اردو کا ایک محاورہ ہے ’’ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘ اس کا مطلب ہرگز ہاتھی کی جسامت بیان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ اس وقت بولا جاتا ہے، جب کسی شخص کی قوت و اختیار کا اظہار مقصود ہو۔ لیکن اس سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہاتھی کرہ ارض کا دوسرا اور خشکی کا سب سے بڑا جاندار ہے۔
بظاہر ہاتھی کو دیکھنے سے اس کی جسامت کی وجہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ بہت خونخوار جبلت کا مالک ہو گا، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اصل میں ایسا نہیں ہے۔ افریقہ اور جنوبی ایشیاء کے علاوہ کچھ دیگر سردائی مقامات پر پایا جانے والا یہ جاندار زمانہ قدیم سے انسان کے کام آ رہا ہے۔ باربرداری سے لے کر پرانے زمانے میں جنگوں کے دوران استعمال تک اور بادشاہوں کی شاہی سواری سے لے کر موجودہ دور میں بچوں کے سواری کے طور پر استعمال ہونے تک ہاتھی ہماری زندگیوں میں ایک اہم کردار کے طور پر دخیل رہا ہے۔ یہاں ہم آپ کو قوی الجثہ مگر معصوم طبیعت کے حامل جانور کی ان چند خصوصیات سے روشناس کروائیں گے، جو شائد عام طور پر لوگوں کے علم میں نہیں۔
فٹ پاتھ اور پانی ذخیرہ کرنے کیلئے گڑھے بنانا
کرہ ارض پر خشکی کے سب سے بڑے جانور ہونے کی حیثیت سے ہاتھی اپنی جسامت اور وزن کا بہترین استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں ہاتھیوں کے تحفظ کے حوالے سے معروف ادارے دی ایلی فینٹ سنیچری(The Elephant Sanctuary) کے آؤٹ ریچ منیجر ٹوڈ منٹگمری (Todd Montgomery) کا کہنا ہے کہ ’’ ہاتھی اپنے بھاری بھرکم پاؤں، سونڈ اور بڑے بڑے دانتوں کے ذریعے ایسے گڑھے بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جن میں زیرزمین یا بارش کا پانی جمع ہو سکے، جو بعدازاں نہ صرف ہاتھیوں بلکہ دیگر مقامی جانوروں کی ضروریات بھی پورے کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہاتھی ایک ترتیب سے سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسے میں ان کے بھاری بھرکم پاؤں جس جس زمین پر پڑتے ہیں وہاں ایک فٹ پاتھ بن جاتا ہے، جو انہیں واپس اپنے مسکن کی طرف لوٹنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔‘‘
نمک تلاش کرنے کی صلاحیت
ہاتھی صرف جسمانی اعتبار سے ہی ایک طاقت ور جانور نہیں بلکہ وہ ذہنی توانائی سے بھی مالا مال ہے۔ اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہاتھیوں میں یہاں تک صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر زمین سے نمک تک تلاش کر سکتے ہیں۔ ٹوڈ مینٹگمری کہتے ہیں کہ ’’ ہاتھیوں کو آبیدگی کیلئے نمکیات کی بہت ضرورت ہوتی ہے، جسے وہ پودوں سے پورا کرتے ہیں، تاہم اگر یہ پودے ان کی نمکیات کی ضرورت کو پورا نہ کر سکیں تو وہ زمین میں ایسی جگہوں پر گڑھا کھود لیتے ہیں، جہاں نمک پایا جاتا ہے‘‘ ہاتھیوں کی جانب سے نمک کی تلاش میں زیرزمین غار بنانے کی ایک بڑی مثال کینیا کا مؤنٹ ایلگون نیشنل پارک ہے، جہاں ہاتھیوں کا بنائی کیتم غار ہے۔
ایک دن میں 12سے 18 گھنٹے تک کھانا
