جیسے ہی ریڈیو پاکستان پر رمضان کے چاند کا اعلان ہوا، ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی سب لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے۔ بزرگوں نے بچوں کو پیار اور دعائیں دیں یہ وہ زمانہ تھا کہ جب موبائل فون کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔
ٹیلی فون بھی اکاّدکا گھرانوں میں لگے ہوئے، تمام سرکاری ونیم سرکاری دفاتر میں بھی یہ سہولت عام نہ تھی۔ پی ٹی وی کا آغاز ہی نہیں ہوا تھا۔ پاکستان قائم ہونے سے لیکر 1977 ء تک لاہور میں یہی مناظر نظر آتے تھے۔1965 ء میں جب پی ٹی وی کا آغاز ہوا تو ٹیلی ویژن پر بھی چاند نظر آنے کی خبر نشر کی جانے لگی، ایک ہی چینل ہوتا تھا۔ موجودہ دوَر کی طرح چینلوں کی بہتات نہ تھی نہ ہی بریکنگ نیوز کا رواج تھا، جو لوگ پاس ہوتے وہ ایک دوسرے کومبارک باد دیتے،جن کے عزیز رشتہ داردور ہوتے وہ انھیں یاد کرکے اداس ہو جاتے۔
چاند نظر آتے ہی مساجد میں نقارہ (نوبت) بجا کر گویا اعلان کردیا جاتا۔کہیں کہیں سے سائرن کی آواز بھی آنے لگتی۔ بازاروں میں چہل پہل شروع ہو جاتی، محلے کی کریانے کی دوکانوں پر رش ہو جاتا، اس زمانے میں بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور بھی نہیں ہوتے تھے، اس زمانے میں ابھی کلو کا پیمانہ متعارف نہیں ہوا تھا۔ چھٹانک، سیر اور پاؤ کا حساب کتاب ہوتا تھا۔ کھانے کا آئل بھی نہیں ہوتا تھا، دیسی گھی اور بناسپتی گھی ہوتا تھا، لوگ عموماً دیسی گھی ہی خریدتے تھے، بناسپتی گھی بہت ہی کم فروخت ہوتا تھا، لوگ چھپ چھپا کر یہ گھی خریدتے تھے کہ اسے مصنوعی گھی قرار دیا جاتا تھا ۔
پیکنگ میں اشیاء دستیاب نہیں ہوتی تھیں ۔ پرچون فروش اپنے ترازو پر ایک ایک چیز کرکے تولتے تھے، پرچون فروشوں نے اپنے سامنے دس بارہ کھلے مُنہ کے کنستر رکھے ہوتے تھے جن میں اشیائے خورونوش بھری ہوتی تھیں۔ لوگوں کے پاس آج کی طرح پیسے کی بہتات نہ ہوتی تھی۔ زیادہ تر گھرانے روزمرہ کا سودا خریدتے تھے۔ مگر رمضان کی آمد پر چھٹانک، آدھ پاؤ کی بجائے سیر یا سواسیر کے حسا ب سے اشیاء خریدی جاتی تھیں۔ پورا رمضان خریداری کا یہی طریقہ چلتا تھا۔
خواتین چاند نظرآنے کی اطلاع مِلتے ہی سحری کی تیاری شروع کردیتیں،اُس زمانے میں فریج بھی بہت ہی کم ہوتے تھے،کھانے پینے کی اشیاء کو زیادہ دیر رکھنے کا کوئی طریقہ کار نہیں تھا۔ اگر کچھ کھانا بچ جاتا تو وہ باسی ہی ہو جاتا تھا۔ گرمیوں میں تو اور بھی مشکل ہوتی، سحری کا وقت شروع ہوتے ہی ’’کنستر‘‘ پیٹنے والے اور ڈھول والے گلیوں اور بازاروں میں پھیل جاتے وہ ہر دروازے پر اسوقت تک کنستر یا ڈھول بجاتے کہ جب تک اہل خانہ اپنے جاگنے کا اعلان نہ کردیتے، پھر نعت خوانوں کی ٹولیاں گلیوں اور بازاروں میں نِکل آتی تھیں، وہ خوش الہانی سے نعت گوئی کرتے، ان کی نعت گوئی سے شہر میں عجیب سا سماں بندھ جاتا۔ فضا میں تقدس کا احساس ہوتا،ایک دم فضا بدلی ہوئی نظر آتی شہریوں کی زندگیوں میں بھی ایک تبدیلی آجاتی ،لوگ گناہ سے بچنے کا عہد کرتے، اور اپنی زندگیوں میں پاکیزگی کا رنگ بھر دیتے۔
