وطن عزیز میں عام آدمی تو آٹے دال کے چکر میں پھنسا رہتا ہے، اچھے خاصے تعلیم یافتہ افراد کی فکر و معلومات بھی ذاتی یا جماعتی مفادات سے اوپر نہیں اٹھ پاتی۔
مثال کے طور پر پاکستان میں کم ہی لوگ اس زبردست عالمی جنگ کی ماہیت و نوعیت سے واقف ہیں جو دنیا کی دو سپر پاورز … چین اور امریکا کے مابین جاری ہے۔ اس جنگ کے باعث پاکستان بھی حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے کیونکہ وہ چین کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔
چین و امریکا کی جاری عالمی جنگ بعض عیاں عوامل رکھتی ہے۔ مثلاً دونوںممالک کی باہمی تجارت میں امریکا کو اربوں ڈالر کا خسارہ ہورہاہے۔ لہٰذا امریکی حکمران چینی درآمدات کم کر کے تجارتی خسارہ کم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے جب امریکا نے چینی درآمدات پر ٹیکس لگائے تو چین نے بھی امریکی اشیا پہ نئے ٹیکس ٹھونس دئیے۔ یوں دونوں طاقتوں کے مابین تجارتی جنگ چھڑ گئی جو عارضی طور پر التوا کا شکار ہے۔دوم دونوں سپر پاورز دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے دست و گریباں ہیں۔ چین کئی ممالک میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
اس سلسلے میں چینی حکومت کا ’’بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو‘‘ بین الاقوامی پروجیکٹ پاکستان سمیت تقریباً ستر ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ امریکا اس عظیم الشان منصوبے سے بہت خائف ہے۔ امریکی حکمرانوں کو یقین ہے کہ یہ منصوبہ کامیاب ہوا، تو خصوصاً ایشیا اور یورپ میں چین کا اثر و روسوخ کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔سوم بحیرہ جنوبی چین بھی مختلف ممالک کے مابین وجہ تنازع بنا ہوا ہے۔ اس سمندر میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ چین اس بحیرہ کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے لیکن امریکا اور اس کے حواری مثلاً جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان چینی دعویٰ کو درست نہیں سمجھتے۔ اسی لیے علاقے میں بحری جنگ ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
سائنس وٹیکنالوجیکا اہم محاذ
دنیاکی یہ دونوں سپر پاورز سائنس و ٹیکنالوجی کے محاذ پر بھی ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔پاکستانی اسی محاذ کی نوعیت سے کم واقف ہیں۔ حالانکہ یہی اہم ترین میدان جنگ ہے۔ وجہ یہ کہ جو بھی ملک سائنس وٹیکنالوجی میں مہارت پالے، وہ دنیا کی سرخیل طاقت بن جاتا ہے۔ماضی میں چین‘ یونان اور ہندوستان سائنس و ٹیکنالوجی کے مراکز رہے ہیں۔ نویں صدی سے چودھویں صدی عیسوی تک مسلمان عرب اسی شعبے میں سپر پاور رہے۔ ان کے بعد مغرب نے شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی کی کمان سنبھال لی۔
مگر اب چین دوبارہ اس شعبے کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔سال روا ں میں چین اپنے جی ڈی پی کا 2.5حصہ سائنس و ٹکنالوجی سے متعلق شعبہ جات اور سرگرمیوں پر خرچ کر رہا ہے۔ چین کا جی ڈی پی ( پی پی پی) عالمی مالیاتی اداروں کی رو سے 25 ہزار دو سو اڑتیس ارب ڈالر ہے۔ گویا چین شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی پر 2019ء میں چھ سو تیس ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کرے گا۔ اس رقم کی وسعت کا اندازہ یوں لگایئے کہ یہ پاکستان کے پچھلے کل بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ گویا چین پاکستان کے کل بجٹ سے زیادہ رقم اپنے شعبہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی و بہتری پر خرچ کر رہاہے۔ یہ دنیا بھر میں اس شعبے کا سب سے بڑا بجٹ بن چکا۔
