پانی زندگی کی اساس ہے۔ یہی پانی دنیا بھر کے اربوں لوگوں کے لیے غذا فراہم کرتا ہے تو یہی پانی دنیا بھر کے کروڑوں افراد کے لیے رزق حلال کمانے کا اہم ذریعہ ہے۔ کرۂ ارض کا تین چوتھائی حصہ اسی پانی پر مشتمل ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بقائے انسانی کے لیے ناگزیر اس عظیم نعمت سے دنیا کے 84 کروڑ 40 لاکھ افراد محروم ہیں۔ پانی کی قلت اور اس سے متعلق دوسرے مسائل کی وجہ سے دنیا کی معیشت پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔ صاف پانی کی تلاش میں ضایع ہونے والے وقت کو اگر مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو اس سے اربوں ڈالر کے معاشی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
پانی جیسی بنیادی ضرورت کی کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں سالانہ 260 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ پانی کی کم یابی اور آلودگی سے متعلق آنے والی رپورٹس بتاتی ہیں کہ صورت حال مزید خراب ہونا ہے، لیکن بڑھتی ہوئی آلودگی، ماہی گیری کے لیے چھوٹے جالوں کے استعمال سے معدوم ہوتی مچھلیوں کی اقسام نے دنیا بھر کے کروڑوں افراد کی بقا کو خطرات لاحق کردیے ہیں۔ بنی نوع انسان اپنی دسترس میں موجود زمین کے خشک حصے کو تو آلودگی اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے خطرات سے دوچار کرچکا ہے، لیکن زمین پر انسانوں کے لیے موجود وسائل پر دباؤ بڑھنے سے ایک نئی اصطلاح ’نیلگوں معیشت ‘ نے جنم لیا۔
سمندر کئی دہائیوں تک بس ماہی گیری اور تجارت کے لیے استعمال ہوتا رہا، لیکن زمین پر موجود انسانی وسائل پر بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث ہم نے زمین کے اس حصے کی جانب دیکھنا شروع کردیا جو کہ پانی پر مشتمل ہے، جو اب تک ہمارے لیے بے فیض اور ناقابل رسائی تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم زیادہ بہتر اور محفوظ طریقے سے ان وسائل سے کس طرح مستفید ہوسکتے ہیں، جو کہ ہمارے سمندروں میں بڑی مقدار میں موجود ہیں؟ لیکن ان وسائل کو اس طرح برباد نہ کیا جائے جس طرح ہم اپنے زمینی وسائل کو کرچکے ہیں۔
چیزوں کو درست طریقے سے سرانجام دینے کے لیے یہ ہمارے پاس دوسرا موقع ہے ۔ سمندری وسائل وافر مقدار میں ہیں لیکن ان سے قدرت کو متاثر کیے بنا مستفید ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں ماہی گیری کے لیے بھی ایک محفوظ طریقۂ کار کی ضرورت ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی مچھلی اور دیگر سمندری حیات کے ذائقے سے آشنا ہوسکیں۔ دنیا بھر میں شکار کی جانے والی ہر دس میں سے ایک مچھلی اس نسل سے تعلق رکھتی ہے جسے ماہی گیر شکار نہیں کرنا چاہتے، عموماً ایسی مچھلیوں کو ماہی گیر مرنے کے بعد سمندر میں واپس پھینک دیتے ہیں، جو پانی میں جاکر کچرے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
صرف ایک مچھلی ہی نہیں بلکہ ہر سال اربوں سمندری اجسام انسانی سرگرمیوں کی بدولت اسی طرح سمندر بُرد ہوجاتے ہیں، یعنی ہر سال ہم اربوں روپے ان سمندری اجسام سے مستفید ہوئے بنا ضائع کردیتے ہیں۔ بھاری جرمانے اور سخت قوانین کے نفاذ سے اگرچہ غیرمحفوظ ماہی گیری پر قابو پایا جاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے دنیا بھر میں نیلگوں معیشت کے رجحان کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک بہ شمول انڈیا، صومالیہ، نائجیریا اور جمہوریہ سیچلیز نیلگوں معیشت کو ڈیولپ کرنے کے لیے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
