پچھلے دنوں ایک امریکی خاتون لورین جیلمین کی مرتب کردہ کتاب ’’بہترین نصیحتیں‘‘(Best Advices) زیر مطالعہ رہی۔ اس کتاب میں مرتب خاتون نے ایسی نصیحتیں ‘ تجاویز اور مشورے جمع کر ڈالے ہیں جو انسان کو ڈھنگ سے زندگی گزارنا سکھاتے ہیں۔
قارئین ایکسپریس کے لیے اس کتاب سے چیدہ مشوروں کا انتخاب پیش ہے۔ یہ نصیحتیں اور مشورے امریکا میں مقیم ماہرین تعلیم، دانشوروں ‘ صنعت کاروں‘ ادیبوں ‘ ڈاکٹروں‘ اداکاروں وغیرہ کے بیش قیمت تجربات کا نچوڑ ہے۔
دنیا والوں سے برتاؤ
یہ کئی سال پہلے کی بات ہے‘ میں نے فیصلہ کیا کہ شراب نوشی ترک کر دی جائے۔ میں عرصے سے اس لت میں مبتلا تھا لہٰذا اسے چھوڑتے ہوئے خاصی مشکل پیش آئی۔ ایک دن میں باہر چہل قدمی کر رہا تھا کہ میرے پڑوسی بوڑھے چچا ملے۔ مجھے کچھ پریشان دیکھا تو بولے ’’نوجوان! آج تم دنیا والوں سے کیا برتاؤ کرو گے؟‘‘
یہ سوال سن کر میں کچھ حیران ہوا۔ پوچھا’’چچا‘ آپ شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں میرے ساتھ کیسا سلوک کرے گی؟‘‘
انہوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ’’ارے بھئی‘ میں نے جو پوچھا اس کا مطلب وہی تھا۔ یاد رکھو‘ دنیا چاہے تم سے کیسا ہی بُرا سلوک رکھے‘ تم نے اس سے محبت آمیز ‘ رحم دلانہ اور پُرشفقت برتاؤ ہی کرنا ہے۔ فائدہ یہ ہے کہ یوں زندگی کا تمہارا سفر آسان ہو جائے گا۔‘‘
اس واقعے کو کئی سال بیت چکے مگر جب بھی میں کسی مصیبت میں مبتلا ہوں تو بوڑھے پڑوسی کی قیمتی نصیحت مجھے حوصلہ و ہمت عطا کرتی ہے۔
(پال ولیمز ‘ شاعر‘ موسیقار اور اداکار)
مفروضے نہ سوچو!
میرا خاندان مقبوضہ کشمیر میں آباد تھا۔ میں دیہی ماحول میں پہلا پڑھا۔ میرے دادا سیبوں کے ایک باغ کے مالک تھے۔ مہینے میں دو تین باروہ سب پوتے پوتیوں کو اپنے باغ میں لے جاتے۔ میں دیکھتا کہ جس سیب کو کسی پرندے نے کھایا ہوتا،وہ صرف اسے توڑتے‘ پانی سے دھوتے اور پھر کسی بچے کو تھما دیتے۔
ایک دن میں نے دادا سے پوچھا’’آپ پرندوں کا کھایا جھوٹا سیب ہمیں کیوں کھلاتے ہیں؟ صاف ستھرا سیب کیوں نہیں دیتے؟‘‘ مجھے یقین تھا کہ دادا اپنے ستھرے سیب بچانے کے لیے ہم بچوں کو پرندوں کے ادھ کھائے سیبوں پر ٹرخا دیتے ہیں۔
میرا سوال سن کر دادا مسکرائے۔ میرے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرااور بولے ’’بیٹے‘ پرندہ صرف وہی پھل کھاتا ہے جو میٹھا ہو۔ لہٰذا میں تمہارے لیے اپنے باغ کے سب سے شیریں سیب توڑتا ہوں۔یاد رکھو‘ کبھی مفروضے کو سامنے رکھ کر عمل نہ کرو‘ ہمیشہ پوچھ لیا کرو تاکہ سچ جان سکو۔‘‘
