سری لنکا قدرت کا شاہ کار سری لنکا۔ خوابوں کی سرزمین، سر سبز و شاداب کھیتوں اور چائے کے باغات کا سری لنکا۔ اسی خطۂ جنّت نظیر کے امن پسند عوام پر ایک بھیانک جنگ مسلط کی گئی تھی، جو 23 جولائی 1983ء کو تامل ٹائیگرز کی جانب سے حکومت کے خلاف ایک متنازع بغاوت کی صورت میں سامنے آئی۔
اس بغاوت کا مقصد ملک کے شمال مشرق میں ایک آزاد تامل ریاست قائم کرنا تھا۔ یہ خانہ جنگی 26 سال جاری رہی اور آخر کار مئی 2009ء میں سری لنکا کی فوج نے تامل ٹائیگرز کو شکست دے دی، جس کے بعد یہ خانہ جنگی ختم ہوگئی۔ برسوں سے جاری جنگ کی وجہ سے ملک کی آبادی، ماحول اور معیشت نے خاصا نقصان اٹھایا اور اس دوران 80 ہزار سے زاید افراد ہلاک ہوئے۔
2013 میں حکومتی فورسز کے خلاف تامل ٹائیگرز کی کارروائیوں کی وجہ سے 32 ریاستوں نے تامل ٹائیگرز کو دہشت گرد کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا، ان ریاستوں میں امریکا، بھارت، کینیڈا اور یورپی یونین کے رکن ممالک شامل ہیں۔ سری لنکا کی حکومت نے اپنی معیشت کو بحال کرنے کے لیے سیاحت کو فروغ دینا شروع کیا اور اس میں کام یاب رہے۔ اس وقت سیاحت ان کی معیشت میں انتہائی اہم کردار کی حامل ہے۔ دنیا بھر کے سیاح قدرت کے شاہ کار سری لنکا کو دیکھنے پہنچتے ہیں۔
سری لنکا میں بُدھ مت کے پیروکار اکثریت میں ہیں، وہی مہاتما گوتم بُدھا جو امن کے پرچارک تھے۔ مسیحی وہاں کی دوسری بڑی اقلیت ہیں۔ وہ ایسٹر کا دن کا تھا، جسے عیدالقیامت مسیح بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسیحی چالیس روزے رکھتے ہیں۔ ان روزوں کے آخری ہفتے کو ’’مبارک ہفتہ‘‘ کہا جاتا ہے اور کلیساؤں میں پورا ہفتہ خاص عبادات کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں پام سنڈے، پاک جمعرات، مبارک جمعہ، طلوع خورشید عبادت جو ایسٹر کی صبح چار بجے ادا کی جاتی ہیں اور پھر اتوار کو ایسٹر منایا جاتا ہے۔ گڈ فرائی ڈے ایسٹر سے دو دن پہلے ہوتا ہے۔
مسیحی عقائد کے مطابق اس دن یسوع المسیح کو صلیب پر مصلوب کیا گیا تھا اور یسوع المسیح کا صلیب پر جان دینا نسل انسانی کو خدا کے ساتھ اس رشتے میں پھر سے بحال کرتا ہے جو ابتدا میں باغ عدن میں حضرت آدمؑ کی خطا سے ٹوٹ گیا تھا، اسی خاص نقطے کو سامنے رکھ کے اس کو مبارک جمعہ یعنی گڈ فرائی ڈے کہا جاتا ہے۔ عام دنوں میں تو روزہ غروب آفتاب سے غروب آفتاب تک رکھا جاتا ہے لیکن گڈ فرائی ڈے کا روزہ سہ پہر تین بجے افطار کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ وقت عبادت کے لیے خاص ہوتا ہے۔
اس دن کی عبادت بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد کلیساؤں میں آتی ہے۔ گڈ فرائی ڈے کی عبادات دوپہر بارہ بجے سے رات گئے تک مختلف اوقات میں شروع ہوتی ہیں۔ انجیل مقدس کے مطابق خداوند یسوع المسیح ہفتے کے پہلے روز یعنی اتوار کے دن مُردوں میں سے جی اٹھے تھے۔ مسیحی ہفتے کے پہلے روز یعنی اتوار کے دن ایسٹر مناتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جس دن خداوند نے اپنے وعدہ کے مطابق موت پر فتح پائی۔ مسیحی اس دن یسوع المسیح کے جی اٹھنے کی خوشی میں عید مناتے ہیں۔
