے اور سلیٹی کون چوری کرے گا پاگلا! بس خواہ مخواہ کی چوکی داری تُو ساری رات پڑا سوتا رہتا ہوگا، اسی سے تیری عادت خراب ہوگئی ہے، چل اب فیصلہ کرلے چوکی داری نہیں کرنی، ہنر سیکھنا ہے، اچھا تُو یہ بتا تیرے پاس سائیکل ہے؟ نہیں تو، سائیکل تو نہیں ہے میرے پاس، میں نے اسے بتایا۔
چل تیرا کام بن گیا، میرے پاس ایک پُرانی سائیکل ہے اس کا پچھلا پہیا خراب ہے، اسے ٹھیک کرا دیتا ہوں پھر دونوں بھائی روٹی روزی کی تلاش میں نکلیں گے، ٹھیک ہے ناں! پھر وہ اپنا کام کرنے لگا۔ میں سوچ رہا تھا کتنا اچھا ہے رمضان مالی، کتنا خوب صورت ہے۔ ابھی چند لمحے پہلے تو اس سے دوستی ہوئی ہے اور وہ اپنا سب کچھ مجھے دینے پر تیار ہوگیا ہے، صرف چار جماعت پاس رمضان مالی اور ہم … میں بہت دُور نکل گیا تھا کہ اس کی آواز آئی: اور لطیف بھائی، تُو بہت نکمّا آدمی ہے، یار تین آوازیں دے چکا ہوں، تُو سنتا ہی نہیں ہے، تُو بہت بے وقوف بندہ ہے۔ او جَھلیا! سوچنے سے کیا ہوتا ہے؟ کرنے سے ہوتا ہے، مجھے دیکھ صبح سویرے نکلتا ہوں اﷲ جی کو یاد کرکے، سائیکل پر بیٹھ کر بڑے بڑے صاحب لوگوں کے گھر جاتا ہوں، پودوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں، اﷲ جی نے کرم کیا ہے بہت، وہاں چائے بسکٹ بھی ملتا ہے، دس بیس پچاس روپے بھی جیب میں آجاتے ہیں۔
پودوں میں زندگی گزرگئی میری۔ میں نے پوچھا: یار تُو یہ کام کتنے عرصے سے کررہا ہے؟ او پاگلا! بچپن سے یہ کام کررہا ہوں۔ اس نے بتایا تو میں نے دریافت کیا: رمضان تُو ابھی تک تنگ نہیں پڑا اس کام سے؟ تو بتانے لگا: او بے وقوفا، جھلیا، تو واقعی فقیر بندہ لگتا ہے، کیوں تنگ ہوجاؤں! سچی بات بتاؤں لطیف بھائی، یار مجھے عشق ہوگیا ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا اور راز دارانہ انداز میں پوچھا، کس سے؟ اس کا جان دار قہقہہ گونجا اور کہنے لگا: اوئے پودوں سے، پُھولوں سے، اس مٹی سے اور کس سے۔ اور ایک بات بتاؤں، ان پُھولوں، پودوں اور مٹی کی وجہ سے مجھے بیٹے بھی ملے ہیں۔ میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا: بیٹے! تب اس نے مجھے بتایا تھا: ہاں بیٹے، تُو کیوں حیران ہورہا ہے۔ میں بتاتا ہوں، دیکھ میری شادی کو سات سال ہوگئے تھے۔ دو بیٹیاں ہوئیں، بیٹا نہیں ہوا، تو عزیزوں نے، دوستوں نے، بیلیوں نے بہت طعنے مارے کہ تیرا بیٹا نہیں ہوگا اس بیوی سے۔ چھوڑ دے اس بیوی کو، دوسری شادی کرلے۔