میں اپنی نجی اور پیشہ وارانہ زندگی میں ہمیشہ دادا ابو کی نصیحت پر عمل کرتا ہوں۔
(ڈاکٹر خورشید احمد گرو، ڈائریکٹر روبوٹک سرجری ‘ روزویل پارک کینسر انسٹی ٹیوٹ‘ بفلو ‘ نیویارک)
غیر یقینی حالات کا مقابلہ
جب سوویت یونین کے حالات خراب ہوئے تو میرے والدین ہجرت کر کے آسٹریا چلے آئے۔ وہاں ایک ریفیوجی کمیپ میں ہمیں جگہ ملی۔ حالات بہت غیر یقینی تھے۔ ہمیں کچھ علم نہ تھا کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔ ہم سبھی بچے خوفزدہ اور پریشان رہے۔ تمام تر پریشانی کے باوجود ایک دن ابا نے اعلان کیا کہ ہم سب اوپیرا دیکھنے ویانا ہاؤس جائیں گے۔
میں بچوں میں سب سے بڑی تھی۔ ابا سے کہا ’’ ہمارے پاس رقم کم ہے۔ ہم یہاں بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں۔ پریشانی و مصیبت کے اس عالم میں میں آپ کو اوپیرا دیکھنے کی کیا سوجھ گئی؟
میرے والد مسکرائے اور کہا ’’بیٹی! زندگی بہت مختصر ہوتی ہے۔ یہ بے وقوفی ہے کہ انسان بیٹھ کر ہر وقت اپنی مصیبتوں پہ ماتم کرتا رہے۔‘‘
آج میں جان چکی کہ ان کا کہنا درست تھا۔
(نٹالے کوگان‘ سی ای او ہپئیر کمپنی)
کوئی جھگڑا کرے تو…
جب میں چھ سات کی تھی، تو ایک میگزین میں انوکھی تصویر دیکھی۔ تصویرمیں ایک پولیس افسر نے ایک لڑکی پر بندوق تان رکھی ہے۔ مگر وہ لڑکی خوفزدہ ہونے کے بجائے اسے پھول پیش کر رہی ہے۔ یہ تصویر عشرہ 1970 ء میں ایک جنگ مخالف امن مارچ کے دوران کھینچی گئی تھی۔ تاہم اس تصویر میں پائے جانے والے تناقص نے مجھے متجسس اور حیرت زدہ کر دیا ۔ آخر اپنی والدہ سے اس تناقص کا ذکر کیا۔انہوں نے بتایا کہ یہ لڑکی نفرت دکھانے کے بجائے محبت اور دوستی کا مظاہرہ کر کے پولیس افسر کو اپنا دوست بنانا چاہتی ہے۔ والدہ کے الفاظ یہ تھے:’’اس نے انہیں سُپر محبت دے ماری‘‘۔(“Zap them back with super love.”)
آنے والے برسوں میں جب کبھی مجھے نفرت‘ جھگڑے اور دشمنی کا سامنا کرنا پڑا تو مجھے اپنی ماں کے الفاظ یاد آجاتے ہیں۔ سچ ہے کہ دوسرے پہ بہترین محبت دے مارنے پر میں نے کبھی پچھتاوا محسوس نہیں کیا۔
( شیرل اسٹریڈ‘ مشہور ناول نگار‘ اور ادیب)
جیت ،مگر کیسے؟
’’بحث کرتے ہوئے یہ نہ سوچو کہ تم نے ہر حال میں جیتنا ہے ۔ تمہاری کوشش ہونی چاہے کہ تمہیں اپنا راستہ مل جائے۔‘‘
برسوں پہلے میری ساس‘ دیا میکنا نے مجھے یہ مشورہ دیا تھا۔ جب بھی میں کسی مشکل میں پھنسا ہوں تو یہ مشورہ چراغ بن کر میری راہ منور کرتا رہا۔ میںنے ہمیشہ اس سے فائدہ ہی حاصل کیا۔
(پال اسٹیگر ‘ سابق منیجنگ ایڈیٹر‘ دی وال اسٹریٹ جنرل)
دھیان سے سنو!