امریکا کی شاطر چال
پیسے کی ریل پیل سے فائدہ اٹھا کر چین کی کمپنیاں جدید ترین سائنسی شعبوں… 5جی موبائل کمیونیکیشن اور مشینی یا مصنوعی ذہانت میں زبردست ترقی کر رہی ہیں۔ خاص طور پر چینی کمپنی ، ہواوے موبائل کمیونیکشن میں مستعمل آلات اور سازو سامان بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن چکی۔ مزید براں جنوبی کورین سام سنگ کے بعد یہی دنیا کی دوسری بڑی موبائل کمپنی بھی ہے۔ لیکن امریکی حکمرانوںکی نگاہ میں یہی اعزاز خار بن کر کھٹکنے لگا۔ وجہ یہ ہے کہ ہووائے 4جی اور 5جی استعمال کرنے والی موبائل نیٹ ورک کمپنیوںکے لیے بیشتر آلات تیار کرتی ہے۔ پچھلے سال امریکا اور اس کے حواری ممالک یعنی برطانیہ ‘کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو احساس ہوا کہ اگر ان کے ملکوں میں موبائل نیٹ ورکنگ کمپنیاں 5جی کمیونیکشن میں چینی ساختہ آلات و سامان استعمال کرنے لگیں‘ تو اس طرح چین کو اربوں ڈالر کامالی فائدہ پہنچے گا۔ یوں چین حقیقی معنوں میں معاشی دیو بن کر ابھر سکتا ہے۔
چین کو معاشی فوائد سے محروم کرنے کی خاطر امریکا نے یہ شوشا چھوڑ دیا کہ ہووائے اور چین کی دیگر کمپنیوں کے بنے موبائل نیٹ ورکنگ آلات میں جاسوسی کرنے والے پرزے بھی نصب ہوتے ہیں۔ ان پرزہ جات کی مدد سے چینی حکومت موبائل نیٹ ورک ڈیٹا میں موجود ہر ملک کے سرکاری و خفیہ راز جان سکتی ہے۔ اس مفروضے کی بنیاد پر امریکی حکومت نے نہ صرف اپنے ملک میں پابندی لگائی بلکہ دیگر ملکوں پر بھی دباؤ ڈالنے لگی کہ وہ اپنی موبائل نیٹ ورک کمپنیوں کو چینی ساختہ آلات و سامان استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔
چینی کمپنیوں کے خلاف مہم چلاتے ہوئے امریکی حکومت کی ایما پر ہی کینیڈا نے پچھلے سال ہواوے کی چیف آپریٹنگ آفیسر اور بانی ادارہ کی بیٹی‘ منگ وانزو کو گرفتار کرلیا۔ منگ پر الزام ہے کہ ایران پر عائد پابندیوں کے باوجود وہ ایرانی موبائل نیٹ ورکنگ کمپنیوں کو اپنی کمپنی کے آلات وغیرہ فراہم کرتی رہی ۔امریکا کے شدید دباؤ کی وجہ سے آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ جاپان‘ جنوبی کوریا اور فرانس کی حکومتیں اعلان کر چکیں کہ ان کی موبائل نیٹ ورکنگ کمپنیاں 5 جی ٹیکنالوجی اپناتے ہوئے چینی کمپنیوں کے ساختہ آلات و سامان استعمال نہیں کریں گی۔ جبکہ مستقبل میں برطانیہ‘ کینیڈا ،جرمنی اورنریندر مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر بھارتی حکمران بھی اسی قسم کا اعلان کر سکتے ہیں۔
چین کیوں نشانے پر؟