اس دن بھی ایسٹر تھا، جب سری لنکا کے مسیحی جوق در جوق کلیساؤں کا رخ کر رہے تھے، ان میں سب ہی شامل تھے۔ بچے، بوڑھے، جوان، مرد و زن سب اپنے خدا کی حمد و ثنا اور اپنی مناجات کے لیے کلیساؤں کا رخ کر رہے تھے۔ اور پھر ایک قیامت برپا ہوئی اور انسانیت کے دشمن ابلیس کے پیروکاروں نے ان امن و سلامتی کے علم بردار معصوموں کو خون میں نہلا دیا۔ مطہر خونِ انسانی سے اپنے بھیانک منصوبوں کی تکمیل ابلیسی گروہ، جس کا نام کوئی بھی ہو، کا خاص مقصد رہا ہے، اور پھر اس ابلیسی گروہ میں ہر مذہب و ملت کے لوگ شامل ہیں، لیکن ان سب کا دعویٰ عبث ہے اور وہ اس لیے کہ وہ صرف مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں، ان سب کا بس ایک ہی نام ہے انسانیت کے دشمن شیطان لعین کے پیرو و آلہ کار، صرف ایک نام دہشت گرد۔
خدا انسان کی ضرورت ہے، ہمیشہ رہی ہے اور رہے گی۔ دنیا جہاں میں انسانوں کی اکثریت کسی نہ کسی مذہب و مسلک سے جُڑی ہوئی ہے۔ ہر مذہب کی بنیاد نیکی پر رکھی گئی اور برائیوں سے بچنے کی تلقین کے ساتھ اپنے رب سے جُڑے رہنے اور اس کی مخلوق سے محبت، انسیت اور ان کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کو اصول رکھا گیا۔ عبادات کا اصل مقصد اپنے خدا سے رابطے کے ساتھ اس کی پیدا کی گئی ہر مخلوق کا احترام اور اس کے حقوق کی پاس داری ہے۔ ہر مذہب میں روزے کو ضبط نفس کی تربیت قرار دیا گیا ہے۔ ضبط نفس اس کے سوا کیا ہے کہ انسان خدا کے احکامات کو بہ ہر صورت بجا لائے اور احکامات کیا ہیں، یہی کہ انسان اپنی مرضی کے تابع ہونے کے بہ جائے الہامی اصولوں پر اپنی زندگی کو ترتیب دے۔ خدا نے انسان کی تکریم کو مقدم کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ہر انسان اور اس کی عبادت گاہ کا احترام کیا جائے۔ عبادت گاہ خدا کی حمد و ثناء کے ساتھ اسی کے نام پر برکتوں کے حصول کی اجتماع گاہ ہے۔ کسی بھی عبادت گاہ میں وہ لوگ جاتے ہیں جو احکامات الٰہی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کی عبادات کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے لیکن مقصد صرف ایک ہی ہوتا ہے خدا کی حمد بیان کرتے ہوئے اس کی رضا کا حصول۔ عبادت گاہ میں امن پسند لوگ جاتے ہیں ایسے لوگ جو ہر انسان کی تکریم کو مقدّم جانتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر عبادت بس دکھاوا اور بے ثمر ہے۔ عبادت کرنے سے کون روکتا ہے! شیطان ابلیس جو انسان کو اپنے رب کے راستے پر چلنے سے روکنے کی سعی کرتا اور انہیں اپنا ہم نوا بنانے کی جدوجہد کرتا ہے۔ وہ ابلیس لعین جو اپنے مکر و فریب سے اپنے جیسے خصائل کے انسانوں کو اپنا لشکر بنا کر معصوم اور امن پسند انسانوں کو راستی سے روکتا ہے، اور اپنی اس قبیح منصوبوں کی تکمیل کے لیے انسانی خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ تو بس یہ طے ہوا کہ ایک خُدا کا لشکر ہے اور دوسرا شیطان رجیم کا۔