میرے والدین اپنے اپنے کاموں میں مصروف رہتے تھے لیکن جب بھی انہیں موقع ملتا وہ ہمیں زندگی گزارنے کے ڈھنگ بھی بتاتے۔ ایک بار امی کہنے لگیں ’’بیٹا ایک بات یاد رکھنا! جب تم کوئی اہم فیصلہ کرنے لگو، تو پہلے ہر جاننے والے سے مشورہ کرو۔ اور وہ جو باتیں کرے، انہیں دھیان سے سنو۔ جب ہر ایک باتیں سن لو، تم کسی نتیجے پر پہنچو۔‘‘
یہ نصیحت آگے چل کر میرے بہت کام آئی۔ وجہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی دوسرے کی باتیں غور سے سنے، تو وہ کچھ نہ کچھ سیکھتا اور نئی معلومات حاصل کرتا ہے۔ اسی لیے میری سعی ہوتی ہے کہ میں خود بولنے کے بجائے دوسروں کی باتیں سنوں اور کچھ سیکھنے کی سعی کروں۔ اس طرز عمل سے مجھے بہت فائدہ پہنچا۔
(سٹیون اسپیل برگ، فلم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر)
حد سے نہ بڑھو
میں نے تعلیم مکمل کی، تو ایک سکول میں پڑھانے لگا۔ تمنا تھی کہ میں سکول میں بہترین استاد بن جاؤں۔ اس لیے میں چھٹی ہونے کے بعد بھی دیر تک سکول میں بیٹھتا اور نت نئے سوال تیار کرتا رہتا۔ تعلیم کے مختلف انداز بھی سوچتا۔مگر مجھے محسوس نہیں ہوا کہ حد سے زیادہ کام کرنے کے باعث میری صحت گرگئی۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑگئے اور میں کچھ غائب الدماغ رہنے لگا۔ میری یہ حالت اس وقت اجاگر ہوئی جب میرے ایک چچا بیرون شہر سے ہمارے گھر آئے۔ وہ ایک ریٹائرڈ ٹیچر تھے۔
انہوں نے محسوس کرلیا کہ میں ضرورت سے زیادہ جان ماری کررہا ہوں۔ وہ مجھے لے کر بیٹھے اور بولے ’’بیٹا! انسان کو یقیناً بہترین کام کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔ لیکن اگر تم حد سے زیادہ بڑھو گے تو ذہنی و جسمانی طور پر تھک جاؤ گے۔ تب تم سے قطعاً بہترین کام نہیں ہوسکتا۔‘‘
میں نے اس نصیحت پر غور کیا، تو مجھے یہ بہت صائب نظر آئی۔ چناں چہ میں ایک معین وقت پر ہی غور و فکر کرنے لگا۔ اس طرح مجھے اپنی جماعت کے سبھی طلبہ پر زیادہ دھیان دینے کا موقع ملا۔ یہی تبدیلی مجھے کامیاب استاد بنانے کا ذریعہ بن گئی۔
(سین میکومب جنھیں امریکا کے نیشنل ٹیچر کا ایوارڈ ملا)
وقت ترجیح نہیں…
یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں ایک اخبار میں کام کرتی تھی۔ تب میں نے تھریسا ڈینئر نامی ایک خاتون کا انٹرویو کیا۔ وہ ایک کنسٹریکشن کمپنی کی مالک اور چھ بچوں کی ماں تھی۔ ان میں دو بچے جڑواں تھے۔مجھے تعجب تھا کہ وہ کاروبار کرانے اور بچے سنبھالنے کی خاطر وقت کیونکر نکال لیتی ہے؟
انٹرویو دیتے ہوئے تھریسا نے بتایا ’’میں کبھی اپنے آپ یا دوسروں سے یہ بھی نہیں کہتی ’’میرے پاس وقت نہیں۔‘‘ بلکہ میرا جواب ہوتا ہے ’’یہ میری ترجیح نہیں‘‘۔ ظاہر ہے، اگر میرے بچے مجھ سے کہیں کہ ہمارے ہم جماعتوں کی خاطر کیک بنادو تو یہ کام میری ترجیح نہیں ہوگا۔ لیکن مجھے کہا جائے کہ کیک بنانے پر ایک ہزار ڈالر ملیں گے، تو میں یہ کام کرنے کے لیے ہر حال میں وقت نکال لوں گی۔‘‘
تھریسا کی بات مجھے دل کو لگی۔ انسان جس کام کو ترجیح دے، اسے فوری انجام دے ڈالتا ہے۔ گویا کام کرنے کے معاملے میں وقت نہیں یہ بات سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ وہ کتنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے، اب میں ٹائم مینجمنٹ یعنی اپنے کاموں کو انجام دینے کا نظام الاوقات بتاتے ہوئے وقت نہیں اپنے کاموں کی ترجیحات کو مدنظر رکھتی ہوں۔ اس انداز کار کا نتیجہ ہے کہ میرا ہر کام بہترین طریقے سے مکمل ہوتا ہے۔
(لارا وینڈرکم، ناول نگار)
ناقدین کی منفی باتیں
یہ کئی برس پہلے کی بات ہے، ایک تقریب سے موٹیویشنل مقرر، ہیری ہنٹن ’’زگ‘‘ زکلر نے خطاب کرنا تھا۔ مجھے بھی تقریر کرنے کی ذمے داری سونپی گئی۔ تقریب میں بیس ہزار لوگوں کا جم غفیر موجود تھا۔ میں سٹیج کے پیچھے زگ زکلر کے ساتھ بیٹھی تھی۔موقع سے فائدہ اٹھا کر میں نے ان سے دریافت کیا ’’جو مردوزن آپ کو سننے آتے ہیں، وہ ان میں سے یقیناً سبھی آپ کے پرستار نہیں ہوں گے۔ ممکن ہے کہ وہ آپ کے ناقد ہی ہوں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ آپ کا رویّہ کیسا ہوتا ہے؟‘‘