میں نے بہت سوچا، بہت سوچا، پاگل ہوگیا میں سوچ سوچ کر، پھر میں نے سوچا اس میں بیوی کا کیا قصور اگر بیٹا نہیں ہورہا تو! میری بیوی بھی بہت پریشان تھی تو میں نے اس سے بھی کہا کہ پریشان ہونا چھوڑ دے اس میں تیرا کیا دوش کہ بیٹا نہیں ہورہا تو، لیکن اس کی پریشانی بڑھتی ہی جا رہی تھی تو پھر ایک دن تو مجھے بہت غصہ آیا۔ طرح طرح کی باتیں سُن سُن کر میں بہت پریشان تھا۔ آخر میں نے کہا، آج کچھ بھی ہوجائے، اس مسئلے کو، اس کِل کِل کو ختم کرکے رہوں گا۔ وہ یہ بتا کر خاموش ہوگیا تو میں نے بے چینی سے پوچھا: کیا، کیا تم نے پھر رمضان۔ میں ہمہ تن گوش تھا تو بتانے لگا: او پاگلا، زیادہ اوکھا نہ ہو، سُن میں نے کیا کرنا تھا، غریب کا ایک ہی آسرا ہے، اﷲ جی اور کیا۔ وہ پھر خاموش ہوگیا تو میں نے دریافت کیا: کیا کہا تم نے اﷲ جی سے؟ وہ پھر سے رواں ہوا: میں نے کیا کہنا تھا، میں نہایا کپڑے پہنے اور ایک جگہ میں نے بہت سے پودے لگائے تھے وہاں جا پہنچا۔
میں نے وہاں جاکر نماز پڑھی اور اﷲ جی سے کہا: اﷲ جی! تُو تو سب دیکھ رہا ہے، تُو تو سب کچھ کرسکتا ہے ناں۔ میں ایک عاجز بندہ ہوں، دیکھ میں نے کتنے پودے لگائے ہیں۔ ہرے بھرے پودے، یہ دیکھ کتنا اچھا پودا ہے، اس پُھول کو دیکھ کتنا سوہنا ہے، سب توں سوہنے اﷲ جی! جب میں عاجز یہ سب کچھ کرسکتا ہوں، تو تُو مجھے ایک بیٹا کیوں نہیں دے سکتا۔ مجھے بھی ایک بیٹا دے۔ مجھے بھی ہرا بھرا کردے، تُو میرا اتنا سا کام بھی نہیں کرسکتا تُو تو سب کرسکتا ہے ناں۔ تو پھر کردے یہ کام بھی، دیکھ تُونے یہ کام نہ کیا تو مجھے غصہ آئے گا، بہت غصہ، غصے میں تو ہر کام خراب ہوجاتا ہے ناں، غصے میں تو سب کچھ خراب ہوجاتا ہے، تُونے ہی تو منع کیا ہے غصہ نہ کرو۔ اب اگر تُو چاہتا ہے کہ میں غصہ نہ کروں تو مجھے بھی بیٹا دے اور جلدی دے۔ پھر دیکھ میری بیوی بھی تو تیری مخلوق ہے اسے بھی نہ جانے کیا کچھ سننا پڑتا ہے تُو دیکھ تو رہا ہے ناں، ہمارا کیا قصور ہے اس میں، سن لے ہماری بھی۔ پھر میں بہت دیر تک وہاں بیٹھا رہا۔ اچھا اب میں جاؤں اﷲ جی، کیا تُونے میری دعا سن لی ہے؟ اگر سن لی ہے تو کوئی اشارہ دے۔ پھر میں مطمٔن ہوگیا کہ ہاں اﷲ جی نے میری دعا سُن لی ہے۔ میں نے گھر آکر اپنی بیوی سے کہا: او بھلی لوکے غم نہ کر، اﷲ جی نے ہماری سن لی ہے۔ میری بیوی نے حیران ہوکر پوچھا: کیا کہہ رہا ہے تُو رمضان، اﷲ جی نے کیا سن لیا۔ تو میں نے اسے پورے یقین سے بتایا: اوئے یہی کہ وہ ہمیں بیٹا دے گا، اچھا اب تُو غم فکر نہ کر، اپنا کام کر، میں بھی کام پر جارہا ہوں۔