صورتحال سے واضح ہے کہ امریکا کسی صورت چین کو معاشی فوائد نہیں پہنچانا چاہتا۔ دوسرے امریکی حکمرانوں کو یقین تھا کہ اگر دنیا بھر کی موبائل نیٹ ورکنگ کمپنیاں چینی کمپنیوں کے ساختہ آلات استعمال کرنے لگیں، تو ان کا چین پر انحصار بڑھ جائے گا۔ یوں رفتہ رفتہ چین ان ملکوں میں زیادہ اثرورسوخ حاصل کرسکتا ہے۔ اس لیے بھی امریکی حکومت نے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ چینی کمپنیاں موبائل ٹیلی کمیونیکشز آلات میں جاسوسی کرنے والے پرزے بھی فٹ کرتی ہیں۔ حالانکہ یہ محض پروپیگنڈا اور غلط بات ہے۔ایک اور قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ امریکی حکمران چین کو سائنس و ٹیکنالوجی میں کمال مہارت رکھنے والا ملک بنتے نہیں دیکھ سکتے۔ خاص طور پر پچھلی ایک صدی سے امریکا ہی ٹیلی کمیونیکیشن سپرپاور بنا چلا آرہا ہے۔ پہلے پہل امریکیوں ہی نے ٹیلی گراف یا تار کے نظام کو ترقی دی۔ پھر گراہم بیل نے ٹیلی فون ایجاد کردیا۔ گراہم بیل ہی نے اے ٹی اینڈ ٹی کمپنی کی بنیاد رکھی جس کا شمار دنیا کی بڑی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں میں ہوتا ہے۔
امریکی حکومت کے ساتھ مگر مسئلہ یہ ہے کہ آج امریکا میں ایسی کوئی کمپنی نہیں رہی جو 5 جی نیٹ ورکس کے لیے درکار آلات وسیع پیمانے پہ بناتی اور خدمات (سروسز) فراہم کرتی ہو۔ حتیٰ کہ امریکی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں بہت سے آلات اور خدمات کے سلسلے میں چینی کمپنیوں کی محتاج ہیں۔ وہ مجبور ہیں کہ 5 جی نیٹ ورکس قائم کرنے کے لیے چینی کمپنیوں سے مدد لیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ چینی کمپنیوں کے آلات اور خدمات سستی ہیں جبکہ یورپی و امریکی کمپنیاں مہنگے داموں انہیں فروخت کرتی ہیں۔امریکا مگر جلدازجلد 5 جی ٹیکنالوجی کو اپنانا چاہتا ہے۔ وجہ یہ کہ یہ ٹیکنالوجی انسان کی روزمرہ زندگی میں انقلاب لاسکتی ہے۔ اس کے ذریعے بہت سے کام کرنا آسان ہوجائے گا۔ خاص طور پر 5 جی ٹیکنالوجی اور مشینی ذہانت کے اشتراک یا تال میل سے مشین اور انسان کے لیے ممکن ہوجائے گا کہ وہ باہم منسلک ہو کے بہت سے کام مشترکہ طور پر انجام دے سکیں۔ غرض 5 جی ٹیکنالوجی اور مشینی ذہانت کا ادغام ہر ملک کو اربوں ڈالر کا معاشی فائدہ پہنچاسکتا ہے۔
امریکہ کا سینٹر، راجر ویکر امریکی پارلیمنٹ (کانگریس) میں کامرس، سائنس اینڈ ٹرانسپورٹیشن کا سربراہ ہے۔ اس نے حال ہی میں بیان دیا ’’ یہ نہایت ضروری ہے کہ امریکہ 5جی ٹیکنالوجی کی دوڑ جیت لے۔ اگر وہ یہ ریس نہ جیت سکا، تو دنیائے ٹیکنالوجی میں اس کی اہمیت اور معاشی وقعت کم ہوجائے گی۔‘‘
چینی کمپنیوں کی خصوصیات
کچھ عرصہ قبل امریکی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں مثلاً اے ٹی اینڈ ٹی، ویریزن اور اسپرنٹ نے اعلان کیا کہ وہ دوست ممالک کی کمپنیوں کے ساتھ مل کر 5 جی ٹیکنالوجی کے آلات بنائیں گی۔ نیز خدمات بھی فراہم کی جائیں گی۔ ان دوست کمپنیوں میں نوکیا، ارکسن اور سام سنگ شامل ہیں۔ مسئلہ مگر یہی ہے کہ یورپی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے آلات و خدمات خاصی مہنگی ہیں۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ کیا امریکی عوام ان کمپنیوں کے آلات پر مبنی 5 جی نیٹ ورکس کی مہنگی سروسز قبول کرلیں گے؟ جبکہ انہیں یہ بھی علم ہوگا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں چینی کمپنیوں کے آلات پر مبنی 5جی نیٹ ورکس سستی خدمات لوگوں کو فراہم کررہے ہیں؟ اس صورت حال میں امریکی عوام اپنے حکمرانوں کو مجبور کرسکتے ہیں کہ وہ امریکی ٹیلی کمیونی کیشن مارکیٹ میں چینی کمپنیوں کو بھی آنے کی اجازت دے دیں۔ مقصد یہی ہوگا کہ 5جی نیٹ ورکس کی سروسز سستی ہوسکیں۔