اس ضمن میں گذشتہ سال برطانیہ کی انوائرمینٹل آڈٹ کمیٹی نے سسٹین ایبل سمندروں کے فروغ کے لیے ایک تحقیق کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یورپی یونین بھی اس کام کے لیے تحقیق اور جدت لانے کے لیے سرگرم عمل ہے، اس کام کے لیے ان کے پاس ہائی پروفائل فنڈز موجود ہیں جس کی مدد سے وہ اس مسئلے سے نمٹتے ہوئے ہورائزن 2020پروگرام (یورپی یونین کا سب سے بڑا تحقیق اور اختراعی پروگرام جس کے لیے سات سال 2014 تا 2020 تک کے لیے اسی ارب یورو کا فنڈ دست یاب ہے) کا حصہ بننے کے اہل ہوسکیں گے۔ ایکوا کلچر (آبی پودوں اور جانوروں کی پرورش)، ساحلی سیاحت اور سمندری توانائی یورپی یونین کی ’بلیو گروتھ‘ حکمت عملی کا حصہ ہے۔
انڈونیشیا نے بھی نیلگوں معیشت کے فروغ کے لیے ماہی گیری پر سخت قوانین نافذ کردیے ہیں اور وہ تیکنیکی نفاذ اور اختراعی تنظیم کاری سے ان قوانین کو مؤثر بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ تھائی لینڈ کی حکومت نے بھی یورپی یونین کی جانب سے آئی یو یو (ال لیگل، ان ریگولیٹڈ اور ان رپورٹڈ) ریکارڈ پر ’یلو کارڈ‘ جاری کیے جانے کے بعد اپنی فشریز کو اپ گریڈ کیا ہے جس کے بعد اب وہ یورپی یونین میں شامل ممالک کو اپنی سمندری خوراک فروخت کرسکتے ہیں۔ 2017 میں امریکا نے بھی اپنے قوانین میں اصلاحات کا آغاز کیا تھا تاکہ اسے پتا چل سکے کہ وہ جو مچھلی خرید رہا ہے وہ کہاں سے آرہی ہے۔ حال ہی میں ریاست اوریگون نے اپنا پہلا قانون منظور کیا ہے جس کے تحت جھینگے کے شکار کے لیے روشنی خارج کرنے والے آلات کے استعمال کا فرمان جاری کیا گیا ہے، تاکہ مچھلیوں کی معدوم ہوتی نسل eulachon (قندیلہ مچھلیوں کی ایک قسم جو شمالی بحرالکاہل کے ساحلی پانیوں میں پائی جاتی ہے) کے غلطی سے پکڑنے جانے کے امکانات کو کم کیا جاسکے۔ یہ تمام اقدامات نیلگوں معیشت کے فروغ کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ نیلگوں معیشت ہے کیا؟
٭نیلگوں معیشت کیا ہے؟
نیلگوں معیشت (بلیو اکانومی) کا ماڈل ایک جدید معاشی ماڈل ہے۔ بلیو اکانومی ماڈل میں پائے دار معاشی ترقی کے حصول کے لیے کسی ملک کی سمندری حدود میں موجود قدرتی آبی وسائل ، جیسے زیرِ آب معدنیات، آبی حیات، تیل و گیس کے ذخائر کی آف شور ڈرلنگ، صنعتِ ماہی گیری اور فشریز پراڈکٹ کی صنعت، سامانِِ تجارت کی نقل و حمل کے لیے جہاز رانی کی صنعت، ساحلی ہواؤں سے وِنڈ ٹربائن انرجی اور سمندری دھوپ سے شمسی توانائی کا حصول، ساحلی زمین پر ریزورٹس کی تعمیر اور ہوٹل اینڈ سیاحتی صنعت کا فروغ، سمندری حیاتیاتی ٹیکنالوجی، ایکوا کلچر اور میٹھے پانی کے لیے ڈی سیلی نیشن پلانٹ وغیرہ شامل ہیں۔
نیلگوں معیشت ایک تیزی سے ابھرتا ہوا نظریہ ہے جو کہ سمندر اور اس میں موجود ’نیلگوں‘ وسائل سے استفادہ کرنے کے لیے ہے، اس تصور کے پیچھے دولت مشترکہ کا نیلگوں منشور ہے، جس کا دنیا بھر میں پھیلے سمندروں، ماحولیاتی تبدیلیوں اور دولت مشترکہ لوگوں کی خوش حالی سے قریبی تعلق ہے۔ یہ منشور دولت مشترکہ کی اقدار بہ شمول ساحلوں کی فیصلہ سازی اور سمندروں میں لوگوں کی یکساں حصہ داری کی توثیق کرتا ہے۔ نیلگوں معیشت اقوام متحدہ کے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ گولز (ایس ڈی جی ایس، قابل برداشت ترقیاتی اہداف) خصوصاً ایس ڈی جی14 ’زیرآب زندگی‘ کی تائید، اور اس بات کو پیش نظر رکھنا ہے کہ سمندروں کو موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے محٖفوظ بنانے اور تحفظ فراہم کرنے کے لیے جُرأت مندانہ اور مساوی اقدامات درکار ہوں گے۔ نیلگوں معیشت کو اگر سمندری اقتصادیات کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاشی نمو کے لیے یہ ایک بہترین میکانزم ہے۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک جہازرانی، تجارتی بنیادوں پر ماہی گیری، تیل اور گیس کی تلاش، زیرآب کان کنی اور دیگر سمندری وسائل سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ان تجارتی سرگرمیوں سے کئی لوگوں کا کاروبار وابستہ ہے۔
خصوصاً چھوٹے جزائر پر رہنے والے افراد کے لیے روزگار کے مواقع، غذائی تحفظ اور غربت میں کمی ہورہی ہے۔ سبز معیشت کی طرح نیلگوں معیشت کے ماڈل کا مقصد بھی ماحولیاتی خطرات میں نمایاں کمی کرتے ہوئے سماجی مساوات اور انسانی خوش حالی میں بہتری لانا ہے۔ یہ ایسی ساحلی ریاستوں کے لیے ایک جامع معاشی ماڈل ہے، جن کے پاس بعض اوقات بھرپور معدنیاتی وسائل کے استعمال کی گنجائش میں کمی ہوتی ہے، وہ ان ماڈلز کو بروئے کار لاتے ہوئے ان تمام وسائل سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ نیلگوں معیشت سے زبردست فوائد حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں تمام سماجی گروہ اور شعبہ جات اثرانداز ہوں۔ نیلگوں معیشت صرف مارکیٹ میں موجود ایک بہتر موقع نہیں، بل کہ یہ ’نیلے‘ وسائل کو تحفظ بھی فراہم کرتی ہے، جیسے کہ روایتی طرز زندگی، کاربن کے اخراج میں کمی اور ساحلوں کے پھیلنے سے غیرمحفوظ ریاستوں کے لیے خطرات کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے، جو کے اکثر وبیشتر موسمیاتی تبدیلیوں پر تباہ کن اثرات کرتب کرتی ہے۔
٭پاکستان اور نیلگوں معیشت
پاکستان اپنے شان دار سمندری محل وقوع کی بدولت نیلگوں معیشت سے بہت اچھی طرح مستفید ہوسکتا ہے۔ بحیرۂ عرب میں پاکستان کا خصوصی معاشی زون تقریباً ’’دولاکھ چالیس ہزار، اسکوائر کلومیٹر پر محیط ہے، جس میں اقوامِ متّحدہ کی جانب سے پچاس ہزار کلومیٹر کا مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وسیع وعریض خصوصی معاشی زون کے تین حصّے ہیں۔ پہلا حصّہ سندھ سے متصّل سمندر میں انڈس آف شور کہلاتا ہے، اس سے متصّل ساحل کی لمبائی 270 کلومیٹر ہے۔ دوسرا بلوچستان سے متصّل سمندر میں مکران آف شور کہلاتا ہے، جس سے متصّل ساحل کی لمبائی 720 کلومیٹر ہے۔ تیسرا حصّہ بحیرۂ عرب اور بحیرۂ ہند کا درمیانی علاقہ ہے جسے مرے رِج کا نام دیا گیا ہے۔
مرے رج ایک خصوصی معاشی زون ہے جس میں زیرآب معدنیات، تیل اور گیس کے ذخائر کے علاوہ مچھلیوں، جھینگوں اور دیگر سمندری وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں۔ پاکستان کو اللہ تعالی نے ہر نعت سے نوازا ہے، زمینی وسائل کی طرح مملکت خداداد آبی وسائل سے بھی مالامال ہے۔ پاکستان کا گیارہ سو کلو میٹر ساحل ایران سے انڈیا تک تک پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کا مجموعی بحری زون زمینی رقبے سے تیس فی صد زیادہ ہے، جس میں سے کچھ علاقے نیلگوں معیشت کے حوالے سے بہت زیادہ زرخیز ہیں اور یہ قیمتی آبی حیات اور معدنی وسائل سے بھرپور ہیں۔
