ویسے تو لیونیٹک کے لفظی معنیٰ پاگل یا مخبوط الحواس کے ہیں، مگر یہاں اس سے مراد ہے: وہ سر پھری ٹرین جس نے آج کے کینیا کی بنیاد رکھی۔ گویا اس ریلوے نظام کی وجہ سے ہی ہم موجودہ کینیا کو دیکھ رہے ہیں، یعنی اگر افریقی ملک کینیا میں یہ ریلوے نظام نہ ہوتا تو شاید آج کینیا کا وجود ہی نہ ہوتا۔
یہ کم و بیش ایک صدی یا سو سال پہلے سے بھی زیادہ عرصے کی بات ہے جب اہل یورپ نے اس سرزمین پر قدم رکھے تھے جسے آج ہم ’’کینیا‘‘ کے نام سے جانتے ہیں، تو اس موقع پر یہاں کے ایک مقامی قبائلی سردار جس کا نام Kimnyole تھا، اس نے اپنے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے تھے:
’’ہماری سرزمین پر ایک خوف ناک فولادی سانپ آرہا ہے جو جب ہمارے گھاس سے بھرے ہوئے میدانوں سے بے دھڑک گزرے گا تو ہمارے سرسبز میدانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا، وہ ان زمینوں میں نہ صرف زلزلے جگادے گا بلکہ اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو نیست و نابود کردے گا۔ اس فولادی سانپ کی قیامت خیزی پورے خطے میں ایک ایسی ہلچل پیدا کردے گی کہ ہم سب تباہ و برباد ہوجائیں گے۔‘‘ اس قبائلی سردار Kimnyole نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ فولادی درندہ اپنے ساتھ ایسے عجیب و غریب اجنبیوں کو لائے گا جنہیں اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ ان میں سے بعض کے بال سرخ ہوں گے اور پھر یہ سرخ بالوں والے لوگ ہی اس سرزمین کے مالک بن بیٹھیں گے اور یہاں انہی کی حکومت قائم ہوگی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ Kimnyole نے اس موقع پر جو باتیں کی تھیں، وہ بہت زیادہ واضح تو نہیں تھیں مگر ان میں ایک بات بالکل صاف اور واضح تھی کہ اس سرزمین اور اس خطے کے لیے آنے والا وقت بہت سی مشکلات اور پریشانیاں ساتھ لارہا تھا۔
ہمارے قارئین یہ بات قطعاً نہیں جانتے ہوں گے کہ Kimnyole نے فولادی سانپ کسے کہا تھا؟ اس نے یہ خطاب اصل میں ’’کینیا، یوگنڈا ریلوے‘‘ کو دیا تھا جو اصل میں ایک Lunatic Express تھی اور برطانوی ذرائع ابلاغ نے اس خطاب کو بہت پسند کیا تھا، کیوں کہ ان کے خیال میں اس دور میں دولت کا نوآبادیاتی فضلہ اس کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ جارہا تھا اور اس کے تعمیراتی دور میں انسانی زندگی کو بے پناہ مشکلات سے نبردآزما ہونا پڑا تھا۔ گویا ان کے خیال میں اس ریلوے نظام نے چوں کہ پورے خطے میں تباہی مچادی تھی، اس لیے اس ریلوے نظام کو لیونیٹک ایکسپریس کا نام دیا گیا یعنی ایک ایسا پاگل پن کا ریلوے نظام جو سبھی کو تباہ کرنے والا تھا۔
اس کے نتیجے میں اس خطے میں رہنے والے سبھی قبائل نے یہاں ریلوے کی تعمیرات کے خلاف زبردست مزاحمت کی اور اس کام میں خوب روڑے اٹکائے۔ انہوں نے قرب و جوار کے اور پڑوسی قبائل کے خلاف فتح کے جھنڈے لہراتے ہوئے اپنی مزاحمت جاری رکھی اور نندی لوگوں نے سفید فاموں کے خلاف ناقابل بیان کام یابیاں سمیٹیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب نندی لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں ہتھیار ڈال دیے، مگر اس وقت تک ہزاروں لوگ دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاچکے تھے اور ان لوگوں کو افرادی قوت کے حوالے سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ Kimnyole کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوئی تھیں اور اس نے ماضی میں جن خطرات کی نشان دہی کی تھی، وہ بھی بالکل سچے ثابت ہورہے تھے۔ فولادی سانپ خطے میں دندناتا پھر رہا تھا اور اس نے بڑے ڈرامائی انداز سے اس علاقے کے لوگوں اور خاص طور سے نندی لوگوں کی زندگیوں کو بڑے انقلابی اور مثبت انداز سے بدلنا شروع کردیا تھا اور بے شک یہ وہ تبدیلیاں تھیں جن کے بارے میں Kimnyole نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔
اس خطے میں ریلوے کا نظام اس وقت قائم ہونا شروع ہوا جب یورپ کی بڑی اقوام نے دیوانوں کی طرح اس چھوٹے سے افریقی ٹکڑے پر اپنی توجہ مرکوز کر لی اور سب کی نظریں اس خطے پر گویا جم کر رہ گئیں۔ یہ انیسویں صدی کا آخری زمانہ تھا اور متعدد یورپی نوآبادکاروں نے افریقی ساحلوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی تجارتی کوٹھیاں بنانی شروع کردی تھیں، مگر ان میں سے چند ایک کو اندرونی مزاحمت کا شدید سامنا کرنا پڑا تھا۔ ادھر برطانوی زیادہ تر مصر، جنوبی افریقہ اور مشرقی افریقہ میں موجود تھے۔
بلاشبہہ مشرقی ساحل پر یہ ایک وسیع وعریض خطہ تھا جو بعد میں بیس اقوام میں تقسیم ہونے والا تھا۔ فرانس کے زیرتسلط مغربی افریقہ سے اور پھر وہاں سے یہ لوگ آہستہ آہستہ افریقہ کے اندرونی علاقوں کی طرف جارہے تھے جن کا ایک اہم اور بنیادی مقصد ایک ایسی سلطنت قائم کرنا تھا جو مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی ہو۔ ادھر برطانویوں کی خواہش تھی کہ وہ فرانسیسی نوآبادکاروں کی پیش قدمی اور ان کا راستہ روک دیں جس کے لیے انہوں نے ایک ریلوے نظام قائم کرنے کا فیصلہ کیا جو مومباسا کی بندرگاہ کو مشرقی ساحل پر جھیل وکٹوریا سے ملادے۔ اس طرح ان کی رسائی دریائے نیل تک بھی ہوسکتی تھی اور اس کے نتیجے میں پورا نیل ان کے قبضے میں آجاتا۔
دریائے نیل جنوب سے شمال تک براعظم کے بیچ سے گزرتا تھا جو ظاہر ہے کہ کسی بھی ایسی قوم کے راستے کی دیوار بن سکتا تھا جو مشرق سے مغرب تک اپنی سلطنت قائم کرنا چاہتی ہو۔ چناں چہ اس کا مقصد دریائے نیل کو اپنے کنٹرول میں کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے تجارتی فوائد بھی حاصل کرنا تھا۔
لیونیٹک ایکسپریس یوگنڈا ریلوے:
دسمبر 1895ء میں برطانوی انجینئر جارج وائٹ ہاؤس کو یہ ٹاسک سونپا گیا کہ وہ کینیا۔ یوگنڈا ریلوے کی تعمیر شروع کرے۔ اس وقت اسے اس روٹ کے صرف ایک اسکیچ کے ساتھ مومباسا کی بندرگاہ بھیج دیا گیا جہاں سے یہ ریلوے سسٹم شروع ہونا تھا۔ یہ طویل ریلوے لائن لگ بھگ ایک ہزار کلومیٹر پر محیط تھی اور بلاشبہہ یہ اس وقت کا سب سے طویل ترین پراجیکٹ تھا جو اہل برطانیہ شروع کرنے جارہے تھے۔ اسی دوران جارج وائٹ ہاؤس نے بھی اندازہ لگایا کہ نہ صرف یہ ایک نہایت مہنگا ترین کام ہے، بلکہ یہ کام ساتھ ساتھ ہی جسمانی طور پر نہایت صبر آزما بھی تھا۔ مومباسا کے براہ راست مغرب میں ایک بہت وسیع و عریض پانی سے پاک خطہ واقع تھا، جہاں سے کاروان اور قافلے سفر نہیں کرتے تھے۔