ہاتھیوں کے جسمانی وزن کی بات کی جائے تو ایک افریقی ہاتھی کا وزن 6 ٹن جبکہ ایشیائی کا تقریباً 4 ٹن ہوتا ہے۔ اپنے اس بھاری بھرکم جسم کو برقرار رکھنے کے لئے ہاتھی کو بہت زیادہ خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لئے وہ ہر قسم کے پودے، گھاس، پتے، پھول اور پھل کھا لیتے ہیں۔ نیشنل جیوگرافک کے مطابق ایک ہاتھی کو روزانہ تقریبا ساڑھے 3 من خوراک کی ضرورت ہے، جس کو پورا کرنے کے لئے وہ 12 سے 18 گھنٹے تک کھاتے رہتے ہیں۔ یوں ایک سال میں ایک ہاتھی 50 ٹن سے زیادہ خوراک استعمال کرتا ہے۔
بہترین خاندانی نظام اور اس پر مادہ کی حکمرانی
ہاتھی ایک سماجی مخلوق ہے، جن میں خاندانی نظام کی بہت زیادہ اہمیت پائی جاتی ہے اور اس خاندانی نظام میں مادہ کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ٹوڈ مینٹگمری کے مطابق ’’ ہر جھنڈ میں مختلف مزاج کے ہاتھی ہوتے ہیں، جس کی سربراہی عمومی طور پر ان کی ماں، دادی یا پھر کسی آنٹی کے پاس ہوتی ہے۔ اور اس مادہ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جھنڈ ہر لمحہ پر ہدایات دیتی ہے۔‘‘
ہم درد
ہاتھیوں کی ذہانت اور ان میں سماجی تعلقات کے حوالے سے پائی جانے والی صفت کے باعث ان میں ہمدردی کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ہاتھیوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے ایک اور ادارے سیو دی ایلیفینٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر فرینک پوپ ُFrank Pope) کہتے ہیں کہ ’’ اپنے مزاج کے مطابق ہاتھی ہر کسی کے لئے بہت زیادہ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے ہر رکن کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتے ہیں، حتی کہ وہ اپنے مرنے والوں پر ماتم بھی کرتے ہیں۔‘‘
بہترین یاداشت
ٹوڈ مینٹگمری کا کہنا ہے کہ ’’ قدرت نے ہاتھیوں کو حیران کن ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان کی یاداشت بہت شاندار ہوتی ہے اور یہی وہ وجہ ہے، جس سے وہ ہر ماحول کو جان کر اس کی آسانیوں اور خطروں کا پتہ چلا لیتے ہیں۔ ماحول کے علاوہ ہاتھی ایک بار جب کسی دوسرے ہاتھی سے مل لیتے ہیں تو زندگی بھر پھر اسے بھولتے نہیں اور یہی ان کی وہ خصوصیت ہے، جس کی وجہ سے انہیں اپنے جھنڈ میں شامل ہونے والے کسی بھی نئے ہاتھی کا فوراً پتہ چل جاتا ہے۔‘‘
نوکیلے دانت بہترین اوزار
ہاتھی کے نوکیلے دانت اس کا موثر ترین اوزار ہے، جن کے ذریعے وہ بہت سارے کام سرانجام دیتے ہیں۔ ٹوڈ مینٹگمری کے مطابق ’’ ہاتھی اپنے دانتوں کے ذریعے نہ صرف درختوں کی چھال کھینج کر انہیں کھاتے ہیں، جھاڑیوں کو دوڑ سکتے ہیں، زمین میں گڑھے بناتے ہیں بلکہ خطرے کی صورت میں اپنا دفاع بھی کرتے ہیں۔‘‘
دھوپ کی شدت سے بچاؤ
بلاشبہ سورج کی تپش سے جانور بھی متاثر ہوتے ہیں لیکن ہاتھیوں کے پاس اس مشکل کا بہت آسان حل موجود ہے۔ اس ضمن میں ٹوڈ مینٹگمری بتاتے ہیںکہ ’’ ہاتھی خود کو دھوپ کی شدت اور مضرحشرات الارض سے بچانے کے لئے دھول، گرد اور کیچڑ کا استعمال کرتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ اپنی سونڈ میں پانی بھر کر اسے اپنے جسم کے ہر حصے پر بہاتے ہیں، پھر دھول، گرد اور کیچڑ کو خود پر گرا کر سورج کی تمازل کامقابلہ کر لیتے ہیں‘‘ ایک نئی تحقیق کے مطابق ہاتھی کے جسم پر قدرتی طور پر پائے جانے والی جھریاں پانی اور کیچڑ کو زیادہ دیر تک برقرار رکھتی ہیں، جس سے ہاتھیوں کو سکون ملتا ہے اور وہ سورج کی تپش سے پیدا ہونے والے مسائل سے خود کو محفوظ بنا لیتے ہیں۔