اُس زمانے میں لاہور کی آبادی نہایت محدود تھی، نئی آبادیوں کا وجود نہ تھا، ماڈل ٹاؤن کو بھی لاہور سے باہر سمجھا جاتا تھا۔ سمن آباد اور شادمان کو لاہور کی جدید آبادی سمجھا جاتا اور اسے لاہور کا حصہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔اچھرہ کی آبادی معمولی سی تھی یہاں رہنے والے مال روڈ سے آگے جانے کیلئے جگہ کا نام لینے کی بجائے’’ شہر‘‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے یعنی یہ نہیں کہتے تھے کہ وہ گوالمنڈی یا موچی دروازہ وغیرہ جا رہے ہیں بلکہ یہ کہتے تھے کہ’’شہر‘‘جا رہے ہیں۔ اب تو لاہور شہر اِتنا پھیل چکا ہے کہ لاہور کے ’’مضافات‘‘اور قریبی قصبے بھی شہر کا ہی حصہ بن چکے ہیں۔
رمضان کا اعلان ہوتے ہی ریستوانواں اور کھانے پینے کی دکانوں کے آگے پردے لگادیئے جاتے تھے ۔اس زمانے میں ضیاء الحق کا رمضان آرڈینس نہیں آیا تھا چنانچہ ریستوران اور کھانے پینے کی دکانیں کھُلی رہتی تھیں مگر حیرت انگیز بات تھی کہ کھانے پینے کے ہوٹل اور دکانیں کھلی رہنے کے باوجود وہاں رش نہیں ہوتا۔ لوگ رمضان میں ہوٹلوں یا دکانوں پر جا کر کھا نا نہایت معیوب سمجھتے تھے، اکا دکا گاہک نظر آتا جو کہ کھانے پینے کا ساما ن لوگوں سے چھپ چھپا کر گھروں یا دکانوں میں لے کر جاتے تھے۔
احترام رمضان لوگوں کے دِلوں میں تھا ۔ لوگ اپنے طور پر زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کے چکر میں رہتے تھے۔ افطاری کے وقت لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں افطاری ضرور بھجواتے تھے۔ مسجدوں میں بھی کھجوریںوغیرہ بھجوائی جاتی تھیں،افطاری کا سامان عموماً سادہ ہی ہوتا تھا۔ مگر رزق حلال سے تیار کردہ سامان افطاری اور سحری کی اپنی ہی برکت اور ذائقہ ہوتا تھا۔ جیسے ہی افطاری کا وقت ہوتا مسجدوں سے نقارہ اور نوبت کی آوازیں بلند ہوتیں، اور فضا میں سائرن کی آوازیں بھی واضح طور پر سنائی دیتی تھیں ۔
لوگ ایک دوسرے کو خاص طور پر افطاری کیلئے بلُواتے تھے، زیادہ سے زیادہ افراد کو افطاری کروانا باعث اجّر وثواب سمجھا جاتا تھا ۔ افطاری کا سامان گھروں میں ہی تیار کیا جاتا تھا ۔ سموسوں،کچوریوں اور ایسی اشیاء کا رواج نہ تھا، فروٹ چاٹ اور دہی بھلے بھی دسترخوانوں کی زینت نہ بنتے تھے، نہ ہی رول پٹی اور چھوٹے سموسے استعمال کئے جاتے تھے۔ لوگوں کے دِل میں ایک دوسرے کا احساس ہوتا تھا ۔ روزہ اللہ ہی کیلئے رکھا جا تا تھا ۔ اور صرف فاقے یا ’’ڈائٹنگ‘‘کو روزہ نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ اس کی اصل روح کو سمجھا جاتا تھا ۔ سحری اور افطاری کا سامان رزقِ حلال سے ہی خریدا جاتا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو گالی دینے یا لڑنے جھگڑنے سے اجتناب کرتے۔ ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرتے، فلمیں دیکھنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا اس لئے رمضان المبارک میں سنیما گھروں میں بہت ہی کم افراد جاتے، موجودہ دور کی طرح چینلوں کی بہتات نہ تھی ۔ مساجد میں تراویح کا بھی خاص اہتمام کیا جا تا، آبادی کم ہونے کے باوجود بھی مساجد بھری رہتی تھیں۔
