کمپیوٹنگ ڈیوائسز چاہے وہ ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر ہو یا لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ ہو یا اسمارٹ فون، ہم چاہتے ہیں کہ یہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں دیا گیا ہر حکم بجالائیں۔
ہماری خواہش ہوتی ہے کہ پلک جھپکنے کے مساوی ساعت میں ہماری دی گئی ہر کمانڈ کی تکمیل ہوجائے۔ ایسا ہوتا بھی ہے۔ بہت سے کام یہ کمپیوٹنگ ڈیوائسز سیکنڈوں میں انجام دے دیتی ہیں۔ پھر بھی کچھ ایسے کام ہیں جن کی تعمیل میں وقت لگتا ہے جیسے بھاری ملٹی میڈیا فائلز کی ڈاؤن لوڈنگ۔ ماضی کی نسبت دورحاضر کی کمپیوٹنگ ڈیوائسز بے حد تیزرفتار ہیں مگر تیز سے تیز تر ڈیوائسز کی خواہش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی بلکہ یہ خواہش شدید ہوتی چلی جارہی ہے جس کی تکمیل کے لیے طاقت وَر پروسیسرز اور ٹیکنالوجیز وضع کرنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
جب سے کمپیوٹر کی تمام خصوصیات سیل فون میں سمائی ہیں، یہ آلہ دیگر تمام کمپیوٹنگ ڈیوائسز پر بازی لے گیا ہے۔ اب صارفین کے ساتھ ساتھ ماہرین کی توجہ کا مرکز بھی اسمارٹ فون اور سیلولر ٹیکنالوجی ہے۔ اب مقابلہ تیز تر اسمارٹ فون پیش کرنے اور سیلولر ٹیکنالوجی کو بہتر سے بہتر کرنے کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیلولر ٹیکنالوجی1G، 2G، 3G اور 4G سے گزرتی ہوئی اب 5G کے نئے اور حیران کُن دور میں داخل ہونے کے لیے پر تول رہی ہے۔
سیلولر ٹیکنالوجی کی پانچویں نسل (ففتھ جنریشن) سے آئندہ برس آپ مستفید ہورہے ہوں گے۔ یہ ٹیکنالوجی کس قدر تیز ہوگی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی ڈاؤن لوڈنگ اسپیڈ 1 گیگابائٹ فی سیکنڈ ہوگی۔ یعنی آپ پوری فلم محض ایک سیکنڈ میں ڈاؤن لوڈ کرسکیں گے! 4G استعمال کرتے ہوئے مشینوں کے درمیان رابطے میں 50 ملی سیکنڈ کی تاخیر ہوتی ہے تاہم 5G میں یہ وقفہ کم ہوکر محض 1 ملی سیکنڈ پر آجائے گا، جس کا مطلب ہے کہ انٹرنیٹ سے منسلک مشینوں کے درمیان رابطہ کاری سہل اور آسان تر ہوجائے گی۔ یہ تفصیلات جان کر اگر آپ کے ذہن میں ٹرمینیٹر سیریز کی فلموں میں دکھائے گئے اسکائی نیٹ کا تصور آگیا ہے تو آپ غلط نہیں ہیں۔
5G سیلولر ٹیکنالوجی کی یہ حیران کُن رفتار ان موجوں کی رہین منت ہے جو ملی میٹر ویوز ( MMW ) کہلاتی ہیں۔ یہ ریڈیو سگنلز ہیں جن کا تعدد یا فریکوئنسی 30 اور 300 گیگاہرٹز کے درمیان ہوتی ہے۔ جہاں ان موجوں کے بلند فریکونسی بینڈز کی گنجائش بہت وسیع ہوتی ہے وہیں کم طول موج کی وجہ سے ان کی رینج بھی محدود ہوتی چلی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمارتیں، گاڑیاں، ہوائی جہاز اور درخت وغیرہ ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ماہرین نے اس مسئلے کا حل ’’ اسمال سیل انٹینا‘‘ کی صورت میں تلاش کیا۔ دو اسمال سیل انٹینا کا درمیانی فاصلے 4G انٹینا کے باہمی فاصلے سے کم ہوتا ہے۔ یہ انٹینے 500 فٹ کے فاصلے سے لگائے جاتے ہیں۔