شیشے میں خود کی پہچان
ہاتھی وہ جانور ہے، جو اگر شیشے میں خود کو دیکھے تو اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ شیشے میں دکھائی دینے والا ہاتھی وہ خود ہی ہے، حالاں کہ بہت سارے جانور شیشہ دیکھ کر ڈر جاتے ہیں کہ وہاں کوئی اور جانور ہے۔ حتی کہ ہم اگر انسان کی بات کریں تو 18 ماہ تک کا بچہ بھی شیشے میں خود کو نہیں پہچان سکتا۔ اس حوالے سے فرینک پوپ کہتے ہیں کہ ’’ ہاتھی کا شیشہ میں خود کو پہچاننا کوئی بڑی بات نہیں، کیوں کہ متعدد ٹیسٹوں میں وہ یہ ثابت کر چکا ہے۔ البتہ ان کی یہ ذہانت دنیا کو یہ پیغام دیتی ہے کہ وہ بھی ان کی حقیقی پہچان کر کے ان کو تحفظ فراہم کریں۔‘‘
فاصلاتی ابلاغ
فرینک پوپ کا کہنا ہے کہ ’’ ہاتھیوں میں فاصلاتی ابلاغ کی وہ صفت ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے منہ سے کوئی آواز نکالے بغیر اپنے ساتھیوں کو بہت دور سے خطرہ سے خبردار کر دیتے ہیں اور دیگر ہاتھی پیغام بھیجنے والے کے قدموں سے اندازہ لگا لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے انسان کے لئے یہ ابلاغ قابل سماعت نہیں ہوتا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایک ہاتھی کا پاؤں کے ذریعے مخصوص رویہ اس کے ساتھیوں کو صورت حال کا اندازہ کرواتا ہے۔ اس تحقیق نے سائنسدانوں کے لئے تھرتھراہٹ کے ذریعے ابلاغ کرنے کے حوالے سے نئے راستے بھی نکالے ہیں۔ علاوہ ازیں مذکورہ تحقیق نے یہ بھی ثابت کیا کہ ہاتھیوں میں بصارت سے زیادہ سماعت کی طاقت ہوتی ہے۔‘‘
شکاریوں سے بچنے کی تربیت
ہاتھی اپنے ماحول کو ہی یاد رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بلکہ وہ اس ماحول کی آسانیوں اور خطروں سے بہت کچھ سیکھتے بھی ہیں۔ تحقیق کے مطابق ہاتھیوںکا جھنڈ ہمیشہ ایسے راستوں سے سفر کرتا ہے، جہاں ان کا شکاریوں سے سامنا ہونے کا امکان نہ ہو، خصوصاً جب ان کے جھنڈ کا سربراہ کسی شکاری کے ہتھے چڑھ جائے۔ اس سلسلے میں فرینک پوپ بتاتے ہیں کہ ’’ ہماری تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق ہاتھی ایسے علاقوں میں رات کو سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں انہیں خطرہ محسوس ہوتا ہے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں وہ اس سمت میں تیزی سے دوڑتے ہیں، جو ان کو شکاری سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پُرخطر علاقہ میں ہاتھی ہمیشہ ایک سیدھی لائن بنا کر سفر کرتے ہیں اور منزل تک پہنچنے سے قبل وہ اس دوران چارے کے لئے بھی زیادہ دیر تک توقف نہیں کرتے۔ یہ سب چیزیں بلاشبہ ان کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‘‘
کینسر کا مقابلہ
ہاتھی کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ عمر پانے والے جانوروں میں ہوتا ہے اور سائنسدان اس بات پر حیران ہیں کہ بھاری بھرکم جسم کے ساتھ لمبی عمر پانا والا جانور کو کینسر کو مات دے دیتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ہاتھیوں میں ایک ایسا جین پایا جاتا ہے، جو کینسر کو جسم میں پھیلنے سے روک دیتا ہے۔ یوں ہاتھیوں کے اندر کینسر سے لڑنے کا ایک خودکار نظام موجود ہوتا ہے، جو انسان کے بھی کام آ سکتا ہے۔
The post ہاتھی…ایک جہانِ حیرت appeared first on ایکسپریس اردو.