وہ مسکرا کر بولے ’’بھئی میں ان مردوزن پر کم ہی توجہ دیتا ہوں جو منفی طرز فکر رکھیں اور کسی قیمت پر اپنے آپ کو بدلنے پر آمادہ نہ ہوں۔ اس لیے میں اپنی توانائی ایسے لوگوں پر خرچ کرتا ہوں جو اچھی اچھی باتیں سننے اور اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے یہاں آتے ہیں۔‘‘
یہ نصیحت میرے دل میں کھب سی گئی۔ اس سے میں نے یہ سیکھا کہ اپنے ناقدین کی منفی باتوں کو نظر انداز کردو اور ان لوگوں کی بہتری پر اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کرو جو آپ کے ساتھ گانا اور ناچنا چاہتے ہیں۔
(بسیتھ گوڈین، ادیبہ و پبلک اسپیکر)
استقامت اور ہمت نہ ہارنا
یہ پچاس سال پہلے کی بات ہے، میں فونیکس شہر کے ایک اخبار سے منسلک تھا۔ ایڈیٹر نے میری ذمے داری لگا دی کہ ہائی کورٹ جاکر رپورٹنگ کرو۔ چناں چہ میں مختلف عدالتوں میں جاکر مقدمات کی سماعت سنتا۔ جب مقدمہ ختم ہوتا، تو وکلاء ملزمان اور کبھی کبھی ججوں سے بھی سوال کرتا۔مجھے کورٹ رپورٹنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا، اس لیے شروع میں کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اکثر لوگ میرے سوالات کو ٹال جاتے اور میں مطلوبہ جواب حاصل نہ کرپاتا۔ یوں میری رپورٹنگ ادھوری اور کمزور رہتی۔ اس کوتاہی پر ایڈیٹر نے چند بار ڈانٹ ڈپٹ بھی کی۔
ہائی کورٹ میں ایک خاتون بھی بحیثیت جج کام کرتی تھیں۔ ایک دن جب مقدمے کی سماعت ختم ہوچکی تھی اور وہ اپنے چیمبر سے نکل رہی تھیں، تو انہوں نے مجھے بنچ پر افسردہ بیٹھے دیکھا۔ وہ میرے قریب آئیں اور کہا ’’نوجوان! تم کچھ پریشان نظر آتے ہو۔ کیا بات ہے؟‘‘
میں نے انہیں بتایا کہ ناتجربے کاری کے باعث میں کورٹ رپورٹنگ صحیح طرح نہیں کرپاتا جس پر ایڈیٹر ناراض ہوتا ہے۔ یہ سن کر خاتون جج نے کچھ سوچا اور پھر بولیں ’’بہترین رپورٹنگ کرنے کا ہنر استقامت اور ہمت نہ ہارنے میں پوشیدہ ہے۔ مطلب یہ کہ تم متعلقہ شخص سے مسلسل سوال کرتے رہو تاایں وہ جواب دے ڈالے۔ مطلوبہ جوابات حاصل کرنے تک اس کا پیچھا نہ چھوڑو۔‘‘
آج میں الزائمر مرض میں مبتلا ہوں۔ میری یادداشت رفتہ رفتہ کمزور ہورہی ہے۔ پھر بھی میں اس دانش مندانہ نصیحت پر عمل کرتا ہوں جو برسوں قبل سینڈرا اوکونر نے دی تھی۔ انہی کو آگے چل کر امریکی سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سینڈرا کے شوہر، جان بھی دو عشروں تک الزائمر مرض سے نبرد آزما رہے اور پھر اسی بیماری میں چل بسے۔ لیکن میں سوالات کرنے کی قوت سے اپنی یادداشت توانا رکھنے کی پیہم کوششوں میں مصروف ہوں۔
(گریگ اومبرائن، صحافی اور ادیب)
جان لڑا دو
جب میں پچیس برس کا تھا تو طبی معائنے سے انکشاف ہوا کہ میں ڈائی سیلسیا کی نرم قسم میں مبتلا ہوں۔ یہی وجہ ہے، میں پڑھنے لکھنے میں دقت محسوس کرتا تھا۔ تاہم اس انکشاف کے بعد بھی میں نے طب کی تعلیم پڑھنا جاری رکھی۔ میں نے بچپن سے سرجن بننے کا خواب دیکھ رکھا تھا۔
مگر جب پتا لگا کہ میں ڈائی سیلسیا میں مبتلا ہوں، تو میرے بعض اساتذہ اور کالج انتظامیہ بھی مجھ پر زور دینے لگی کہ میں طب کی تعلیم چھوڑ دوں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اس بیماری کے باعث کبھی سرجن نہیں بن سکتا۔ تاہم میں ان کی باتوں سے دل برداشتہ نہیں ہوا… کبھی کبھی وہ نصیحت یا مشورہ بہترین ثابت ہوتا ہے جس پہ آپ عمل نہ کریں۔دراصل میری مستقل مزاجی کا راز ایک چھوٹے سے جملے میں چھپا تھا۔ یہ جملہ میں نے اخبار میں پڑھا تھا۔ مجھے اتنا پسند آیا کہ اسے کاٹ کر اپنی ڈائری میں رکھ لیا۔ جب بھی روزانہ رات کو ڈائری لکھتا تو اسے پڑھ لیا کرتا۔ جملہ یہ تھا ’’جس خیال کو سوچا جاسکے، اسے تخلیق کرنا بھی ممکن ہے۔‘‘(“What can be conceived can be created.”)