ایک تحقیقی فرم کی اسٹڈی کے مطابق 2017ء کے اختتام تک امریکا میں 4G کے 320000 سیل انٹینا تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 5G کے لیے 769000اسمال سیل انٹینا درکار ہوں گے۔ اسمال سیل انٹینا کی اونچائی 4 فٹ ہوتی ہے اور بعض انٹینا کی جسامت ایک بڑے ریفریجریٹر کے مساوی بھی ہوتی ہے۔ سیل فون آپریٹرز اسمال سیل انٹینا کو بجلی، ٹیلی فون بجلی وغیرہ کے کھمبوں کے ساتھ باندھ دیتے ہیں یا پھر زمین میں نصب کرتے ہیں۔ بعض اوقات انھیں میل باکس کی شکل بھی دے دی جاتی ہے۔
امریکا میں ان دنوں اسمال سیل انٹینا کے انسانی صحت پر مضر اثرات پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ امریکی ریاست اوریگون کے سٹی آف پورٹ لینڈ میں جگہ جگہ نصب ان انٹینا کو شہر میں آشوب چشم پھیلنے کی وجہ قرار دے دیا گیا ہے۔ سٹی آف پورٹ لینڈ میں آشوب چشم کے پھیلاؤ کے مبینہ طور پر ذمے دار ہونے سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ کیا یہ انٹینا حقیقتاً محفوظ ہیں؟ 5G موجیں انتہائی بلند فریکوئنسی اور شدت کی حامل ہیں۔ جہاں 1G، 2G، 3G اور 4Gموجوں کی فریکوئنسی 1 سے 5 گیگا ہرٹز تک ہوتی ہے وہیں 5G موجیں 24 سے 90گیگاہرٹز کی درمیانی فریکوئنسی سے کام لیتی ہیں۔
ریڈیو فریکوئنسی تابکاری، قانون مربع معکوس ( inverse-square law) کی پیروی کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے قریب موجود تابکار موجوں کے مآخذ فاصلے پر موجود مآخذ کے مقابلے میں انسانی صحت کے لیے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تابکار موجوں کی زد میں رہنے کی مدت بھی ایک اہم مسئلہ ہے، اور یہ اسمال سیل انٹینا ہفتے میں سات دن اور چوبیس گھنٹے فعال رہیں گے۔
9 جون 2017ء کو سائنس دانوں کے ایک گروپ نے امریکی وفاقی کمیونی کیشنز کمیشن ( FCC ) کو خط لکھا تھا۔ خط میں کمیشن سے کہا گیا تھا کہ ففتھ جنریشن وائرلیس انفرا اسٹرکچر بچھانے سے پہلے آبادی کی صحت اور تحفظ پر اس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ خط میں مزید لکھا گیا تھا کہ ملک میں انفرااسٹرکچر کی تنصیب ان بڑھتے ہوئے سائنسی شواہد پر توجہ دیے بغیر کی جارہی ہے جن میں یہ رپورٹیں بھی شامل ہیں کہ وائرلیس مآخذ سے خارج ہونے والی موجیں ممکنہ طور پر سرطان اور دماغی امراض کی شرح میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ متعدد حالیہ سائنسی مطبوعات ظاہر کرتی ہیں کہ برقی اور برقناطیسی میدان ( EMF) جان دار اجسام پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان اثرات میں سرطان کا بڑھتا ہوا خطرہ، جینیاتی بگاڑ، نظام تولید میں ساختی اور فعلی تبدیلیاں، یادداشت کی خرابی اور دماغی امراض کا لاحق ہوجانا شامل ہیں۔
5G تابکار موجیں مائیکروویو اوون میں کھانا پکانے میں استعمال ہونے والی شعاعوں سے مشابہ ہیں۔ اسی بنیاد پر 2016ء میں یروشلم میں واقع ہبرو یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر ییل اسٹین نے ایف سی سی کمشنرز، امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے صحت، تعلیم، لیبر و پینشن، سینیٹ کمیٹی برائے کامرس، سائنس اینڈ ٹرانسپورٹیشن کو مکتوب لکھا تھا جس میں انسانی جلد پر 5G تابکاری کے اثرات کا اجمالی احاطہ کیا گیا تھا۔ ڈاکٹراسٹین کے مطابق جلد کی بیرونی پرت ( epidermis ) اور نچلی پرت (dermis) 90 فیصد سے زائد مائیکروویو تابکاری جذب کرتی ہے۔ ہماری جلد میں موجود پسینہ خارج کرنے والی نالیاں مرغولہ دار انٹینا (helical antennas ) کے طور پر عمل کرتی ہیں۔ یہ انٹینا برقی مقناطیسی میدان میں آجانے کے بعد ردعمل ظاہر کرتے ہیں چناں چہ ہمارا جسم 5G تابکار موجیں جذب کرے گا اور ان موجوں کا بچوں، حاملہ خواتین اور بالغ افراد پر کیا اثر ہوگا یہ فی الوقت نامعلوم ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے پاس ایک دفاعی ہتھیار موجود ہے جو Active Denial System کہلاتا ہے۔ یہ ہتھیار ملی میٹر ویوز کا استعمال کرتے ہوئے انسانی جلد پر شدید جلن کا احساس پیدا کرتا ہے۔ زیادہ شدت کے ساتھ چلانے پر اس دفاعی نظام سے کسی انسان کو اسی طرح سینک کر موت کے گھاٹ بھی اتارا جاسکتا ہے جیسے مائیکروویو اوون میں کھانا گرم ہوتا ہے۔ یہ دفاعی نظام ظاہر کرتا ہے کہ ملی میٹر ویوز انسانی صحت کے لیے خطرناک ہوسکتی ہیں۔
یو ایس نیشنل ٹوکسیکولوجی پروگرام کی ایک تحقیق، جس کا ذرائع ابلاغ میں چرچا رہا تھا، کے دوران چوہوں کو دن میں نو گھنٹے تک ریڈیو فریکوئنسی ریڈی ایشن میں رکھا جاتا رہا۔ دو سال کے بعد ان کے دماغ اور دل میں نادر قسم کی رسولیاں بن گئیں۔ اس تحقیق کے بعد امریکن کینسر سوسائٹی تابکاری اور کینسر سے متعلق اپنے موقف پر نظرثانی پر مجبور ہوگئی۔ سوسائٹی نے کہا کہ انسانی صحت پر ریڈیو فریکوئنسی ریڈی ایشن کے اثرات کے بارے میں اس کی موجودہ تفہیم اتنی ہی نامکمل ہے جتنی ماضی میں تمباکونشی اور پھیپھڑوں کے سرطان کے باہمی تعلق کے ضمن میں تھی۔
انسانی صحت پر تابکار موجوں کے اثرات سے قطع نظر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نئے 5G سیل فون نیٹ ورک کے بارے میں بے حد پُرجوش ہیں۔ اس نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں انھوں نے کہا تھا،’’5G موجودہ 4G سیلولرنیٹ ورک سے سو گنا زیادہ تیز ہوگی۔ یہ ہمارے شہریوں کے کام کرنے، سیکھنے، ابلاغ و رابطہ کاری اور سفر کرنے کے انداز کو بدل دے گی۔ یہ ٹیکنالوجی امریکا کے کھیتوں کو مزید زرخیز، اشیاء سازی کو بہتر بنائے گی اور صحت کے شعبے کو مزید بہتر بنادے گی۔ یہ حیران کُن ٹیکنالوجی ہے جو بے شمار ایسی چیزیں ممکن بنادے گی جو اب تک ناممکن سمجھی جاتی رہی ہیں۔ ‘‘
انسانی صحت پر 5G کے اثرات کی بحث سے قطع نظر ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیاں 5G نظام کی تنصیب کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اس ٹیکنالوجی کی راہ میں آنے والی قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے لابنگ فرموں کی خدمات بھی حاصل کررکھی ہیں جو ان کے لیے امریکی کانگریس میں لابنگ کررہی ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی کانگریس میں 5G کے انسانی صحت پر اثرات اور اس ٹیکنالوجی سے جُڑے دیگر معاملات پر کئی بل زیرغور ہیں۔
The post 5G سیلولر ٹیکنالوجی کیا انسانی صحت کے لیے مُضرہوگی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.