اس وقت لاہور کی آبادی تقریباً 20 لاکھ تھی ۔ پھر ضیاء الحق کی ’’خلافت‘‘ کا آغاز ہوا ۔ ملک بھر میں رمضان آرڈ یننس نافذ کردیا گیا کہ کھانے پینے کے تمام ہوٹل اور دکانوں کو افطاری سے قبل بند رکھنے کا حکم دیا گیا۔ صرف ہسپتال اور اسٹیشن اس حکم سے مستثنیٰ تھے۔ آج تک اس آرڈنیس پر عمل ہو رہا ہے، مگر فرق یہ ہے کہ پہلے لوگ دینی احکامات سمجھ کر اپنے تئیں رمضان کا احترام کرتے تھے اگر کوئی کسی مجبوری یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ پاتا تھا تو کم از کم روزے کا احترام ضرور کرتا تھا حتیٰ کہ قیام پاکستان سے قبل ہند و، سکھ اور عیسائی بھی رمضان کا احترام سمجھتے تھے۔ مگر جب سرکاری احکامات نازل ہوئے تو لوگوں کے دِلوں میں دینی احکامات کی پابندی اور حُرمت کا جذبہ ماند پڑگیا، سرکاری احکامات کا خوف غالب آگیا۔
گھروں اور بند دروازوں میں ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔ نیکی کا جذبہ صرف انسان کے اپنے اندر پیدا ہوتا ہے۔ مسلمان اللہ کے خوف سے اس کو حاضر وناظر جانتے ہوئے اسکی رضا کیلئے دین پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دین کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان تنہائی میں بھی گناہ سے بچے ہروقت نیکی کرنے کی کوشش کرے۔اپنی اولاد، مال، طاقت اور عہدے کو اللہ کی امانت اور آزمائش سمجھے ۔گناہ کے مواقع ہونے کے باوجود بھی صرف اللہ کے خوف اور ناراضگی کے ڈرکی وجہ سے گناہ سے دور رہے۔ روزے کا مفہوم ہی نفس کشی،کردار سازی، ایک دوسرے کا احساس، جذبہ قربانی اور ایثار ہے۔
قرآنی احکا مات کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ دینی احکا مات اور ریاستی قوانین میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ دینی معاملات میں صرف اللہ کی رضا اورخوشنودی کیلئے سب کچھ کیا جاتا ہے۔ عمل العباد اور حقوق اللہ کا خیال اسکی رضا کیلئے کیا جا تا ہے اور یہ تصور پُختہ ہوتا ہے کہ اللہ ہر قت دیکھ رہا ہے ، جبکہ ریاستی قوانین میں صرف یہ احساس ہوتا ہے کہ جرم کا ارتکاب اگر قانون کی نظر میں آگیا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے پکڑ لیں گے، اگر انکی مّٹھی گرم نہ کی گئی تو ایف آئی آر بھی کاٹ دیں گے۔ اسلامی معاشرے میں اسوقت دینی فضا نظر آتی ہے کہ جب لوگ اللہ کے خوف کی وجہ سے گناہ سے بچیں، خلوت اور جلوت میں بھی اللہ کو حاضر و ناظر سمجھیں ۔
اب دِور جدید میں ہر شے بدل چکی ہے، شام کے وقت سموسوں، کچوریوں ، چاٹ اور دہی بھلے کی دکان پر اس قدر رش ہوتا ہے کہ کتنی دیر باری نہیں آتی ۔ افطاری میں کئی اقسام کی چیزیں رکھی جاتی ہیں ۔ سموسے، کچوریا ں ، چکن رول، سبزی رول، بیکری کی اشیاء ،دہی بھلے، فروٹ چاٹ، کھجوریں اور مختلف انواع کے مشروبات ، اسی طرح سحری میں بھی اب دیسی گھی کے پراٹھوں کی بجائے بیکری کی اشیاء پر زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔
افطاریوں کا ماحول بھی بدل چکا ہے۔ پہلے ثواب کی نیت سے عزیزوں ، رشتہ داروں، محلہ داروں اور دوستوں کی افطاری کی جاتی تھی کہ روزہ کھلوانے کا اجر بھی روزہ رکھنے کے برابر ملتا ہے مگر اب سیاسی افطاریاں، صحافتی افطاریاں، فلمی افطاریاں، فنڈ ریزنگ افطاریاں،کاروباری افطاریا ں ، نمودنموئش والی افطاریاں اور سرکاری افطاریاں کروائی جاتی ہیں۔ ان افطاریوں میں عموماً بااثر شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے تاکہ کل کلاں ان سے فائدے حاصل کئے جا سکیں۔