پاکستان کی سمندری ماہی گیری کو دو واضح حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، مکران (بلوچستان) کی ساحلی پٹی اور کراچی (سندھ) کی ساحلی پٹی۔ مکران اور کراچی کی بندرگاہیں ماہی گیری کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں سمندری غذاؤں کی فی صد کھپت نسبتاً کم (ایک کلو نو سو گرام) ہے، اس کے باوجود اس شعبے کا قومی معیشت میں اہم کردار ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں ایک بڑا حصہ ماہی گیری کے شعبے کا ہے۔ پاکستان کی حدود میں آنے والا سمندری حصہ نایاب نسل کے جھینگوں، مچھلی، لابسٹر اور اس نوع کی دیگر آبی حیات سے لبریز ہے، لیکن ہم ابھی تک اپنے اس وسائل کو بھرپور طریقے سے استعمال نہیں کر سکے ہیں۔ ماہی گیری سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش ہے۔ تاہم حکومتی سطح پر محفوظ ماہی گیری کے لیے جدید تیکنیکی تربیت اور آلات کے فقدان کی وجہ سے ہم نیلگوں معیشت سے بھرپور طریقے سے مستفید نہیں ہوسکے ہیں۔
٭نیلگوں معیشت اور بین الاقوامی ادارے
نیلگوں معیشت کے لیے ہر بین الاقوامی ادارے نے اپنی تشریح وضع کر رکھی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق ’ذریعہ معاش میں بہتری، ملازمتیں، ایکو سسٹم اور سمندر کو محفوظ بناتے ہوئے معاشی ترقی کے لیے سمندری وسائل کو استعمال کرنا نیلگوں معیشت ہے۔ یورپی کمیشن اس کی توضیح اس طرح کرتا ہے ’براؑعظمی سمندر، ساحل اور سمندر سے متعلق ہونے والی تمام معاشی سرگرمیاں نیلگوں معیشت کے زمرے میں آتی ہیں۔
یہ ایک دوسرے سے مربوط اور ابھرتے ہوئے شعبوں کا احاطہ کرتی ہے۔‘ فطرت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی امریکی غیرسرکاری ماحولیاتی تنظیم نزرویشن انٹرنیشنل کے مطابق ’نیلگوں معیشت میں وہ تمام معاشی فوائد بھی شامل ہیں جنہیں مارکیٹ نہیں کیا جاسکتا ، مثال کے طور پر کاربن کا ذخیرہ، ساحلی تحفظ، ثقافتی اقدار اور حیاتیاتی تنوع۔‘ کامن ویلتھ نیشن ( دولت مشترکہ اقوام) نیلگوں معیشت کو ’ایک ایسا ابھرتا ہوا نظریہ تصور کرتی ہے جو ہمارے سمندروں اور آبی وسائل کی بہتر اسٹیورڈ شپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔‘ امریکی ریاست کیلے فورنیا کے مڈل بیری انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل اسٹڈیز کے زہراہتمام چلنے والے تحقیقی مرکز ’دی سینٹر فار دی بلیو اکانومی‘ کا کہنا ہے کہ ’نیلگوں معیشت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے۔
جس کے تین متعلقہ مگر جدا گانہ معنی ہیں، اول، معیشت میں سمندروں کا مجموعی حصہ، دوم، سمندروں کی ماحولیاتی سسٹینیبلیٹی کی ضروریات، سوم، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک کے لیے سمندری معیشت سے بڑھوتری کے مواقع فراہم کرنا۔‘ ماحول پر انسانوں کے اثرات میں کمی اور جانوروں کے تحفظ کے لیے کوشاں بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیم ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) نے نیلگوں معیشت پر ایک تفصیلی رپورٹ ’پرنسپلز فار ا ے سسٹین ایبل بلیو اکانومی‘ کے عنوان سے شایع کی، جس سے نیلگوں معیشت کی دو اصطلاحوں کا ادراک ہوتا ہے۔ کچھ کے لیے ’نیلگوں معیشت کا مطلب سسٹین ایبل معاشی بڑھوتری کے لیے سمندر اور ان کے وسائل کا استعمال ہے، کچھ لوگ اسے بحری شعبے میں ہونے والی معاشی سرگرمی سمجھتے ہیں چاہے وہ سسٹین ایبل ہو یا نہ ہو۔
The post بلیو اکانومی۔۔۔ سمندر سے جُڑی معیشت appeared first on ایکسپریس اردو.