میں نے لوگوں کے کہنے کی پروا نہیں کی اور طبی تعلیم پاتا رہا۔ آخر میں سرجن بننے میں کامیاب رہا۔ کئی سال بعد مجھے علم ہوا کہ درج بالا جملہ کار کے ایک اشتہار کا حصہ تھا۔ بہرحال میں مرتے دم تک یہ جملہ نہیں بھول سکتا۔ یہ انسان کو بتاتا ہے کہ اگر تم بلند و بالا تصّورات رکھتے ہو تو پھر انہیں عملی روپ دینے کی خاطر جان لڑا دو۔
(ڈاکٹر ٹوبی کوسگریو، سی ای او کلیولینڈ کلینک)
امی ابو، خبردار!
جب میں زچگی کرانے ہسپتال میں داخل ہوئی تو ایک نن بھی وہاں مقیم تھی۔ وہ اپنے کسی مرض کا علاج کرانے آئی ہوئی تھی۔ ہمارے بستر ساتھ ساتھ تھے لہٰذا وہ میری سہیلی بن گئی۔ جب ٹام نے جنم لیا، تو نن نے میرے شوہر کو ایک ننھی یہ نظم دی:
’’نوجوان، اب جہاں بھی جاؤ، محتاط رہو
جو بھی کچھ کرو، احتیاط سے کرو
اب دو ننھی آنکھیں تمہیں تک رہی ہیں
دو ننھے پیر تمہارے نقش قدم پر چلیں گے‘‘
جب میں نے یہ نظم پڑھی تو اشکبار ہوگئی۔ والدین عام طور پر دھیان نہیں دیتے کہ بچے بڑی توجہ سے ان کی حرکات دیکھتے اور سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ اہل خانہ ایک دوسرے کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ دن میں کتنی بار ’’پلیز‘‘ اور ’’شکریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ اشارہ تو نہیں توڑتے اور ٹریفک قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ یاد رکھیے، بچے بظاہر لاپروا نظر آتے ہیں مگر وہ والدین کے ہر اٹھتے قدم کو بھی بغور دیکھتے ہیں۔
(پاؤلا سپنسر، صحافی اور ادیب)
چھوٹی چھوٹی خوشیاں
جب میں نے ہارورڈ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے کا آغاز کیا توتین بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ بچوں کو سنبھالنے اور ساتھ ساتھ تعلیم پانے کے دوہرے بوجھ نے مجھے ذہنی و جسمانی طور پر خاصا تھکا دیا۔ اخر میں طبی مشورہ کرنے ایک سن رسیدہ ڈاکٹر کے پاس پہنچی۔
ڈاکٹر نے مجھے ایک نظر دیکھا پھر پوچھا ’’یہ بتاؤ‘ تم نے آخری بار کب کتاب پڑھ کر لطف اٹھایا تھا؟‘‘ بتایا کہ عرصہ ہی ہوگیا۔ وہ مسکرائے اور بولے ’’بیٹی، اپنی زندگی میں لطف اٹھانا سیکھو۔ کوئی کتاب پڑھو، کوئی کھیل کھیلو۔ لطف کے یہ لمحات زندگی میں رنگ ہی نہیں لاتے بلکہ اسے بدل بھی ڈالتے ہیں۔‘‘
میں اسی دن بچوں کو لینے سکول گئی، تو راستے میں ایک بک سٹور سے کتاب بھی خریدلی۔ رات کو اس کا مطالعہ کیا، تو واقعی کئی دن بعد بہت مزہ آیا۔ میں نے پھر ڈاکٹر صاحب کی نصیحت پلّے سے باندھ لی۔ اب میں روزمرہ زندگی میں لطف حاصل کرنے کے چھوٹے چھوٹے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہوں تاکہ میرا دماغ اور جسم یکسانیت و بوریت کا نشانہ بن کر بنجر نہ ہوجائے۔
(مارتھا بیک، پی ایچ ڈی عمرانیات)
عمدہ ازدواجی زندگی کا راز