ایک وقت تھا کہ چین میں تیار کردہ اشیا ناپائیدار اور جدت کے لحاظ سے گھٹیا سمجھی جاتی تھیں۔ مگر یہ زمانہ گزرگیا۔ اب چین میں اعلیٰ معیار کی اشیا بھی بن رہی ہیں جو ظاہر ہے کچھ مہنگی بھی ہوتی ہیں۔ چینی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیاں اپنے آلات اور سروسز کو اس لیے کم قیمت رکھنے پر کامیاب رہیں کیونکہ وہ انہیں وسیع پیمانے پہ تیار کرتی ہیں۔ اسی لیے پیداواری لاگت کم ہوجاتی ہے۔ صرف چین ہی میں کروڑوں لوگ ان کمپنیوں کی پیداوار سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لہٰذا وسیع پیمانے پر تیاری ہی نے چینی کمپنیوں کو یورپی و امریکی کمپنیوں پر یہ فوقیت دے ڈالی کہ وہ اپنی مصنوعات اور خدمات سستی رکھیں اور یوں عالمی منڈیوں میں اپنا حصہ بڑھالیں۔
چین کی ٹیلی کمیونی کیشن کی ایک نمایاں خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے منافع کا بڑا حصہ آر اینڈ ڈی (ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ) پر خرچ کرتی ہیں۔ اسی خوبی نے انہیں یہ سنہرا موقع عطا کردیا کہ وہ نہ صرف اپنی مصنوعات کو ٹیکنالوجی کے لحاظ سے بہتر بناسکیں بلکہ ہر سال نت نئی اشیا بھی مارکیٹ میں لے آئیں۔ یہی وجہ ہے، چینی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں ہر سال نہیں ہر مہینے ہمہ اقسام کے نئے آلات پیش کردیتی ہیں جو کارکردگی میں پچھلوں سے زیادہ عمدہ ہوتے ہیں۔
ڈیٹا کی طاقت
امریکا 5جی ٹیکنالوجی کے ضمن میں چین کے خلاف تیزی سے اس لیے بھی سرگرم ہوا کہ امریکی افواج چینی کمپنیوں کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھنے لگی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ 5جی ٹیکنالوجی مستقبل میں شعبہ جنگ وجدل میں بھی انقلابی تبدیلیاں لے آئے گی۔ حتیٰ کہ وہ فن حرب کی ماہیت و ہیت بھی بدل سکتی ہے۔یہ یاد رہے کہ 5جی ٹیکنالوجی اور مشینی ذہانت مل کر یہ انقلاب جنم دیں گی۔ مشینی ذہانت کی بنیاد ڈیٹا ہے، عظیم الشان ڈیٹا جو خصوصاً دنیائے انٹرنیٹ اور کمپیوٹروں وغیرہ میں موجود ہے۔ یہ ایسا طوطا ہے جس میں مشینی ذہانت کی روح حلول کرچکی۔ماہرین کی رو سے اس وقت دنیائے انٹرنیٹ میں تقریباً 3 زیٹابائٹس ڈیٹا جنم لے چکا۔ اس مقدار کی عظیم الشان وسعت سمجھنے کے لیے جانیے کہ 1024 گیگابائٹ مل کر 1 ٹیرا بائٹ بناتے ہیں۔ 1024 ٹیرا بائٹ ڈیٹا 1 پیٹا بائٹ کے برابر ہے۔ ایک ایکسا بائٹ 1024 پیٹا بائٹ کے برابر ہے جبکہ 1024 ایکسا بائٹ مل کر ایک زیٹا بائٹ تشکیل دیتے ہیں۔ اس وقت ہر ایک سیکنڈ میں دنیائے انٹرنیٹ پر 2 میگابائٹ نیا ڈیٹا جنم لے رہا ہے۔
یہی بے حساب اور لاتعداد ڈیٹا مشینی یا مصنوعی ذہانت کا ایندھن یا توانائی بن چکی۔ اس ڈیٹا کی مدد ہی سے مشنیی ذہانت اب ایسے کام کرنے لگی ہے جنہیں وہ پہلے انجام دینے سے قاصر تھی۔ 5جی ٹیکنالوجی اس عمل کو ممکن بنائے گی کہ مشینی ذہانت بے حساب ڈیٹا کو تیز رفتاری سے پروسیس کرسکے یعنی اپنے کام میں لاسکے۔ یوں وہ مطلوبہ تیزی سے اپنے کام انجام دے گی۔ڈیٹا کی بڑھتی اہمیت کے باعث ہی علم کا ایک نیا شعبہ ’’ڈیٹا سائنس‘‘ جنم لے چکا۔ اس شعبے میں ڈیٹا سے متعلق تمام امور کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ماہرین کی رو سے ڈیٹا اکیسویں صدی کا سونا ہے، نئی قسم کا پٹرول۔ جو ملک اس ڈیٹا پر کنٹرول کرنے کے قابل ہوگیا، وہ دنیا پر راج کرسکتا ہے۔