اسلام نے تو انسانیت کی تکریم کی اتنی تاکید کی ہے کہ کسی بھی انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتے ہوئے کسی بھی انسان کی زندگی بچانے کو بقائے انسانیت قرار دیا ہے۔ وہ اسلام جس نے ہر مذہب کی عبادت گاہ کو محترم قرار دیا۔ دنیا میں جنگ و فساد کا بازار گرم ہے اور کون نہیں جانتا کہ اس کے پیچھے کیا سوچ اور کیسے لوگ ہیں۔ کیا آپ نے Friendly Fire اور Collateral Damage (فوجی کارروائی میں عام لوگوں کا زخمی اور قتل ہونا) جیسی اصطلاحیں نہیں سنیں؟ جی دور جدید میں جو انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اسی میں معصوم انسانوں کو مارنے کے لیے ایسی اصطلاحیں تراشی گئی ہیں۔
لیکن اسلام! جی اسلام نے جنگ میں بھی نہ صرف تکریم انسانیت کو مقدّم رکھا ہے اور حکم دیا کہ حالت جنگ میں بھی کسی نہتے کو قتل نہیں کیا جاسکتا، کسی عورت، بچے، بوڑھے کو زد پر نہیں رکھا جاسکتا، کسی بھی عبادت گاہ کو کسی بھی صورت میں نہیں ڈھایا جاسکتا، پانی میں زہر نہیں ملایا جاسکتا، فصلوں کو برباد نہیں کیا جاسکتا، درختوں کو نہیں کاٹا جاسکتا، صرف ان لوگوں سے جنگ کی جاسکتی ہے جو ہتھیار بند ہوکر مقابلے پر اتر آئیں، جی یہ ہے اسلام اور اس کی تعلیمات، اگر کوئی بھی ان احکامات کی پاس داری نہ کرے تو وہ اسلام کا منکر ہوتا ہے چاہے وہ کیسا بھی دعویٰ کرے۔
وہ مسیح ابن مریمؑ جن کی پوری زندگی ہی معجزہ تھی، وہ جو بن باپ کے پیدا کیے گئے اور روح اﷲ کہلائے، وہ جو مُردوں کو زندگی دیتے تھے، وہ جو نابینا کو بینا بناتے، وہ جو کوڑھیوں کو شفا دیتے، وہ جو انسانیت کے لیے امن و محبت کے پیام بر اور نوید زندگی بنے۔ وہ مسیح ابن مریمؑ جو مفلسوں کے ساتھ رہتے ہوئے شیطان ابلیس کے پیروکاروں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرتے رہے۔ مسیح ابن مریمؑ کی تعلیمات امن، محبت، ایثار، قربانی، اخلاص اور بے نیازی و بے ریائی تھی۔ وہ مسیح ابن مریمؑ جنہوں نے مظلوم، مقہور، معصوم ، مفلس و پسے ہوئے انسانوں کے لیے آوازہ بلند کیا اور اس کی پاداش میں ظلم و ستم برداشت کیے، ایسے تھے مسیح ابن مریمؑ۔ انجیل مقدس جسے مسلمان نہ صرف آسمانی کتاب سمجھتے ہیں بل کہ مسیح ابن مریمؑ کو خدا کے پیغمبر ہونے پر ایمان رکھتے ہیں، اس لیے کہ انجیل مقدس کو آسمانی صحیفہ اور مسیح ابن مریمؑ پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے تو کہتے ہیں
ابن مریم ہُوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
وہ دُکھوں کا مداوا مسیحا!