ایک بار میں سیروتفریح کرنے ریاست جارجیا گئی۔ وہاں میری ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جو پچھلے ساٹھ برس سے اپنے خاوند کے ساتھ نباہ کررہی تھی۔ باتوں باتوں میں، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی شادی کو طویل عرصہ گزر گیا۔اس دوران آپ کو ازدواجی زندگی گزارنے کے تجربات بھی ملے ہوں گے۔کیا آپ نوجوان نسل کوان تجربات کا نچوڑ بتا سکتی ہیں؟ وہ مسکرائیں اور گویا ہوئی:
’’ ہرگز ایسا انسان بننے سے مت گھبراؤ جسے سب سے زیادہ چاہا جائے۔‘‘
(نیٹ بگیلے، مصنف و کاروباری)
اپنی موجودگی کو کارآمد بناؤ
میری والدہ ایک جہاں دیدہ اور ہمدرد خاتون تھیں۔ وہ اکثر مجھے کہتیں ’’انسان کو چاہیے کہ وہ آپ کو ہرجگہ کارآمد اور بامقصد بنائے۔‘‘ مثال کے طور پر آپ کے دفتر میں میٹنگ ہے تو اسے یادگار بنانے کی خاطر کوئی نیا کام کیجیے۔ کوئی منصوبہ بن رہا ہے تو اپنی ذہانت و صلاحیت سے اس میں جدت لائیے۔ انسان میز صاف کرتے یا کوڑا پھینکنے سے بھی اپنے آپ کو کارآمد بناسکتا ہے۔ اسی طرح نہ صرف انسان کو دلی سکون ملتا ہے بلکہ وہ دوست احباب میں مقبولیت بھی پالیتا ہے۔
(سین شمین، صنعتکار)
جیتنے اور ہارنے والوں میں بنیادی فرق
یہ کئی سال پہلے کی بات ہے، میں ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھا۔ میرے سکول میں کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لڑکے پڑھتے تھے۔ میں سکول کی فٹ بال ٹیم کا کپتان تھا۔ ایک دن ہمارا مقابلہ ایسی ٹیم سے ہوا جس کے سبھی لڑکے یتیم خانے میں رہتے تھے۔ ان کے کپڑے معمولی تھے۔ بعض نے ٹیپ سے اپنی ٹی شرٹس پر نمبر چپکا رکھے تھے۔میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ لٹے پٹے سے لڑکے ہمارا کیا مقابلہ کریں گے؟ ہم نے تو انہیں خوب گول مارنے ہیں۔ غرض ہم نے مخالف ٹیم کا خاصا مذاق اڑایا۔ آخر میچ شروع ہوا۔ معلوم ہوا کہ حریف تو فٹ بال کھیلنے میں طاق ہیں۔ انہوں نے ہمیں تھکا ڈالا اور میچ جیت گئے۔جب میچ ختم ہوگیا، تو ابو قریب آئے اور مسکراتے ہوئے بولے ’’بیٹے! اس میچ سے تم نے دیکھ لیا کہ جیتنے کی امنگ بہت طاقت رکھتی ہے۔ جیتنے اور ہارنے والوں میں بنیادی فرق یہی ہے کہ فاتح جیت کی امنگ رکھتے اور فتح پانے کے لیے جان لڑا دیتے ہیں۔‘‘
اس واقعے سے مجھے سبق ملا کہ انسان کامیابی چاہتا ہے، تو سخت محنت کرے اور اپنے آپ میں فتح کی امید کا ولولہ جگائے رکھے۔ دوسری صورت میں ٹیپ سے نمبر چپکانے والا لڑکا ہی کامیاب ہوجائے گا۔
(ڈاکٹر فل میگریو، ٹی وی پرسنیلٹی)
دلی اطمینان
چالیس سال پہلے میں پانچویں جماعت کی طالبہ تھی۔ ایک دن میں اپنی والدہ کے ساتھ چہل قدمی کرنے نکلی۔ ہم باغ میں ٹہل رہے تھے کہ میں امی کو بتانے لگی کہ ریاضی کی ٹیچر، مس الزبتھ مجھے بہت پسندکرتی ہیں۔ پوری جماعت میں، میں ہی ان کی پسندیدہ ترین شاگرد ہوں۔ غرض میں اس قسم کی شیخیاں مارتی رہی۔ مجھے قطعاً علم نہ تھا کہ مس الزبتھ کی والدہ ہمارے پیچھے ٹہل رہی تھیں۔ انہوں نے میری ساری گفتگو سن لی۔