5جی کی بنیادی خصوصیت اس کا تیز رفتار ہونا ہے۔ فی الوقت 4جی میں ڈیٹا زیادہ سے زیادہ ایک گیگا بائٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتا ہے مگر 5جی کے ذریعے وہ دس تا بیس گیگا بائٹ کی رفتار سے سفر کرسکے گا۔ عام افراد کے لیے باعث مسّرت بات یہ ہے کہ وہ 5جی کی بدولت نیٹ سے من پسند فلم یا ویڈیو چند لمحوں میں ڈاؤن لوڈ کرلیں گے۔ مگر یہ ٹیکنالوجی بہت سے دیگر اہم اور بڑے فوائد رکھتی ہے۔
انٹرنیٹ آف تھنگس
ایک بڑا فائدہ یہی ہے کہ 5جی کی بدولت سینسروں (حساس آلات) روبوٹوں، مشینوں، کاروں وغیرہ کے وسیع نیٹ ورک کو باہم منسلک کرنا ممکن ہوجائے گا۔ یہ رابطہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے انجام پائے گا۔ ماہرین اسی رابطے کو ’’انٹرنیٹ آف تھنگس‘‘ (Internet Of Things)کا خطاب دے چکے۔ جب بھی اس عمل نے جنم لیا، ہم یہ حیرت انگیز منظر دیکھیں گے کہ ہمہ رنگ اشیا اور آلات انسان کی مداخلت کے بغیر ایک دوسرے سے ’’باتیں‘‘ کررہے ہیں۔ یہ رابطہ عظیم الشان ڈیٹا اور 5جی کے ذریعے ہی پیدا ہوگا۔
سائنس فکشن فلموں میں ہم یہ حیران کن مناظر دیکھتے ہیں کہ روبوٹ مالک کے لیے کھانا تیار کررہے ہیں۔ کارخانے میں مشینیں خود بخود مصنوعات تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک شہر میں بیٹھا ڈاکٹر کیمرے اور سکرین کی مدد سے دوسرے شہر میں آپریشن تھیٹر میں لیٹے مریض کا آپریشن کررہا ہے۔ فضا میں کاریں پرواز کررہی ہیں۔ لیکن مستقبل میں 5جی اور مصنوعی ذہانت کے ادغام سے درج بالا حیرت انگیز مناظر ہماری روزمرہ زندگی میں عام ہوجائیں گے۔
مستقبل کی جنگیں
یہی نہیں، مستقبل کی جنگ کو بھی 5جی اور مصنوعی ذہانت نیا رنگ و روپ عطا کریں گی۔ مثال کے طور پر تصّور کیجیے کہ پاک فوج کا ایک دستہ دوران جنگ جنگل میں موجود ہے۔ اس نے جنگل میں دشمن کی ایک چوکی تباہ کرنی ہے۔ دستے میں شامل فوجی سنبھل کر چلتے دشمن کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ہر فوجی کی کلائی سے ایک گھڑی بندھی ہے۔ وہ اسے جنگل میں موجود تمام ساتھیوں کی پوزیشن دکھا رہی ہے۔ چونکہ جنگل میں مصنوعی سیارے (سیٹلائٹ) کے ذریعے رابطہ نہیں ہوپاتا لہٰذا یہ کلائی گھڑیاں مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کررہی ہیں۔
اچانک دشمن نے فائرنگ کرکے پاک فوج کے ایک جوان کو زخمی کر ڈالا اور وہ بے ہوش ہوگیا۔ اس کے بدن سے مجموعی حالت پر نظر رکھنے والا آلہ نصب ہے۔ اس کے سینسر آلے کو بتاتے ہیں کہ فوجی بے ہوش ہوچکا۔ وہ آلہ فوراً حرکت میں آجاتا ہے۔آلے کے حکم پر فوجی کی زخمی ٹانگ کے گرد بیلٹ کسی جاتی ہے۔ وہ آلہ بدن میں ایڈرلین کا انجکشن لگاتا ہے تاکہ جوان جراثیم سے محفوظ رہے۔ پھر وہ فیلڈ ہسپتال اور بقیہ جوانوں کو سگنل بھیج کر انہیں زخمی کی حالت سے مطلع کرتا ہے۔