اس مجوزہ ریلوے لائن کو پانچ سو کلومیٹر پر مشتمل سوانا اور چھوٹے درختوں اور گھاس پھوس پر مشتمل میدانوں سے گزرنا تھا جہاں صرف مچھروں اور دلدل کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد بلندیوں پر واقع آتش فشانی خطہ بھی راستے میں آگیا جس کی وجہ سے یہ راستہ 80کلومیٹر چوڑی گریٹ رفٹ ویلی میں تقسیم ہوگیا اور یہ وادی یکایک دو ہزار فیٹ کا غوطہ لگاتی ہوئی میدانوں میں اتر گئی تھی۔ اس کے بعد آخر کار 150 کلومیٹر کے فاصلے کے بعد جھیل کا کنارہ آیا جو نہایت بھیگا ہوا اور شرابور دلدل پر مشتمل تھا۔
اس ریلوے لائن کی تعمیر کا کام مومباسا میں 1896 میں شروع ہوا اور یہ لائن بڑی تیزی سے جھیل وکٹوریا کے مشرقی کنارے پر اپنے آخری اسٹیشن کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ اگلے پانچ برسوں کے دوران مومباسا کی بندرگاہ پر مٹیریلز کی بہت بڑی مقدار پہنچ گئی جن میں درج ذیل نمایاں تھا: دو لاکھ ریل کی پٹریاں، 1.2ملین سلیپرز، دو لاکھ فش پلیٹس، چار لاکھ فش بولٹس اور 4.8 ملین فولادی چابیاں اور فولادی گارڈرز۔ مزید یہ کہ لوکوموٹیوز، ٹینڈرز، بریکس، وینز، سامان کی ویگنز اور پسنجرز کو لے جانے والے ڈبے بھی لائے جانے تھے۔ چناں چہ اس کام کے لیے گودام بھی تعمیر کیے گئے اور ورکرز کی رہائش کے لے گھر بھی بنوائے گئے۔ اس کے علاوہ مرمت کرنے کے لیے بھی ورکشاپ بنائے گئے۔
جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مومباسا کا پرسکون اور خواب آلود ٹاؤن بہت تیزی سے بیدار ہونے لگا اور اس نے جلد ہی ایک جدید بندرگاہ کی شکل اختیار کرلی۔ اس ریلوے لائن کی تعمیر میں شامل لگ بھگ سبھی ورکرز برٹش انڈیا سے لائے گئے تھے۔ ان کی تن خواہوں ، مفت خوراک اور مفت سفر کے لیے تمام انتظامات مکمل کیے گئے، 37,000 ورکرز کے ساتھ ساتھ ماہر نگراں بھی منگوائے گئے، لیکن ایک مسئلہ یہ کھڑا ہوگیا کہ کام شروع ہونے کے پہلے ہی سال میں لگ بھگ نصف افرادی قوت ملیریا، اسہال اور دوسری استوائی بیماریوں میں مبتلا ہوگئی۔ اس خطے کی گرمی نے کام کرنے والوں کو الگ پریشان کیا اور یہاں آنے والے دھول مٹی کے طوفانوں نے انہیں اور بھی مشکلات میں مبتلا کردیا۔
اس ریلوے نظام کا سب سے ہیبت ناک پہلو وہ تھا جو 1898 میں اس پل کی تعمیر کے دوران وقوع پذیر ہوا جو Tsavo River کے دوسری طرف جانے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔ رات کے وقت جب کچھ ورکرز اپنے خیمے میں سو رہے تھے کہ دو آدم خور شیروں نے ان پر حملہ کردیا اور انہیں گھسیٹتے ہوئے وہاں سے دور لے گئے۔ زیادہ افسوس ناک بات یہ تھی کہ یہ حملہ ایک بار نہیں ہوا تھا، بلکہ یہ لگ بھگ دس ماہ تک جاری رہا اور ورکرز آدم خور شیروں کا شکار بنتے رہے، اس مدت کے دوران سو سے زیادہ لوگ آدم خو شیروں کے پیٹوں میں چلے گئے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سو کے قریب ورکرز اپنا کام چھوڑ کرTsavo سے بھاگ کھڑے ہوئے اور ریلوے لائن کا تعمیراتی کام درمیان میں ہی لگ بھگ رک گیا۔