پھر اچانک اس نے مجھ سے پوچھا: یار لطیف تو ڈرائیوری جانتا ہے؟ ہاں کیوں نہیں، میرے پاس تو لائسنس بھی ہے، میں نے کہا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور مجھے کوسنے لگا: بہت ہی بے وقوف ہے تُو۔ یار تُو بڑا ہی نکما ہے۔ لائسنس تیرے پاس ہے اور کررہا ہے چوکی داری! لیکن تو اب سُن لے اب تو چوکی داری نہیں کرے گا، سمجھا، بالکل بھی نہیں کرے گا۔ بس تُو اب مالی بھی نہیں بنے گا۔ میرا کام آسان ہوگیا، تُو ابھی اور اسی وقت اپنے لائسنس کی نقل میرے کو دے اور کل سے کام پر چڑھ جا۔ وہ میری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھا اور بس اپنی کہے جارہا تھا: اور میں تیری کوئی گل بھی سننے کو تیار نہیں ہوں، اب جو میں کہوں گا تُو وہ کرے گا، تُو یہ بتا پیجارو چلالے گا؟ پیجارو کیا میں تو بس بھی چلالوں گا، میں نے اسے بتایا تو وہ میرے سر ہوگیا: اوئے ہوئے، بالکل بے کار بندہ ہے تُو۔ ابھی نقل لا کل ہی کام شروع۔ میں آج صبح ایک بنگلے پر کام کے لیے گیا تھا، تو دو میڈمیں باتیں کررہی تھیں۔
پیجارو کے لیے ڈرائیور چاہیے۔ پس میں یہ کام ختم کرکے ابھی جاتا ہوں۔ سمجھ لے تیرا کام ہوگیا، آٹھ ہزار سے کیا کم تن خواہ ہوگی۔ پھر کھانا پینا، سیر سپاٹا مفت میں، مزے ہی مزے۔ مجھے تجسس نے پُوری طرح گھیر لیا تھا تو میں نے کہا: اچھا لائسنس کی نقل تو میں تجھے دے دوں گا، یہ بتا پھر بیٹے کا کیا بنا؟ تب وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا: تو لطیف بھائی، بننا کیا سی، بیٹا ہوگیا اور کیا، سب کے منہ بند ہوگئے، دیکھ یہ بندے کا وعدہ تھوڑی ہے جو ٹرخادے، یہ اﷲ جی کا وعدہ ہے، اﷲ جی نے کہا ہے، مانگ بندے مانگ، جی بھر کے مانگ ، میرے خزانے میں کیا کمی ہے، تُو تو ایک بیٹا مانگ رہا ہے ، میں دو دوں گا۔ تو کیا تمہارے دو بیٹے ہیں، میں نے پوچھا۔ اور کیا ، دو بیٹے ہیں، اوئے اپنی تو گڈی چڑھ گئی، ویریوں کے منہ پر خاک پڑگئی۔
وہ اپنے رب سے تعلق کو بیان کرتے ہوئے ہنستا ہے، مُسکراتا ہے، بڑا مان ہے اسے اپنے تعلق پر، کتنا اچھا لگتا ہے وہ اﷲ جی کہتا ہوا، اپنی گُفت گُو میں وہ بار بار یہ کہتا ہے: سوہنے اﷲ جی نے میری سُن لی، میرا سوہنا اﷲ جی، میرا پیارا اﷲ جی۔ میں نے اسے کبھی رنجیدہ نہیں دیکھا، رنجیدہ ہو بھی کیوں؟ وہ اپنے رب کی رضا میں راضی ہے۔ ایک دن اپنی ترنگ میں تھا، کہنے لگا: لطیف بھائی! ایک دن مجھے ڈیڑھ سو روپے زیادہ مل گئے تو میں نے اﷲ جی سے کہا: واہ میرے مالکا، آج تو تُونے خوش کردیا، اوئے ڈیڑھ سو روپے زیادہ، واہ واہ میرے مولا خوش کردِتّا۔ نہ جانے اس طرح کی کتنی ہی باتیں اور ہر بات میں شُکر ہے مالکا، تیرا بڑا ہی شُکر ہے۔ اسے جب بھی کسی شے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اسی وقت کہتا ہے۔ اﷲ جی یہ تو تُو کرے گا میرا کام۔ وہ اکثر کہتا ہے: میرے سوہنے اﷲ جی نے کبھی میری بات نہیں ٹالی، کبھی بھی نہیں، بس دیر سویر ہوجاتی ہے وہ تو ہونی بھی چاہیے۔
کیا بات ہے رمضان مالی کی، کبھی ہم بھی سوچتے ہیں، کتنی آسائشیں ملی ہوئی ہیں ہمیں، کیا ہمارا اﷲ جی سے ایسا تعلق ہے جیسا رمضان مالی کا ؟ تھوڑی سی تکلیف آتی ہے اور ہماری سانس پھول جاتی ہے، ہائے مرگئے، برباد ہوگئے، تباہ ہوگئے، ہم ہی ملے تھے کیا اسے۔ ہم روز یہ سنتے ہیں۔ رمضان مالی تو کہتا ہے اﷲ جی اس کی کوئی بات نہیں ٹالتا، کتنے ہی بوجھ اٹھا کر ہم گھوم رہے ہیں، اتار کیوں نہیں دیتے اس بوجھ کو، کہہ کیوں نہیں دیتے اﷲ جی کو۔ دل کھول کے کیوں نہیں رکھ دیتے اس کے آگے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے (میرے منہ میں خاک) ہمیں اﷲ جی پر اعتبار نہیں رہا؟ چلیے آج ہم کچھ لمحات ضرور نکالیں گے کہ ہمارا اﷲ جی کا رابطہ کیسے بحال ہو۔ کیسے، سوچیے گا پھر فقیر کو بھی بتائیے گا۔ لیکن ذرا سا ٹھہریے! بس ذرا سا دم لیجیے۔ کیا ہمیں رونا آتا ہے، اﷲ جی کے سامنے رونا؟ مجھے اس سوال کا جواب نہیں معلوم مجھے تو بہت سارے سوالات کے جوابات نہیں آتے۔ دیکھیے مجھے بابا واصف علی واصف یاد آرہے ہیں، کہہ رہے تھے: ’’آنسو کیا ہے؟ بس موتی ہیں، چمکنے والے بہنے والے، گرم آنسو انسان کی فریاد ہیں۔ پرانی یادوں کے ترجمان ہیں۔ یہ آنسو انمول خزانہ ہیں، معصوم و پاکیزہ مستور دوشیزہ کے حُسن سے زیادہ حسین اور یہ خزانہ کم زور کی قوت ہے، دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے والا آب حیات کا سرچشمہ، سعادتوں کا سرچشمہ ، آرزوؤں کے صحرا میں نخلستانوں کا مژدہ، آنسو تنہائی کا ساتھی، دعاؤں کی قبولیت کی نوید، انسان کے پاس ایسی متاع بے بہا ہے جو اسے دیدہ وری کی منزل عطا کرتی ہے، یہ موتی بڑے انمول ہیں، یہ خزانہ بڑا گراں مایہ ہے، یہ تحفہ فطرت کا نادر عطیہ ہے، تقرب الٰہی کے راستوں پر چراغاں کرنے والے موتی انسان کے آنسو ہیں۔‘‘
کیا آپ اب بھی فقیر سے دریافت کریں گے کہ صاحبِ دعا کسے کہتے ہیں!
The post جہاں گشت ؛ پُھول، پودوں اور مٹی کی وجہ سے مجھے بیٹے بھی ملے ہیں ۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.