اپنی اپنی کلائی گھڑیوں پر سگنل موصول ہونے کے بعد تمام جوان اپنی پوزیشن واضح کرتے اور دشمن کا گھیراؤ کرنے لگتے ہیں۔ اسی دوران فیلڈ ہسپتال سے ایک ہیلی کاپٹر زخمی جوان کو لینے آپہنچتا ہے۔ جلد ہی خودکار طریقے سے چلنے والی بکتر بند گاڑیاں بھی دستے کی مدد کو آپہنچتی ہیں۔ ہر فوجی مخصوص آلات کی مدد سے وہ گاڑیاں چلاسکتا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد دشمن کی چوکی تباہ کردی جاتی ہے۔
اب ذرا مختلف منظر تصور میں لائیے۔کراچی میں دہشت گردوں نے ایک عمارت پر قبضہ کرکے وہاں موجود شہریوں کو یرغمال بنالیا۔ دہشت گرد پوری طرح مسلح ہیں۔ سکیورٹی ادارے اس عمارت میں ننھے منے بے آواز ڈرون داخل کردیتے ہیں۔ یہ ڈرون دہشت گردوں کی پوزیشن اور ان کی سرگرمیاں ریکارڈ کرتے ہیں۔ جب یہ کام انجام پاجائے، تو اسلحے سے لیس ڈرون کا کام شروع ہوتا ہے۔ یہ ڈرون کھڑکیوں یا کسی اور خلا کے راستے عمارت میں داخل ہوتے اور دہشت گردوں پر فائرنگ کرنے لگتے ہیں۔ زبردست مقابلے کے بعد تمام دہشت گرد ہلاک ہوجاتے ہیں۔
یہ کسی سائنس فکشن فلم کا منظر نہیں بلکہ امریکا، چین اور دیگر ممالک میں ایسے روبوٹ اور ڈرون تیار کیے جاچکے جو مختلف قسم کے ہتھیار استعمال کرنا جانتے ہیں۔ انہیں مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایجاد کیا گیا اور اب 5جی ٹیکنالوجی ان کی استعداد کار میں بے پناہ اضافہ کردے گی۔ اسی لیے 5جی مستقبل کی جنگوں کا منظر نامہ بدلنے کی صلاحیت و قدرت رکھتی ہے۔
5جی کی تیز رفتاری کے باعث دور دراز علاقوں میں بھی ممکن ہوجائے گا کہ مختلف سینسر اور روبوٹ باہم منسلک ہوجائیں۔ چناں چہ مستقبل میں گاڑیوں سے لے کر کارخانوں تک بہت سے کام مشینیں انجام دیں گی۔ میدان جنگ میں بھی روبوٹ اور ڈرون 5جی کی بدولت کنٹرول کرکے لڑائے جائیں گے۔ غرض جنگی نقطہ نظر سے بھی یہ ٹیکنالوجی بے پناہ اہمیت کی حامل بن چکی۔
امریکا کو خطرہ ہے کہ دنیا بھر میں 5جی ٹیکنالوجی پر چینی کمپنیوں نے اپنی اجارہ داری قائم کرلی، تو اس کی سپرمیسی کا سورج غروب ہوجائے گا۔ اسی لیے امریکی حکمران سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ 5جی ٹیکنالوجی پر چینی کمپنیوں کی اجارہ داری قائم نہ ہونے دیں۔
ڈیجیٹل ورلڈ آرڈر
چین کی حکومت مگر 5جی ٹیکنالوجی کی جنگ میں چینی کمپنیوں کو ہی فتح یاب ہوتا دیکھنا چاہے گی۔ وجہ یہ کہ معاشی، عسکری اور سیاسی طور پر طاقتور ہونے کے بعد چین سمجھتا ہے کہ امریکا کا ’’ورلڈ آرڈر‘‘ بنیادی طور پر اس کے خلاف ہے۔ اسی لیے امریکی حکومت خفیہ و عیاں طور پر کوشش کرتی ہے کہ چین کو خصوصاً معاشی فوائد حاصل نہ ہونے پائیں۔ چینی حکومت کی واضح پالیسی یہ ہے کہ ہر ممکن طور پر براہ راست تصادم سے گریز کیا جائے۔ لیکن اب چین بھی وقتاً فوقتاً خفیہ یا ظاہری طور پر امریکی حکمرانوں پر عیاں کرنے لگا ہے کہ وہ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی نہیں، مستقبل میں چین اپنا ورلڈ آرڈر لانے کی بھی سعی کرسکتا ہے۔
ماہرین نے چین کے مجوزہ عالمی آرڈر کو ’’ڈیجیٹل ورلڈ آرڈر‘‘ کا نام دیا ہے۔ وجہ یہ کہ چین مصنوعی ذہانت اور 5جی ٹیکنالوجی کے ذریعے اپنی قومی اور عالمی معیشت کو ڈیجٹائز کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو کے ذریعے ’’ڈیجیٹل شاہراہ ریشم‘‘ بھی تخلیق کررہا ہے۔
فائبر آپٹکس کیبلزکی اہمیت