اس کے بعد وہاں کی انتظامیہ نے آدم خور شیروں کی نگرانی کی، ان پر کڑی نگاہ رکھی اور آخرکار وہ ہلاک کردیے گئے۔ ریلوے لائن کی اس تعمیر کے دوران کم و بیش 2,500 کے قریب ورکرز لقمۂ اجل بنے۔ اس کا اوسط چار افراد فی میل بنتا ہے۔ لگ بھگ 6,700 افراد نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس کام میں آگے نہیں جائیں گے بلکہ پیچھے رہ کر ہی کام کریں گے جس کی وجہ سے کینیا میں انڈینز کی پہلی کمیونٹی وجود میں آگئی۔ اور باقی افراد نے اپنے گھروں کی طرف واپسی کی راہ لی۔ اس ریلوے نظام کی ابتدائی لاگت لگ بھگ پانچ ملین پاؤنڈ لگائی گئی تھی، لیکن یہ بڑھ گئی اور برطانویوں کو نو بلین پاؤنڈ ابتدائی لاگت یا اخراجات کے طور پر برداشت کرنے پڑے جس پر برطانوی پارلیمنٹ میں بھی کافی تنقید ہوئی اور میڈیا نے بھی ذمے داروں کو خوب نشانہ بنایا۔ اس کی صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس ریلوے نظام کے شروع ہونے سے پہلے بھی بہت سے لوگوں نے اس خیال کی خوب مخالفت کی تھی۔
برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن Henry Labouchère نے نہایت تضحیک آمیز انداز اختیار کیا تھا اور اس موقع پر اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ جارج کرزن کو اپنی مشہور نظم کی صورت میں جواب دیا تھا جس میں اس پراجیکٹ پر جی بھر کر تنقید کی گئی تھی۔ اس کے باوجود بہت سے لوگوں نے اس منصوبے کر نہایت دلیرانہ منصوبہ قرار دیا تھا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے اسے برطانوی حکومت کی جرأت مندانہ کوشش قرار دی تھی۔ سر ونسٹن چرچل نے اس پراجیکٹ کو اپنے ملک کا ہنرمندی اور آرٹ کا وہ شاہ کار قرار دیا تھا جس نے اس ملک کا سر فخر سے بلند کردیا تھا۔
اگلی ایک صدی کے دوران اس ریلوے نظام نے اس خطے کی ترقی اور خوش حالی میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ایک تو مشرقی افریقہ کے اندرونی علاقے ساری دنیا پر کھل گئے تھے ور پھر ان کا تعلق ساحلوں سے بھی جڑ گیا تھا۔ جب کہ اس ریلوے سے پہلے نیروبی ایک غیر آباد، اجاڑ اور سنسان دلدلی علاقہ تھا۔ چناں چہ جارج وائٹ نے یہاں ایک بڑا گھر، ایک اسٹور ڈپو اور ایک شان دار میدان تعمیر کرایا اور آج نیروبی کینیا کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی تین ملین افراد سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔
چارلس ایلیٹ جو 1900 اور 1904 کے درمیان برٹش ایسٹ افریقا کے کمشنر تھے، انہوں نے کہا تھا:’’کسی بھی ملک کے لیے ریلوے کا نظام قائم کرنا کوئی خاص بات نہیں ہے، مگر خاص بات یہ ہے کہ کوئی ریلوے نظام کسی ملک کی بنیاد ڈال دے۔‘‘
یہ ریلوے نظام لگ بھگ 116 برسوں تک کام یابی کے ساتھ چلتا رہا یہاں تک کہ 2017 آگیا جب آخری meter-gauge ٹرین نے مومباسا اور نیروبی کے درمیان سفر مکمل کیا۔ اس روٹ کی جگہ اب ایک نئی اور زیادہ تیز رفتار ریل سروس شروع ہوگئی ہے جس کی لائنیں اصل یوگنڈا ریلوے کی لائنز کے متوازی چل رہی ہیں۔ اس ساری کہانی کا تاریخی منظر وہ سین ہے جب لیونیٹک ایکسپریس نیروبی کے مضافات میں کبیرا کے غیرترقی یافتہ علاقے سے گزرا کرتی تھی اور آج وہاں ایک مکمل اور ترقی یافتہ ملک بڑی شان کے ساتھ موجود ہے جو دنیا سے اپنے ہنرمندوں کی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوارہا ہے۔
The post لیونیٹک ایکسپریس۔۔۔۔ پاگل ٹرین appeared first on ایکسپریس اردو.