اگلے دن جب چھٹی ہوئی، تو مس الزبتھ نے مجھے اپنی جماعت میں بلوالیا۔ پھران کی والدہ نے جو میری باتیں سنی تھیں، وہ دہرائیں۔ میں تو شرمندگی کے مارے پانی پانی ہوگئی۔ مجھے یقین تھا کہ اتراہٹ اور شیخی دکھانے پر وہ مجھے ڈانٹ ڈپٹ کریں گی مگر انہوں نے کہا:’’جوڈتھ، یاد رکھو، ہر انسان اپنا ہی سب سے بڑا پرستار ہوتا ہے اور سب سے بڑا ناقد بھی، اسے کسی کی نظروں میں پسندیدہ ترین بننے کی خاص ضرورت نہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان ہمیشہ ایسے کام کرے جن سے اس کے من کو شانتی و سکون ملے۔ اگر انسان کو دلی اطمینان ہی میسر نہیں تو پھر ہر بات بیکار ہے۔‘‘
(جوڈتھ روڈن، صدر راک فیلر فاؤنڈیشن)
حقیقی ماہر
یہ چند سال پہلے کی بات ہے، مجھے موٹی ویشنل مقرر، ڈاکٹر نیندو قوبین کا ایک لیکچر سننے کو ملا۔ وہ کہنے لگے ’’اگر آپ ایک حقیقی ماہر (ایکسپرٹ) کی باتیں سن رہے ہیں، تو آپ آسانی سے اس کی ہر بات سمجھ لیں گے۔ اگر آ پ کو اس کی باتیں سمجھ نہیں آرہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حقیقی ماہر نہیں ہے۔‘‘
ایک انسان روزمرہ زندگی میں کئی ما ہرین سے ملتا ہے اور ان کی باتیں سنتا ہے۔ عام مشاہدہ یہ ہے کہ جب انسان کو کئی ماہر کی باتیں سمجھ میں نہیں آئیں، تو وہ خود کو قصور وار سمجھتا ہے لیکن ڈاکٹر بندو قوبین کی نصیحت نے تو میرا دماغ روشن کردیا۔ اب میری جانچ پرکھ کا پیمانہ بالکل سادہ ہے… اگر کسی ماہر کی باتیں مجھے سمجھ میں نہ آئیں، تو میں اس کا لیکچر نہیں سنتا۔
(کپلنگ ایپل، استاد و مصنف)
اصل میں ہم کون!
ایک رات مجھ پر کام کا خاصا بوجھ تھا۔ جب مجھے بوریت ہوئی تو اس سے نجات پانے کی خاطر اپنی سہیلی لڈیا کو فون کردیا۔ طویل عرصے بعد ہماری بات چیت ہوئی۔ میں نے اسے بتایا کہ کام کی زیادتی نے مجھے بدحال کررکھا ہے۔ ذمے داریوں سے چھٹکارا بھی ممکن نہیں۔
لڈیا کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی ’’میری! تمہیں یاد ہے، تم اکثر مجھے ایک جملہ کہا کرتی تھیں۔ وہ یہ کہ جب میں مروں گی، تو میری تمنا ہوگی، میری قبر پر کھڑے لوگ یہ مت کہیں کہ اس نے اپنا گھر پرفیکٹ حالت میں رکھا۔ بلکہ میں یہ سننا چاہوں گی، واہ اس عورت نے تو دنیا کو مسخر کرلیا۔‘‘
جب لڈیا نے یہ بات سنائی، تو مجھے بھی یاد آگئی ورنہ میں اسے بھول چکی تھی۔ اس یاد نے میری مایوسی کافور کر ڈالی اور مجھے پھر تازہ دم کردیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی احساس ہوا کہ پرانے دوست اور ان سے بندھے رشتے عظیم نصیحت ہیں کہ وہ گمشدہ یادوں کے خزینے کو سامنے لے آتے ہیں۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اصل میں ہم کون ہیں… وہ نہیں جنہیں ذمے داریوں کا بوجھ برسوں کے عرصے میں جنم دے ڈالتا ہے۔
(میری باؤنڈز، صحافی اور ادیب)
امتحان کے لیے تیار
1980ء میں جب میں نے گریجویشن کرلی تو تقریبات میں اپنی مزاحیہ گفتگو کے جوہر دکھانے لگا۔ میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اگلے دس برس میں اتنا مشہور ضرور ہونا ہے کہ جونی کارسن مجھے اپنے پروگرام ’’دی ٹونائٹ شو‘‘ میں مدعو کرلے۔ یہ تب امریکا کا مشہور ترین مزاحیہ پروگرام تھا۔ اس میں وہ مختلف شخصیات کو بھی بلاتا تھا۔