5جی ٹیکنالوجی کا دارومدار فائبر آپٹکس کیبلز پر ہے جوزیر سمندر یا زمین پر پھیلی ہوئی ہیں۔انھی تاروں کے ذریعے اربوں کھربوں گیگابائٹ ڈیٹا پوری دنیا میں چکر کھا رہا ہے۔ مگر ان تاروں کی اکثریت امریکی و یورپی کمپنیوں کی ملکیت ہے۔ لہٰذا چینی حکومت ان کیبلز کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ اسے خوف ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ان کیبلز میں موجود چین کا قیمتی و خفیہ سرکاری ڈیٹا چرا کر مذموم مقاصد پورے کرنے میں استعمال کرسکتی ہے۔
یہی وجہ ہے، چینی حکومت بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو کے ذریعے مختلف ممالک میں جو شاہراہیں اور ریل پٹڑیاں تعمیر کررہی ہے تو اکثر جگہوں پر ان کے ساتھ ساتھ فائبر آپیکل کیبلز بھی بچھائی جارہی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ چین کو مستقبل میں امریکی و یورپی کمپنیوں کی ملکیت والی فائبر آپٹیکل کیبلز استعمال کرنے سے نجات مل جائے۔ جب بھی بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو منصوبے مکمل ہوئے، دنیا کے بہت بڑے علاقے میں چین کی فائبر آپٹیکل کیبلز کا نظام پھیل جائے گا۔
چین اور پاکستان کے تعاون سے پچھلے سال ’’پاک چائنا فائبر آپٹک پروجیکٹ‘‘ مکمل ہوچکا۔ اس منصوبے کے ذریعے درہ خنجراب سے راولپنڈی تک فائبر آپٹک تاریں بچھائی گئیں۔یہ تاریں ’’ٹرانسٹ یورپ۔ ایشیا ٹیرسٹریل کیبل نیٹ ورک ‘‘( Transit Europe-Asia Terrestrial Cable Network)سے منسلک ہیں۔ یہ نیٹ ورک جاپان سے لے کر چین، وسطی ایشیائی ممالک، روس اور یورپی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔
چین بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو کے ذریعے 70 تا 152 ممالک میں مختلف منصوبے تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ ان منصوبوں پر چھ تا آٹھ ٹریلین ڈالر خرچ آئے گا۔ ماہرین اسے انسانی تاریخ میں سرمایہ کاری کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیتے ہیں اور چین کا فائبر آپٹک نظام ان منصوبوں کے حامل تمام ممالک کو باہم منسلک کرنے میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔ اس طریقے سے چینی حکومت کو کئی فوائد حاصل ہوں گے۔
اول یہ کہ چین کواپنی منصوعات فروخت کرنے کی خاطر بہت بڑی منڈی مل جائے گی۔ دوسرے فائبر آپٹک نظام میں عموماً چینی کمپنیوں کے آلات اور خدمات استعمال ہوں گی۔ یوں چین کی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا بزنس ملے گا۔ تیسرے چین امریکی و یورپی فائبر آپٹک نظام کا محتاج نہیں رہے گا۔ چوتھے انشیٹیو میں شامل تمام ممالک میں چین کا اثرورسوخ کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو پر بڑا الزام یہ ہے کہ وہ ممالک کو مقروض بنا رہا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پروجیکٹ کی مدد سے کئی ملک اپنے دیرینہ مسائل حل کرنے میں کامیاب رہے۔ مثلاً پاکستان میں لوڈشیڈنگ ایک سنگین مسئلہ تھا۔ چین کی مدد سے بجلی گھر تعمیر کرکے مسئلے کی سنگینی کم کرنے میں مدد ملی۔
خوف کا شکار امریکی