زکوٰۃاد ا کرنے کا تصور بھی تبدیل ہو چکا ہے، پہلے اسلامی احکامات کے مطابق اپنے غریب رشتہ داروں، عزیزوں، محلہ داروں اور واقف کاروں کو اس طرح زکوٰۃادا کی جاتی تھی کہ ان کی عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہو اور انھیں ماہ صیام اور عید کیلئے مالی دشواریوں کا سامنا نہ ہو، اب تو زکواۃٰ کی ادائیگی کی بھی خوب نمودو نمائش کی جاتی ہے، گھروں کے باہر سینکڑوں افراد کا جم گھٹا لگا ہوتا ہے کئی گھنٹوں کھڑا رکھنے کے بعد فی کس 100/200 روپے ادا کئے جاتے ہیں ۔ متوسط طبقہ میں زکوٰۃکی رقم سے راشن پیکج خرید کر اپنی کام والیوں کو دیدیا جاتا ہے کہ وہ راشن کے لالچ میں زیادہ محنت سے کام کریں اور ساتھ ہی ان سے وعدہ لے لیا جا تا ہے کہ وہ عید پر چھٹی نہیں کریں گی۔ امیر طبقہ اپنے باقی ملازمین میں بھی زکوٰۃکی رقم بانٹ دیتا ہے، تاجر طبقہ اس طرح زکواۃٰ ادا کرتا ہے کہ انکا ٹیکس بچ جائے۔
رمضان میں نیکی اور عبادات کے متعلق مسلمانوں کیلئے یہ خوشخبری ہے کہ اس ماہ میںفرض عبادات کا اجر ستر گنا زیادہ ادا کیا جائے گا، نفلی عبادات کا اجر فرض عبادات کے برابر دیا جائے گا، چونکہ زکوٰۃفرض ہے اس لئے پاکستان کے زیادہ تر مسلمانوں کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ماہ رمضان میں زکوٰۃادا کی جائے، مستحق افراد تک زکوٰۃپہنچانے کی بجائے غیر مستحق افراد اور اداروں کو اس طرح زکوٰۃادا کی جاتی ہے کہ جیسے زکوٰۃسے ’’چھٹکارا ‘‘ حاصل کیا جارہا ہے۔ اسلام کے اس معاشی و اقتصادی نظام کو ہی فراموش کر دیا جاتا ہے کہ جس میں طبقاتی تفریق کم ہوتی ہے۔ مجبور اور بے بس افراد کی محرومیوں میں کمی ہوتی ہے، بے سہارا افراد کے مالی مسائل حل ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں غیر مسلم اپنے تہواروں پر اشیائے صرف کی قیمتوں میں نمایاں کمی کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں ماہ شعبان سے ہی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ تمام اشیاء کی قیمتوں میں کم از کم تیس سے ساٹھ فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں دوسو فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ حکومت رمضان پیکج کے نام پر اشیائے صرف پر سبسڈی دیتی ہے مگر پھر بھی قیمتیں رمضان سے پہلے کی قیمتوں سے بھی زیادہ رہتی ہیں، تاجر اور صنعتکار پہلے ہی اضافہ کردیتے ہیں۔
اس سال بھی پنجاب حکومت نے عوام کو سبسڈی دینے کیلئے 12ارب روپے کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب حکومت نے پنجاب میں 300 سستے رمضان بازار بھی لگوائے ہیں۔ 200 دسترخوان بھی لگائے گئے ہیں، مگر اس کے باوجود قیمت خرید عوام کی برداشت سے باہر ہے۔
رمضان کا وہ تقدس ہی مفقود ہو چکا ہے کہ جو چند سال پہلے لاہور میں نظر آتا تھا۔ ثقافت مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ اب تو افطاری اور سحری کی نشریات کے دوران روزہ رکھا اور افطار کیا جا تا ہے۔ روزہ داروں کی توجہ دعاؤں کی بجائے چینلوں کے پروگرامز کی جانب ہوتی ہے۔ ٹی وی پروگرامز دیکھ کر روزہ گزارہ جاتا ہے۔ اب رمضان شریف میں وہ فضا اور تقدس نظر ہی نہیں آتا کہ جو ہر مسلمان کو اپنی زندگی بدلنے پر مجبور کردیتا تھا۔ مسلمان اس ماہ کو ریفریشر کورس کی مانند لیتے تھے کہ جس کا اثر وہ پورا سال محسوس کرتے تھے ۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ ماہ رمضان میں بھی اگر بندے کی بخشش نہ ہو سکے۔
The post ’’دیکھتے ہی دیکھتے مناظر بدل گئے‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.