1990ء کے اوائل میں میرے آٹھ آڈیشن ہوئے مگر مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آخر نویں آڈیشن میں کامیابی ملی اور مجھے پروگرام میں شامل کرلیا گیا۔ یوں میرا دس سالہ خواب پورا ہو گیا۔دی ٹونائٹ شو کے آڈیشن دیتے ہوئے ہی میری ملاقات جم میکولے سے ہوئی۔ وہ پروگرام کا پروڈیوسر تھا۔ وہ اکثر آڈیشن دینے آئے نوجوانوں سے کہتا تھا ’’بہتر ہے،جونی کارسن کے ساتھ پرفارم کرنے کی خاطر پانچ سال دیر سے آؤ جاؤ نہ کہ ایک دن پہلے آن ٹپکو۔‘‘
جم میکولے کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کامیابی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ انسان درست وقت پر درست جگہ جاپہنچے بلکہ ضروری یہ ہے کہ جب وقت آئے، تو وہ مقابلے یا امتحان کے لیے پوری طرح تیار ہو۔
(جم ڈینہیم، اسٹینڈ اپ کامیڈین)
سچ کا سامنا کرو
میں پندرہ سال کی تھی کہ میں نے اپنی سہیلی کو بتایا، میرے اندر ایچ آئی وی وائرس موجود ہے۔ یہ وائرس مجھے اپنے ایڈز زدہ باپ سے ملا تھا۔ جب میں آٹھ سال کی تھی تو وہ چل بسا تھا۔ سہیلی کو اپنا راز بتانا میرے لیے مصیبت بن گیا۔
سہیلی کے ذریعے سکول میں سب لڑکے لڑکیوں کو پتا چل گیا کہ میرے جسم میں ایڈز پیدا کرنے والا خطرناک وائرس پل رہا ہے۔ اب وہ مجھ سے بات کرتے ہوئے بھی کترانے لگے۔ میں جہاں جاتی میرا مذاق اڑایا جاتا۔ میرے گھٹیا نام بھی رکھ دیئے گئے۔ اس ذہنی ٹارچر کو میں برداشت نہیں کرسکی لہٰذا ایک دن نیند کی گولیاں کھالیں۔
میری زندگی باقی تھی، اس لیے خودکشی کی کوشش ناکام ثابت ہوئی۔ ہسپتال میں میری ملاقات ایک ماہر نفسیات سے ہوئی۔ اس نے مجھے کہا ’’بیٹی، جو لڑکے لڑکیاں تمہیں تنگ کرتے ہیں، انہیں نظر انداز کردیا کرو۔‘‘
میں نے کہا، میں ایسا ہی کرتی ہوں اور وہ ان کی باتوں پر دھیان نہیں دیتی۔ ماہر نفسیات کہنے لگی ’’دیکھو، نظر انداز کرنا اور نظر انداز کرنے کی اداکاری کرنا… یہ دو بالکل مختلف رویّے ہیں۔ اب تم خود فیصلہ کرو کہ تم کس قسم کا رویہ اختیار کروگی۔‘‘
ماہر نفسیات کی بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ لڑکے لڑکیوں کی طنزیہ باتوں سے مجھے سخت تکلیف پہنچتی تھی۔ لیکن میں ظاہر یہی کرتی کہ مجھ پر ان کا کچھ اثر نہیں ہوا۔ اگر میں ردعمل دکھاتی، تو یہ طنزیہ گفتگو کرنے والوں کی جیت ہوتی۔
اسی دن مگر میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے تسلیم کرنا ہوگا کہ لوگوں کی باتیں مجھ کو دکھ دیتی ہیں۔ اس فیصلے نے مجھے ذہنی سکون عطا کرڈالا۔ اب مجھے کسی قسم کی اداکاری کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یوں میں دکھ و غم سے نجات پاکر آزاد ہوگئی۔
(ہیگی رول، سماجی کارکن اور لکھاری)
The post مایوسی کو اُمید میں بدل لیجیے؛ 21 مشورے جو زندگی گزارنا سکھائیں appeared first on ایکسپریس اردو.