انجیل مقدس ہمیں آزمائش کے بارے میں کیا سکھاتی اور خبردار کرتی ہے۔ شیطان اور اس کے چیلوں نے ہر راست باز کے راستے پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ شیطان کے حملوں سے کوئی بھی نہیں بچ سکا اور آج تک کوئی بھی ان کا مقابلہ کرنے میں مکمل طور پر کام یاب نہیں ہوا، لیکن راست بازوں کو اکثر آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ خدا نے مومن کو آزمائش کا سامنا کرنے کے لیے ہی بنایا ہے۔
انجیل مقدس کی آیات ہمیں کس طرح آزمائش کے بارے میں تعلیم دیتی اور ہمیں خبردار کرتی ہیں۔
متّی 26 باب 41 آیت: ’’ جاگو اور دعا کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو۔ روح تو مُستعد ہے مگر جسم کم زور ہے۔‘‘
لْوقا 22 باب 40 آیت: ’’ اور اس جگہ پہنچ کر اس نے ان سے کہا: دعا کرو کہ آزمائش میں نہ پڑو۔‘‘
کرنتھیوں، باب 13: ’’تم کِسی اَیسی آزمائش میں نہِیں پڑے جو اِنسان کی برداشت سے باہِر ہو اور خدا سَچّا ہے۔ وہ تم کو تُمہاری طاقت سے زِیادہ آزمائش میں نہ پڑنے دے گا، بل کہ آزمائش کے ساتھ نِکلنے کی راہ بھی پَیدا کرے گا، تاکہ تم برداشت کر سکو۔‘‘
مصیبت میں خداوند کو پُکارنے کی تعلیم یوں دی گئی:
زبور: ’’تُو ہی مجھے پیٹ سے باہر لایا۔ جب مَیں شیر خوار ہی تھا، تُونے مجھے توکّل کرنا سکھایا۔ مَیں پیدائش ہی سے تجھ پر چھوڑا گیا۔ میری ماں کے پیٹ ہی سے تُو میرا خدا ہے۔ مجھ سے دُور نہ رہ کیوں کہ مُصیبت قریب ہے۔ اس لیے کہ کوئی مددگار نہیں۔ بہت سے سانڈوں نے مجھے گھیر لیا ہے۔ کُتّوں نے مجھے گھیر لیا ہے۔ بدکاروں کا گروہ مجھے گھیرے ہوئے ہے۔ وہ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں چھیدتے ہیں۔ میں اپنی سب ہڈیاں گِن سکتا ہوں۔ وہ مجھے تاکتے اور گُھورتے ہیں۔ وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میری پوشاک پر قْرعہ ڈالتے ہیں۔ لیکن تْو اَے خُداوند! دُور نہ رہ۔ اَے میرے چارہ ساز! میری مدد کے لیے جلدی کر۔ میری جان کو تلوار سے بچا۔ میری جان کو کُتّے کے قابو سے۔ مجھے ببّر کے منہ سے بچا، بل کہ تُونے سانڈوں کے سینگوں میں سے مجھے چُھڑایا ہے۔
مَیں اپنے بھائیوں سے تیرے نام کا اِظہار کروں گا۔ جماعت میں تیری ستائش کروں گا۔ اَے خُداوند سے ڈرنے والو! اس کی ستائش کرو۔ اَے یعقوب کی اَولاد! سب اس کی تمجید کرو اور اَے اسرائیل کی نسل! سب اس کا ڈر مانو، کیوں کہ اس نے نہ تو مُصیبت زدہ کی مُصیبت کو حقیر جانا نہ اس سے نفرت کی۔ نہ اس سے اپنا منہ چھپایا۔ بل کہ جب اس نے خُدا سے فریاد کی تو اس نے سُن لی۔ سلطنت خداوند کی ہے۔ وہی قوموں پر حاکم ہے۔‘‘
سری لنکا میں برپا کی گئی قیامت پر ہر درد مند، انسان دوست اور امن پسند انسان رنجیدہ ہے، اور نہ صرف رنجیدہ بل کہ اس کی پُرزور مذمت بھی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امن پسند اور انسان دوست گروہ ابلیسی گروہ کے خلاف اپنی جدوجہد کو مزید تیز اور عالمی سطح پر مربوط کرنے کا عہد بھی کرتا ہے۔
انجیل مقدس کی یہ آیات انسان دوستوں کی راہ نمائی کرتی ہیں : ’’ اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تُم پر افسوس! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو اُوپر سے تو خُوب صورت دکھائی دیتی ہیں، مگر اندر مُردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہوئی ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریا کاری اور بے دینی سے بھرے ہو۔‘‘ (انجیل متی)
The post سری لنکا میں مسرت کے لمحوں پر قیامت ٹوٹ پڑی appeared first on ایکسپریس اردو.