امریکی حکمرانوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو کی کامیابی سے ایشیا، یورپ اور افریقا کے کئی ممالک کی منڈیوں پر رفتہ رفتہ امریکی کمپنیوں کا اثر ختم ہوجائے گا۔ یوں امریکا کو معاشی و تجارتی طور پر شدید نقصان پہنچے گا۔ اسی لیے امریکا اور اس کے حواری چین کے پروجیکٹ کو ناکام بنانے کی خاطر خفیہ و عیاں سازشیں کررہے ہیں۔ چین کی موبائل کمیونی کیشن کمپنیوں کے لیے مسائل کھڑے کرنا اور انہیں کاروبار کرنے سے روکنا انہی سازشوں کی کڑی ہے۔
چین بھی امریکا کی سازشوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ اسی لیے وہ خاموشی سے ایسے اقدامات کررہا ہے کہ مستقبل میں جنگ جنم لے، تو اس میں فتح یاب ٹھہرے۔
حال ہی میں خبر آئی کہ چین بڑی تعداد میں ہمہ اقسام کے میزائل تیار کررہا ہے۔ عسکری ماہرین کی رو سے میزائل کے شعبے میں چین دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن چکا۔اس رپورٹ کے مطابق اگر آج بحرالکاہل میں چین اور امریکا کی بحری افواج کے مابین جنگ چھڑجائے، تو چینی فوج کا پلہ بھاری رہے گا۔ وجہ یہ کہ چینی میزائل چھوڑ کر امریکا کے تمام طیارہ بردار جہاز اور مختلف جزائر میں واقع امریکی فضائی و بحری اڈے تباہ کردیں گے۔ یوں بحرالکاہل میں امریکی نہیں چینی فوج کا پلہ بھاری ہے۔
نایاب ارضی دھاتیں
مزید براں جتنی بھی اہم دھاتیں اور معدنیات ہیں، چین ہی سب سے زیادہ ان کے ذخائر رکھتا ہے۔ یہ دھاتیں اور معدنیات ہوائی جہازوں، گاڑیوں اور موبائلوں سے لے کر عام پرزہ جات کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔اس کے علاوہ جو دھاتیں ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں، ان کا ذخیرہ بھی چین ہی رکھتا ہے۔ ان میں نایاب ارضی دھاتیں (rare-earth elements)، اینٹی مونی، بستھ، وینڈیم، ٹنگسٹن، مولی بڈنیم، کوبالٹ اور میگنشیم نمایاں ہیں۔
بیدو نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم‘
اس کے ساتھ ساتھ چین کا ’’بیدو نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم‘‘ (BeiDou Navigation System)بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔یہ کل 35مصنوعی سیاروں پہ مشتمل ہے جن میں سے 33خلا میں چھوڑے جا چکے۔اگلے سال یہ نظام بھرپور طریقے سے کام کرنے لگے گا۔یوں چین کو پھر اپنے حریف،امریکا کے جی پی ایس(گلوبل پوزیشینگ سسٹم )کی ضرورت نہیں رہے گی۔5جی ٹکنالوجی کی کامیابی اور ڈیجٹل شاہراہ ریشم کی تعمیر کے لیے بی ڈی ایس(بیدو نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم)کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ضروری تھا۔اس کی مدد سے چین کو نہ صرف ’’پوزیشن،نیوی گیشن اور ٹائمنگ‘‘ (Position, Navigation, and Timing)کے امور انجام دینے میں آسانی ہو گی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا اثرورسوخ بڑھ جائے گا۔
بی ڈی ایس عوام کو مفت خدمات فراہم کرنے لگا ہے۔اس کے تحت عام افراد کو 10میٹر کی لوکیشن ٹریکنگ ایکوریسی میسر ہو گی۔جبکہ افواج کو10سینٹی میٹر کی لوکیشن ٹریکنگ ایکوریسی سہولت مل سکے گی۔اس وقت دنیا کی صرف دو فوجوں…چین اور پاکستان کی افواج بی ڈی ایس استعمال کر رہی ہیں۔بی ڈی ایس کی تکمیل سے پاک افواج کو بھی جی پی ایس سے زیادہ قابل اعتماد گلوبل پوزیشنگ سسٹم مل جائے گا اور وہ مخالف قوتوں کے نظام کی محتاج نہیں رہیں گی۔
The post دو سپر پاورز کے مابین جاری 5G کی سنسنی خیز جنگ appeared first on ایکسپریس اردو.